نوٹ: یہ تحقیق کابل کی رہائشی خواتین اور پشاور، پاکستان میں موجود افغان خواتین پناہ گزینوں سے بذریعہ ٹیلی فون کیے گئے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں اکتوبر ۲۰۲۳ کے زلزلے میں ہلاک یا زخمی ہونے والے ۹۰ فیصد افراد خواتین تھیں، کیونکہ اس قدرتی آفت کے دوران زیادہ خواتین اپنے گھروں کے اندر بند جگہوں پر تھیں۔ افغان خواتین جو پہلے سے ہی افغان سیاسی منظرنامے سے خارج ہیں، ایسے واقعات ان کے مصائب میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ اگرچہ اگست ۲۰۲۱ میں طالبان نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ اسلامی قوانین کے دائرۂ عمل کے اندر خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے، لیکن انہوں نے اپنے عہد کی پیروی نہیں کی۔ نتیجتاً افغان خواتین کو عصرحاضر کی بدترین صنفی تفریق کا سامنا ہے۔
افغان خواتین کو تعلیم اور کام کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے خاندانوں کی معاونت کے لیے رقم نہیں کما سکتیں جو افغانستان کے انسانی بحران میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ مبینہ طور پر متعدد کم سن بچیوں کو ان کے خاندانوں کو اشیائے خور و نوش کے لیے رقم کی فراہمی کے عوض بچپن میں شادیوں پر مجبور کیا گیا۔ انہیں مرد اہل خانہ میں سے کسی کے بغیر گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ اگست ۲۰۲۱ میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے عوامی حلقوں میں خواتین کی موجودگی و شرکت شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔ اس پوشیدگی سے نمٹنے کے لیے، یہ تحقیق طالبان کی حکمرانی کے ان کی زندگیوں پر رونما ہونے والے اثرات اور عالمی برادری سے ان کی توقعات کو دستاویزی روپ دیتی ہے۔
تعلیم اور ملازمت پر پابندی
اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی طالبان کے اولین اقدامات میں سے ایک تھا، جس نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ کابل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اس مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے افغان نقطۂ نگاہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ گروہ لڑکیوں کے اسکول اور یونیورسٹیز جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے افغانستان میں تاریکی اور جہالت کو ایک بار پھر واپس لے آیا ہے۔ اس گروہ کی حکمرانی کا سلسلہ جاری رہنے کے ساتھ، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران لڑکیوں اور خواتین کی تعلیمی کامیابیوں کا سلسلہ یکسر طور پر واپس پرانی حالت میں چلا جائے گا اور افغان خواتین کا مستقبل مکمل طور پر سیاہ ہو جائے گا۔ [1]
تعلیم پر پابندی خواتین معلمین کے لیے معاشی مشکلات کا بھی باعث بنی، اور انہیں معدوم شدہ امکانات کے حامل مستقبل کی جانب دھکیل دیا۔ ۲۰۱۹ میں افغانستان میں باروزگار خواتین کا تقریباً ۴۰ فیصد اساتذہ تھیں۔ اب لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے ساتھ، ان کی صورتحال کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک جواب دہندہ نے بیان کیا کہ متعدد سابق خواتین اساتذہ اب اپنے اہل خانہ کی گزربسر کے لیے سڑکوں پر بھیک مانگ رہی ہیں۔ [2]
تعلیم کے علاوہ بھی خواتین کے کام کرنے کے حق کو تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی میں آزمائشیں درپیش ہیں – حتیٰ کہ وہ شعبے بھی جو خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ مثال کے طور پر جنوری ۲۰۲۳ میں افغانستان میں بیوٹی سیلونز پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اندازے کے مطابق تقریباً ۶۰ ہزار خواتین بیوٹی سیلونز میں ملازم رہی ہیں۔ طالبان کی جانب سے کام اور نقل و حرکت پر پابندیوں کے بعد اب وہ خواتین اپنے اہل خانہ کے لیے سہارا فراہم کرنے کے قابل نہیں تھیں۔ ایک جواب دہندہ نے اس کی تصدیق کی؛
بہت سی خواتین اپنے خاندان کی کل یا بنیادی کفیل تھیں، لیکین زیادہ تر نے خواتین کی کام کرنے پر پابندیوں کے سبب اپنی ملازمتیں کھو دیں۔ صرف وہی خواتین اب بھی کام کرنے کے قابل ہیں جو پرائمری تعلیم یا نگہداشتِ صحت کے شعبے میں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کو مالی بحران کی وجہ سے ادائیگی نہیں کی گئی۔ [3]
