تقریباً ۸ سال قبل جب باراک اوبامہ پہلے افریقی-امریکی صدر بنے تو یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ چونکہ صدر اوبامہ انتخابات تبدیلی کے وعدہ پر جیتے تھےاس لیے ان سے عوامی توقعات کچھ اس لیےبھی ذیادہ تھیں کیونکہ عوا م پرامید تھے کہ وہ ایک عرصہ سے جاری جنگوں اور دہشت گردی کا قلع قمع کر دیں گے۔ تاہم ان سے وابستہ تمام توقعات پوری نہ ہو سکیں اور وہ رخصت ہونے سے قبل کافی مسائل جوں کےتوں چھوڑ کر چلتے بنے۔
صدر اوبامہ کے دور حکومت کو سیاسی مصلحتوں ، تزویراتی جمود اور آخری کچھ سالوں میں عالمی سطح پر فعال کردار ادا نہ کرسکنے کے حوالے سے یاد رکھا جاسکتا ہے۔ وہ اپنی کامیابیوں میں افغانستان اور عراق میں امن لانا، اعٰلی القاعدہ قیادت کا خاتمہ کرنا، اسامہ بن لادن کو منطقی انجام تک پہنچانا، امریکی سرزمین پر ۹/۱۱ کے بعد مزید دہشت گردوں کے حملوں کو روکنا اور داعش کو نکیل ڈالنے جیسے اقدامات کو گنتے ہیں۔
مگر ۲۰۰۸ میں عہدہ سنبھالنے سے قبل اور ۲۰۱۷ میں اوول آفس چھوڑنے تک اوبامہ کے بیانات اور اقدامات میں واضح تضادات پائے جاتے ہیں۔ انکی ۸ سالہ دورِ صدارت میں طے شدہ پالیسیوں اور عالمی امور سے متعلق رائے میں بھی وقتاً فوقتاً خاصی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عراق جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس وعدے کے باوجود انہوں نے عراق میں ۵۰۰۰ ,افغانستان میں ۳۰،۰۰۰ اور شام میں ۵۰۰ مزید فوجی تعینات کئے- گوانتاناموبے کو بند کرنے سے قاصر رہنا بھی انکی صدارتی نظریہ اورزمینی حقائق میں تضاد کو واضح کرتا ہے۔
مشرقی وسطیٰ، وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ میں صدر اوبامہ کی پالیسیوں نے دہشت گردوں کے نظرائے کو جلا بخشی اور انکی بھرتیوں میں اضافہ ہوا۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ صدر اوبامہ دیگر آپشنز جیسا کہ خصوصی دستوں(سپیشل فورسز) کے خفیہ آپریشنز، ڈرون حملوں اور فوجی ٹیکنالوجی کےاستعمال کو خطروں سے نمٹنے اور امریکی نقصانات کو کنٹرول کرنے کےلئے بروئے کار لاتے رہے ۔ لیکن ڈرون پروگرام اُلٹا گلے پڑ گیا اور اس سے امریکہ مخالف جذبات مزید گہرے ہوئے اور حالات میں بہتری کے بجائے بد امنی اور شورش نے جنم لیا۔
عراق کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں امریکی انخلا سے داعش کو پنپنے کا موقع ملا، نُورالمالکی کےفرقہ وارانہ ایجنڈے کو ترویج ملی ، اور داعش سے نبرد آزما ہونے کےلئے ایرانی حمائت یافتہ شیعہ ملیشیا کو سر اٹھانے کا موقع ملا۔ ِانخلا سے امریکہ کو خفیہ معلومات، پالیسی کنٹرول اور داعش سے نمٹنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ صدر اوبامہ نے اس مسئلے کا حل نکالنےکےلئے نہ صرف عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کو سپورٹ کیا بلکہ مزید فوجی اور ٹرینرز کو عراقی فوج کی تربیت کےلئے وہاں بھیجا۔ تاہم تب بہت دیر ہو چکی تھی ۔ اگرچہ داعش اپنے زیر تسلط اکثر علاقوں کا کنٹرول کھو چکی ہے مگر اس سے لڑنے کےلئے شیعہ ملیشیا پر بھروسہ مستقبل میں فرقہ وارانہ مسائل کو جنم دے گا۔
