موسمی تبدیلی کے بڑھتے خطرات، پاکستان میں فوری اور حکمت عملی کے تحت اقدامات کے متقاضی ہیں۔ قحط، سیلاب اور گرمی کی لہریں نقل مکانی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں جس سے لوگ انسانی اسمگلنگ سمیت استحصال کی نئی اقسام کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں موسم کے سب شدت اختیار کرتی انسانی اسمگلنگ، قرض کے عوض غلامی، جبری مشقت اور جبری شادی جیسی زیادہ واضح اشکال میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ قانون کے مقامی نافذ کاران، کمیونٹی تنظیموں اور حکومتی محکموں پر واجب ہے کہ وہ ایسی پیش رفتوں کو مل جل کر تقویت بخشیں اور نافذ کریں جن کا مقصد موسم سے تحریک پکڑنے والی انسانی اسمگلنگ کا تدارک اور کمزور آبادیوں کی معاونت ہو۔
موسمی تبدیلی اور انسانی اسمگلنگ کا گٹھ جوڑ
موسمی خطرات کے عالمی انڈیکس کے مطابق، پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ رکھتے ہیں، جہاں تباہ کن سیلاب، قحط اور دیگر موسمی واقعات زیادہ کثرت سے واقع ہو رہے ہیں۔ یہ موسمی انداز نہ صرف طاقتور سماجی رجحانات جیسا کہ معاشی عدم مساوات، وسائل کی کمیابی اور غربت کو دوگنا چوگنا کرتے ہیں بلکہ استحصال کی دیگر بدترین اشکال جیسا کہ انسانی اسمگلنگ کا باعث بھی بنتے ہیں۔ یو این دفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ موسمی تبدیلی آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے جو انہیں کمزور کر دیتی ہے۔ اسمگلرز ان کی کمزور حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور سماجی معاونت ، تحفظ اور وسائل کی عدم موجودگی کے سبب ان سے جبری مشقت کرواتے ہیں یا پھر ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔
یہ اثرات پاکستان بھر کی مختلف کمیونٹیز کو ہونے والے تجربوں میں پہلے ہی واضح ہو چکے ہیں، بالخصوص جنوبی پنجاب اور چترال جیسے خطوں میں۔ ۲۰۱۰ میں جنوبی پنجاب کو تباہ کن سیلابوں کا بوجھ سہنا پڑا تھا، جس سے خاندانوں کو غربت اور کمزور ہونے کا دوہرا بوجھ سہارنا پڑا۔ اس خطے میں فصلیں یا تو ضائع ہو گئیں یا پھر ان کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں دو وقت کی روزی روٹی پوری کرنے والے کسان جن کی آمدنیاں گھٹ کر کم رہ گئی تھیں، قرضوں کے عوض قید اور جبری غلامی کے جال میں پھنس گئے۔ ۲۰۱۹ میں گلیشیئر پگھلنے سے وجود میں آنے والی جھیلوں سے پیدا ہونے والے سیلابوں (گولفس) نے انفرااسٹرکچر تباہ کر دیا اور ذریعۂ معاش کے خاتمے کا باعث بنا۔ اس کے نتیجے میں خاندان کے خاندان قلاش ہو گئے اور غربت میں کمی کی کوشش میں علاقے کے باہر سے آنے والے دولت مند افراد کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی زبردستی شادی کر دی۔
انسانی اسمگلنگ کے پھیلاؤ کا اندازہ کرنا
یہ ہیبت ناک واقعات، موسمی کیفیات کے سبب پیدا ہونے والی بے سروسامانی اور انسانی زندگیوں کے استحصال کے درمیان موجود پیچیدہ گٹھ جوڑ کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ اس جانب بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ موسمی تبدیلی پہلے سے ہی بے دست و پائی کی صورتحال کو کیسے دوگنا چوگنا بڑھانے والی قوت ہو سکتی ہے اور پسماندہ طبقوں جیسا کہ خواتین اور بچوں کے عدم تحفظ میں اضافہ کر سکتی ہے۔ بدقسمتی سے موسم اور انسانی اسمگلنگ کے درمیان تال میل کے بارے میں زیادہ مطالعہ نہیں کیا گیا ہے اور پاکستان اور اس سے بالاتر پیمانے پر اس کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ سرکاری ایجنسیز اور متعلقہ وزارتیں جہاں موسمی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے قابل پیمائش معاشی خطرات اور طبعی نقصان پر توجہ دیتی ہیں، وہیں انسانی سلامتی کو لاحق خطرات جیسا کہ اسمگلنگ بارہا نظرانداز ہو جاتا ہے۔
