
دنیا میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سب سے بڑےقرضے حاصل کرنے والےممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود پاکستان کی معیشت بڑھتی ہوئی غربت، افراطِ زر اور بے روزگاری کے ساتھ مسلسل ڈگمگاہٹ کا شکار ہے۔سمبر 2024 میں پاکستان نے اُڑان پاکستان (نامی) 5 سالہ ترقیاتی تبدیلی کے منصوبے( ٹرانسفارمیشن پلان) کا آغاز کیا، جو ملک کےاقتصادی رجحان کی تشریحِ نو کی ایک جرأت مندانہ کوشش ہے۔ قرضہ جات کے لامتناہی سلسلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، پاکستان کےتعدیلِ ساختگی منصوبوں [اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز (ایس اے پیز)] پر انحصار کے مؤثر ہونے یا نہ ہونے کی بہت چھان بین کی گئی ہے۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے 25 منصوبوں (پروگرامز) سے گزر چکا ہے (تاہم) دیرپا پیش رفت کرنے میں ناکام رہا ہے۔کیا اُڑان منصوبہ بالآخر پائیدار ترقی کی راہ کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے؟
ایک نئی اُمید؟
کئی سالوں سے پاکستان انحصاریت کے چکر میں اُلجھا ہوا ہے،ایک خود اِستقراری کیفیت جس کی خصوصیات مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بیرونی قرضوں پر بھاری انحصار، معاشی تنوع کو محدود کرتی ایک محدود برآمدی بنیاد ، دائمی ساختی کمزوریاں اور مسلسل سیاسی عدم استحکام جس نے معاشی خودمختاری اور پائیدار ترقی کو روک رکھاہے، (شامل ہیں)۔اس سلسلے نے ملک کو عالمی منڈی کی طیران پذیری (ولیٹیلیٹی)اور اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور داخلی پالیسی کے عدم تسلسل جیسے بیرونی دھچکوں کا زد پذیر بنا دیا ہے۔
پاکستان کی موجودہ معاشی حیثیت کی تجدید کے لئے ، حکومت نے “مقامی منصوبہ برائےمعاشی احیا” (ہوم گرون اکونومک ریوایول پروگرام)متعارف کرایا جسے اُڑان پاکستان 5 سالہ ترقیاتی تبدیلی کامنصوبہ( ٹرانسفارمیشن پلان) کا نام دیا گیا ہے۔یہ منصوبہ انحصاریت کے اُلجھاؤ سے نکلنے کی سعیٔ نو اور پائیدار ترقی کے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ منصوبہ پانچ ای :ایکسپورٹ (بر آمدات)، ای -پاکستان، اینوائرنمنٹ (ماحولیات)،انرجی (توانائی) اور امپاورمنٹ (عطائے اختیار) پر مبنی ہے جس میں وصولیٔ محصولات، برآمدات پر مبنی ترقی،فنیات( ٹیکنالوجی) اور قابلِ تجدید توانائی کے ذریعے تنوع (کے حصول) اور انسانی سرمائے (ہیومن کیپیٹل)میں سرمایہ کاری میں اضافے کو ہدف بناتے ہوئے اہم اصلاحات شامل ہیں۔ منصوبے کا مقصد اہم شعبوں میں جامع اصلاحات کے ذریعے 2035 تک پاکستان کو ایک ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت بنانا ہے۔
مجموعی طور پر جہاں اُڑان معاشی انقلاب کے لیے ایک جرأت مندانہ تصور پیش کرتا ہے، وہیں آئی ایم ایف کی بڑھتی ہوئی شرائط کے ساتھ ساتھ اس کا تعین کا فقدان اہم سوالوں کے جواب نہیں دیتا
برآمدسے متعلقہ حصّہ یورپی یونین کی جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس اسکیم، آسیان ٹریڈ ڈیولپمنٹ کانفرنس اور خلیج تعاون کونسل کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ(ایف ٹی اے) جیسے تجارتی معاہدوں کے ذریعے تجارت کو وسعت دینے اور متنوع بنانے پر توجہ مرکوز کرتاہے۔ ایکسپورٹ ریڈینیس پروگرام جیسے منصوبےچھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی ترقی اور منڈی تک رسائی کو بڑھانےکا ہدف رکھتے ہیں، جبکہ محصولات ( ٹیرف) کی تنظیم – جس میں صارفین کی استطاعت کے مطابق محصول کی تعدیل شامل ہے – تکنیکی پارچہ بافی (ٹیکنیکل ٹیکسٹائل) جیسے شعبوں میں تنوع کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے اُڑان کا مقصد اضافۂ سالانہ برآمدات ہے۔ تاہم برآمدی صنعتوں کے لیے خاص طور پر کم اضافی قدری (لو ویلیو ایڈڈ ) شعبوں جیسے پارچہ بافی برائے اشیائے صرف (کموڈیٹی ٹیکسٹائل)اور زراعت کو ماضی میں دی جانے والے زرِ اعانت(سبسڈی) نے کارکردگیٔ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا، جس سے موجودہ پالیسی اقدامات کے مؤثر ہونے کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں، ای پاکستان اقدام کا مقصد تکنیکی جدت طرازی اور انفرا اسٹرکچر (بنیادی ڈھانچے)، جیسے کہ فائبر آپٹکس (بصری ریشے) اور ڈیجیٹل گورننس (انتظامِ عددی نظام) پر زور دینا ہے۔توانائی کے محاذ پر اس منصوبے میں گرین بلڈنگ کوڈز (ضابطۂ تعمیرِ اخضر) جیسےہمراہی اقدامات کے ساتھ قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقلی پر زور دیا گیا ہے، تاہم توانائی سے متعلقہ قواعد و ضوابط (انرجی ایکویٹی) کو یقینی بناتے ہوئے پاکستان کس طرح کوئلے اور دوبارہ گیس کی شکل دی گئی مائع قدرتی گیس (ری گیسی فائڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس) کی درآمدات پر اپنے بھاری انحصار پر قابو پا سکتا ہے، اس بارے میں واضح اہداف اور نظام الاوقت (ٹائم لائنز )کا فقدان ہے۔آخری ستون،ایکویٹی اور امپاورمنٹ (عدل و عطائے اختیار) کا مقصد تزویراتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسکول نہ جاسکنے والے بچوں کی تعداد کو کم کر کے ابتدائی تعلیمِ اطفال (ارلی چائلڈ ہوڈ ایجوکیشن) کو بڑھانا اور یوتھ پیس ڈیولپمنٹ کور(دستۂ نوجوانان برائے ترقیٔ امن)، یوتھ لیڈرشپ ایوارڈز (انعامات برائے نوجوان قیادت) اور پرائم منسٹر لیپ ٹاپ اسکیم جیسے مختلف ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے نوجوان قیادت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔تاہم بجٹ میں 0.9 فیصد کامعمولی اضافہ ملک کے مجموعی تعلیمی انفرااسٹرکچر میں خسارے کو دور کرنے کی امکان پذیری کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔
مجموعی طور پر جہاں اُڑان معاشی انقلاب کے لیے ایک جرأت مندانہ تصور پیش کرتا ہے، وہیں آئی ایم ایف کی بڑھتی ہوئی شرائط کے ساتھ ساتھ اس کا تعین کا فقدان اہم سوالوں کے جواب نہیں دیتا: ان اہداف کے لیے سرمائے کا انتظام کیسے کیا جائے گااور اس کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟
قرض کا جال
سال 2024 تک پاکستان کا بیرونی قرضہ 133.5 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اس کی خام مُلکی پیداوار (گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ /جی ڈی پی) کا 36.4 فیصد ہے اور اصلاحی اقدامات کی غیر موجودگی میں 2029 تک تین گنا بڑھ کر 411.29 بلین امریکی ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ قرضہ جات کی سہولت کاری کے بڑھتے ہوئے اخراجات، جو 26.11 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، وسائل پر دباؤ ڈالتے ہیں اور ساختی مشکلات سے نمٹنے کے لئے بہت کم (وسائل)چھوڑتے ہیں۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرض پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ناقابلِ عمل حد کے قریب جا رہا ہے۔ان ناقابلِ عمل حدوں پر اصرار غیر مطلوبہ معاشی نتائج کا باعث بن سکتاہے ، جس میں نادہندگی (ڈیفالٹ) بھی شامل ہے۔ اگرچہ پاکستان اب تک اس طرح کے بحران سے بچنے میں کامیاب رہا ہے تاہم اب بھی خدشات موجود ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے سابقہ پروگراموں کے تحت مالیاتی یکجائی (فِسکل کنسولیڈیشن) اور ٹیکس اصلاحات سمیت اپنے اصلاحاتی وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔

