جون ۲۰۲۰ میں گلوان میں ہونے والی جھڑپیں چین بھارت تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی مانند تھیں جو دونوں ریاستوں کے مابین ارتقاء پذیر حرکیات پر مسلسل چھایا ہوا ہے۔ اس کے بعد سے ہی دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بھارتی حکام کے تجزیوں میں درشتگی اتر آئی ہے۔ مارچ ۲۰۲۳ میں جی ۲۰ اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چینی ہم منصب کو بتایا کہ دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات “غیرمعمولی” ہیں۔ اس کے ایک ماہ بعد، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ سرحد پر چین کے اقدامات دونوں ریاستوں کے مابین تعلقات کی “بنیاد کی خلاف ورزی” کرتے ہیں۔ گو کہ گلوان جھڑپوں میں جس نوعیت کی پُرتشدد کارروائیاں دیکھنے کو ملی تھیں، وہ کیفیت واپس نہیں لوٹی ہے، تاہم چین نے دسمبر ۲۰۲۲ میں اروناچل پردیش میں توانگ خطے میں ایل اے سی کے مشرقی حصے کے ساتھ “یکطرفہ طور پر اسٹیٹس کو تبدیل کرنے” کی کوشش کی تھی۔
چند برس قبل تک تعلقات میں ابتری کا تصور بھی بہت مشکل تھا۔ ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۹ کے درمیان وزیراعظم مودی نے ۱۸ مواقع پر شی جن پنگ کے ہمراہ ملاقات کی تھی جس کا مقصد دونوں جانب کے عسکری اداروں کے مابین ابلاغ کو مضبوط بنانا تھا، تاکہ دسمبر ۲۰۱۷ میں ڈوکلم کے مقام پر بھارتی فوج اور پی ایل اے کے آمنے سامنے آ جانے جیسے واقعات سے گریز کیا جا سکے۔ مزید برآں، ۲۰۱۸ میں ووہان سربراہ اجلاس نے، جس کی تشہیر تعلقات کی “ترتیبِ نو” کے طور پر کی گئی تھی، یہ یقین پیدا کیا تھا کہ صحت مند تجارتی اور سرمایہ کارانہ تعلقات سیاسی تنازعوں کو حل کرنے میں ایک عمل انگیز کا کام کر سکتے ہیں۔ ۲۰۱۹ میں وزیراعظم مودی نے شی جن پنگ کو ایک غیر رسمی سربراہ اجلاس کے لیے مملاپورم، تامل ناڈو میں مدعو کیا تھا جہاں دونوں سربراہوں نے کاروباری تبادلوں میں بہتری لانے اور مصنوعات سازی میں شراکت داری قائم کرنے کا عزم کیا۔
تاہم بھارتی نقطۂ نگاہ کے مطابق چین کے ہمراہ روابط کی سنجیدہ کوششوں کا جواب اس نے ۲۰۲۰ میں گلوان میں پیٹھ میں چھرا گھونپ کر دیا۔ اب دونوں ایشیائی قوتوں کے درمیان تعلقات ایک ایسے دہانے پر ہیں کہ جہاں پر سنبھلنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
فنِ حرب میں بہتری: چین میں اندرونی سطح پر پیش رفتیں
چینی صدر شی جن پنگ مرکزی عسکری کمیشن (سی ایم سی) میں گزشتہ ایک دہائی سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں، یہی وہ ادارہ ہے کہ جو پیپلز لبریشن آرمی کی نگرانی کرتا ہے۔ اپنی قیادت کے دوران صدر شی نے جنگ کے لیے درکارحرب اور منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کو جدید ترین بناتے ہوئے پی ایل اے کی مستعدی میں اضافہ کیا ہے۔ فوجی یونٹس کی تعمیر نو اور احکامات جاری کرنے والے اداروں کی ترتیب نو کے علاوہ چین نے تزویراتی معاونتی فورس کی تخلیق کے ذریعے نئے محاذوں پر بھی لشکر کشی کی ہے جیسا کہ خلاء اور سائبر اسپیس۔ پی ایل اے نے انجینیئرنگ، ابلاغیات اور ڈرون آپریشنز میں ڈگریاں رکھنے والے یونیورسٹی کے طلباء کو اپنا ہدف بنانے کے لیے اپنی بھرتیوں کی حکمت عملیوں میں بھی مطابقت اختیار کی ہے۔ پی ایل اے میں تبدیلی کا عمل، چینی جارحیت اور اس میں کئی محاذوں پر کی جانے والی توسیع کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے، جنہیں بحیرہ مشرقی چین کے اوپر قائم ہونے والے ایک فضائی دفاعی شناختی زون کے اعلان، بحیرہ جنوبی چین کے براعظموں کے واپس حصول اور بھارت کے ساتھ واقع لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر جارحیت میں اضافے اور بنیادی ڈھانچوں میں توسیع کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
