Screenshot 2025-07-17 102012

 اکتوبر 2024 کے سرحدی معاہدے کے بعد سے بھارت اور چین کے مابین حالیہ مہینوں میں اعلیٰ سطح پر سفارتی معاملت کی ہلچل بھارت-چین تعلقات میں بہتری کا عندیہ  دیتی ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیر خارجہ ایس- جے شنکر  نے دو طرفہ امور پر گفت و شنید کے لیے بیجنگ کا دورہ کیا، جو پانچ سال میں ان کا (چین کا) پہلا دورہ تھا، جس کے بعد وہ علاقائی کثیر الجہتی مسائل پر گفت و شنید کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے تیانجن  روانہ ہو گئے۔ جے شنکر  نے چین کے صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات کی۔ ان کا (یہ) دورہ جون میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسات  کے (سبب کیے جانے والے) دوروں کے بعد تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی اگست کے آخر میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت بھی متوقع ہے، جو  2020 میں ہونے والی گلوان وادی کی تباہ کُن جھڑپوں اور 2019 کے بعد ے ان کا (چین کا) پہلا دورہ ہے۔ بھارت-چین تعلقات میں بظاہر اس بہتری کے باوجود  بیجنگ کے کچھ دیگر حالیہ اقدامات بھارت کو محدود کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

بیجنگ کی اقتصادی دباؤ (ڈالنے) کی حکمت عملی اور مئی 2025 کے تنازع کے دوران پاکستان کی حمایت اس امر کا اظہارہے کہ چین اقتصادی اثر و رسوخ اور (پراکسی) نیابتی تعلقات کو  بھارت پر تزویراتی غلبہ برقرار رکھنے کے لیے کس طرح ہتھیار بناتا ہے۔ نئی دہلی کے لیے  یہ متوازی مہمات چین کے ساتھ تعاون کو مشکل تر بنا سکتی ہیں۔ بھارتی پالیسی سازوں  نے حالیہ مہینوں میں معاشی ضروریات کے باعث چین کے ساتھ تعلقات کومعمول پر لانے اور جغرافیائی عدم یقینی کے اس دور میں دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم سفارتی معاملت داری کے ذریعے شتراکی بقائے باہمی کی امید کے بجائے  نئی دہلی کو بیجنگ کے بنیادی طور پر مسابقتی اندازِ نظر کو تسلیم کرلینا چاہیئے اور اقتصادی شراکت داریوں کو متنوع بنانے، متبادل  ترسیلِ رسد کے سلسلے (سپلائی چینز) بہتر بنانے اور ایک مستقل چینی چیلنج (کٹھنائی )کے لئے تیار رہنے کی کوششیں تیز کردینی چاہئیں۔

چین کااقتصادی دباؤ

پچھلے چند مہینوں میں چین کی جانب سے بھارت کے خلاف اقتصادی چالیں مجموعی دوطرفہ تعلقات کی نازک بنیادوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ مئی کے بعد سے  بھارت میں آئی فون بنانے والی کمپنی فوکس کان میں بطور انجینئرز اور ٹیکنیشنز  کام کر نے والے 300 سے زائد چینی شہریوں کو واپس بلا لیا گیا ہے۔ چینی کارکنوں کی واپسی مقامی افرادی قوت کی تربیت اور چین سے  پیداواری فنیات (مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی) کی منتقلی کو سست کر سکتی ہے۔ خبروں کے مطابق اس اقدام کا تعلق نئی چینی پالیسی سے ہے جو بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کے لیے کام کرنے والوں اور خصوصی ساز و سامان کی نقل و حرکت پر پابندی لگاتی ہے، جس کا مقصد کمپنیوں کو صنعت کی نقلِ مکانی سے روکنا ہے۔ اس مخصوص واقعے کا  اثر محدود ہوسکتا ہے، کیونکہ فوکس کان نے چینی کارکنان کی جگہ تائیوانی اور ویتنامی عملے کو بھرتی کر لیا ہے اور بھارت میں کمپنی کی کارروائیاں درست سمت میں جاری ہیں۔ تاہم  کارکنان اور ساز و سامان کی  ترسیل کےسلسلوں (سپلائی چینز ) پر چینی پابندیاں بھارتی موجودہ حکومت کے مرکزی مقصد (یعنی کہ)  پیداواری سلسلے  (اسمبلی لائنز ) کو بڑھانے اور برقیاتی  پیداوار  (الیکٹرانکس مینو فیکچرنگ)  کا ایک اہم کرداربننے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