مالیاتی تذبذب کی بنیاد پائیدار ترقی کو نقصان پہنچانے والی کوششیں ہیں۔مالیاتی خسارے سے نمٹنے کے لیے حکومت محصولات میں، خصوصاً بالواسطہ (ٹیکسوں) میں اکثر اضافہ کرتی ہے۔اس کے باوجود وصولیٔ محصولات (ٹیکس ریونیو )اب بھی جی ڈی پی کا قلیل 10.8 فیصد ہے جس میں سے 60 فیصد بالواسطہ محصولات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، جس کے باعث کم آمدنی والے گروہوں پر بھاری بوجھ پڑتا ہے۔
مزید برآں پاکستان کا نظامِ محصولات ( ٹیکسیشن سسٹم) ابھی تک غیر مؤثر ہے، (جس میں) براہ راست وصولی کا 70 فیصد محصولات کی کٹوتی (وِدہولڈنگ آف ٹیکسز) پر انحصار کرتا ہے۔ اس طرح کا نظام وسیع ٹیکس بیس (وصولیٔ محصولات کا بنیادی جال) جو ایک بڑی تعداد میں افراد اور کارو باری اداروں کو اپنے دائرہ اختیار کے تحت کر لیتا ہے، کے بجائے (ٹیکس)کمپلائنس (محصولات کی درست وقت پر درست وصولی) پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ یہ دولت کی دوبارہ تقسیم اور طویل المدتی ترقی کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔بالخصوص غیر رسمی شعبے (انفارمل سیکٹر)کے غلبے اور بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کے پیش نظر، اُڑان کا ٹیکس ٹوجی ڈی پی (ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب) کا 16-18 فیصد کا ہدف اہم اصلاحات کے بغیر حاصل کر پانا، ممکن نہیں لگتا۔
تاہم اِشاریہ برائے صارفی قیمت [کنزیومر پرائس انڈیکس ](سی پی آئی) میں مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے (اور) فروری 2025 میں افراطِ زر کی شرح گھٹ کر 1.5 فیصد ہوگئی، جو قریباً ایک دہائی کی کم ترین سطح ہے۔ یہ کمی قابلِ ستائش ہے کیونکہ افراطِ زر اور ترقی کا نظم ونسق کسی بھی حکومت کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہے۔تاہم بنیادی شرحٔ افراطِ زر (اب بھی)زیادہ ہے: شہری علاقہ جات میں جنوری 2025 تک سال بہ سال 7.8 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ دیہی علاقہ جات میں (یہ اضافہ) 10.4 فیصد ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ تیزی سے جاری ہے۔
علاوہ ازیں، حکومت کا مالیاتی طرزِ نظر بھی پریشان کُن ہے۔ 6.9 فیصد بجٹ خسارہ جو ملکی اور غیر ملکی قرضہ جات کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے، بینکنگ اور پبلک سیکٹرز ( بینک سے متعلقہ اورعوامی شعبہ جات)پر بوجھ ڈالتا ہے۔ مزید برآں، قرضوں اور بلند شرح محصولات (ٹیکس) کے ذریعے زرِ اعانت (سبسڈی) کی مد میں 3.82 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ( فنڈنگ) سے افراطِ زر میں اضافے اور سماجی و اقتصادی جماعت بندی میں مزید دُوری ہونے کا خدشہ ہے۔قرض لینے پر یہ انحصار اُڑان کی طویل المدتی مالیاتی حکمتِ عملی کی پائیداری (سسٹین ایبیلیٹی)کے بارے میں خدشات پیدا کرتا ہے۔
اختلالِ منصوبۂ اُڑان
عالمی بینک نے پانچ ای فریم ورک میں ایک اہم خلل (خامی)کی حال ہی میں نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ایک قومی تصور پیش کیا گیا ہے ، لیکن اسے ابھی تک (ایسے) قابلِ عمل شعبہ جاتی (سیکٹرل) منصوبوں میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے، جو صوبائی حکومتوں سمیت حکومت کے تمام درجوں کے لیے مشترک ہوں۔متراکب ( اوورلیپنگ) ذمہ داریوں اور دفتر شاہی ( بیوروکریٹک ) نااہلیوں کو دور کیے بغیر، اس منصوبے کا حقیقی دنیا پرکم ترین اثرات کے ساتھ محض ایک اور اُمنگوں کی ترجمان دستاویز بن کر رہ جانے کا خدشہ ہے۔
