مدیر کا نوٹ: یہ پارچہ بنیادی طور پر دی ڈپلومیٹ میں شائع ہوا تھا اور اسے مدیران کی اجازت کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ مہینے کے اواخر میں، امریکہ کے محکمۂ انصاف نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کو قتل کی منصوبہ بندی کرنے پر بھارتی باشندے کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا اعلان کیا۔ الزامات میں یہ تذکرہ بھی کیا گیا کہ ایک بھارتی سرکار عہدیدار نے “امریکی سرزمین پر ایک وکیل اور سیاسی رہنما کو قتل کرنے کے منصوبے کی ہدایات دیں جو کہ ایک امریکی باشندہ بھی ہے۔”
امریکہ کے محکمۂ انصاف کے الزامات، کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے اس سال قبل ازیں کیے گئے دعووں کو صحیح ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت ایک اور علیحدگی پسند رہنما جو کہ ایک کینیڈین باشندے تھے، ان کے قتل میں ملوث تھی۔ ان الزامات کے نتیجے میں، نئی دہلی نے برہمی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کینیڈین سفراء کو ملک بدر کر دیا تھا اور کینیڈین باشندوں کے لیے ویزہ سروسز معطل کر دی تھیں۔ جو بھی ہو، زیادہ تر مبصرین کا یہ ماننا تھا کہ یہ تناؤ برقرار رہیں گے اور امریکہ کے بھارت کے ہمراہ تعلقات کو متاثر نہیں کریں گے۔
ان تازہ ترین انکشافات کی روشنی میں، واشنگٹن میں ایک تازہ بحث چھڑ چکی ہے کہ کیا امریکہ بھارت تعلقات درحقیقت سکھ علیحدگی پسندی کے آسیب سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ ابھی تک اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہاں یہ ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن نئی دہلی اور واشنگٹن دونوں کو تصادم کے سفر پر گامزن ہونے کے حوالے سے چوکنا رہنا چاہیئے۔ یہ الزامات خواہ درست ہوں یا نہیں، اس امر میں واضح تفریق بہرحال موجود ہے کہ بھارت بیرون ملک مقیم آبادی میں سکھ علیحدگی پسندی کے مسئلے کو کیسے دیکھتا ہے اور مغربی حکومتیں اسے کیسے سمجھتی ہیں۔
بہت سے بھارتی دنگ ہیں کہ مغرب ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے تعاون نہیں کرے گا، جنہوں نے امریکہ کے محکمۂ انصاف کے اپنے الفاظ میں – “پنجاب کے کچھ یا تمام حصے کو بھارت سے علیحدہ کرنے اور سکھوں کی ایک آزاد ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔” نئی دہلی اس قسم کی فعال پذیری کو بھارت کی علاقائی سالمیت کے لیے ایک کھلا اور فعال چیلنج سمجھتا ہے۔ بہت سے بھارتی باشندوں کے نزدیک، مغرب کی جانب سے ایسے باشندوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنا دھوکہ دکھائی دیتا اور محسوس ہوتا ہے۔
تاہم مغربی معقولیت کی روشنی میں، سکھ علیحدگی پسند تبت یا اوغیور کے علیحدگی پسندوں سے مختلف نہیں۔ اگر سکھ علیحدگی پسند رہنما پرتشدد واقعات میں ملوث رہے ہیں، تو انہیں ثبوتوں کے ساتھ قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔ مغرب میں رہنماؤں اور وکلاء کے مطابق محض اختلافِ رائے کا اظہار اور علیحدگی پسندی کی حمایت کرنا قانونی کارروائی کے لیے کافی نہیں۔
اس ضمن میں، سکھ علیحدگی پسندوں کے معاملے میں بھارت اور مغرب کے درمیان پایا جانے والا واضح فرق اس حقیقت کا براہ راست نتیجہ ہے کہ بھارت اور مغرب کے درمیان مشترکہ اقتدار میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔
ماضی کی دہائیوں میں، آئینی قانون اور جمہوریت پر بھارت کے مضبوط عقیدے کے سبب، سمندر پار کسی فرد کے ماورائے عدالت قتل کے محض الزام کو بھی ایک ناقابل قبول مکروہ قرار دیا گیا ہوتا۔ ۲۰۰۸ کے ممبئی حملوں کے بعد، بھارت نے گرفتار ہونے والے واحد دہشت گرد کو پورے چار سال بعد سزائے موت دینے سے قبل اس کے خلاف قانون کے مطابق اور حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے مقدمہ چلایا۔ مغرب میں موجود مشاہدہ کاروں نے بھی اس کارروائی کو سراہا اور بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے ضبط کا مظاہرہ کرنے پر ان کی تعریف کی۔