زرعی شعبے میں چین  نے بھارت کے لیے فصل کی پیداوار بڑھانے کے لیے نہایت ضروری خصوصی کھاد کی برآمدات روک دی ہیں ۔ بھارتی کسان چینی مصنوعات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں—(چینی مصنوعات)  بھارت کی خصوصی کھاد کی درآمدات کا 80 فیصد حصہ  بنتی ہیں۔ ایک مکمل پابندی کے بجائے خبروں کے مطابق افسران بھارت کے لیے روانہ ہونے والے مال کی جانچ نہیں کر رہے ہیں، جو کسی مال کی برآمد کی منظوری کے لیے طریقِ کار کی ضرورت ہے، اس طرح انتظامی تاخیر کے ذریعے  عملی طور پر ایک  برآمدی ناکہ بندی قائم کی جا رہی ہے۔

چین کی نادر خاکی دھاتوں (رئیر ارتھ میٹلز) پر برآمدی پابندیوں نے بھارت پر بھی اثر ڈالا ہے، کیونکہ مال (کے پہنچنے) میں تاخیر آٹوموٹو (خود حرکی گاڑیوں) کی پیداوار میں خلل ڈال رہی ہے اور بھارت کی بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو  بڑے پیمانے پر (عام کرنے کی) کوششوں کو متاثر کر رہی ہے۔ جون کے اوائل میں ایک رپورٹ کے مطابق  چین نے بھارت کی طرف جانے والے مال سے متعلقہ  کم از کم دو درخواستیں مسترد کر دی ہیں اور گاڑیاں بنانے والے کارخانوں کا سامان مہینوں سے  چینی بندرگاہوں پر رُکا ہوا ہے۔ بھارتی حکومت نے بیان دیا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر چین کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے اور جون میں چینی نائب وزیر خارجہ سن وئی ڈونگ کے نئی دہلی کے دورے کے دوران اس  موضوع  پر بات چیت کی۔ جے شنکر  نے بیجنگ کے اپنے دورے کے دوران اس امر پر دوبارہ زور دیا۔ تعلقات کی ظاہری بہتری کے باوجود  یہ پیش رفت اہم شعبوں میں بھارت کی ترقی کو محدود رکھنےاور آنے والے دور میں  ممکنہ اقتصادی مبارزت طلب (چیلنجر ) کو روکنے کے  چینی  ارادے کی نمائندگی کرتی ہے۔

چین اور پاک-بھارت  تنازع

پاکستان کے ساتھ ـ’’ہر موسم کی تزویراتی تعاونی شراکت داری‘‘ کے تحت چین نےمئی کے اوائل میں بھارت کے ساتھ تنازع کے دوران پاکستان کی حمایت کی جو خاص طور پر بھارت کے لیے تشویش  کا سبب ہے کیونکہ اس سے  اسلام آباد کی  بھارت کے خلاف تزویراتی نیابت  کے لیے  بیجنگ کی ایک مستقل  یقین دہانی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس حمایت کی نوعیت اور دائرہ کار اس امر کا عندیہ دیتے ہیں کہ چین پاکستان کو بھارت کے عروج کو محدود رکھنے اور متعدد محاذوں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے ایک آلۂ ناگزیر  کے طور پر دیکھتا ہے۔اگرچہ چین نے براہ راست فوجی مداخلت سے گریز کیا تاہم اس نے پاکستان کو سفارتی، تکنیکی اور مادی مدد فراہم کی۔