امریکی وفاقی محکمہ برائے انسانی اسمگلنگ کی سال ۲۰۲۳ کی رپورٹ کے مطابق متعدد سرکاری ایجنسیز نے پاکستان میں اسمگلنگ کے ۳۵,۳۰۹ متاثرین کی شناخت کی ہے۔ شناخت و رپورٹ کرنے کے کمزور اور ناکافی لائحہ عمل کے سبب، یہ اعداد و شمار ممکنہ طور پر اسمگلنگ کے جرائم کے متاثرین کی اصل تعداد کا محض ایک حصہ ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ عالمی غلامی کے انڈیکس میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ متاثرین کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، اس انڈیکس کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں جدید غلامی کے ۲.۳ ملین متاثرین موجود ہیں۔
اگرچہ اچانک یا آہستہ روی سے پیدا ہونے والی موسمی کیفیات کے نیتجے میں اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں اندازہ کرنا مشکل ہے، تاہم اس ممکنہ تعلق کی پیمائش کی ایک کوشش، موسم کے نتیجے میں ہونے والی نقل مکانی کا وسیع پیمانے پر مطالعہ ہو سکتی ہے۔ موسم کے سبب نقل مکانی کرنے والے افراد معاشرے میں دیوار سے لگے ہوتے ہیں اور دیگر کے مقابلے اسمگلنگ کے خطرے سے خود کو تین گنا زیادہ دوچار پاتے ہیں۔ پاکستان میں بین الاقوامی تنظیم برائے نقل مکانی نے موسم کے سبب نقل مکانی کے معاملے کو دیکھنا شروع کیا ہے لیکن اسمگلنگ سے اس کا تعلق کھوجنے کے لیے بڑے پیمانے پر چھان پھٹک اور منظم مداخلتیں درکار ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کا مقابلہ
انسانی اسمگلنگ کے مقابلے کے لیے پاکستان کی مرکزی حکمت عملی جس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) قیادت کر رہی ہے، مسئلے سے نمٹنے میں بڑی حد تک ناکام رہی ہے۔ اس کا وجہ یہ ہے کہ انسانی اسمگلنگ بنیادی طور پر مقامی اور انفرادی سطح پر ہوتی ہے جس کے سبب ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس کے محکمے اسمگلنگ کے تدارک، اسمگلرز کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور متاثرین کے تحفظ کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔
ضلعی پولیس کے محکموں سے انسانی اسمگلنگ کے خلاف کوششوں کے حوالے سے ضرورت کے مقابلے میں کم کام لیا جا رہا ہے، بالخصوص آفت زدہ علاقوں میں۔ فی الوقت ان کی ذمہ داریاں انسانی اسمگلرز کے خلاف قانونی کارروائیوں تک محدود ہیں اور تدارکی اقدامات کی ضمن میں ان کے ممکنہ کردار کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ یہ محکمے نچلی ترین سطح پر موجود ہونے کی اپنی خوبی کی وجہ سے آگہی کی مہمات، کمیونٹی روابط اور کڑی نگرانی کے ذریعے تدارکی کوششوں میں قیادت کرنے کے لیے موزوں ترین ہیں۔ ضلعی پولیس کے محکمہ جات متعدد طریقوں کے ذریعے سے اس عمل کو شروع کر سکتے ہیں، جن میں متاثرہ شعبہ جات جیسا کہ اینٹوں کے بھٹے، مقامی فیکٹریز اور آفت زدہ خطوں کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی باقاعدہ رجسٹریشن اور انہیں دستاویزی شکل دینے سمیت دیگر طریقے شامل ہیں۔ اس طرح کا اقدام کام کرنے کی کیفیات کی نگرانی کرنے میں مدد دے گا اور یہ یقینی بنائے گا کہ کارکنان غیر قانونی روایات کا نشانہ نہیں بن رہے ہیں۔ پولیس خدمت مراکز یا پولیس سروس سینٹرز قومی سطح پر بڑے پیمانے پر دستیاب اپنی موجودگی کے سبب اس مقصد کے لیے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔
