۱۶ اکتوبر ۲۰۲۰ کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے جمع کردہ ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے الزام عائد کیا کہ ۲۰۱۸ میں بطور وزیراعظم ان کی برطرفی اور پاکستان تحریک انصاف حکومت کو اقتدار میں لانے کا منصوبہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے ترتیب دیا تھا۔ اس سے دو ہفتے قبل، حزب اختلاف کی متعدد بڑی جماعتوں نے پی ٹی آئی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف متحدہ کوششوں کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ پی ڈی ایم، کثیرالجماعتی کانفرنس کا تسلسل اور پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی زیر قیادت حزب اختلاف کی تحریک ہے، جس کا اعلان جولائی ۲۰۲۰ جبکہ باقاعدہ افتتاح ۲۲ ستمبر کو ہوا تھا۔ پی ڈی ایم کا لائحہ عمل علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم ہے جس میں ملک بھر ریلیوں کے انعقاد کے بعد جنوری ۲۰۲۱ میں ”لانگ مارچ“ شامل ہے۔ ایکشن پلان مارچ میں سینٹ انتخابات سے قبل اپنے نقطہ عروج پر ہوگا۔
حزب اختلاف نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے تحریک عدم اعتماد سمیت تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائیں گے۔ جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی ایف) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے جولائی ۲۰۱۹ میں پارلیمنٹ سے استعفے کی تجویز دی تھی تاہم پی پی پی اور پی ایم ایل این دونوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ استعفے قومی مسائل کا حل نہیں- پارلیمنٹ کو چھوڑ دینے کا عمل دونوں جماعتوں کو اپنا موقف موثر انداز میں پیش کرنے سے روک دے گا۔ پی ایم ایل این اب اگرچہ بڑے پیمانے پر استعفے دینے پر غور کررہی ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف شریف کے موقف کو مزید ٹھوس بنایا جاسکے تاہم پی ایم ایل این تن تنہا اس تحریک کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہوسکے گی۔ چونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اپنے اپنے منشور اور سیاسی مفادات ہیں، اور ہر ایک سیاسی عمل میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے، لہذا ایسے میں کثیرالجماعتی اتحاد اپنے پیش رؤں کی طرح ناکامی سے دوچار بھی ہوسکتا ہے۔
حزب اختلاف کے سابقہ اتحادوں کی ناکامی
اگرچہ سیاسی مفادات نے پی ایم ایل این اور پی پی پی کو ایک بار پھر ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا ہے تاہم دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر مئی ۲۰۱۹ میں دونوں جماعتوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف احتجاج کا عزم کیا۔ آخر میں پی ایم ایل این اور پی پی پی دونوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع نہیں کیا اور اس کے بجائے پی ٹی آئی کے سینٹ میں چیئرمین صادق سنجرانی کو عہدہ سے ہٹانے کے لئے کوشش کی۔ یہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے پہلا قدم تھا۔ تاہم مشترکہ اکثریت کے باوجود، دونوں جماعتیں سینٹ چیئرمین کو ہٹانے سے قاصر رہی تھیں۔
ناکام ووٹنگ کے بعد پی ایم ایل این نے پی پی پی پر سندھ پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے مشکوک سرگرمیوں کا الزام عائد کیا تھا۔ سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد جلد ہی دونوں جماعتوں کے مابین عدم اعتماد ابھر کے سامنے آیا تھا۔ ووٹ سے قبل پی ایم ایل این نے پی پی پی سے اس مبینہ ملاقات کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی جو پی پی پی رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری اور جائیداد کے کاروبار کے ایک نمایاں تاجر کے مابین تحریک کو کچلنے کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ پی پی پی نے ان اطلاعات کو مسترد کیا تھا۔ تاہم مارچ ۲۰۱۸ میں سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب سے قبل پیش آنے والے واقعات مبینہ طور پر پی پی پی کی جانب سے پی ایم ایل این کو کمزور کرنے کے منصوبے کا حصہ تھے اور اس پر ”عمل درآمد سیاسی انجینیئرنگ اور اتحاد سازی کے ذریعے کیا گیا۔“