افراطِ زر پر قابو پانے میں حکومت کی کامیابی، مؤثر مالیاتی سختی اور اجناس کی قیمتوں کو کم کرنے کی کوشش کی عکاس ہے۔لیکن اس کا پہلے کے 12 فیصد سالانہ افراطِ زر کے تخمینے کا تقابلی امتیاز خاصا نمایاں ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ترقی کو بڑھانے کے لئے مالیاتی پالیسی ( مانیٹری پالیسی) نرم کرنے کے لئے تیار ہے۔افراطِ زر کے محاذ پر اس کامیابی کے باوجود کمزور سرمایہ کاری اور ساختی کمزوریاں برقرار ہیں۔پاکستان کے 16 بلین امریکی ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر 100 ارب امریکی ڈالر سے زائد کے بیرونی قرضہ جات کے مقابلے میں سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔
عالمی اقتصادی مشکلات کی بادِ مخالف، محصولات کی جنگوں اور جغرافیائی سیاسی مسابقت کے پیش نظر، اُڑان کا 60 بلین امریکی ڈالر کا برآمدی ہدف خاصا جرأت مندانہ نظر آتا ہے۔اس کی منتقلیٔ توانائی کا تجزیہ حال کی عالمی توانائی منڈی کے حقائق کو نظر انداز کرتا ہے۔یہ نظامی دشواریاں اعلیٰ نجی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کا مطالبہ کرتی ہیں، جس کے لیے سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں مستقل مزاجی کی طویل المدت ضرورت ہے، (یہ) ایک ایسا خلل (ہے)جس کا بار اُٹھانے میں اُڑان ناکام نظر آتا ہے۔ علاوہ ازیں ، یہ پروگرام آئی ٹی کی ترقی کے لئے متعین صنعتوں کے بارے میں وضاحت مہیا نہیں کرتا۔
مزید برآں، اگرچہ یہ پروگرام پاکستان کو درپیش موسمیاتی مشکلات کو تسلیم کرتا ہے، تاہم اس میں پائیدار ڈھانچوں (اسٹرکچرز) اور نظاموں (فریم ورکس) کے لئے دُور رس نتائج پر مبنی (ایسی)بصیرت کا فقدان ہے جو وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر آب و ہوا سے مطابقت اور ماحولیاتی انتظام کو آگے بڑھائے۔ علاوہ ازیں، توانائی کا تحفظ ایک اہم مسئلہ ہے۔اگرچہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کو پاکستان کی توانائی کی حکمتِ عملی میں مرکزیت حاصل ہے کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار اور بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کو طرزِجدید میں ڈھالنےکے لئے ضروری سرمائے اور مہارت کو حرکت میں لاتا ہے ، لیکن اس کااوپر سے نیچے طرزِ نظر ( ٹاپ ڈاؤن اپروچ) مقامی ملکیت اور رائے ( ان پٹ) کو نظر انداز کرتا ہے۔اس اِنقطاع کے نتیجے میں ایسے منصوبے جنم لے سکتے ہیں جو علاقائی ضروریات سےکم ہم آہنگ ہوں اور مقامی صلاحیت کی ترقی میں رکاوٹ بنیں، جس سے پاکستان کے شعبۂ توانائی کی طویل المدتی پائیداری اور تاب آوری (ریزلینس) کو نقصان پہنچے گا۔مزید برآں، چین کی خاطر خواہ سرمایہ کاری کے باوجود، سیاسی تناؤ بالخصوص بلوچستان میں، اور معاشی ہتھیار بندی (اِکونومک ویپنائزیشن) اس کی صلاحیت میں مزید رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
یہ سب ملک کی جغرافیائی سیاسی دُشواریوں اور داخلی سلامتی کے بحرانات کے باعث مزید پیچیدہ بن جاتا ہے۔ امریکہ چین دشمنی پاکستان کو ایک کشمکش میں ڈال دیتی ہے (اور) علاقائی تنازعات سے بچنے کے لیے متوازن طرزِنظر کی ضرورت پیش کرتی ہے۔بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات علاقائی تجارت کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں۔ دریں اثنا، دورِطالبان میں افغانستان میں عدم استحکام اور ایران کے ساتھ تعلقات سے مکمل طور پر استفادہ حاصل کرنے میں ناکامی اس بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں دیرینہ شکوے، فسادات اور بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی قومی سلامتی کو مزید متاثر کرتی ہے۔اُڑان انسدادِ عسکریت پسندی کی کوششوں کی مالی اعانت کے بارے میں بہت کم وضاحت فراہم کرتا ہے، جس سے 2035 تک ایک ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت کو ہدف بناتے ہوئے سلامتی کو یقینی بنانے کی اس کی صلاحیت پر شکوک و شبہات اُبھرتے ہیں۔
