
دسمبر 2024 کے اوائل میں نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے چین کا سرکاری دورہ کیا (جو) چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا پہلا دو طرفہ بیرونِ ملک دورہ (تھا)۔ بنیادی طور پر دو وجوہات کی بنا پراولی کے دورۂ بیجنگ پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سیاسی اور تزویراتی تجزیہ کاروں نے گہری نظر رکھی۔ اول، اولی نے نیپالی وزرائے اعظم کی پہلے نئی دہلی کا دورہ کرنے کی دیرینہ روایت کو توڑا اور دوم یہ کہ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو آگے بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ ایک اہم تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے۔
اولی نے چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ بیجنگ اور کھٹمنڈو کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی (سمیت) متعددشعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون کے تناظر میں کیا ہے۔ اگرچہ بھارت تاریخی طور پرنیپال کا قریب ترین ترقیاتی شراکت دار رہا ہے ، لیکن حالیہ برسوں میں ملک میں چین کے رُسوخ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔جنوبی ایشیا میں اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث نیپال بھارت، چین اور کسی حد تک امریکہ کے درمیان ُرسوخ کا میدانِ کارزاربنا ہوا ہے اور ان سب سے فائدہ پانے کے موقف پر ہے۔ان حالات میں نیپال کی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو خارجہ پالیسی کو ایک ایسےواضح اور عملیتی نقطہ نظر کے تحت دیکھنا چاہیئے جس کا مقصد نیپال کی اپنی معاشی اور سماجی ترقی کے لئے اس بڑھتی ہوئی جغرافیائی وسیاسی مسابقت کو استعمال کرنا ہو۔
بی آر آئی کے ذریعے تعاون
اولی کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے بی آر آئی پر ایک مبالغہ پرداز شہرت یافتہ بنیادی نظام(فریم ورک) کے معاہدے پر دستخط کیے، جسے دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دوطرفہ تعاون میں ایک سنگ میل قرار دیا ۔ اگرچہ نیپال نے 2017 میں باضابطہ طور پر بی آر آئی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم اس نئے معاہدے میں اس اقدام کے تحت مکمل کیے جانے والے 10 منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور مالی امداد کی مشروطیت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔دی گلوبل ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں نیپال میں چین کے سفیر چن سونگ نے کہا کہ معاہدے کا مقصد چین کی پالیسی اور مالی مدد کے ذریعےنیپال کی سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے جس سے نیپال کی تجارت اور سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری آئے گی۔اسی طرح چین میں نیپال کے سفیر کرشنا پرساد اولی نے کہا کہ بی آر آئی فریم ورک معاہدہ “نیپال اور چین کے عملی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کرتا ہے” اور بی آر آئی کے تحت منصوبوں سے نیپال کو خود کو زمین سے گِھرے ملک (لینڈ لاکڈ) سے “زمین سے منسلک” (لینڈ لینکڈ)ملک میں تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔
اولی نے چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ بیجنگ اور کھٹمنڈو کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی (سمیت) متعددشعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون کے تناظر میں کیا ہے۔ اگرچہ بھارت تاریخی طور پرنیپال کا قریب ترین ترقیاتی شراکت دار رہا ہے ، لیکن حالیہ برسوں میں ملک میں چین کے رُسوخ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