اسی طرح اکتوبر ۲۰۱۹ میں پی پی پی اور پی ایم ایل این نے مشترکہ طور پر جے یو آئی ایف کے ہمراہ پی ٹی آئی حکومت کیخلاف ایک اور تحریک کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ پی پی پی اور پی ایم ایل این نے جے یو آئی ایف کی زیرقیادت آزادی مارچ میں ابتدا میں شرکت کی تاہم بعد میں انہوں نے حتمی دھرنے کی حمایت نہیں کی اور مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے کارکنوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔ ان کے اس فیصلے کو کسی حد تک مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اپنے منصوبوں کو خفیہ رکھنے اور اپنے ساتھی اتحادیوں کو اس سے آگاہ نہ کرنے سے جوڑا جاسکتا ہے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل این دونوں ہی غیراعلانیہ مدت کیلئے دھرنے میں حصہ لینے پر رضامند نہ تھے۔ حزب اختلاف کی جے یو آئی ایف کے دھرنے سے علیحدگی کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن ایک بار پھر خود کو پاکستانی سیاست میں متعلقہ ثابت کرنے کامیاب رہے۔ ۱۹۷۰ کی دہائی سے رحمٰن حزب اختلاف کے ایک اتحاد سے دوسرے اتحاد میں شامل ہوتے رہے ہیں، اس دوران وہ بہت سے غیر متوقع شراکت داروں سے سمجھوتے کرتے رہے ہیں۔ تاہم رحمٰن کیلئے جو چیز مستقل رہی وہ مدرسے کی بنیاد پر دستیاب حمایت جس نے انہیں اپنی ”پہچان برقرار“ رکھنے کے قابل بنائے رکھا۔ تاہم ان کی مستقل متلون مزاجی، حزب اختلاف کی حکومت کے خلاف انتہائی طاقتور محاذ قائم کرنے کی کوششوں کو برباد کرسکتی ہے۔
متصادم جماعتی مفادات
پی ایم ایل این، ماضی میں زرداری کی جانب سے چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کیلئے پی ایم ایل این سے کیے گئے وعدے کا پاس نہ رکھنے اور سیاسی برتری حاصل کرنے کے بجائے سویلین حکومت سے معاہدہ کرنے کے فیصلے کے سبب ان کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے۔ متصادم نقطہ نگاہ، جماعت کے سینیئر رہنماؤں کے مابین موقف میں پائے جانے والے متعدد اختلافات کی بھی مثال ہے۔ پی پی پی کےسینیئر رہنما اعتزاز احسن اتحاد کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اور پی ایم ایل این سے معاملات طے کرنے کے حوالے سے اپنی جماعت کو ”محتاط رہنے“ کیلئے خبردار کرچکے ہیں۔
پی پی پی کے ”تمام آپشن کھلے رکھنے“ کے موقف کے مقابلے میں پی ایم ایل این نے موجودہ حکومت کیخلاف زیادہ سخت موقف اپنایا ہے۔ سینٹ پر پی ایم ایل این کے اختیار کو متوازن کرنے کے لیے پی پی پی، پی ٹی آئی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹرز کے ایک گروہ نے مارچ ۲۰۱۸ میں صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔ تاہم یہ اتحاد زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔ پی پی پی کی زیر قیادت سندھ حکومت اور پی ٹی آئی کی زیر قیادت وفاقی حکومت کے مابین دسمبر ۲۰۱۸ میں اس وقت پہلی بار مسائل پیدا ہوئے جب سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ کی روشنی میں زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔ پی پی پی کے متعدد رہنمائوں کو کرپشن کے بڑے الزامات کا سامنا ہے اور مبینہ طور پر قومی احتساب بیورو (نیب) میں اپنے مقدمات کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرچکے ہیں۔
حال ہی میں ہونے والی ایک پیش رفت نے حزب اختلاف کے اتحاد کی کمزوری کو ایک بار پھر عیاں کیا ہے۔ پی ڈی ایم کے متعارف کروائے جانے کے بعد پی ایم ایل این کے جاں نثار کارکن خواجہ آصف نے کہا کہ ان کے لیے زرداری پر بھروسہ کرنا ”مشکل“ ہے۔ اس بیان کے نتیجے میں پی ایم ایل این کے رہنما میاں نواز شریف کو بیان جاری کرنا پڑا کہ وہ زرداری کے لئے ”بے حد احترام“ رکھتے ہیں۔
مشاہدہ کاروں کی رائے میں حزب اختلاف کی خان کو نکالنے کیلئے یہ کوشش ایک بار پھر زیادہ ثمر آور ثابت نہیں ہوگی۔ نظریات میں اختلافات اور ہر جماعت کو مطلوب نتائج کو دیکھتے ہوئے ”ماسوائے جماعتوں کے بعض سینیئر رہنمائوں کے لئے مخصوص آزادی اور فوائد کے حصول کے علاوہ (پی ڈی ایم) منطقی مقصد سے عاری دکھائی دیتی ہے۔“ اپنے متصادم مفادات اور ان پر مفاہمت کی عدم قابلیت کے سبب حزب اختلاف، حکومت کے خلاف ایک متحدہ محاز قائم کرنے کے قابل نہیں رہی ہے نیز جماعتوں کے گرد گھومتے مفادات اس عظیم تر تحریک کے اوپر حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ پی ڈی ایم میں انتہائی طاقتور قوت بننے کی صلاحیت موجود ہے تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے کہ اگر حزب اختلاف اپنے بیانیئے کو ترک کرتے ہوئے مشترکہ اہداف کے لئے کام کرے۔
