
مئی میں پاک بھارت تصادم کے بعد اس مہینے کے آغاز میں سفارتی روابط استوار کرنے اور کشمیر اور دہشت گردی کے بارے میں اپنے مؤقف کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنے بھارت اور پاکستان کے وفود امریکہ پہنچے۔ حزبِ اختلاف کےرہنما ششی تھرور کی قیادت میں بھارتی وفد کا مقصد امریکہ-بھارت کی تزویراتی شراکت داری کی توثیقِ نو ، دوطرفہ اقدامات کو آگے بڑھا کر اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے امریکی خدشات کو کم کر کے پاکستان (کے مؤقف) کی اہمیت کم کرنا تھا۔ پاکستان کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے دونوں ممالک کے مابین ثالثی کے لئے تیسرے فریق کی شمولیت اور سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کی بحالی کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ وفود اور واشنگٹن، نئی دہلی اوراسلام آباد کے مابین نتیجتاً ہونے والے سفارتی عواقب دوسری ٹرمپ انتظامیہ کے اس خطے کے ساتھ متناقض برتاؤ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کو اجاگر کرتے ہیں۔
گو کہ بھارتی وفد نے حمایتی بیانات حاصل کرنے اور امریکہ-بھارت ادارہ جاتی تعاون کی تجدید میں کامیابی حاصل کی، تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنازعۂ کشمیر پر دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کو دور کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ٹرمپ کے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کامعاہدہ طے کرانے کے مسلسل دعووں اور مسئلۂ کشمیر کے بارے میں ثالثی کی پیشکشوں نے نئی دہلی کو مطابقت پیدا کرنے کی دشواری میں ڈال دیا ہے۔دوسری جانب پاکستانی وفد کے بعد فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے دورۂ واشنگٹن نے، جس میں انہوں نے ٹرمپ سے بلا واسطہ ملاقات کی، انتظامیہ کے اراکین کے ساتھ ذاتی رسائی استوارکرنے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ تکنیکی تعاون کرنے کی پاکستان کی حالیہ کوششوں کو اُجاگر کیا۔ان مواقع کے باوجود پاکستان واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات میں درپیش ادارہ جاتی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ٹرمپ کے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کامعاہدہ طے کرانے کے مسلسل دعووں اور مسئلۂ کشمیر کے بارے میں ثالثی کی پیشکشوں نے نئی دہلی کو مطابقت پیدا کرنے کی دشواری میں ڈال دیا ہے۔
کشمیر پر امریکہ اور بھارت کے مابین اختلافِ رائے کو سُلجھانا
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد، جس کے بارے میں شُبہ ہے کہ یہ پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ (کی کارروائی) ہے، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی کیونکہ نئی دہلی نے آئی ڈبلیو ٹی کو معطل کر دیا اور آپریشن سندور نامی ایک انسدادِ دہشت گردی کی جارحانہ کارروائی کا آغاز کیا۔بالآخر اس چار روزہ تنازعہ کا، جس میں درجن بھر پاکستانی ائیر بیسز پر بھارتی پریسیژن اسٹرائیکس، دونوں ممالک کے درمیان ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے بڑی ہوائی جھڑپیں اور مشتبہ طور پر دونوں اطراف کا طیاروں کا نقصان شامل تھا، (جس کا) خاتمہ ایک جنگ بندی سے ہوا۔