شی نے پی ایل اے اور پیپلز آرمڈ پولیس (پیپ) کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ انضمامی حکمت عملیاں ترتیب دیں اور ایک ریزرو فورس تشکیل دیں تاکہ قومی سلامتی کا تحفظ کیا جا سکے۔ ۲۰۲۲ میں، زمینی سرحد کا قانون وجود میں آیا جو سرحدوں پر سلامتی کی صورتحال میں بہتری کے لیے سویلینز سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ اس نے شہریوں کی نوآبادکاری، بھارت چین سرحد کے ساتھ ساتھ اہم بنیادی ڈھانچوں کو جدید بنانے اور سیاسی تعلیم میں بہتری پر بھی زور دیا تاکہ چینی قوم میں ایک برادری ہونے اور اطاعت کے احساس کو مضبوط کیا جا سکے۔
اسی کے ساتھ ساتھ، چین کی اندرونی پریشانیاں بھی بیرونی سطح پر مہم جوئی کے لیے حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں جو کہ کسی بھی حکمران کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ شی کو ایک سست روی کی شکار معیشت اور بیروزگاری کی ابھرتی لہر کا سامنا ہے جس کے مطابق ماہِ مئی کے دوران ۱۶ سے ۲۴ برس کے افراد میں یہ شرح 20.8 فیصد ہو گئی تھی۔ اپنے قدموں کی مضبوطی اور اپنے عہدے کو درپیش کسی بھی اندرونی آزمائش کے بارے میں شبہات دور کرنے کے لیے شی عسکری مہم جوئی کے خواہاں ہو سکتے ہیں۔ یادرہے کہ ماؤ نے اپنی تباہ کن “گریٹ لیپ فارورڈ ” نامی حکمت عملی کا سہارا لیتے ہوئے بھارت کی جانب جارحانہ رویہ اختیار کیا جس کا نقطۂ عروج ۱۹۶۲ کی جنگ تھا۔ چین میں داخلی سیاست کی عملداری مقدم ترین سمجھی جاتی ہے اور بھارت کے ہمراہ دو طرفہ تعلقات پر اس کا سایہ برقرار رہے گا۔
ہمالیہ میں بنیادی ڈھانچوں میں جدت کی دوڑ
سال ۲۰۲۳ کے دوران، چین کا دفاعی بجٹ امریکی ۲۲۵ بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جس کے نتیجے میں شی بھارت چین سرحد کے ساتھ ساتھ ایسے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے قابل ہوئے جو پی ایل اے کی تعیناتی اور اپنے قیام کی طاقت میں اضافہ کر سکے۔ اپنی سپاہ کے لیے سرحد کے قریب رہائشی کوارٹرز میں اضافے کے ساتھ چین نے حال ہی میں سنکیانگ اور تبت کو آپس میں منسلک کرنے والی ریلوے کی ایک نئی لائن پر کام شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے جو کہ ایل اے سی کے قریب سے گزرے گی اور چین کے زیرِ انتظام اکسائی چن نامی اس خطے میں سے گزرے گی کہ جس پر بھارت دعویٰ رکھتا ہے۔ چین سنکیانگ اور تبت کو آپس میں منسلک کرنے کے لیے بذریعہ سڑک ایک اور راستہ بھی تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، یہ بھی اکسائی چن کے خطے سے گزرے گا جو کہ فوجی تعیناتیوں اور اضافی فوجوں کو لانے کی اس کی قابلیت کو بہتر بنائے گا۔
بھارتی حکومت سرحد کے ساتھ ساتھ چین کی جانب سے بنیادی ڈھانچوں میں ترقی کے منصوبوں کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ ۲۰۱۳ میں اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع نے ان سہولیات کی تعریف کرتے ہوئے انہیں بھارت کے مقابلے میں بہتر قرار دیا تھا۔ روایتی طور پر نئی دہلی نے سرحد کے ساتھ ساتھ اہم سہولیات کی تعمیر سے گریز کیا ہے تاکہ ایل اے سی پر تناؤ کے شدت اختیار کرنے اور حملے کا سبب بننے والی صورتحال سے گریز کیا جا سکے۔
