پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانات میں سے ایک سے گزر رہا ہے۔اگرچہ ملک کی موجودہ معاشی بدحالی میں بہت سے عوامل نے کردار ادا کیا ہے، تاہم داخلی مباحثوں میں چین کے کردار کو بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کو اکثر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے منسوب کیا جاتا ہے، جسے ملک کی مالی مشکلات کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کا معاشی بحران اس کی معیشت میں چین کی بڑھتی ہوئی شمولیت کی وجہ سے اور بھی بڑھ گیا ہے۔
متعدد چینی قرضوں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) نے پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی بحران میں اپنا حصّہ ڈالا، جب ملک کو آئی ایم ایف کی طرف سے آخری وقت میں مدد مِلی۔
پاکستان کا معاشی بحران
ملک کی معاشی صورتحال بدترہونے پر عالمی بینک نے ایک بیان جاری کیا، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان کا معاشی استحکام انتہائی تشویش ناک حالت میں ہے اور معیشت کی فوری تنظیمِ نو کی ضرورت ہے۔افراطِ زر آسمان کی حدوں کو چُھو رہا ہے، پیٹرولیم اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی بدولت یہ اشیاء عام آدمی کے لیے بہت مہنگی ہو گئی ہیں۔بجلی بھی بہت مہنگی ہو گئی ہے جس سے شہری ناراض ہیں۔ پاکستان کے لیے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بینہاسین نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ماڈل، جو افرادی قوّت کی ترقی کو ترجیح نہیں دیتا، غربت کو کم نہیں کر سکتا۔
آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ قرضہ جات
پاکستان ۲۹ جون ۲۰۲۳ کو آئی ایم ایف کے ساتھ ۳ بلین امریکی ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ (قلیل المدّتی فنانسنگ) کرنے کے بعد ڈیفالٹ ہونے سے بال بال بچا۔ آئی ایم ایف معاہدوں کی طویل تاریخ میں پاکستان کو اسی طرح کے بحرانات سے باہر نکالنے کی مد میں یہ بیل آؤٹ پیکج تازہ ترین ہے۔آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان پہلا اسٹینڈ بائی معاہدہ ۱۹۵۸ میں ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک پاکستان کو مختلف مواقع پر ۲۳ قرضہ جات پیکج مل چکے ہیں جن کی مجموعی مالیت ۷.۴ بلین امریکی ڈالر ہے۔
اگرچہ بہت سے پاکستانی آئی ایم ایف کو ایک ایسا آلۂ کارسمجھتے ہیں جسے مغربی طاقتیں جدید نوآبادیتی قرضہ جات (نی یو کلونیل ڈیٹ) کے ذریعے ترقی پذیر ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں، لیکن اس نے ترقی پذیر معیشتوں کو مالی تباہی سے بچنے میں مدد کی ہے۔ اِس کی ارجنٹائن، انڈونیشیا، میکسیکو اور برازیل کے ساتھ کام کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مشکلات کا شکار معیشت کی مدد کرنے کا تازہ ترین معاملہ اپریل ۲۰۲۲ میں سری لنکا کے دیوالیۓ کے موقع پر پیش آیا، جِس کا سبب کِسی حد تک وہ رقم تھی جو دو طرفہ قرضہ جات کی مد میں اُس نے چین کو ادا کرنی تھی۔ اس وقت آئی ایم ایف نےسری لنکا کو ۳ بلین امریکی ڈالر کا قرض دیا تھا۔ اس قرض کا مقصد سری لنکا کو دیوالیہ پن کے بعد پیدا ہونے والی معاشی مشکلات سے نمٹنے میں مدد دینا تھا۔
اسی طرح آئی ایم ایف کے قرضے کے پیکج نے اسلام آباد کو فوری دیوالیہ پن سے بچایا اور انتہائی ضروری ریلیف فراہم کیا۔اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افراطِ زر کے دباؤ اور کرنسی کی قدر میں کمی کو بڑی حد تک آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کی وجہ سے کنٹرول کیا گیا ۔
چین کے قرضہ جات کا تنگ ہوتا جال
بیجنگ کے اسلام آباد کے ساتھ گہرے اور خوشگوار تعلقات ہیں۔ تاہم، امریکہ کو تشویش ہے کہ پاکستان چین کے بڑھتے ہوئے قرضہ جات، جسے وہ قرضوں کا جال قرار دیتا ہے، کی ادائیگی کیسے کر پائے گا۔جولائی میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ نے اعلان کیا تھا کہ چین نے اسلام آباد کو بدترین معاشی بحرانات میں سے ایک سے نکلنے میں مدد کے لیے ۲.۴ بلین امریکی ڈالر کا قرض دیا ہے۔ان قرضہ جات نے پاکستان کی کمزور معیشت کا انحصارمکمل طور پر چین پر کر دیا ہے اور ملک کو بھاری قرضوں میں پھنسا دیا ہے۔
