ایس اے وی کے ایڈیٹرز آکریتی واسو دیوا، اور ایملی ٹالو کے ساتھ نئی دہلی میں انٹرویو میں ڈاکٹر ہیپی مون جیکب ـــ جو کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سٹڈیز سکول میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں نے پاک بھارت تعلقات، لائن آف کنٹرول اور ٹریک-ٹو ڈائیلاگ کی افادیت پر تبصرہ کیا۔ ڈاکٹر جیکب دی وائر کے ساتھ نیشنل سکیورٹی کنورسیشن کے نام سے ایک ویڈیو سیریز کرتے ہیں اور انڈوپاک کانفلیکٹ مانیٹر ویب سائٹ پر پاک بھارت تعلقات سے متعلق آن لائن ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔انکی کتاب ‘لائن آف کنٹرول: ٹریولنگ وِد انڈین اینڈ پاکستانی آرمیز’ نومبر ۲۰۱۸ میں پینگوئین رینڈم ہاؤس سے شائع ہو جائے گی۔ ان کی دوسری کتاب ‘لائن آن فائر : سیز فائر وائلیشنز اینڈ انڈیا پاکستان ایسکیلشن ڈائنامکس ‘ ۲۰۱۹ میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس شائع کرے گی۔
پاک بھارت تعلق سے متعلق تبصرہ؛
جب ہم ۲۰۱۹ کے بھارتی عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں تو آپ کے خیال میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کیسے آ سکتی ہے؟
ہمارے پاس ایک صورتحال ہے جس میں ایک طرف انتخابات ہو چکے ہیں اور حکومت بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف جلد انتخابات میں جائیں گے۔تب تک حالات میں بہتری کا سوچنا قبل از وقت ہو گا۔حال ہی میں پاک بھارت تعلقات میں سرد مہری دور کرنے کی کوششیں ہوئیں ہیں اور یہ بات نیوریاک ٹائمز میں لکھے گئے ایک مضمون میں بھی نوٹ کی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جیتنے کے بعد کی تقریر میں بھی خود اس کا ذکر کیا۔ داراصل جنرل باجوہ نے اپنے ـــمحض نام کے ــــ’باجوہ ڈاکٹرائن’ میں خوشحالی کے لئے امن کی اہمیت کا ذکر کیا اور یہ اہمیت صرف بھارت کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے داخلی طور پر بھی ہے۔
پاکستان کی طرف سے مثبت چیزیں سامنے آتی رہی ہیں اگرچہ بھارت کہے گا کہ ان میں کشمیر معاملے کو شامل کیا گیا ہے۔لیکن میں اس پر پاکستان کو الزام نہیں دوں گا کیونکہ کشمیر دونوں ملکوں کے بیچ تنازعے کی وجہ رہا ہے اور کوئی بھی پاکستانی لیڈر ہو اسے کشمیر کا ذکر ضرور کرنا پڑے گا۔لیکن جو بھی ہے نئے انتخابات اور حکومت کے قائم ہو جانے تک، میں اس صورتحال میں کوئی بہتری نہیں دیکھتا۔ نئی آنے والی حکومت کی وضع قطع سے یہ واضح ہو گا کہ پاکستان کے بارے میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اقوامِ متحدہ اجلاس کے سائیڈ لائن پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کو منسوخ کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے،عمران خان چونکہ ابھی ابھی تازہ مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں اسلئے بات چیت چاہتے ہیں جبکہ نریندر مودی کو تازہ مینڈیٹ چاہئیےہے اس لئے وہ کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے ساتھ خارجہ پالیسی کی کامیابی مودی کے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں کرے گی تاہم خارجہ پالیسی کی ناکامی ووٹ بینک پر اثر ضرور ڈالے گی۔
آپ پاکستان اور بھارت کے بیچ ‘نظام کی عدم مطابقت’ کو کیسے بیان کریں گے جیسا کہ نیوریاک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے؟کیا ایسا تو نہیں کہ چونکہ پاکستان میں فوج کی برتری اور بھارت میں سویلین برتری بات چیت کے عمل کو متاثر کرتی ہے؟
بھارت اور دنیا میں بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان چونکہ فوج کی بدولت سامنے آئے ہیں اسلئے وہ فوج کے ہاتھوں ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اسلئے ان کا کہنا ہے کہ ایسی کٹھ پتلی سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