تاہم چین اور نیپال کے درمیان اس دوطرفہ اتفاقِ رائے کے باوجود بی آر آئی قرضے اور نتیجہ خیزی کے معاملے پر نیپال کی قومی سیاست کو تقسیم کیے جا رہا ہے۔معاہدے پر دستخط کے بعد حکمراں نیپالی کانگریس پارٹی (این سی) کے کئی رہنماؤں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور دلیل دی کہ یہ معاہدہ بی آر آئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کِسی قرض کو قبول نہ کرنے کی پارٹی پالیسی کے خلاف ہے۔دوسری جانب ملک کی کمیونسٹ جماعتوں نے بی آر آئی فریم ورک معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے دلیل دی کہ اس سے نیپال کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
سیاسی رابطہ کاری
یہ حجّت دی جا سکتی ہے کہ بی آر آئی پر تناؤ کی بنیاد نیپال کی سیاسی جماعتوں کے درمیان نیپالی خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر اور خصوصاً چین کے بارے میں ان کے رویوں پر نظریاتی اختلافات ہیں۔ نیپال میں طویل عرصے سے برسرِاقتدار بادشاہت کا خاتمہ ہونے (یعنی)2008 سے قبل بیجنگ نے بادشاہت کو اپنے سیکیورٹی (سلامتی سے متعلقہ) خدشات کو دور کرنے میں ایک قابل اعتماد ادارہ جاتی شراکت دار کے طور پر دیکھا۔بادشاہت کے خاتمے کے بعد نیپال کی سیاسی جماعتوں نے بیجنگ سے متعلقہ امور پر متضاد موقف اختیار کیا۔ مثلاً ستمبر 2020 میں جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ چین نے نیپال کے ادِّعائی علاقے میں انفرا اسٹرکچر ( بنیادی ڈھانچہ) تعمیر کیا ہے تو اس وقت کی کمیونسٹ قیادت والی نیپالی حکومت نے فوری طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے۔ تاہم اگلے سال نیپالی کانگریس کے رہنما شیر بہادر دیوبا کے زیرِ قیادت ایک نئی حکومت نے اس تنازعہ پر سخت موقف اختیار کیا۔ نیپال کی مختلف سیاسی جماعتوں کےنیپال میں تبتی برادری کی سرگرمیوں اور بی آر آئی پر ان کے موقف سے نبٹنے (کے انداز) سے بھی یہ جانبدارانہ اختلافات ظاہر ہوتے ہیں۔
بظاہر ان نظریاتی مواقف کے ردِّعمل میں چین نے ملک میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ملک کی متعدد کمیونسٹ جماعتوں کو ایک طاقتور اتحاد بنانے اور جمع کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ اس سعی میں (دونوں) ممالک کی کمیونسٹ جماعتوں کے درمیان متعدد معاملات اور دورے شامل ہیں تاکہ جماعتی حکومت (پارٹی گورننس) اور ریاستی انتظامیہ (اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن) جیسے اُمور پر تجربات (سے متعلقہ معلومات) کا تبادلہ کیا جاسکے۔ایسا ظاہر ہوتاہے کہ اس طرح کے تبادلوں نے نیپال کی کمیونسٹ جماعتوں کو چین کے ساتھ قریبی وابستگی کو فروغ دینے کی ترغیب دی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سیاسی روابط صرف جماعتی سطح کی گفت و شنید تک محدود نہیں رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان تعاون کے اقدامات بھی اُٹھائے گئےہیں جن میں دوطرفہ تبادلوں کو مضبوط بنانے کے لیے پارلیمانی فرینڈشپ گروپ کا ذریعہ بھی شامل ہے۔
ثقافت اور تعلیم
گزشتہ چند برسوں کے دوران چین نے نیپال کے ساتھ متعدد شعبوں میں ثقافتی تعلقات کو بھی فروغ دیا ہے۔ بالخصوص چین نیپال میں اپنے رُسوخ کی توسیع میں زبان کو ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور اس لئے وہ ملک (نیپال) میں چینی زبان کے کورسز تک رسائی فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ اولی کے حالیہ دورہ چین کے دوران دونوں ممالک نے نیپال کے پبلک اسکول سسٹم میں مینڈارن (سرکاری چینی زبان) کےرضاکار اساتذہ کو شامل کرنے کے لئے مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے تھے۔ نیپال میں چینی سفارت خانے کے مطابق، نیپال میں 900 سے زیادہ مینڈارن اساتذہ ہیں جو پہلے ہی ملک کے مختلف حصوں میں اس زبان کو پڑھا رہے ہیں۔مزید برآں چین مختلف وسائل کے ذریعے نیپال میں اپنی فلموں، فنون لطیفہ اور ثقافت کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ مثلاً اس سال 9 جنوری کو نیپال نے نیپالی اور چینی فلمی صنعتوں کے مابین ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے کے لئے اپنا پہلا چائنا فلم ڈے منایا۔ چین نے چند سالوں سے کھٹمنڈو میں جنوبی ایشیا بین الاقوامی کتاب میلے کے انعقاد میں بھی مدد کی ہے۔