چین پر پاکستان کے معاشی انحصار کی توضیح پاکستان کے دیگر قرض دہندگان کے مقابلے میں چینی قرضوں کی شرائط و ضوابط کے درمیان فرق سے کی جاسکتی ہے۔ پہلا فرق یہ ہے کہ چینی قرضوں کی شرحِ سود پاکستان کے دیگر قرض دہندگان کی قرضوں کی شرحِ سود سے کہیں زیادہ ہے۔ ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۰ کے دوران پیرس کلب کنٹریز اور چین کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے مجموعی قرضے تقریباََ ایک جیسے تھے لیکن چینی قرضوں پر سود کا آؤٹ فلو ( بیرونِ ملک اخراج) چار گنا زیادہ تھا۔گزشتہ دو سالوں میں پاکستان نے پیرس کلب کو سود کی مد میں صرف ۷.۶ ملین امریکی ڈالر ادا کیے ہیں، جو عالمی وبا (پینڈیمک) کی وجہ سے ریلیف کی بدولت ہے، جبکہ اس نے چین کو سود کی مد میں ۴۰۰ ملین امریکی ڈالر سے زیادہ ادا کیے ہیں۔اب تک اسلام آباد نے بیجنگ سے، کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت زیادہ ، ۳۰ ارب امریکی ڈالر کے ہوش رُبا قرضے لیے ہیں۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضہ جات کے پیکج شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن کے تحت پاکستان کو اپنے مالیاتی اور معاشی شعبوں میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن چینی قرضوں کے لئے اس طرح کی کوئی شرائط نہیں۔ اس کی بدولت پاکستان نے بِلاہچکچاہٹ مالی امداد کے لیے چین سے رابطہ کیا ہے۔ تاہم چین نے پاکستان پر صرف قرضوں کا بوجھ ڈالا ہے اور اسے مستحکم معیشت بنانے میں مدد نہیں دی ،جس کے بارے میں پاکستان کو یقین تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔ سی پیک جیسے چین کے سفید ہاتھی پراجیکٹ، مہنگے بھی ہیں اور ملک کو بہت کم فائدہ بہم پہنچاتے ہیں۔ چین نے تجارتی قرض گاری سے بھی استفادہ حاصل کیا، مقامی کرپشن کا ناجائز فائدہ اٹھایا، غیر شفاف مذاکرات کیے اور قرضوں کی تنظیمِ نو میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ،جس نے پاکستان کے معاشی بحران کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ناکام سی پیک کے معاشی نتائج
پاکستانی رہنماؤں نے ۲۰۱۴ میں شروع ہونے والے سی پیک کو ملک کی بیمار معیشت کے لیے گیم چینجر قرار دیا تھا۔ تاہم، ایک دہائی کے بعد سی پیک گیم چینجر کے بجائے یاس دکھائی دیتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بہت سے منصوبے جو شیڈول کے لحاظ سے پایۂ تکمیل تک پہنچ جانے چاہیے تھے، وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوپائے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین پاکستان کی جانب سے سی پیک منصوبوں سے نمٹنے کے طریقۂ کار سے بھی عاجز آ چُکا ہے۔ مثلاََ پاکستان کی جانب سے ان منصوبوں کے فوائد کا درست اندازہ لگانے میں ناکامی کی بدولت اخراجات میں غیر ملکی کرنسی میں اضافہ اور قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
غیر ضروری اخراجات نے بھی پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت پاکستان کراچی تا پشاور ریلوے لائن (ایم ایل ون) کے لیے نیا سگنلنگ سسٹم ۵۳۰ ملین امریکی ڈالر کے بجائے ۱۵۰ ملین امریکی ڈالر میں خرید سکتی تھی۔ سی پیک منصوبوں پر کام کی سست رفتار سے مایوس ہو کر پاکستان میں چینی سفیر نے شکایت کی کہ پاکستان سی پیک کو تباہ کر رہا ہے۔ ۶۲ بلین امریکی ڈالر کے اس منصوبے کی ناکامی نے پاکستان کو انتہائی غیر مستحکم پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔
سی پیک کے ناکام منصوبوں نے پاکستانی قیادت کو شرمندہ کیا ہے اور انہیں اپنے اتحادی کو خوش کرنے کے لئے چینی معاہدوں پر اتفاق کرنے کے لئے زیادہ رضا جوبنا دیا ہے۔ یہ بات اس وقت واضح ہوئی جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے جولائی میں اسلام آباد میں سی پیک کی ایک دہائی کے جشن کے موقع پر چینی نائب وزیر اعظم کے ساتھ چھ معاہدوں پر دستخط کیے۔ چین کو مزید خوش کرنے کے لیے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ مزید معاہدے کرے گا اور مزید قرضے لے گا۔ اس سے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ملک قرضوں کے جال میں مزید جکڑاجائے گا۔
سلجھاؤ
پاکستان کے معاشی اصلاحات کے نفاذ کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے موجودہ صورتحال سے باہر نکلنے کا راستہ انتہائی مشکل نظر آتاہے۔ پاکستان نے اصلاحات کے نفاذ میں یقین دہانی اور مستقل مزاجی کا فقدان ظاہر کیا ہے اور جن اصلاحات پر عمل درآمد کیا گیا ہے وہ بھی نظم و نسق کے مسائل کا شکار ہیں۔ مزید برآں، ملک میں بہت زیادہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ حکومت نگران قیادت کے ماتحت ہے جس کے پاس معاشی پالیسی پر فیصلہ کن کارروائی کرنے کا مضبوط مینڈیٹ نہیں ہے۔ چونکہ چین کے قرضہ پیکج میں معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے، لہذا پاکستان ممکنہ طور پر چین پر زیادہ انحصار کرے گا۔
پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچانے والے آئی ایم ایف کے قرضے نے معاشی تباہی کو موخر کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس وقت سے فائدہ اٹھانے اور اپنے پورے معاشی اور مالیاتی شعبہ جات میں اصلاحات کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو مالیاتی (حسنِ) انتظام، افرادی قوّت کی ترقی ، سرمایہ کاری کے فروغ، برآمدات میں تنوع اور نچلی سطح کی ادارہ جاتی اصلاحات سے آغاز کرنا چاہیئے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Gwadar, Pakistan the site of a major CPEC project via Flickr.
Image 2: Khunjerab Pass Monument via Wikimedia Commons.