طالبان نے خواتین کے لیے سماجی زندگی کو بھی محدود کر ڈالا ہے، اور انہیں اپنے اہل خانہ میں سے کسی مرد کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں اور اگر وہ باہر جانے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو انہیں لباس کی کڑی پابندیوں پر عمل کرنا ہو گا۔ دسمبر ۲۰۲۱ میں، حکومت کی نیکی و بدی کی وزارت نے ۴۵ میل کی مسافت سے زائد کا سفر کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کی کہ وہ کسی قریبی مرد رشتے دار کے ہمراہ سفر کریں۔
افغان خواتین کی جانب سے عالمی برداری کے لیے تجاویز
اس صورتحال میں افغان خواتین کے لیے آخری امید عالمی برادری ہے۔ انہیں ذہن نشین رکھتے ہوئے، افغان خواتین جواب دہندگان نے چھ سفارشات تجویز کی ہیں۔
مسلسل سفارتی دباؤ
خواتین کے حقوق کے احترام اور انہیں برقرار رکھنے کے لیے طالبان پر سفارتی دباؤ کو برقرار رکھنا اہم ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی جانب سے باہم مربوط کوششیں کی جا سکتی ہیں تاکہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے معاملے پر متحدہ موقف اختیار کیا جا سکے۔ عالمی برادری کو بالخصوص ان افغان خواتین ایکٹویسٹس کے تحظ کو یقینی بنانا چاہیئے جو آج بھی افغانستان میں موجود ہیں، اور ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ [4] اس سلسلے میں، بیرون ملک موجود افغان خواتین کا کردار اہمیت کا حامل ہے تاکہ عالمی برادری کو صورتحال پر باخبر رکھا جائے۔ ان کی اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز میں شرکت طالبان پر دباؤ ڈالنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
صنفی بنیادوں پر مخصوص کردہ انسانی امداد
افغانستان میں انسانی بحران کے خواتین کے لیے سنگین نتائج کو دیکھتے ہوئے، صنفی بنیادوں پر مخصوص انسانی امداد انتہائی اہم ہے۔[5] عملی کارروائیوں کے لیے پرآزمائش ماحول کے باوجود، بین الاقوامی این جی اوز اور یو این ایجنسیز کو چاہیئے کہ وہ باہمی تعاون کریں تاکہ افغان خواتین تک اشد ضروری امداد براہ راست پہنچائی جا سکے۔ اس میں غذائی امداد، نگہداشت صحت کی خدمات، ذہنی صحت کی معاونت اور گزربسر میں معاونت شامل ہو سکتی ہے۔[6] خدمت خلق کی ایسی تنظیمیں جو افغانستان میں پہلے سے ہی مصروف عمل ہیں، عالمی برادری کی جانب سے انہیں بلاتعطل مالی معاونت کی فراہمی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکیں۔[7]
معاشی پابندیاں اور ترغیبات
اجتماعی پابندیوں کے سبب نادانستہ نقصان سے گریز کرتے ہوئے، عالمی برادی کو طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے معاشی پابندی کے ہتھیاروں کو استعمال کرنا چاہیئے تاکہ طالبان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے معاشی اداروں کو حکمت عملی کے تحت معاشی اقدام ترتیب دینے چاہیئیں جو افغان آبادی کو نقصان پہنچائے بغیر طالبان حکومت اور ان کے حامیوں کو نشانہ بناتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ساتھ معاشی ترغیبات کی پیشکش ہونی چاہیئے تاکہ مثبت تبدیلیوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ اس ضمن میں امداد کی بحالی یا ترقیاتی قرضے شامل ہو سکتے ہیں جو طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق اور آزادیوں میں بہتری لانے کی جانب قابل تصدیق اقدامات اٹھانے کی صورت میں فراہم کیے جائیں۔ ایک اہم قدم معاشی معاونت کو اسکولوں کو دوبارہ کھولنے یا لڑکیوں کو بیرون ملک تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دینے کے ساتھ منسلک کرنا ہے۔[8]
افغان خواتین کی آوازوں کو تقویت دینا
عالمی برادری کو یقینی بنانا چاہیئے کہ افغان خواتین کی داستانیں، ضروریات اور تمنائیں عالمی پلیٹ فارمز پر سنی جاتی ہیں۔ اس کے لیے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ شراکت داری کی جا سکتی ہے تاکہ ان کی کہانیوں پر روشنی ڈالی جا سکے اور ان کی آوازوں کو تقویت دینے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فیصلہ سازی کا وہ عمل جو افغان خواتین کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے، اس میں ان کی شمولیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی مذاکرات یا بات چیت میں افغان خواتین کی نمائندگی پر اصرار کر سکتا ہے۔[9] ایک جواب دہندہ نے بیان کیا کہ؛
