Getty-Images-Flooding-Pakistan


 پاکستان، اپنی تاریخ کے بدترین سیلابوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے جس سے۳۳ ملین سے زائد کے قریب آبادی متاثر ہوئی ہے۔ سیلاب سے  ۱۵۰۰ کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کے پھیلاؤ کی وجہ سے  دیگر بہت سے خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک پہلے ہی معاشی تباہی کے دہانے پر ہے، سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ ۱۸.۵ بلین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے میڈیا کی جانب سے فوری اور سنجیدہ ردعمل کی متقاضی تھی جو کہ وہ قبل از وقت خبردار کرنے، عوام کو آگاہ کرنے اور زمینی صورتحال کی جانب پالیسی سازوں کی توجہ مبذول کروانے کی شکل میں ادا کر سکتا تھا۔ تاہم بدقسمتی سے اس نے حال ہی میں سیلاب کو اہم ترین خبر کا درجہ دینا شروع کیا ہے۔ موسم گرما کے اوائل میں جب تباہی کا آغاز ہوا، اس وقت میڈیا کی کوریج پر ایک نظر نہ صرف خطوں کے اعتبار سے اس میں غیرمنصفانہ رویے کو ظاہر کرتی ہے بلکہ مجموعی طور پر بھی غفلت کو ظاہر کرتی ہے۔ 

میڈیا کوریج اس اعتبار سے غیرمنصفانہ تھی کہ اس نے بدترین طور پر متاثرہ خطہ ہونے کے باوجود صوبہ بلوچستان  میں سیلاب کی تباہی کا  محدود احاطہ کیا۔  غفلت اس اعتبار سے برتی گئی کہ میڈیا نے زمینی سطح پر صورتحال کی عکاسی کرنے میں آفت کا آغاز ہونے تک  انتظار کیا۔ حتیٰ کہ  جب سندھ اور بلوچستان پانی میں ڈوب چکے تھے تب بھی میڈیا پنجاب اور اسلام آباد میں سیاسی رقابتوں اور ریلیوں کو نشر کرنے میں مصروف تھا۔ 

متعصبانہ اور تاخیر سے کوریج

پاکستان کا سب سے بڑا لیکن سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔  بعض اندازوں کے مطابق، سیلاب میں جان بحق دھونے والے ۱۵۰۰ افراد میں سے تقریباً ۳۰۴ ( ۲۰ فیصد) بلوچستان میں تھے۔ اسی طرح پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تباہی کا ۶۰ فیصد بھی اسی صوبے میں ہوا۔ جس وقت عوام سوشل میڈیا کے ذریعے سیلاب سے متاثرہ اپنے علاقوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہے تھے اور حکومت سے امداد کی اپیل کر رہے تھے اس وقت قومی دھارے میں شامل میڈیا کی سیلاب کی جانب توجہ تقریباً ناپید تھی۔  تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ 

زیادہ تر میڈیا نیٹ ورکس خاص کر ڈیجیٹل میڈیا ہاؤسز متعدد وجوہات جیسا کہ معمولی کاروباری فوائد، بلا تعطل نشریات برقرار رکھنے میں درپیش انفراسٹرکچرل چیلنجز، اور خطے میں سلامتی کی ناقص صورتحال وغیرہ کی وجہ سے بلوچستان میں بیورو آفسز نہیں رکھتے ہیں۔ کم ترین آبادی کا حامل ہونے کی وجہ سے بلوچستان ناظرین کی وہ تعداد فراہم نہیں کر پاتا ہے جو کہ سندھ اور پنجاب جیسے بڑے صوبے فراہم کرتے ہیں۔ دوران سیلاب چونکہ صوبے کو مواصلاتی نظام کی تباہی کا سامنا تھا ایسے میں وہ مقامی صحافی جو ابلاغ کے لیے واٹس ایپ کا سہارا لیتے ہیں، پنجاب اور سندھ کے شہروں میں موجود بیورو آفسز تک زمینی صورتحال  کے بارے میں آگاہ نہ کر سکے۔  حتیٰ کہ سندھ جہاں ذرائع مواصلات قائم  تھا وہاں بھی میڈیا  کی کوریج کا مرکز کراچی میں سیلاب کی صورتحال رہی اور اندرون سندھ میں آنے والی آفت نظرانداز ہوتی رہی جس کی ایک بار پھر وجہ شہری علاقوں سے جڑے ان کے کاروباری مفادات تھے۔ 

