بھارتی وزیر برائے امور خارجہ جے شنکر نے حال ہی میں چوتھے رام ناتھ گوئنکا لیکچرسے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کثیرالقطبی ایشیا اور کثیرالقطبی دنیا کے تصور کو یقینی بنانے کیلئے ”ضروری ہے کہ بھارت مختلف ایجنڈوں پر متعدد شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کی سوچ کو اپنائے۔“ یہ بیان، حالیہ برسوں کے دوران بھارتی خارجہ پالیسی میں کثیرالقومی وابستگی کی جانب فیصلہ کن جھکاؤ کا بہترین خلاصہ پیش کرتا ہے۔ بقول جے شنکر یہ نئی پالیسی ”ماضی کی اجتناب یا غیروابستگی کی پالیسی کے مقابلے میں زیادہ توانائی سے بھرپور اور زیادہ شرکت دار ہے۔“ نریندر مودی کی قیادت میں رکاوٹوں سے ماوراء ملکی ترقی کیلئے انتہائی سازگار ماحول پیدا کرنے کی جستجو اور بھارت کواہم قوت بنانے کے بلند عزم کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نئی دہلی ملک کے اندر اور باہر سے ہر ممکنہ حد تک دستیاب وسائل بروئے کار لائے۔ اس کیلئے ہنرمند سفارت کاری عین ضروری ہے، تاکہ متعدد حصہ داروں کے ساتھ روابط کے ذریعے بھارتی قومی مفاد کے موافق نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ یوں، موجودہ کثیرالقطبی عالمی نظام کی بساط پر بھارتی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کیلئے کثیرالقومی وابستگی کی پالیسی ہی ترجیح دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ایسی پالیسی کے فوائد پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتے، اس لئے ان کی جانچ کی جانی چاہئے۔ گزشتہ برس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ شراکت داروں کی صفوں کو متوازن رکھنے کی مودی حکومت کی کوشش کسی حد تک کامیاب رہی۔ البتہ ۲۰۲۰ میں داخل ہوتے ہوئے نئی دہلی کو یہ غور کرنا چاہئے کہ ایسی حکمت عملی کچھ مشکلیں اپنے ہمراہ لاتی ہے اور اس کیلئے لازم ہے کہ بھارتی کمزوریوں کی شناخت کرلی جائے۔
قریبی ہمسایہ ممالک سے کثیر القومی وابستگی
قریبی ہمسایہ ممالک کے حوالے سے بھارت کی کثیرالقومی وابستگی کی پالیسی کیلئے چین سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی معاشی نمو چین کے ساتھ نتھی ہے، تاہم بیجنگ ہی نئی دہلی میں سیکیورٹی کے مسائل کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ بھارت کے لئے چین کی طرف سے یہ چیلنج نہ صرف اس سبب پیدا ہوتا ہے کی بیجنگ کی صلاحیتیں نئی دہلی کے موازنے میں کہیں بہتر ہیں، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ بھارت کے تقریباً تمام ہی ہمسایہ ممالک کے ساتھ چین ترقیاتی کاموں اور سیکیورٹی کے ضمن میں نمایاں شراکت دار ہے۔ یوں بھارت اور چین کے مابین مثبت روابط کو برقرار رکھنے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے ہمسایوں کو چینی مدار میں مزید گہرائی میں اترنے سے باز رکھنا، نئی دہلی کیلئے ایک آزمائش ہے جو ممکنہ طور پر خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو ۲۰۲۰ میں الجھائے رکھے گی۔
۲۰۱۹ میں مودی حکومت نے بیجنگ کے ساتھ مذاکرات اور تکنیکی تعاون کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسایہ ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دینے کا عزم کیا تھا۔ اس کے نتائج ملے جلے تھے۔ بھارت کی کچھ کامیابیوں میں مالدیپ اور سری لنکا سے فوری رابطہ قابل ذکر ہے، جس کے تحت وزیراعظم مودی نے اپنی دوسری مدت کیلئے پہلے سرکاری دورے کے طور پر مالے اور کولمبو کا دورہ کیا تاکہ چین کے اثر سے باہر آنے والے ان ممالک سے تعلقات کو دوبارہ مستحکم کیا جاسکے، نیز خلیج بنگال تکنیکی تعاون ( بمسٹیک) ممالک کے مابین زیادہ متواتر اور بامعنی روابط پر زور دیا۔ بھارت اور چین کی جانب سے افغان سفیروں کی مشترکہ تربیت بھی کثیرالقومی وابستگی پالیسی کی ایک فتح قرار دی جاسکتی ہے۔ کثیرالقومی وابستگی کا ایک کلیدی پہلو یہ امر یقینی بنانا ہوتا ہے کہ ایک ملک سے تعلقات کسی دوسرے ملک سے تعلقات پر منفی اثرات مرتب نہ کریں۔ تاہم اس پالیسی میں ایک سقم نئی دہلی کے خود کو ”جامع علاقائی شراکت داری تنظیم“ سے باہر رکھنے کے فیصلے کی صورت میں پیدا ہوئی۔ بھارت نے یہ فیصلہ سستی چینی مصنوعات کا ڈھیر لگنے کے خدشات کے پیش نظر کیا، مگر اس پر ”آسیان“ ممالک نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