چین نے تنازع کے دوران پاکستان کے ساتھ سفارتی طور پر یکجہتی کا اظہار کیا، وزیر خارجہ وانگ یی نے بیان دیا کہ چین “پاکستان کی سلامتی سے متعلقہ  جائز خدشات کو مکمل طور پر سمجھتا ہے اور پاکستان کی اپنی خودمختاری اور سلامتی سے متعلقہ مفادات کے تحفظ میں اس کی حمایت کرتا ہے۔‘‘ چینی وزارت خارجہ کے بیانات نے بھی تحمل کی اپیل کی تاہم بھارت کے فوجی اقدامات کو “افسوسناک” قرار دیا، جس نے پاکستان کے موقف کو مزید مضبوط کیا۔

فوجی محاذ پر چین پاکستان کی مسلح افواج کے لیے ایک اہم  فراہم کنندہ (سپلائر) ہے۔ پاکستانی ہتھیاروں کی درآمدات کا 81 فیصد چین سے آتا ہے اور (یہ امر بھی) اسی طرح اہم ہے کہ پاکستان کو کل چینی ہتھیاروں کی برآمدات کا 63 فیصد ملتا ہے، جو کہ  بلا مبالغہ سب سے بڑا حصہ ہے۔ یہ قریبی دفاعی شراکت داری چینی فوجی اثر و رسوخ کو مؤثر طور پر بھارت کی مغربی سرحد تک پہنچاتی ہے۔

بھارتی فوج  نے مئی 2025 کے تنازع کے دوران (چین پر) پاکستان کو چینی فوجی مدد فراہم کرنے کا بھی الزام عائد کیا ۔ بھارت کے ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے اعلانیہ کہا کہ چین نے پاکستان کو اہم بھارتی مقامات کی “براہ راست معلومات” (لائیو ان پُٹس) فراہم کیں، جو کہ بھارت کے خلاف تزویراتی فوجی معلومات کی فراہمی میں چین کی رئیل ٹائم سپورٹ سے متعلق پہلا باضابطہ ذکر ہے۔ انھوں نے مزید الزام لگایا کہ چین پاکستان کو تمام ممکنہ مدد فراہم کر رہا ہے اور یہ تنازع بیجنگ میں اس کے ہتھیاروں کے لئے، بشمول جے 10 سی جنگی طیارے کی پہلی مرتبہ فعال تصادم میں شرکت کے،  ایک تجرباتی میدان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان نے بھی اس چینی امداد کا بالواسطہ حوالہ دیا ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف نے چینی انٹیلی جنس کی حمایت کا مضمراً اعتراف کیا جب انہوں نے کہا کہ دوست ممالک کے لیے خطرات سے متعلق انٹیلی جنس (خفیہ معلومات)  کا تبادلہ کرنا عام بات ہے اور اس امر پر توجہ کی کہ پاکستان اور چین دونوں کے بھارت کے ساتھ “مسائل” ہیں۔ سابق پاکستانی وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو  نے اقوام متحدہ میں چینی سفیر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے تنازع کے دوران چینی حمایت کا دوٹوک انداز میں اظہار کیا۔

یہ تدبیرات چین کی خارجہ پالیسی کی کتابی حکمتِ عملی میں نئی نہیں ہیں۔ چین نے آسٹریلیا اور لتھیواینیا کے خلاف زیادہ واضح اقتصادی دباؤ اختیار کیا ہے۔ علاوہ ازیں چین نے روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ میں (روس) کی حمایت کی ہے— چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے مضمراً یہ عندیہ دیا کہ ماسکو کو فراہم کی جانے والی چینی حمایت واشنگٹن کو اپنی مکمل توجہ چین کی جانب کرنے سے بچانے کے لیے ہے۔ اسی طرح پاکستان کی حمایت کرنے سے بھارت اپنے پڑوس میں مشغول رہتاہے اور  (اس سے) چین-بھارت تعلقات میں موجود عدم اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔

بھارت کا تزویراتی نقطہ نظر

یہ پیش رفت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہےکہ نئی دہلی کی روایتی چین پالیسی کا طریقہ کار، جو اقتصادی تعاون کو سلامتی کے تقابل  سے الگ کرتا ہے، اب مزید قابلِ عمل نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر 2020 کے گلوان وادی کے تصادم کے بعد مقبول ہوا جب بھارت نے دو طرفہ تعلقات میں ترقی کو سرحدی معاہدے کی شرط  کے طورپر رکھا۔اس کے بعدسے اگرچہ دوطرفہ سفارتی تعلقات بحال ہو چکے ہیں اور لائن  آف ایکچوئل کنٹرول سے متعلقہ تنازعی نکات حل ہو چکے ہیں، تاہم چین اور بھارت کے تعلقات میں کوئی معنی خیز نرمی نہیں آئی۔ تمام سفارتی معاملت داری  کی کوششوں کے باوجود بھارت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ چین ان تعلقات کو بنیادی طور پر تقابلی نظر سے دیکھتا ہے۔ جواباً نئی دہلی کو اقتصادی شراکت داریوں کو وسیع تر بنانے کی کوششوں کو تیز کرنا، متبادل  ترسیلِ رسد کے سلسلوں (سپلائی چینز) کو مضبوط بنانا اور چین کے ساتھ مستقل تزویراتی مقابلے کے لئے تیار ہو جانا چاہیئے۔

ایسی کوششیں پہلے ہی سے جاری ہیں،  (جیسا کہ) بھارت اور سعودی عرب نے جولائی میں کھاد کی طویل المدت فراہمی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اس سال کے آغاز میں نیشنک کریٹیکل منرلز مشن کا اعلان کیا تاکہ بھارت کے درآمدات پر بھاری انحصار کو کم کیا جا سکے اور ملکی اور عالمی ترسیلِ رسد کے سلسلوں (سپلائی چینز) کو مضبوط بنایا جا سکے۔
اندرونِ ملک ریاستی سطح پر انضباطی (ریگولیٹری ) رکاوٹوں کو ختم کرنے پر زیادہ زور دینے سے نجی سرمایہ کاری کے لیے (بہتر) حالات پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں بھارت کی چین پالیسی کے قومی سلامتی بمقابلہ اقتصادی تحفظات پر  بہت زیادہ عوامی بحث و مباحثہ ہوا ہے۔ لیکن قومی سلامتی کونسل سیکرٹریٹ کو دیگر وزارتوں اور وزارت خارجہ کے اندرونی  دائرۂ دانش (تھنک ٹینک) برائے چین، سینٹر فار کنٹیمپورری چائنا سٹڈیز کے ساتھ مل کر بھارت میں چینی موجودگی، ترسیلِ رسد کے سلسلوں کی کمزوریوں اور مقامیت پروری (ان ڈائی جینیزیشن) یا تنوع (ڈائی ورسیفیکیشن) کی کوششوں کے لئے نجی شعبے کے ساتھ ممکنہ ہم آہنگی کا جامع حکومتی مطالعہ کرنا چاہیئے۔ متوازن شراکت داریوں کی تشکیل  اور  چینی دباؤ کے سامنے کمزوریوں کو کم کر کے ہی بھارت اپنی تزویراتی خود مختاری برقرار رکھ سکتا ہے اور ایک بڑے عالمی کردارکے طور پر اپنے عروج کو جاری رکھ سکتا ہے۔

This article is a translation. Click here to read the article in English.

***

Image 1: EAM S. Jaishankar via X

Image 2: MFA Pakistan via X

 

Share this:  

Related articles

भारत-चीन तनावों में शिथिलता की सीमाएँ Hindi & Urdu

भारत-चीन तनावों में शिथिलता की सीमाएँ

हाल के महीनों में, भारत और चीन के बीच उच्च…

آزمائش کی گھڑی میں سہ طرفیت؟ پاک-افغان محرکات اور چین کا سفارتی توڑ جوڑ Hindi & Urdu

آزمائش کی گھڑی میں سہ طرفیت؟ پاک-افغان محرکات اور چین کا سفارتی توڑ جوڑ

بیجنگ نے حال ہی میں تیانجن (چین) میں ہونے والے…

अटलांटिक पार संबंधों में दरार: भारत के लिए संभावित मार्ग Hindi & Urdu

अटलांटिक पार संबंधों में दरार: भारत के लिए संभावित मार्ग

यूएस-यूरोपीय रक्षा संबंधों ने अंतर्राष्ट्रीय सुरक्षा को बीसवीं सदी में…