میں اس کو مختلف طرح سے دیکھتا ہوں۔ میں اس کو ایسے کہوں گا کہ آج کل پاکستان میں فوجی اور سیاسی طور پر جو ایک اتفاق پایا جا رہا ہے تو بھارت کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہئیے کہ ایسی صورت میں وہ طاقت کے اصل مدار سے ہی بات چیت کررہا ہو گا۔اگر آپ اسلام آباد سے بات چیت کر رہے ہیں تو راولپنڈی مداخلت نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت دونوں کے بیچ اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔اس طرح اگر نئی دہلی راولپنڈی کو کوئی پیغام بھیجنا چاہتا ہے تو وہ پیغام اسلام آباد میں گُمُ نہیں ہو جائے گا۔ تو اس لئے میرے خیال میں ‘نظام کی عدم مطابقت تکنیکی طور پردرست ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاملے کا کوئی حل ہی نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس کا (آج کل)اتفاقِ رائے بھارت کے لئے پاکستان سے بات چیت کرنے کے لئے اچھا ہے۔
عمومی طور پر جب آپ پاک بھارت تعلقات کی بات کرتے ہیں تو بہت سارے لوگ یہ کہیں گے کہ دونوں کے بیچ مسائل کی لمبی تاریخ کی بدولت کوئی ایک اضافی بنیاد ہونی چاہئیے جس سے تعلق کو آگے بڑھایا جاسکے۔اور پھر اسی بنیاد پر تصفیہ طلب مسائل پر مزید بات چیت ہو سکے۔ تو ایسے کون سے چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں؟
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ سیز فائر کی خلاف ورزیوں، دہشت گرد حملوں اور لفظی جنگ کے باوجود لائن آف کنٹرول پر علاقائی تجارت جاری رہی۔جموں اورکشمیر کے دونوں اطراف کے باسیوں کےلئے ویزہ سروس بھی جاری رہی۔ تو میرےخیال میں دونوں اطراف کو تجارت اور سفر کو بڑھانا چاہئے، لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے اقدامات کو بھی بڑھانا چاہئے اور پھر اس طرح آگے چلنا چاہئے۔ پھر جب نئی دہلی میں نئی حکومت آ چکے تو اسے تجارت پر بات چیت کا سوچنا چاہئیے اور پھر دیگر متنازعہ معاملات پر۔ اسکے بعد بڑے تنازعات جیسے کشمیر کو ہاتھ ڈالنا چاہئیے۔
جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر تبصرہ
۲۰۱۷ میں یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) کی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر رپوٹ میں آپ نے لکھا کہ ” جنگ بندی کی خلاف ورزیاں عمومی طور پر باقاعاعدہ منصوبہ بندی سے، کسی خاص مقصد کےلئے، فوج کی اعلیٰ کمانڈ یا سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے منظور شدہ نہیں ہوتیں بلکہ فرنٹ لائن کی صورتحال کے مطابق ہوتی ہیں“۔اس کا مطلب آپ اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کچھ علاقائی سطح کے عسکری محرکات سرحدی فائرنگ کا نتیجہ بنتے ہیں۔ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟
روائتی طور پر بھارت کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں اسلئے ہوتی ہیں کیونکہ پاکستان جموں اور کشمیر میں دہشت گردوں کے ذریعے مداخلت کرتا ہےاور پھر ان دہشت گردوں کےلئے کوَر اَپ فائرنگ کرتا ہے جس کے نتیجے میں بھارت فوج بھی اپنا ردِ عمل دیتی ہے۔ یو ایس آئی پی کے پروجیکٹ اور اپنی آنے والی کتاب میں ،میں نے پاکستان اور بھارت کے ۸۰ سے ۸۵ آفیسرز کا انٹرویو کیا جن میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ دونوں شامل تھے اور ۳۰ کے لگ بھگ پاکستانی تھے۔ میں نے لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف گزشتہ دو برسوں میں سفر بھی کیا ہے اور میری میزبانی پاکستانی اور بھارتی افواج نے کی ہے ۔ میں نے بھارتی علاقے میں بارڈر سکیورٹی فورس کے ساتھ بھی سفر کیا ہے۔