کوریج میں برتے گئے اس متعصبانہ رویے کی وجہ میڈیا ضوابط اور سینسر شپ بھی ہیں۔ صوبے میں شہری حقوق کے لیے جاری تحریکوں اور شورش پسند گروہوں کو قانونی و غیرقانونی طریقے سے قابو میں رکھنے والی  عسکری اسٹیبلشمنٹ ایسی کسی بھی خبر کو روکنے کی کوشش کرتی ہے جس کا تعلق بلوچستان سے ہو۔ انتہائی معمولی آبادی کا حامل صوبہ جو کہ قومی اسمبلی میں محض ۱۶ سیٹیں رکھتا ہے، قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی توجہ کا بھی مرکز نہیں ہے۔ ایسا صوبہ جہاں متعدد صحافی لاپتہ یا قتل ہو چکے ہیں، یہ امر ہرگز باعث حیرت نہیں کہ نا تو بلوچستان سے خبریں فراہم کرنے کے لیے کسی قسم کے کوئی انسانی وسائل بچے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی خبروں کو بنیادی موضوع بنانے کی جرات رکھتا ہے۔

ماہرین موسمیات نے سال کے آغاز سے ہی قدرتی آفت سے خبردار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود بھی میڈیا کی جانب سے سیلاب کی کوریج میں انتہائی تاخیر سے کام لیا گیا۔ ماسوائے موسم کی پیشنگوئی پر مبنی بنیادی کوریج کے، میڈیا نے عوام کو ممکنہ سیلابی صورتحال کے بارے میں خبردار کرنے کے لیے کسی مہم کا آغاز نہیں کیا۔  حتیٰ کہ جس وقت جولائی کے وسط میں بلوچستان اور سندھ میں سیلاب کی خبریں آ رہی تھیں، تب بھی میڈیا کی توجہ پنجاب اور اسلام آباد کی سیاسی صورتحال کی جانب بٹی ہوئی تھی۔ مثال کے طور پر ۱۷ جولائی کو ڈیلی ڈان کے صفحہ اول کی شہہ سرخی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں جبکہ سیلاب کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی، حالانکہ اس وقت تک بلوچستان کے دس ڈسٹرکٹس “آفت زدہ” قرار دیے جا چکے تھے۔ اس بارے میں خبر  اخبار کے تیسرے صفحے پر تھی۔ نتیجتاً امدادی کارروائیوں میں تیزی بھی جولائی کے آخر میں دیکھنے کو ملی جب سیلاب بلوچستان میں تباہی مچا چکا تھا۔ میڈیا کی جانب سے زیادہ ذمہ دارانہ رویہ متعدد جانوں کو بچا سکتا تھا۔ 

ایک قدرتی آفت پر سیاست

سیلاب سے پیدا ہونے والا انسانی بحران تمام اداروں اور  حکومت کی ہر سطح سے ایک متفقہ قومی ردعمل دیے جانے کا متقاضی تھا۔ تاہم سیلاب کی صورتحال نے ملک میں جاری سیاسی بحران کو  محض مزید ابتر کیا۔ میڈیا کہ جہاں ریٹنگز یہ طے کرتی ہیں کہ کون سی خبر کو نشر کیا جائے گا، وہاں الزامات کی سیاست اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کو حقیقی عوامی مسائل کے اوپر ترجیح دی گئی۔  میڈیا میں پائی جانے والی جانب داری بھی بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کے ساتھ ساتھ بے حد نمایاں ہو چکی ہے۔ نتیجتاً یہ پاکستان میں ذریعہ معلومات کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔

جولائی میں میڈیا کی توجہ کا مرکز عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کیے گئے سابق وزیراعظم عمران خان کی اپنی سیاسی حریفوں کے خلاف ریلیاں رہیں۔ مزید براں جہاں سیاسی جماعتوں نے سیلاب کو مخالفین کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا، وہیں  زیادہ تر چینلز نے بھی پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے ناقص انتظام جیسے اہم موضوع پر گفتگو کے بجائے انہی الزامات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔  خان صاحب جہاں سندھ اور وفاقی حکومت کی کارکردگی  کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے وہیں انہوں نے  خیبر پختونخوا کی سنگین صورتحال کو یکسر نظرانداز کر دیا جہاں سوات میں چار بھائی تین گھنٹے تک سیلابی پانی میں پھنسے رہے اور ان تک ریسکیو مشن نہ پہنچ سکا۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے انتظامات اور ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے سرمایہ کاری کی شدید کمی کا شکار ہیں اور اس کے لیے ماضی کی حکومتیں بھی اسی قدر ذمہ دار ہیں جس قدر کہ موجودہ حکومت اور میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے والے سیاسی قائدین سے ان شعبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے پوچھ گچھ کرے۔

میڈیا بھی اس دور میں سیاسی قائدین کے دوروں کی کوریج میں اسی قدر مصروف تھا جس قدر کہ خود وہ قائدین جنہوں نے  محض سیلاب متاثریں کے ہمراہ تصاویر بنوائیں اور انہیں تعلقات عامہ اور سماجی میڈیا کے مواد کے لیے استعمال کیا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اس طرح کے اعلیٰ سطحی دورے امداد و بحالی کی کوششوں میں سودمند ہونے کے بجائے رکاوٹ کا سبب سمجھے جاتے ہیں۔ میڈیا ان دوروں کی کوریج تو کرتا رہا لیکن اس نے  نہ تو سیلاب متاثرین کی اس قدر کوریج کی اور نہ ہی امدادی کارروائیوں کی، ایسے میں قدرتی آفات پر ردعمل کے ضمن میں اس کے کردار کو  کچھ بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ذمہ دارانہ ہرگز نہیں۔ 

 آفت کے بعد بھی میڈیا کا کردار ختم نہیں ہو جاتا ہے بلکہ اسے امداد و بحالی کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیئے، پالیسی قیود کی جانب نشاندہی کرنی چاہیئے نیز ملک میں آفات کے لیے پیشگی تیاری اور انتظامی نظام کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز دینی چاہییں۔ 

پاکستانی میڈیا سیلاب کی متعصبانہ اور  تاخیر کا شکار کوریج کی وجہ سے آفت سے قبل اور اس کے دوران اپنا کردار نہیں نبھا سکا تاہم اس کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ بعد از آفت کے تجزیے کی صورت میں اپنا کردار نبھائے۔اب جبکہ زیادہ تر میڈیا ادارے سیلاب کی صورتحال کی بھرپور عکاسی کر رہے ہیں، ایسے میں یہ امر اہم ہے کہ وہ اس نکتے کی جانب توجہ دیں کہ کیسے حکومتی ناقص انتظامات آفت کے ردعمل میں تاخیر کا سبب بنے۔  اسے پالیسی کے اوپر بحث میں موجودہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو شامل کرنا چاہیئے اور سیاسی دکان چمکانے اور الزامات کی سیاست کے بجائے ایک مربوط اور طویل المدتی نوعیت کے قانونی ردعمل کے لیے بھرپور مطالبہ کرنا چاہیئے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: FIDA HUSSAIN/AFP via Getty Images

Image 2: Flickr via Oxfam International

 

Share this:  

Related articles

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ Hindi & Urdu

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

چین اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے قریبی تعلقات…

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…