تاہم حالیہ برسوں نے سرحد کے ساتھ بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے حوالے سے بھارتی تزویراتی سوچ میں ارتقاء کا مشاہدہ کیا ہے۔ بھارتی تزویراتی ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ بھارتی جانب بنیادی ڈھانچوں میں اضافہ سپاہ کی نقل و حرکت میں مدد دے گا۔ صرف لداخ میں ہی، بارڈر روڈز آرگنائزیشن ۲۰۲۳ میں ۵۴ منصوبوں کی تکمیل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جو بنیادی طور پر موٹرویز اور پلوں کی تعمیر کے ہیں۔ ایجنسی نے ۲۰۲۱ اور ۲۰۲۲ کے دوران اس خطے میں اس سے ملتے جلتے ۴۵ منصوبہ مکمل کیے ہیں۔ ‘چوبند دیہات پروگرام‘ کے ذریعے بھارت چین سرحد پر موجود تقریباً ۳۰۰۰ دیہاتوں کو بہتر سڑکوں، توانائی کے منصوبوں اور موبائل فون کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
سرحد کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچوں کو بہتر بنانے کی یہ پیش رفت، چین کی جانب سے بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش، جس کے بارے میں عوامی جمہوریہ کا دعویٰ ہے کہ وہ تبت کا حصہ ہے، اس کے علاقوں کے نام تبدیل کرنے کے فوری بعد سامنے آئی ہے۔ اب یہ حقیقت تو آنے والے برسوں میں ہی واضح ہو گی کہ آیا ان علاقوں میں معیارِ زندگی میں بہتری بھارتی باشندوں کو اندرون کے علاقوں میں ہجرت کرنے کے بجائے سرحدی علاقوں میں ہی قیام کرنے پر قائل اور بھارتی سرحدی سلامتی اور علاقائی سالمیت میں اضافہ کر سکی یا نہیں۔
ردعمل میں بھارتی رفتار میں اضافہ
سرحد پر چین کی جنگجویانہ روش اور ساتھ ہی ساتھ بنیادی ڈھانچوں کے ڈھیر لگانے کا عمل اس کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے، جس پر بھارت نے متعدد اطوار سے ردعمل دیا ہے۔ ۲۰۲۰ کی گلوان جھڑپوں کے بعد سے، نئی دہلی نے لداخ میں سپاہ کی تعیناتیوں کو بڑھا دیا ہے اور کارروائیوں کے لیے سازوسامان میں اضافہ کیا ہے۔ میکانکی اور مسلح رجمنٹس کی تعداد تقریباً ۵ سے بڑھا کر ۱۲ کی جا چکی ہے اور رہائشی کوارٹرز، فوجی چوکیوں، اور اسلحے کی پوزیشن کے ساتھ ساتھ نگرانی اور جاسوسی کے لیے جدید سازوسامان میں اضافہ کیا گیا ہے۔
بھارت نے بھارتی آرمی کے اندر موجود فیصلہ ساز اداروں میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے بھی ردعمل دیا ہے۔ ۲۰۱۹ میں، مودی حکومت نے مسلح افواج کو جدید ترین بنانے کی غرض سے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) نامی عہدہ متعارف کروانے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے ساتھ محکمہ برائے عسکری امور تخلیق کیا گیا تھا تاکہ تینوں طرز کی خدمات کے انضمام اور سول عسکری تعاون کو بہتر بنانے میں مدد کی جا سکے۔ یہ اہم تبدیلیاں متعارف کروائے جانے کے تقریباً چار برس کے بعد آخر کار مشترکہ کمان کا ڈھانچہ حرکت میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ مشترکہ کمان کے ذریعے، عسکری قوت کی مختلف شاخیں متحدہ کمان کے ڈھانچے کے تحت کارروائی کرتی ہیں جو عسکری صلاحیتوں کو، خاص کر نئی توانائی کے حامل چینی خطرے کی موجودگی میں یکجا کرتا ہے تاکہ جنگ لڑنے کی قابلیتوں میں اضافہ کیا جا سکے۔
مفکرین یہ بحث کرتے ہیں کہ روس اور چین کا ایک دوسرے کے قریب آنا، بیجنگ کے ہمراہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں بھارت کے لیے آزمائش ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، قومی سلامتی کے میدان میں ان آزمائشوں کے سر اٹھانے کے ساتھ ساتھ مودی حکومت مقامی سطح کی ایک دفاعی صنعتی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۲۰۱۸ اور ۲۰۲۲ کے درمیان بھارت اسلحے کے سب سے بڑے درآمدکنندگان میں سے ایک تھا، اور بھارت کی موجودہ دفاعی سرگرمیاں مشترکہ پیداوار اور ٹیکنالوجی کے انتقال پر زور دیتی ہیں۔