حالیہ برسوں میں تعلیم کے شعبے میں رابطہ کاری نےبھی نیاعروج پایاہے۔ چین کی کئی یونیورسٹیوں نے نیپال کی اہم یونیورسٹیوں جیسے تری بھون یونیورسٹی، سنسکرت یونیورسٹی اور لمبینی بودھسٹ یونیورسٹی کے ساتھ مفاہمت ناموں (ایم او یوز) پر دستخط کیے ہیں۔ اسی طرح چین نے نیپالی طلبا کے لئے سرکاری وظائف (اسکالرشپس) میں بھی اضافہ کیا ہے۔ بیجنگ نے حال ہی میں نیپال میں ابتدائی(پرائمری) اور ثانوی (سیکنڈری) جماعتوں کے طلبا کو چائنیز ایمبسیڈر اسکالرشپ سے نوازا ہے۔ اکتوبر 2024 میں نیپال میں چینی سفارت خانے نے رہبری کی لیاقت (لیڈر شپ ڈیویلوپمنٹ) میں اضافے، سماجی ترقی اور برادری (کمیونٹی)سے متعلقہ منصوبوں کو فروغ دینے کے لئے، یو.ایس. ایمبسی یوتھ کونسل نیپال سے ملتے جُلتے یوتھ پائینیئر پروگرام کا آغاز کیا۔اس پروگرام کے تحت نوجوان رہنماؤں کا ایک گروپ پہلے ہی چین کا دورہ کر چکا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نیپال کےنوجوان رہنماؤں کے ساتھ روابط استوار کرنے کی چین کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں، جو نیپال اور چین کے تعلقات میں ایک نیا رجحان ہے۔
زراعت
نیپال کے زرعی شعبے میں تاریخی طور پر امریکہ اور جاپان اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں چین نے اس محاذ پر بھی نیپال کے ساتھ روابط میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں نیپال نے چائنا فاؤنڈیشن فار رورل ڈیولپمنٹ کی مدد سے قطر کو کچھ سبزیاں برآمد کیں۔ علاوہ ازیں چین نے بی آر آئی کے تحت نیپال میں کیمیائی کھاد کے پلانٹ کی تعمیر میں مدد کی بھی پیش کش کی جو ایک اہم اقدام ہے جس پر ملک میں چار دہائیوں سے بحث جاری ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے نیپال کی معاشی خود کفالت کو بڑھانے میں مدد ملے گی کیونکہ یہ فی الحال ہر سال تقریباً 300 ملین امریکی ڈالر مالیت کی کھاد درآمد کرتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں چینی سرمایہ کاروں کی ایک ٹیم نے نیپال کا دورہ کیا تاکہ زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کیے جا سکیں۔ اس طرح کی سرمایہ کاری ایک بہت بڑی مدد ہو گی کیونکہ زراعت نیپالی معیشت کا ایک بنیادی حصہ ہے ، جو جی ڈی پی میں تقریباً 24 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور 61 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ اس کے باوجود نیپال اپنی بہت سی خوراک درآمد کرتا ہے، خاص طور پر بھارت سے اور خوراک کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں نے نیپال کے زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت کو طویل خشک سالی، سیلاب اور ہبوطِ ارض (لینڈ سلائیڈنگ) کے باعث متاثر کیا ہے۔ چینی سرمایہ کاری اور فنیات ( ٹیکنالوجی) کی بدولت ان میں سے کچھ مشکلات( چیلنجز) کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
نیپال کا پھونک پھونک کر قدم دھرنا
اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث نیپال اب اپنا رُسوخ بڑھانے کی کوشاں تین بڑی طاقتوں چین، بھارت اور امریکہ کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔ کھٹمنڈو کو ان طاقتوں میں سے ہر ایک کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کے معاملے میں پھونک پھونک کر قدم دھرنے چاہئیں کیونکہ اس کے مفادات ان سب کے ساتھ روابط برقرار رکھنے میں مضمر ہیں۔اگرچہ نیپال کو ان تینوں سے مدد اور سرمایہ کاری ملتی ہے ، تاریخی طور پر بھارت سب سے زیادہ بااثر شراکت دار رہا ہے۔ جولائی 2023 کے وسط تک نیپال میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے کل اسٹاک کے لحاظ سے بھارت 750 ملین ڈالر کی مالیت کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، اس کے بعد چین 260 ملین ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح نیپال پر دوطرفہ قرض خواہان کا ایک بلین امریکی ڈالر واجب الادا ہے جس میں جاپان اور بھارت مجموعی طور پر 700 ملین ڈالر سے زائد کے (قرض خواہ) ہیں جبکہ چین تیسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ بھی انسان دوستی (پر مبنی) امداد، غربت میں کمی کے پروگراموں اور جمہوری حکومت کو مضبوط بنانے ، بہترمعاشی مواقع اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نبٹنےکے اقدامات کے ذریعے نیپال کی مدد کر رہا ہے۔ مزید برآں امریکہ نے نیپال کے ساتھ 500 ملین ڈالر کے ملینیم چیلنج کارپوریشن (ایم سی سی) معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
نیپال اب اپنا رُسوخ بڑھانے کی کوشاں تین بڑی طاقتوں چین، بھارت اور امریکہ کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔ کھٹمنڈو کو ان طاقتوں میں سے ہر ایک کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کے معاملے میں پھونک پھونک کر قدم دھرنے چاہئیں کیونکہ اس کے مفادات ان سب کے ساتھ روابط برقرار رکھنے میں مضمر ہیں
اس تناظر میں چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط نیپال کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہیں کیونکہ اس سے نہ صرف چینی پیسہ، فنیات (ٹیکنالوجی )اور علم آتا ہے بلکہ کھٹمنڈو کے شراکت داروں کو متنوع بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔تجارتی شراکت داروں میں تنوع لانادراصل 2016 میں چین کے ساتھ طے پانے والے ٹرانزٹ معاہدے کا محرک رہا ہے جو چین کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے بھارت پر انحصار کم کرنے کی اولی کی ابتدائی کوششوں میں سے ایک تھا۔
تاہم چونکہ نیپال کا عوامی قرضہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، لہذا نیپال کو بڑی طاقتوں اور دیگر ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ کام کرتے وقت، بشمول بی آر آئی کے تحت بڑے انفرا اسٹرکچر (بنیادی ڈھانچے) کے منصوبوں کے لئے،قرض کے بجائے صرف گرانٹ قبول کرنے کی پالیسی اپنانی چاہیئے ۔ امریکہ کے ساتھ ایم سی سی کمپیکٹ اور نیپال بھارت سرحد پار ریلوے لائن کی طرح قرضوں کے بجائے نیپال کو بیجنگ سے گرانٹ یا سرمایہ کاری طلب کرنی چاہیے ۔
اپنے بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کو مدِّ نظر رکھتےہوئے، نیپال کے لئے یہ بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے کہ وہ بڑے انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کے بجائے چھوٹے لیکن مفیددو طرفہ منصوبوں پر زیادہ توجہ دے جو فوری نتائج دیں۔ بی آر آئی کے تحت چین پہلے ہی نیپال پر زور دے رہا ہے کہ وہ بڑے منصوبوں کے بجائے چھوٹے منصوبوں کا انتخاب کرے اور نیپال اور چین اب چین کی سرحد سے متصل اضلاع میں چھوٹے ترقیاتی منصوبوں کے لیے پانچ سالہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بھارت کے ساتھ پہلے سے ہی زیرِ تکمیل چھوٹے ترقیاتی منصوبوں کی طرح ہوں گے۔
لہٰذا نیپال چین کے ساتھ متوازن تعلقات کے ذریعے، جو بھارت یا امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو خطرے میں نہ ڈالیں، زبردست فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر نیپالی حکومت اور ملک کی سیاسی جماعتیں تین بڑی طاقتوں کے ساتھ روابط استوار کرنےکے لئے ایک واضح لائحۂ عمل تیار کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو ان کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کو نیپال کی سماجی اور معاشی ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