مستقبل قریب میں عین ممکنہ طور پر پی ڈی ایم حکومت کو گرانے یا فوج کے سیاست میں کردار کو کمزور کرنے میں غیر موثر رہے گی۔ تاہم تبدیلی لانے کی اس کی محدود صلاحیت کے باوجود، پی ڈی ایم خان کی حکومت کے اعصاب کو متاثر کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نہ صرف فوج کو بدنام کرنے پر شریف کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہے بلکہ ان پر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کا بھی الزام ہے جبکہ پی ٹی آئی پر ۲۰۱۸ کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت کے طور پر حزب اختلاف کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے پی ڈی ایم کے ۱۶ اکتوبر کو پہلے جلسے سے قبل حزب اختلاف کے ۵۰۰ سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا تھا جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پی ایم ایل این سے تھا۔ محمد صفدر جو کہ شریف کی بیٹی مریم نواز کے شوہر اور پی ایم ایل این کے نمایاں کرکن ہیں، انہیں پی ڈی ایم کے زیر اہتمام کراچی میں منعقدہ دوسری ریلی کے اگلے روز ۱۹ اکتوبر کو گرفتار کیا گیا۔
پی ایم ایل این کے ایک سینیئر رہنما اور آرمی چیف کے مابین گزشتہ ماہ ہونے والی ایک خفیہ ملاقات کا راز افشاء ہونے کے عمل نے بھی پی ایم ایل این کی حیثیت کو کمزور کردیا ہے، یہ پی ڈی ایم کو اچانک توڑنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ پی ایم ایل این کی جانب سے سیاست میں مداخلت پر تنقید کے باوجود فوج سے روابط کی خبروں نے ان کی تنقید کے حق بجانب ہونے پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ مزید براں، پی پی پی کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے نیب نے پی پی پی چیئرپرسن زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے پی پی پی کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز نے پی ٹی آئی کی حکومت کو آمرانہ دور قرار دیا۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں اور رہنمائوں کے خلاف جھوٹے مقدمات شروع کرنے پر بھی حکومت پر برہمی کا اظہار کیا۔
حکومت کی برطرفی کا امکان؟
پی ٹی آئی حکومت کے حوالے سے عوام میں بڑھتا ہوا عدم اطمینان نیز بے روزگاری اور مہنگائی سمیت متعدد معاشی آزمائشیں جن میں عالمی وبا مزید بگاڑ پیدا کرچکی ہے، حزب اختلاف کی تحریک کو کامیاب بنانے میں مدد کرسکتی ہیں۔ پی ایم ایل این کے نواز شریف کے بے باک جارحانہ لہجے کو دیکھتے ہوئے حزب اختلاف کی سیاست کے موجودہ دور کو مختلف دور کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ۲۰ ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس میں شریف کی تقریر نے یہ واضح اشارہ دیا کہ ”شریف اور اسٹیبلشمنٹ میں لڑائی تو ابھی بس شروع ہوئی ہے“ اور ان کی ۱۶ اکتوبر کی تقریر نے پی ایم ایل این اور عسکری اداروں میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی جانب مزید اشارہ کیا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے ذاتی ایجنڈوں کو ایک طرف ڈالتے ہوئے خان حکومت کو گرانے کے مشترکہ ہدف کیلئے کام کرتی ہیں۔ وہ آیا عوام کی جانب سے درکار حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں کہ نہیں، یہ بھی اتحاد کی قسمت کا حتمی فیصلہ کرے گا۔ انفرادی طور پر دیکھا جائے تو جے یو آئی ایف میں عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت موجود ہے تاہم دوسری جماعتوں کی جانب سے مستقل حمایت کے بغیر ان کی کوششیں برباد ہوجائیں گی۔ اسی طرح مریم نواز شریف کا سحر اور شہرت بھی عوام کو حرکت میں لاسکتی ہے تاہم پی ایم ایل این کی شہرت اس وقت ماند پڑ سکتی ہے اگر عوام یہ یقین کرلیں کہ شریف کے اقدامات کا نشانہ فوج کو بدنام کرنا یا پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کو پورا کرنا ہے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1:United Nations Photo via Flickr
Image 2: FATA Reforms via Flickr