ایک افغان پناہ گزین ہونے کے ناطے، میں افغان خواتین کی صورتحال کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی معاونت کرنے اور ایسے پلیٹ فارمز جو تبدیلی کے لیے اثر پیدا کر سکتے ہوں، وہاں پر ان کی آواز بلند کرنے کے ذریعے صنفی تقسیم کے خلاف افغان خواتین کی جدوجہد میں ان کی مدد کر سکتی ہوں۔[10]
تعلیم اور مہارتوں کی نشوونما کے ذریعے صلاحیتوں میں اضافہ
عالمی برادری کو تعلیم اور مہارتوں کی نشوونما کے ذریعے خواتین کو دیرپا مدت کے لیے بااختیار بنانے پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔ بالخصوص بیرون ملک مقیم افغان خواتین افغان لڑکیوں کی آن لائن تعلیم کو فروغ دینے اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے خواتین کارکنوں کو آن لائن کاروبار شروع کرنے کے مواقع تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔[11] مہارتوں کی نمو کے ایسے پروگرامز کو فروغ دینا ضروری ہے جو ایسی مہارتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوں جنہیں فاصلاتی طریقے سے سکھایا اور استعمال کیا جا سکتا ہو جیسا کہ ڈیجیٹل لٹریسی، لسانی مہارت یا آرٹس اینڈ کرافٹس پر عبور کے کورسز۔ [12]
افغان مالی اثاثوں کا مشروط اجراء
آخری حکمت عملی امریکی مالیاتی اداروں میں منجمد افغانستان کے اثاثوں کے مشروط اجراء کو تجویز کرتی ہے۔ یہ خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات پر طالبان کی جانب سے قابل پیمائش پیش رفت سے نتھی ہے۔ اقوام متحدہ اور این جی اوز جیسے غیرجانبدار نگرانوں کو ملوث کرنا اس عمل کی کڑی توثیق کو یقینی بنائے گا۔ اثاثوں کا اجراء نہ صرف طالبان کو مجبور کر دینے والی ترغیب کے طور پر کام کرتا ہے، بلکہ بین الاقوامی وابستگان کو افغانستان میں صنفی مساوات کے ضمن میں مطالبہ، مشاہدہ اور مثبت تبدیلیوں کے لیے اثرانداز ہونے کے قابل ایک عملی لائحہ عمل بھی فراہم کرتا ہے۔
حاصل کلام
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے طالبان سے روابط قائم کرنا ایک کثیرالجہتی نقطۂ نگاہ کا متقاضی ہے جس کے لیے علاقائی تعاون اور ایک جامع حکومت تسلیم کرنے کے لائق ایک قابل بھروسہ لائحۂ عمل درکار ہے۔ طالبان کو موثر طور پر شامل کرنے کی کلید انہیں ایسی ترغیبات کی پیشکش کرنے میں پنہاں ہے کہ جو ان کے سفارتی مقاصد کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں۔ پابندیوں سے چھٹکارہ اور سرکاری سطح پر خود کو تسلیم کروانا، بالخصوص امریکہ کی جانب سے تسلیم کروایا جانا ان کے بنیادی اہداف ہیں۔ اگر عالمی برادری خواتین کے حقوق کو برقرار رکھنے کی واضح ہدایات کے ساتھ ان کے ہمراہ منظم طور پر روابط قائم کرتی ہے۔ تو ایسے میں امید کی جا سکتی ہے کہ خواتین تاریکیوں سے باہر آ سکتی ہیں اور افغان سیاسی منظرنامے پر ان کی رویت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
لاتعلقی: اس تحقیق میں حصہ لینے والی خواتین کی شناخت و تحفظ کے لیے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔
[1] زلاندا کے ہمراہ انٹرویو، کابل کی ایک رہائشی، 11 ستمبر، 2023
[2] نادرہ کے ہمراہ انٹرویو جو پاکستان میں بطور پناہ گزین مقیم اور ایک سابق سیکنڈری اسکول ٹیچر ہیں، 13 ستمبر 2023
[3] مومنہ کے ہمراہ انٹرویو، کابل کی ایک رہائشی، 13 ستمبر، 2023
[4] فاروحہ کے ہمراہ انٹرویو، کابل کی ایک رہائشی، 15 ستمبر، 2023
[5] فردوس کے ہمراہ انٹرویو، پاکستان میں افغان پناہ گزین اور ایم فل کی طالبہ، 18 ستمبر، 2023
[6]نافظہ کے ہمراہ انٹرویو، پاکستان میں افغان پناہ گزین، 20 ستمبر، 2023
[7] فردوس کے ہمراہ انٹرویو
[8] افروزہ کے ہمراہ انٹرویو، امریکن یونیورسٹی کابل کی سابق طالبہ، 18 ستمبر، 2023۔ عمومی طور یہ تقریباً تمام جواب دہندگان کا ردعمل تھا۔
[9] تمام جواب دہندگان نے افغان خواتین کو سوشل میڈیا، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا پلیٹ فارمز کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا۔
[10] نادرہ کے ہمراہ انٹرویو۔
[12] تمام جواب دہندگان نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ معاشی ترقی کے ایسے پائیدار ماڈل کے لیے ردعمل دے جس کا مقصد صنفی بنیادوں پر بااختیار بنانا ہو۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Afghan Women Queue at World Food Programme Distribution Point via Flickr
Image 2: Afghan Women Literacy Class via Flickr