لہذا، ۲۰۲۰ اور آنے والے برسوں میں بھارت کو اس معاشی اور تزویراتی میدان جس میں وہ کام کررہا ہے، پر گہری نگاہ رکھنے کے علاوہ کثیرالقومی وابستگی کے ہمراہ آنے والے سمجھوتوں کے ادراک کیلئے سمجھداری سے کام لینا ہوگا۔ گو کہ بھارتی وزیراعظم اور چینی صدر کے مابین دوسری سالانہ غیر رسمی ملاقات ( دوسری ملاقات مملاپورم، بھارت میں اکتوبر ۲۰۱۹ میں منعقد ہوئی تھی) سے یہ ظاہرہوا ہے کہ دونوں فریق تعلقات میں زوال کا سبب بننے والی کسی بھی رکاوٹ کو دور رکھنے میں سنجیدہ اور تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح پر رکھنا چاہتے ہیں، تاہم بھارت کو چین کے ساتھ چند ناقابل تلافی اختلافات سے نمٹنے کی تیاری رکھنا ہوگی؛ ان اختلافات میں تجارتی خسارہ اور سرحدی تنازعہ شامل ہیں۔ دریں اثناء، بھارت کیلئے یہ موثر ہوگا کہ اگر وہ چین کے مقابلے میں اپنی صلاحیتوں میں کمی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ خطے میں خود کو ممتاز بنانے والی اپنی صلاحیتوں کو پہچانے، خاص کر ایسے میں کہ جب نئی دہلی کے چھوٹے پڑوسی ممالک بھارت اور چین کو ایک دوسرے کیخلاف استعمال کرنے کی مفاد پرست سیاست کے کھیل میں طاق ہوں۔ چنانچہ، بھارت کو یہ سوچنا ہوگا کہ خطے میں اس کی کثیرالقومی وابستگی کی پالیسی کا حتمی ہدف محض بڑے پیمانے پر چینی اثرورسوخ کو ختم کرنا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان پہلوؤں پر غور بھی ہونا چاہیئے جن میں یہ اپنے پڑوسیوں کو وہ کچھ دے سکے جو بیجنگ یا تو نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔
انڈوپیسیفک خطے میں کثیرالقومی وابستگی
انڈوپیسیفک وہ اصل جغرافیائی خطہ ہے جہاں بھارت کی کثیرالقومی وابستگی کی پالیسی عملی طور پر دیکھی جاسکے گی۔ مگر یہاں بھی چین بھارتی کوششوں کو پیچیدہ بناتا ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے عالمی معاشی نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر اتفاق پائے جانے کے باوجود بھی اس سے متعلقہ اصولوں پر دونوں ممالک میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں، جیسا کہ نقل و حرکت کی آزادی، اور انڈو پیسیفک خطے میں قوانین پر مبنی نظام کو برقرار رکھنا۔ اس پس منظر میں، امریکہ اور بھارت اور دیگر ممالک جیسا کہ جاپان اور آسٹریلیہ کے درمیان عالمی روایات کو برقرار رکھنے اور چینی عروج کا توڑ کرنے کیلئے شراکت داری کے قیام کیلئے وسیع تر تزویراتی اتحاد عین ضرورت بن جاتا ہے۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے بیچ ایک نئی بڑی قوت کے طور پر ابھرنے کیلئے انتہائی مشاق سفارت کارانہ صلاحیتیں درکار ہوں گی تاکہ ایسے مواقعوں سے ہر ممکن حد تک فائدہ اٹھایا جاسکے جو نئی دہلی کے قابو سے باہر ہوں۔