لیکن شدید نوعیت کی ہندو قوم پرستی کے عروج نے مروجہ طریقہ کار اور قانون کی عملداری کے حوالے سے بے صبری کو جنم دیا ہے، جو ماورائے عدالت تشدد اور ہجوم کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی روایت قائم کرنے کا باعث بنا ہے۔ بھارت کی جانب سے زیادہ تر تازہ ترین متفرق واقعات بشمول گائے ذبح کرنا، منظم جرم، اور علیحدگی پسندی کے واقعات میں ماورائے عدالت تشدد کی روایت دیکھنے کو ملی ہے۔ ۲۰۱۶ سے ۲۰۲۲ کے درمیان ۸۰۰ سے زائد افراد بھارت بھر میں ماورائے عدالت قتل میں مارے گئے۔ خاص کار ریاست اترپردیش میں ہجوم کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی روایت میں ۲۰۱۷ کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔
قبول کہ سکھ علیحدگی پسندی بھارت کے لیے دہائیوں سے سلامتی کا ایک فعال مسئلہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ ایک جیتا جاگتا سیاسی مسئلہ ہے اور بہت سے لوگ جو وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، مودی کو اس کے خلاف بزور طاقت کردار ادا کرتے دیکھنا چاہیں گے۔
کسانوں کی جانب سے ۲۰۲۰ -۲۱ میں ہونے والے بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران، مودی کی حکومت نے سکھ کسانوں کے گروہوں پر الزام علیحدگی پسندوں کی حمایت حاصل ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ ایک موقع پر بی جے پی کے ایک وزیر کے بیٹے پر قتل کا الزام عائد ہوا تھا جب اترپردیش میں احتجاج کرنے والے کسانوں کے ہجوم پر ایک گاڑی چڑھ گئی تھی۔ اس فرد کے قریبی شخص نے بعد ازاں احتجاج کرنے والے کسانوں کو “پنجاب کے خالصتانی (سکھ علیحدگی پسند)” قرار دیا تھا۔
ہو سکتا ہے کہ یہ غصہ اور اختلاف رائے امریکہ تک پھیلا ہو جہاں تقریباً ۵۰۰،۰۰۰ سے زائد سکھ رہتے ہیں – ان میں سے بہت سے امریکی شہری کے طور پر رہائش پذیر ہیں۔ کینیڈا میں ہندو اور سکھ کمیونٹیز کے درمیان تناؤ پہلے ہی خطرناک سطحوں تک پہنچ چکا ہے۔
یہ صورتحال ہمیں امریکہ بھارت تعلقات میں مشترکہ روایات کے سوال پر واپس لے آتی ہے۔ اس برس جون میں، امریکی انسٹیوٹ برائے پیس سے تعلق رکھنے والے ڈینیل مارکی نے صاف صاف کہا تھا کہ بھارت اور امریکہ کے مابین اقدار کے اشتراک کا تصور “وقت کے ساتھ ساتھ خام خیالی” محسوس ہونے لگا ہے۔ اس کے باوجود مارکی نے دلیل دی تھی کہ دونوں ممالک مشترکہ مفادات رکھتے ہیں، اور امریکہ کو “بھارت کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرنا چاہیئے جیسا کہ وہ اردن، ویتنام اور کسی بھی دوسرے تنگ نظر شراکت دار کے ساتھ کرتا ہے۔
بلاشبہ یہ وہ رائے ہے کہ جو واشنگٹن میں بہت سے تجزیہ کار تیزی کے ساتھ اختیار کر رہے ہیں کہ امریکہ کو بھارت کے ہمراہ ایک کاروباری، سلامتی پر توجہ مرکوز رکھنے والی شراکت داری رکھنی چاہیئے جس کا مشترکہ اقدار سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔
تاہم، واشنگٹن کے بہت سے تنگ نظر اتحادیوں کے برعکس – جو کہ عموماً امریکہ کو تیل کے علاوہ کچھ خاص برآمدات نہیں کرتے ہیں – بھارت کی کہیں زیادہ جدید خدمات کی حامل معیشت ایسی چیزیں برآمد کرتی ہے جو زیادہ نمایاں طور پر مشترکہ اقدار پر بھروسہ کرتی ہیں: یہ لوگ اور تصورات ہیں۔ اگر بھارت میں نسلی تناؤ اور عدم اعتماد کی فضا بدتر ہو جاتی ہے، تو ایسے میں یہ امر ناگزیر ہے کہ اس کا کچھ حصہ امریکہ میں موجود بھارتی کمیونٹی تک پہنچے گا۔
اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بھارتی امریکی کمیونٹی کس قدر نتیجہ خیز ہے – نہ صرف امریکی معیشت کے لیے، بلکہ خود امریکہ میں بھارت کے اپنے اثرورسوخ کے اعتبار سے بھی، ایسے میں بھارتی تارکین وطن حلقوں میں نسلی تناؤ کا معمولی سا بھی رساؤ دونوں ملکوں کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔ نئی دہلی میں بہت سے افراد مشترکہ اقدار پر گفتگو کو امریکی دھونس اور نظریاتی نقطۂ نگاہ کی ایک خصوصیت کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن درحققیت ان مشترکہ اقدار کو برقرار رکھنا خود بھارت کے مفاد میں اتنا ہی ہے جتنا یہ امریکہ کے مفاد میں ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Indian Foreign Minister S. Jaishankar via Flickr.
Image 2: Flags for the U.S. and India on a desk with official documentation via Flickr.