سلامتی سے متعلقہ یہ دُشواریاں (سیکیورٹی چیلنجز ) پاکستان کی انسانی سرمائے (ہیومن کیپیٹل) اور جامع ترقی میں سرمایہ کاری میں ناکامی کی عکاس ہیں۔پاکستان مسلسل کم ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) اسکور ریکارڈ کر رہا ہے اور اس وقت 193 میں سے 164 ویں نمبر پر ہے۔ یہ (صورتحال ایسے) استحصالی اداروں کے باعث مزید پیچیدہ بن جاتی ہے جو جامع ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کے ثمرات کو دولت مند اشرافیہ بشمول شراکتی ادارہ جات، جاگیردار زمیندار،سیاسی رہنماؤں اور فوج پر مرتکز کر دیتے ہیں، جو ملک کی سالانہ مجموعی پیداوار کا 17.4 بلین امریکی ڈالر (یا 6 فیصد) بناتے ہیں۔
معاشی ترقی شفافیت، احتساب اور شمولیت پر مبنی گورننس (حکومتی) ماڈل کا تقاضا کرتی ہے؛ اصلاحات کے بغیر، آئینی مراعات اور ساختی کمزوریاں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے امکانات کو کمزور کرتی رہیں گی۔
آگے کیا ہو گا؟
کئی دہائیوں سے پاکستان قرض لینے، کفایت شعاری اور قلیل المدتی اصلاحات کی گردش میں اُلجھاہوا ہے۔اگرچہ اُڑان امید کی ایک کرن پیش کرتا ہے ، لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار سیاسی استحکام ، شفاف حکمرانی ، جامع ترقی اور انسانی سرمائے میں تزویراتی سرمایہ کاری پر ہے۔
اگرچہ اُڑان امید کی ایک کرن پیش کرتا ہے ، لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار سیاسی استحکام ، شفاف حکمرانی ، جامع ترقی اور انسانی سرمائے میں تزویراتی سرمایہ کاری پر ہے
لازم نہیں ہے کہ سیاسی عدم استحکام معاشی منصوبہ بندی کو بیکار کردے؛ اس کی کلید ادارہ جاتی تسلسل میں مضمر ہے، جہاں پالیسیاں سیاسی تبدیلیوں اور جھٹکوں سے بالاتر ہوتی ہیں۔ اس گردش سے باہر نکلنے کے لیے پاکستان کو افسر شاہی ( بیوروکریسی) میں تخفیف لانی ہوگی، وفاقی اور صوبائی سطح پر کارِ منصبی کو زیادہ ہموار بنانا ہوگا، بے قاعدگیوں کو ختم کرنا ہوگا اور پالیسی کے نفاذ کو ترجیح دینی ہوگی۔ٹیکس اصلاحات بھی ضروری ہیں؛ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کہ دولت مندافراد بِلا کم و کاست اپنا حصہ ڈالیں، ترقی پسندانہ نظامِ وصولیٔ محصولات ( ٹیکسیشن) کی طرف توجہ مرکوز کی جانی چاہیئے۔اس کے بغیر معاشی استحکام اور سماجی ہم آہنگی دونوں خطرے میں رہیں گے۔قابلِ تجدید توانائی میں سرمایہ کاری اور جدت طرازی کو فروغ دینے میں عوامی نجی شراکت داری ( پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) کو قیادت کرنی چاہیئے۔ترقی کی راہ میں علاقائی عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے مقامی حل – جیسےبرادری (کمیونٹی) منصوبہ ساز انجمنیں (کونسلز) ، مقامی انفرا اسٹرکچر(بنیادی ڈھانچے ) میں ہدف شدہ سرمایہ کاری ، مناسب عوامی نجی شراکت داریاں ( ٹیلرڈ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) ، اور مقامی انتظامیہ کے لئے استعدادِ کار بڑھانے کے اقدامات – ضروری ہوں گے۔اسی جذبے کے تحت مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا نچلی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا۔
تاہم، حقیقی ترقی تکنیکی اصلاحات سے کہیں زیادہ کی متقاضی ہے؛ اس کے لئے سیاسی اتحاد اور پاکستان کی صلاحیت پر اجتماعی یقین کی ضرورت ہے۔اصل سوال یہ نہیں ہے کہ آیا آئی ایم ایف دوبارہ قرض دے گا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا پاکستان اپنی خود انحصاری اور طویل المدتی خوشحالی میں سرمایہ کاری کا عہد کر سکتا ہے یا نہیں۔
***
This article is a translation. Click here to read the original in English.
Image 1: Shehbaz Sharif via Flickr
Image 2: International Monetary Fund via Flickr