کسی قسم کی کوئی لائن آف کنٹرول نہیں ہے یہ بس ایک خیال ہے۔لوگ دونوں اطراف آر پار جاتے ہیں، پاکستانی گاؤں کے باسی زیرو لائن کے پاس تک رہتے ہیں لیکن بھارتی ایسا نہیں کرتے۔ بعض دفعہ تو فوجی بھی اپنا علاقہ بھولتے ہوئے دوسری طرف جا نکلتے ہیں اور اس طرح کے محرکات جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا باعث بنتے ہیں۔
ہیپی مون جیکب کا پاک بھارت تعلقات، لائن آف کنٹرول اور ٹریک-ٹو ڈائیلاگ پر تبصرہ
اسی رپورٹ میں آپکا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں پاک بھارت تعلقات میں نرمی اور حالات میں سخت کشیدگی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔اس کشیدگی کے بڑھنے کے کیا خطرات ہو سکتے ہیں اور ایل او سی پر کم شدت کی فائرنگ کیسے بے قابو ہو سکتی ہے؟
میں نے اپنی کتاب کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت کی کشیدگی، سفارتی، عسکری اور سیاسی بد مزگی کے ۲۰۱۷-۲۰۱۲ سے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔میں نے اسی عرصے کے دوران جنگ بندی کے خلاف ورزیوں کے ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا اور پھر دونوں کا موازنہ کیا۔وہاں سے میں نے دیکھا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی نے لگ بھگ ۹ سے ۱۰ بار دونوں ملکوں کے بیچ حالات انتہائی کشیدہ کر دئے۔ تو یہ بتانے کےلئے میرے پاس ڈیٹا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں، دیگر مسئلے پیدا کرنے والے معاملات سے مبرا،ــــ نے دونوں ملکوں کے بیچ کشیدگی کو بڑھایا۔
جب جنگ بندی کی خلاف ورزیاں اور دہشت گرد حملے بیک وقت جنم لیتے ہیں اور ایسا ہو بھی سکتا ہے یا پھر دہشت گرد حملوں کے بعد ہوتی ہیں تو خلاف ورزیوں کے زیادہ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ایک اور طرح سے دیکھیں، ایک طرف خلاف ورزی ہوتی ہے اور دوسری طرف دہشت گرد حملہ ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان اور بھارت کے بیچ کشیدگی کے خدوخال کو بڑھا دیتا ہے۔مزید اہم یہ ہے کہ آجکل دونوں ملکوں کے متحرک میڈیا کی وجہ سے جو کچھ لائن آف کنٹرول پر رونما ہوتا ہے وہ سرحد تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ واقعات ٹی وی سکرینوں کی زینت بن جاتے ہیں۔ واقعات کی خبر پھیل جاتی ہے، لوگ تبصرے شروع کر دیتے ہیں اور سیاسی و عسکری قیادت پر جوابی وار کرنے کےلئے دباؤ بڑھ جاتا ہے اور پھر وہ اس صورتحال میں غیر مدد گار بیانیہ میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جنگ بندی کو تحریری شکل نہیں دی گئی ہے۔ابھی تک اس پر عمل محض ۲۰۰۳ میں پاکستانی و بھارتی ڈی جی ایم اوز کی ٹیلیفون پر ہونے والی بات ہی ہے۔آپ ۱۱۲۵ کلومیٹر طویل بارڈر کو افرادی قوت سے لیس نہیں کر سکتے وہ بھی ایک فون کال کی بنیاد پر۔ آپکے پاس اصول، ضوابط اور قوانین ہونے چاہئیں تا کہ معاملات کو ترتیب دی جا سکے۔
ٹریک ٹو سفارت کاری پر تبصرہ
آپ پاکستان اور بھارت کے چاؤپھار یا ڈائیلاگ، پگ واش پاک بھارت ڈائیلاگ اور جوہری تعلقات پر اوٹاوا ڈائیلاگ، سمیت مزید ٹریک ٹو سفارت کاری میں بھی ملوث رہے ہیں، جو دونوں ملکوں کے سابقہ سول و عسکری ماہرین کو تعاون کی نئی راہوں کی طرف لے کر آئے۔ آپکے خیال میں ٹریک ٹو سفارت کاری کا کیا استعمال ہے اور یہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں کیسے مدد گار ثابت ہو سکتی ہے؟
چاؤپھاریا ڈائیلاگ ۲۰۰۹ میں ممبئی حملوں کے بعد شروع ہوا تھا جب دونوں حکومتیں ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر رہی تھیں۔ دوطرفہ تعلق میں مکمل قطع تعلقی تھی۔ہم نے نئی دہلی میں یہ منصوبہ برطانوی ہائی کمیشن کے ساتھ شروع کیا تھا تاکہ پاکستانی و بھارتی انٹر لوکیٹرز کو یکجا کیا جا سکے۔ دس سال میں ہم ۲۵ دفعہ مل چکے ہیں اور اس دوران سیاستدانوں، سول و عسکری عہدیداروں، سول سوسائٹی اداکاروں اور صحافیوں کو اکٹھا کر چکے ہیں۔ وہ یہاں میٹنگز میں چاٹم ہاؤس رولز، خاص ایشوز کو بیان کرنے، دوسری طرف کے حالات کو پرکھنے آتے ہیں اور پھر اپنے ملک لوٹ کر وہاں بتایا کہ کئی طرح کےسٹیک ہولڈرز کو (ان ڈائیلاگز میں) کیا بتایا گیا۔میڈیا میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی وجہ سے دونوں اطراف کے بااثر افراد کو ایسے فورمز میں جانا چاہئے تاکہ پتا چلایا جائے اصل میں ہو کیا رہا ہے اور آگے کا راستہ کیا ہے۔