پولیس سروس سینٹرز، قابل رسائی اور کمیونٹی پر مرکوز خدمات کی فراہمی کے ذریعے سے زیادہ جامع اور معاونت یافتہ نفاذ قانون کے لیے داغ بیل پہلے ہی ڈال چکے ہیں۔ جبری مزدوری، بچوں سے مزدوری اور جبری گداگری جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایسے مراکز میں پیش کی جانے والی خدمات کے سلسلے کو وسیع کرنے سے معاشرے کے کمزور ترین ٹکڑوں کے تحفظ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ان مسائل کے ساتھ خصوصی طور پر نمٹنے کے ذریعے یہ مراکز نہ صرف ایسے افراد کو باقاعدہ مدد فراہم کریں گے جو کہ موسمی کیفیات کے سبب غلط ہاتھوں میں جانے کا خطرہ رکھتے ہیں بلکہ انسداد اسمگلنگ کے لیے کوششوں اور ماحولیاتی تباہی کے اقدامات میں مصروف مختلف حکومتی محکموں کے درمیان رابطہ پل کا سا کردار بھی ادا کر سکیں گے۔
ان مراکز نے عادی منشیات افراد کی بحالی کے لیے سہولیات پہلے سے ہی فراہم کی ہیں اور دیگر سرکاری حکومتی محکموں جیسا کہ سماجی بہبود اور تعلیم کے محکموں کے ہمراہ موثر تعاون کے ذریعے معاشرے کے دیوار سے لگے ہوئے طبقوں کی صلاحیتوں میں بہتری پیدا کی ہے۔ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایسی پیش رفتوں کو نافذ کرنے کے ذریعے یہ مراکز ضلع انتظامیہ کو دستیاب زیادہ موثر مربوط فورمز کے طور پر جگہ پا سکتے ہیں۔
سراغ کے محاذ پر، پنجاب میں حالیہ قائم ہونے والے منظم جرائم کے یونٹس کا دائرہ کار انسانی اسمگلنگ تک وسیع کیا جا سکتا ہے۔ مصلحتاً کیا گیا یہ اضافہ انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ ایسے منظم گروہوں کے آپریشنز سے موثر طور پر نمٹنے اور ان کے خاتمے کے لیے انہیں بااختیار بنائے گا جو انسانی اسمگلنگ اور اسمگلنگ کی سرگرمیوں دونوں میں ملوث ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کو اپنی ذمہ داریوں میں شامل کرنے کے ذریعے، یہ یونٹس ان غیرقانونی انٹرپرائزز کی شناخت، ان کے خلاف تحقیق اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کے زیادہ قابل ہوں گے۔ متاثرین کے تحفظ اور بحالی کے لیے ضلعی انسداد اسمگلنگ اور قرض کے عوض غلامی کی نگران کمیٹیز کو بااختیار بنانا ایک اور اہم اقدام ہے۔ یہ کمیٹیاں موسمیاتی تبدیلی یا قدرتی آفات کی نوعیت، متاثرہ کمیونٹیز کی اقسام اور انفراسٹرکچرل تقاضوں کے اعتبار سے نقطہ نگاہ اختیار کر سکتی ہیں، جو کہ زیادہ موثر نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
ہر ایک قدرتی آفت کسی بھی کمیونٹی کو مختلف انداز میں متاثر کرتی ہے۔ ان کمیٹیوں کو مختلف وسائل کے ذریعے تقویت دینا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہمراہ بہتر تعاون اور ذمہ داریوں میں وضاحت انہیں بنیادی سطح پر دستیاب اسمگلنگ اور مزدوروں کے استحصال کے خلاف موثر ہتھیاروں میں تبدیل کر سکتا ہے۔ ان کمیٹیوں کو آفات کے خلاف ردعمل دینے والے تمام محکموں کے ساتھ رابطہ کاری کے ذریعے ہنگامی صورتحال کے لیے تیاری، جلد انتباہ کے نظام اور مربوط ردعمل کے لائحہ عمل کے قیام میں قیادت کرنی چاہیئے۔ ان اقدامات کے نفاذ کے ذریعے، پاکستان انسانی اسمگلنگ کے خلاف اپنے ردعمل میں بہتری لا سکتا ہے اور ایک ایسے زیادہ مزاحم معاشرے کو تعمیر کر سکتا ہے کہ جو موسمی تبدیلی کے باعث درپیش آزمائشوں کا مقابلہ کر سکے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: National Food Emergency Response in Pakistan via Flickr
Image 2: Pakistan flood via Flickr