۲۰۱۹ کے دوران، بھارت کی جانب سے کثیرالقومی وابستگی کے ذریعے سے اپنے لئے امکانات میں اضافے کی کوششیں ”چار فریقی سیکیورٹی انیشی ایٹو“ ( بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل اتحاد) کو وزرائے خارجہ کی سطح تک بلند کرنے، امریکہ کے ہمراہ ”ٹائیگر ٹرائمف“ نامی تینوں افواج پر مشتمل فوجی مشقوں اورجاپان کے ساتھ پہلی مرتبہ وزارت خارجہ و دفاع کی سطح پر دوطرفہ مذاکرات کی صورت میں سامنے آئیں۔ تاہم اگر امریکہ بھارت روابط کا بنیادی مقصد واشنگٹن کی جانب سے نئی دہلی کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا سمجھا جائے تو سال ۲۰۱۹ میں قابل بیان کچھ بھی نہیں رہا؛ دفاع کے شعبے میں کوئی اہم معاہدہ ٹھوس شکل اختیار نہیں کرسکا۔ یہ دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں مشترکہ پیداوار کے حوالے سے ایک دھچکا تھا، جبکہ کامرس اور تجارت کے شعبے میں موجود اختلافات پرمرکوز توجہ تعلقات کے دیگر پہلوؤں پر چھائی رہی۔
بھارت، روس اور امریکی تکون کی حرکیات کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نئی دہلی کا روسی ساختہ ایس-۴۰۰ میزائل ڈیفنس سسٹم خریدلینا اور اس ضمن میں واشنگٹن کو کوئی منفی ردعمل دینے سے باز رکھنا دراصل ۲۰۱۹ کے دوران بھارت کی کثیرالقومی وابستگی پالیسی پر کامیاب عمل درآمد کی ایک مثال ہے۔ ابھرتے ہوئے چین روس تزویراتی اتحاد سے باخبرنئی دہلی نے روسی علاقے فار ایسٹ میں ترقیاتی کاموں اور وزیراعظم مودی کی ولادیوسٹوک میں فار ایسٹرن اکنامک فورم میں شرکت کے ذریعے سے ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے۔ نئی دہلی، کثیرالفریقی گروہوں، جیسا کہ ایک جانب برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ کے مشترکہ گروہ شنگھائی تعاون تنظیم، روس بھارت چینی سہہ فریقی باہمی تعاون جبکہ دوسری جانب جاپان امریکہ، بھارت پر مشتمل سہہ فریقی کواڈ اور جی-۲۰ وغیرہ میں بھی اپنے مفادات کو نمایاں کرنے کے ذریعے سے ان گروہوں میں خود کو متوازن رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
بھارت کیلئے تاہم یہ امر ذہن نشین رکھنا اہم ہوگا کہ گردش زمانہ ایسی ہوسکتی ہے کہ جب چین- روس اور امریکہ-چین تعلقات اسے آزمائش میں ڈال دیں یا بھارتی خارجہ پالیسی کو علاقائی اور عالمی سطح پر آگے بڑھانے کے حوالے سے کسی انتخاب پر مجبور کردے۔ اس کی بہترین مثالیں امریکہ- چین تجارتی جنگ ہے جس میں بھارتی مفادات بھی داؤ پر ہیں، تاہم اس کا کردار اتنا بڑا نہیں کہ وہ اس کے نتائج کو ترتیب دے سکے، یا پھر چین کی ہواوے کمپنی کی بھارت میں ”5۔ جی“ کا تجربہ کرنے کی خواہش اوراسے اجازت نہ دینے کیلئے بھارت سے امریکی درخواست ہیں۔
۲۰۲۰ اور اس کے بعد آنے والے وقت پر نظر
مجموعی طور پر، گزشتہ برس میں نئی دہلی نے اپنے مفادات کے تحفظ اور نقصانات کو کم سے کم رکھنے کیلئے کلیدی علاقائی اور عالمی مہروں کے ساتھ روابط کو قائم رکھنے کے ضمن میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ تاہم آنے والے برسوں میں اس پیش رفت کو برقرار رکھنے کیلئے کثیر مقدار میں معاشی سرمایہ کاری اور سفارتی وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت ہوگی، جن کی فی الوقت بھارت کو کمی درپیش ہے۔ یوں ہوسکتا ہے کہ نئی دہلی کو اپنے چادر دیکھ کر پاوؤں پھیلانا پڑیں اور اپنے عزائم کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کرنا پڑے۔ اس پر یوں عمل کیا جاسکتا ہے کہ بھارت اپنے مرکزی مفادات کے تحفظ اور ان کے فروغ کے اعتبار سے زیادہ اہم خطوں اور شراکت داروں کی ترجیحی بنیادوں پر شناخت کرے۔ مثال کے طور پر نئی دہلی، انڈو پیسیفک کو مغربی بحر ہند اور افریقہ تک وسعت دینے کا تصور رکھتا ہے لیکن اپنی سرگرمیوں کو اس قدر وسعت دینے سے قریبی ہمسایوں سے اسکے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں اس خطے میں اسکی سنجیدہ سرگرمیاں التوا کا شکار ہوسکتی ہیں۔ ایک مسلسل نموپذیر نوعیت کے عالمی نظام میں، حقیقت پسندانہ بھارتی خارجہ پالیسی کو اپنی حدود سے باخبر اور مواقع کے ادراک پر مبنی ہونا چاہئے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: MEA India via Twitter
Image 2: Donald Trump via Twitter