Pakistani_military_at_Baine_Baba_Ziarat_-_Flickr_-_Al_Jazeera_English-1095×616-1

اگست ۲۰۲۱ میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جب افغان طالبان نے کابل میں اقتدار سنبھالا تو بین الاقوامی سیاسی ایجنڈے کا بیشتر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ممکنہ تجدید کے خدشات پر حاوی تھا۔سیکیورٹی کے بنیادی خدشات کا تعلق اسلامک اسٹیٹ آف خراسان پرووِنس (آئی ایس کے پی) سے متعلق تھا، جنہوں نے انخلا کے دوران کابل ہوائی اڈے پر حملہ کر کے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بڑھتی ہوئی قابلیت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔اس کے بعد سے اس گروپ کی قابلیت میں اضافہ ہوتا رہا ہے جس سے پاکستان، افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کو سیکیورٹی کے حوالے سے اہم  مشکلات کا سامنا ہے۔

 جولائی ۲۰۲۳ میں آئی ایس کے پی نے خیبر پختونخواہ (کے پی) کے ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام ۔فضل (جے یو آئی ۔ف) کے کارکنان کے کنونشن پر حملہ کیا، جس میں کم از کم ۵۴ افراد ہلاک ہوئے۔اس حملے کی ذمہ داری آئی ایس کے پی نے اپنے سرکاری خبر رساں اداروں اعماق اور ناشر کے ذریعے قبول کی۔ آئی ایس کے پی کا ظہور علاقائی سلامتی اور پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کی جاری کوششوں کے لیے ایک اہم خطرہ  پیش کرتاہے۔

نظریاتی اور فرقہ وارانہ تنازعات کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات اور انتقامی محرکات نے دہشت گردی کے تشدد کا ایک ایسا مرغُولہ  پیدا کر دیا ہے جو علاقائی سلامتی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اگرچہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن آئی ایس کے پی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ آنے والے سالوں میں، خاص طور پر متعدد داخلی مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے،  اسلام آباد کے پالیسی سازوں کو بلا شبہ دشواری پیش کرے گا۔

ایک  مختلف خطرہ

آئی ایس کے پی کا تنظیمی  ڈھانچہ بتدریج تیار ہوا اور اس کی  افزائش کو دو مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۲۰۱۵ سے ۲۰۱۹ کے آخر تک اور ۲۰۲۰ کے بعد سے۔ پہلے مرحلے کے دوران  آئی ایس کے پی کی سرگرمیاں مزید علاقوں پر اپنا قبضہ جمانے کے ساتھ ساتھ مشرقی، شمال مشرقی اور شمالی افغانستان میں اپنا کنٹرول مستحکم کرنے سے متعلق ہیں۔ علاقوں  کو زیرِ تسلط لانےسے آئی ایس کے پی اپنی تشریح کے مطابق شرعی قانون کے نفاذ کے قابل ہوئے، جو طالبان کے نظریے سے متناقض تھا۔ تاہم  یہ مہم ناکام رہی کیونکہ تنظیم کے پاس اس طرح کے علاقائی کنٹرول کے لئے درکار معاشی وسائل ختم ہوچلے اور ساتھ ہی افغان فورسز کی جنگی فضائی مہم اور اس کے بعد طالبان کی طرف سے آئی ایس کے پی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے جارحانہ کارروائیاں بھی شروع کر دی گئیں۔ 

آئی ایس کے پی ۲۰۱۹ کے آخر اور ۲۰۲۰ میں اپنے نئے امیر شہاب المہاجر کی قیادت میں “شہری جنگ” (اربن وار فیئر) کے ایک نئے آپریشنل ایجنڈے کے ساتھ دوبارہ ابھری۔اس حکمت عملی میں نہ صرف طالبان بلکہ افغانستان کے دیگر دھڑوں، بالخصوص شیعہ مسلمانوں اور ہزارہ برادری  کا دانستہ قتل شامل تھا تاکہ ملک میں افغان طالبان کی قانونی حیثیت کو ختم کیا جا سکے۔ 