شام کی صورتحال عراق سے بھی بدتر ہے۔ صدر اوبامہ کا شام کےمسئلے پر ہاتھ کھڑے کر لینا اور بشارالاسد کےخلاف حزبِ اختلاف کو سپورٹ نہ کر نا سٹریٹیجک غلطی ثابت ہوئی۔ شام لوکل، علاقائی اور عالمی کرداروں کے بیچ ایک بھیانک مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے- مہاجرین کا مسئلہ، خانہ جنگی اور جہادی تنظیموں کے پھیلتے نیٹ ورک نےاس خطے کو علاقائی و عالمی بد امنی کا مرکز بنا ڈالا ہے۔ اوبامہ خالصتاً اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہیں اورانکی طرف سے درست مواقع پر مناسب اقدامات کیے جانے سے حالات کی سنگینی بہر حال قابو کی جا سکتی تھی۔
امریکہ نے ۲۰۰۱ کےبعد تیسری مرتبہ کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرتے ہوئے لیبیا میں حکومت کا تختہ الٹا-اس مداخلت کا بنیادی مقصد توبن غازی میں شہریوں کی حفاظت تھی جو بعد میں معمر قذافی کو اقتدار سے الگ کرنے تک جا پہنچی۔ قذافی کی اقتدار سے بےدخلی کےبعد امن و امان کنٹرول میں رکھنے کی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی چنانچہ اس غیر یقینی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متحارب گروہ میدان میں آ گئے اور داعش کو بھی ملک کے کچھ حصوں کو جہادی گڑھ میں تبدیل کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ اوبامہ نے تکنیکی اعتبار سے تو لیبیا میں جنگ جیتی اور کچھ امریکی مفادات کا تحفظ کر لیا تاہم ملک کو مسلسل بد امنی اور شورش کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
افغانستان میں اوبامہ کی پالیسی امید اور مایوسی کے بیچ گھومتی رہی لیکن اسکا نتیجہ غیر یقینی صورتحال اور بد امنی کی صورت میں ہی سامنے آیا۔ ان کا جنگ ختم کرنے کا وعدہ، وعدہ ہی رہا جبکہ حقیقتاً ملک میں مزید فوج بھیجی گئی۔ فوج بھیجنے کا مقصد طالبان کے ابھرتے ہوئے اثرو رسوخ کو کنٹرول کرنا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کےلئے مزید وقت کا حصول تھا تاہم ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ مئی ۲۰۱۴ میں اوبامہ نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا مگر محض سترہ ماہ بعد یہ اعلان بھی واپس لےلیا گیا۔ صدر اوبامہ نےاُن طالبان کو امن میں موئثر سٹیک ہولڈر شمار کرتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی جنہوں نے اسامہ بن لادن کو اپنی سر زمین پر پناہ دیے رکھی۔ یہ سب تدبیریں بھی یکسر ناکام ثابت ہوئیں اور افغانستان میں امن اب بھی نا پید ہے۔
صدر اوبامہ نے اپنے بعد ملی جلی میراث چھوڑی ہے۔ انکی انتہائی محتاط تزویراتی پالیسیوں سے عراق اور افغانستان میں جُزوقتی استحکام آیا تاہم حقیقی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اوبامہ کا تصور اخلاقیت اور انکے وعدے حقیقی تکمیل تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ انکا ٹیکنالوجی پر بھروسہ اور فوجوں کو میدان میں اتارنے میں ہچکچاہٹ نے جنگی پلاننگ اور عمل درآمد میں ایک نئی جہت متعارف کرائی ہے۔ القاعدہ اور داعش کو کمزور کرنے اور اسامہ بن لادن کو منطقی انجام تک پہنچانا یقیناً بڑی کامیابیاں ہیں تاہم اوبامہ کو ایک “جنگجو” صدر کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭
Click here to read this article in English
Image 1: Flickr, The U.S. Army (cropped)
Image 2: Flickr, U.S. Department of Defense