ایک اور کام جو یہ فورمز کرتےہیں وہ یہ ہے کہ حکومت کےلئے کشیدگی کے تدارک کےلئے مشورے/سفارشات جمع رکھتے ہیں تا کہ پھر حکومت ان مشوروں/سفارشات میں سے مناسب سفارش کو درست موقع پر اٹھا کر نافذ کر سکے۔مثال کے طور پر جو مذاکرہ ہم لائن آف کنٹرول سے متعلق کر رہے ہیں یا پھر یہ مذاکرہ کے دونوں ملکوں کے بیچ تجارت کیسے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔میں اس بات پر قوی یقین رکھتا ہوں کہ حکومتیں ہر طرح کی سمجھداری سے لیس نہیں ہوتیں بلکہ مسائل کے حل کی تلاش میں ہوتی ہیں۔اس ٹریک ٹو سفارت کاری کی وجہ سے لوگ مسئلے کا حل تیار رکھتے ہیں اور دوسر ی طرف کا رویہ بھانپتے ہوئے پھر اس حل کو حکومت کو بتلاتے ہیں تاکہ حکومت کے متعلقہ ادارے اور شعبے مناسب وقت پر بتائے گئے حل کو استعمال کر سکیں۔
تو اگر آپ مجھ سے کہیں گے ” کہ ٹریک ٹو سفارت کاری کا زمینی پالیسی کی تبدیلی پر کوئی اثر دکھاؤ”، تو میں کہوں گا “ہم اس طرح کام نہیں کرتے”۔ میرا خیال ہے کہ ہم ایکو سسٹم میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔میری دانست میں ہم علمی کمیونٹی میں حصہ ڈالتے ہیں اور بھارت جیسے ملک جو کہ ایک جمہوریت ہے کی علمی کمیونٹی میں بھی حصہ ڈالتے ہیں، اور یہ بہت اہم ہے۔یہ سب کچھ آخر میں جا کر پالیسی کی تیاری میں کام آتا ہے۔
کشمیر تنازعے پر تبصرہ
کشمیر میں صورتحال تناؤ کا شکار ہے۔بی جے پی -پی ڈی پی کےاتحاد کے خاتمے اور پنچائت کی تحلیل کے بعد ریاستی اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات اگلے سال میں ہوں گے۔آپ کشمیر میں سیاسی صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں اور یہ کس طرح سکیورٹی پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟ کیا ایسی صورتحال میں انتخابات ممکن ہیں؟
میں جموں و کشمیر کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے مشتبہ ہوں۔کشمیریوں میں بی جے پی -پی ڈی پی کے اتحادی حکومت سے متعلق کافی منفی رائے تھی۔اس اتحاد کے ختم ہونے کو بہت سوں نے بہتر سمجھا۔میں نے حال ہی میں کشمیر میں کچھ وقت گزارا ہے جس میں مجھے لگا کہ کشمیر میں احساسِ تنہائی بڑھ رہا ہے۔اور کشمیر تنازعہ کو بی جے پی کی طرف سےانتخابی عمل کےلئے بلا وجہ سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
وہاں مداخلت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ہتھیار اٹھا کر عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔فیملیز، والدین اور آبادی کے زیادہ حصے میں ان لڑکوں کےلئے اس عمل کی ایک قانونی حیثیت بنی ہوئی ہے ۔ہم نے ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۰ میں کچھ بھرتیاں دیکھی ہیں لیکن ان کےلئے قانونی حیثیت اتنی زیادہ نہ تھی۔ اس وقت لوگ کہتے تھے کہ “یہ بھٹکے ہوئے نوجوان ہیں۔انکو ایسا نہیں کرنا چاہئیے۔یہ اسلام کے خلاف ہے“۔اس کے برعکس آج کل وہاں یہ احساس ہے کہ “اسکے علاوہ انکے پاس اور کیا چارہ ہے؟”۔کچھ والدین بچوں کے ہتھیار اٹھانے کو یہ کہہ کر درست سمجھتے ہیں کہ “یہ خدا کا کام کر رہا ہے۔یہ جہاد ہے اور اس کو یہی کام کرنا بھی چاہئیے”۔اس تناظر میں لوکل باڈیز انتخابات کروانا ایک چیلنج ہو گا۔ ظاہر ہے کہ ۲۰۱۹ کے انتخابات ہوں گے لیکن میرے خیال میں یہ ان کےلئے کوئی اچھی فضاء نہیں ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Usman Malik via Flickr
Image 2: Chris Hondros via Getty