بھارت نے امریکہ اور فرانس جیسے ممالک کے ہمراہ دفاعی تعاون میں اضافہ کیا ہے تاکہ اپنی سرحدوں اور انڈوپیسفک خطے میں چین کا مقابلہ کر سکے۔ جنرل الیکٹرک ایرو اسپیس کے ہمراہ ۸۰ فیصد ٹیکنالوجی کے انتقال کے ساتھ لڑاکا طیاروں کے لیے انجن کی تیاری کے معاہدے پر دستخط کے فوری بعد، بھارت نے جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کی مشترکہ تیاری کے لیے فرانس کے ہمراہ بھی ایک معاہدے کو حتمی شکل دی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے فرانس کے دورے سے قبل، بھارت نے اضافی ۲۶ رافیل طیاروں اور تین عدد اسکورپین کلاس کی آبدوزوں کی خریداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا تھا۔ یہ پیش رفتیں انڈوپیسیفک خطے میں چین کے لیے اپنے غلبے کو برقرار رکھنا مزید مشکل کر دیں گی۔
جون میں امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے مودی کے خطاب میں دو اہم موضوعات نے بھارت کی اس منصوبہ بندی پر روشنی ڈالی کہ جس کے ذریعے سے وہ چینی آزمائش سے نمٹے گا۔ پہلے موقع پر انہوں نے ایک آزاد، مداخلتوں سے پاک اور جامع شمولیت کے حامل انڈوپیسیفک کا تصور پیش کرتے ہوئے “جبر اور جنگ کے کے گہرے بادلوں” سے ڈراوا دیا۔ دوئم انہوں نے امریکہ کے ہمراہ شراکت داری کے ذریعے عالمی منظرنامے میں بھارت کی جگہ کے حق میں دلیل پیش کی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ چین ہی وہ محرک قوت ہے کہ جس نے امریکہ اور بھارت کو اکٹھا کیا ہے۔
امریکہ کے ہمراہ عسکری معلومات، لاجسٹکس، مطابقت اور سلامتی کے شعبوں میں چار بنیادی معاہدے طے کرنے کے ذریعے دفاعی تعاون کو مضبوط بنا کر، “تاریخی ہچکچاہٹ” کو دور کرتے ہوئے، بھارت ان تعلقات کو ایک نئی سطح تک لے جانا چاہتا ہے۔ بھارت امریکہ تعاون کے شعبوں کا بغور جائزہ لیں تو ان میں شامل ہیں: نیم موصل کی پیداوار، خلائی تسخیر اور جیٹ انجنز کی مشترکہ تیاری کا معاہدہ۔ بھارت، چینی آزمائش سے نمٹنے کے لیے ترکش میں موجود ٹیکنالوجی کے ہتھیار کو امریکی مہارتوں کے ساتھ تیار کرنا چاہتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بنیادوں کو عسکری سازوسامان کی مقامی سطح پر تیاری اور ان صلاحیتوں میں اضافے کے لیے نجی شعبے کی وسیع پیمانے پر شمولیت کے ذریعے بھی ٹھوس بنایا جا رہا ہے۔ بھارت کا تیار کردہ پہلا عسکری ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ سی ۲۹۵ سال ۲۰۲۶ میں اپنی پہلی اڑان بھرنے کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب بھارتی معیشت، چین کے مقابلے میں زیادہ عہدساز اور زیادہ باصلاحیت دکھائی دے رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک مالی سال ۲۰۲۴ کے لیے بھارت کے ۶.۷ فیصد جی ڈی پی کا موازنہ چین کے ۴.۵ فیصد جی ڈی پی سے کر رہا ہے۔ بھارت میں سیاسی میدان میں وسیع تر استحکام موجود ہے جس کا نتیجہ عسکری جدت اور امریکہ و فرانس جیسے مضبوط شراکت داروں کے ہمراہ راہ و رسم بڑھانے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنا اگرچہ قبل از وقت ہے لیکن بھارت یہ ظاہر کر چکا ہے کہ وہ چین سے مقابلے بازی کے صبرآزما مرحلے کے لیے تیار ہونے کی قابلیت رکھتا ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: India-China Border via Wikimedia Commons
Image 2: Nathu-La India China Border via Wikimedia Commons