آئی ایس کے پی نظریاتی، نسلی گروہ بندی اور خود ساختہ جغرافیائی حدود میں افغان طالبان اور دیگر علاقائی انتہا پسند گروہوں سے مختلف ہے۔ آئی ایس کے پی کی سرگرمیوں کا اصل ماخذ ان کا سلفی تکفیری نظریہ ہے (مرحوم ابو بکر البغدادی کےزیرِ اثر)، جو طالبان، جے یو آئی (ف) اور اسلام کے دیوبندی کے پورے فرقے  سے متناقض ہے۔ آئی ایس کے پی ان مسابقتی نظریات کو ناقص، توہم پرستی اور بت پرستی کے طور پر مشتہر کرتاہے، جس کی وجہ سے ان کے جغرافیائی دائرہ کار، نسلی گروہ بندیوں اور حملوں کی نوعیت میں فرق  پیدا ہوتا ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے آئی ایس کے پی کا وسیع تر عالمی ایجنڈا “اسلامی خلافت” کا قیام ہے جبکہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے مقاصد زیادہ  ترمقامی ہیں۔ ٹی ٹی پی کا دعویٰ ہے کہ وہ افغان طالبان کا توسیعی حصّہ ہیں، جس کا مقصد پاکستان میں شریعت کی اُن کی اپنی تشریح کے مطابق ایک سیاسی نظام قائم کرنا ہے، جبکہ گروپ کا جغرافیائی دائرہ کار پاکستان اور افغانستان تک محدود ہے۔ تاہم دیگر گروہوں کے برعکس آئی ایس کے پی کے عالم گیر عزائم بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتے ہیں۔ 

مزید برآں، آئی ایس کے پی، ٹی ٹی پی یا طالبان کے مقابلے میں نسلی اور قومیت کے اعتبار سے زیادہ متنوع ہے۔ مثلاََ، نسلی طور پر  بڑے پیمانے پر ہم آہنگ افغان طالبان کے برعکس، آئی ایس کے پی کی قیادت ٹی ٹی پی کے سابق جنگجوؤں، ناراض ارکانِ افغان طالبان اور غیر ملکی عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے۔ آئی ایس کے پی اپنے حملوں کے انداز  میں بھی دوسرے گروہوں سے مختلف ہے۔ مثلاََ، ٹی ٹی پی بنیادی طور پر پاکستانی حکومت اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے جبکہ اپنے جنگجوؤں کو شہری اور مذہبی مقامات سے دور رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، آئی ایس کے پی بِلا امتیاز شہری جنگ (اربن وار فیئر) میں ملوث ہے اور خصوصاََ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہے۔

پاکستان میں آئی ایس کے پی کی سرگرمیاں

گزشتہ تین سالوں میں پاکستان بھر میں آئی ایس کے پی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا پہلا حملہ اگست ۲۰۱۶ میں ہوا تھا، جب آئی ایس کے پی نے کوئٹہ کے ایک ہسپتال پر حملہ کیا تھا، جس میں ۷۲ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد کے سالوں میں بلوچستان اور سندھ کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ۲۰۱۸ کے بعد اس گروپ نے دوسرے صوبوں میں  بھی اپنے قدم جمائے۔ نومبر ۲۰۱۸ میں آئی ایس کے پی نے کے پی کے ضلع اورکزئی میں شیعہ آبادی والے علاقے کلایا میں ایک مقامی مارکیٹ پر حملہ کیا۔ تاہم ۲۰۱۹ کے آخر تک پاکستان میں حملوں میں کمی آئی کیونکہ آئی ایس کے پی نے افغان طالبان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف لڑنا شروع کر دیا تھا۔ اسی عرصے کے دوران  آئی ایس کے پی کو افغانستان، پاکستان اور ان کے پڑوسی علاقوں میں شاخوں میں تقسیم کیا گیا۔

اس وقت پاکستان میں آئی ایس کے پی کو اسلامک اسٹیٹ پاکستان  پرووِنس (آئی ایس پی پی) کے نام سے جانا جاتا تھا، جو ایک آزاد نیٹ ورک تھا جو مئی ۲۰۱۹ میں باضابطہ طور پر آئی ایس کے پی سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۲ تک آئی ایس پی پی نے ۶۸ حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ آئی ایس پی پی کے حملے آئی ایس کے پی کی حکمت عملی کے مقابلے میں، جس کا مقصد بڑے پیمانے پر ہلاکتیں تھیں، معمولی تھے۔ مثلاََ  ۲۰۱۹ میں جب آئی ایس پی پی خیبر پختونخواہ میں موجود تھی تو صوبے میں حملوں کی تعداد ۷ تھی لیکن جب آئی ایس کے پی نے آئی ایس پی پی سے آگے بڑھ کر قدم جما لیے تو ۲۰۲۱ میں یہ حملے بڑھ کر ۲۸ اور ۲۰۲۲ میں ۴۷ ہو گئے۔ تاحال آئی ایس کے پی نے ۲۰۲۳ میں ۱۷ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے سال کے بقیہ حصے میں ۲۸ حملوں کی پیش گوئی کی ہے۔

مستقبل کی طرف نظر

ملک میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو  آئی ایس کے پی کے خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ آئی ایس کے پی کی حالیہ موج انگیز  کارروایئوں  کا مقصد دیگر تنظیموں کے عسکریت پسندوں کو راغب کرنا اور پاکستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانا ہوسکتا ہے۔ بنیادی ہدف ٹی ٹی پی کے ایسے ارکان ہوں گے جو سخت گیر  بھی ہوں اور پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مذاکرات کی مخالفت  بھی کرتے ہوں۔ دسمبر ۲۰۲۱ میں جنگ بندی کے فیصلے پر آئی ایس کے پی نے ٹی ٹی پی پر جہادی ایجنڈے کو ترک کردینے کا الزام عائد کیا۔ ٹی ٹی پی کے بہت سے ارکان نے اس طرح کے مذاکرات کی مخالفت کی اور آئی ایس کے پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہی صورتحال افغان طالبان کے ساتھ بھی پیش آئی، جن کے ارکان نے ۲۰۲۰ کے امریکہ طالبان امن مذاکرات کے بعد آئی ایس کے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

آئی ایس کے پی کے اوج نے پاکستان کو درپیش موجودہ مشکلات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پہلے تو یہ کہ اگر  ٹی ٹی پی کے سِیاق و سَباق میں دیکھا جائے تو حکومت مذاکرات کے معقول دور کرنے میں کامیاب رہی ہے، تاہم آئی ایس کے پی کے معاملے میں  ایسا کچھ نہیں۔ یہ گروپ اپنے  نظریاتی  انتہا پسندی کے سبب اور مرکزی قیادت کے فقدان کی وجہ سے بامعنی مذاکرات میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ٹی ٹی پی اور آئی ایس کے پی کی  دشمنی سے پاکستان کو فائدہ ہونا چاہیئے تھا لیکن حقیقت ان توقعات کے برعکس ہے۔ آئی ایس کے پی کے خلاف افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کی لڑائی نے پاکستان میں اس گروہ کی کارروایئوں کو محدود کیا تھا، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔  افغان طالبان اور پاکستانی حکومت کے مقابلے میں  آئی ایس کے پی کے عوامی پیغامات ٹی ٹی پی کے لئے مسلسل نرم گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بندھن جنوبی ایشیا اور اس سے باہر مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اس لِم لگائی  سے خراب ہوئے ہیں کہ کون سا ملک آئی ایس کے پی کو پناہ دے رہا ہے، جس سے ان انتہا پسند اکائیوں سے لاحقہ خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔

ما حصل

پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات آئی ایس کے پی اور آئی ایس پی پی کو اپنی سرگرمیوں کے لئے زیادہ موقع فراہم کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کا قبائلی علاقوں میں کم فوجی موجودگی کا مطالبہ آئی ایس کے پی جیسے گروہوں کو ناجائز فائدہ اُٹھانے کا موقع دینے اور پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب بن سکتا ہے۔  اگر یہ گروپ پاکستان میں مزید شہری مراکز کو نشانہ بنانے کے لیے خودکش بم دھماکوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو فرقہ پرست مذہبی مقامات اُن کے لئے ایک پرکشش ہدف ہوں گے۔ پاکستان میں آنے والے انتخابات ہائی پروفائل حملے کرنے کا ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں پالیسی سازوں کو آئی ایس کے پی کے سیکورٹی چیلنج سے نمٹنے کے لئے پیشگی اقدامات کرتے ہوئے اس خطرے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Pakistani Military at Baine Baba Ziarat via Wikimedia Commons.

Image 2: Fazlur Rehman, leader of JUI-F via Wikimedia Commons.

Posted in:  
Share this:  

Related articles