گو کہ فوجی تصادم میں فی الحال تعطل ہے، تاہم سفارتی جارحیت کا ابھی محض آغاز ہوا ہے۔ اپنے اپنے انفرادی مؤقف کی عالمی حمایت کے حصول کی کوشش میں نئی دہلی اور اسلام آباد نے دنیا کے مختلف دارالحکومتوں کے دوروں کے لیے اراکینِ پارلیمنٹ کی ٹیمیں تشکیل دیں۔بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے موجودہ اور مستقبل کے اراکین کے ساتھ گُفت و شنید کے لئے سات کثیر الجماعتی وفود بھیجے، جبکہ پاکستان نے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی توجہ کَشی کے لئے ایک ہی وفد بھیجا۔
شاید اس گُفت و شنید میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز (معاملت) امریکہ کے ساتھ تھی، جس کے ساتھ نئی دہلی کو حالیہ مہینوں میں معمولی اختلاف کا سامنا ہے۔ پاک بھارت جھڑپوں کے بعد ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دونوں فریقین کے مابین ثالثی میں کلیدی کردار ادا کیا اور جنگ بندی کے حصول میں مدد کی – اس دعویٰ کو نئی دہلی کی جانب سے سختی سے مسترد کیا گیا۔اس سے نئی دہلی اور واشنگٹن کے مابین ٹرمپ کے ٹیکس عائد کرنے اور ان کے طول پاتے تجارتی مذاکرات کی بدولت پہلے سے موجود کشیدگی میں اضافہ ہوا، جس میں ان کے دعویٰ نے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے لئے دباؤ ڈالنے کے لئے تجارت کا استعمال کر رہے ہیں، مزید بڑھاوا دیا۔
یہ امریکی کوششیں اور بیانات نئی دہلی کے اس دیرینہ مؤقف کہ کشمیرکا تنازعہ بھارت اور پاکستان کے مابین ایک دوطرفہ مسئلہ ہے، کے خلاف ہیں تاہم یہ پاکستان کی تیسرے فریق کی مداخلت چاہنے کی روایتی پالیسی کے حق میں ہیں۔ نئی دہلی نے 1948 میں کشمیر کے تنازعہ کو ابتدا میں اقوام متحدہ میں پیش کرنے کے منفی تجربے کے بعد سے عالمی طاقتوں کی جانب سے کسی بھی مداخلت پر اعتراض کیا ہےاور اس کے دو طرفہ مذاکرات کےمؤقف کو 1972 کے شملہ معاہدے میں دونوں ممالک کے مابین بطورِ قانون مدّون کیا گیا ہے۔تاہم پاکستان نے اکثر کشمیر کے تنازعہ کو عالمی سطح پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ امریکہ جیسی عالمی قوتوں کو اپنی حمایت میں مداخلت پر قائل کر سکے۔مثلاً اس ماہ کے دورے کے دوران پاکستانی وفد نے امید ظاہر کی کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مفاہمت کرائے گا اور نئی دہلی پر سندھ طاس معاہدے کی بحالیٔ نو کے لیے دباؤ ڈالے گا۔ فیلڈ مارشل منیر کا دورۂ امریکہ بھی اسی طرح کے ایجنڈے کا عندیہ دیتا ہے۔
دُوبدو مقابلے کے انداز
دوسری ٹرمپ انتظامیہ سے پیشتر کے عرصہ میں امریکہ-بھارت تعلقات یقینی طور پر مثبت جانب گامزن تھے۔ نیا منصب سنبھالنے والے اراکینِ کابینہ کی بھارت کی حمایت کی مسلّم تاریخ تھی اور دونوں ممالک نے قومی سلامتی کے مشیر کی سطح پر آئی سی ای ٹی کے ذریعے تعاون کو باضابطہ بنایا، جو پھر ٹرسٹ ( ٹرانسفارمنگ دی ریلیشن شپ یوٹیلائزنگ سٹریٹیجک ٹیکنالوجی)کے طور پر جاری رہا۔ تاہم یہ ادارہ جاتی تعاون کے ذرائع نئی دہلی کو ٹرمپ کے غیر متوقع اعلانیہ بیانات اور پالیسی کارروائیوں کو سمجھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
سو، ٹرمپ کے ساتھ کسی بھی اعلانیہ اختلاف سے بچنے کے لیے اور نئی دہلی کے تزویراتی مفادات کو پانے کی کوشش میں دورہ کرنے والے بھارتی وفد نے اپنی ملاقاتوں کے ایجنڈے کو زیادہ وسیع اور باہمی ترجیحات کے مطابق بنایا کانگریشنل انڈیا ککاس، ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور (ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی) اور سینیٹ فارن ریلیشنز کمیٹی کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی وفد نے آپریشن سندور کے ساتھ ساتھ تجارتی اور فنیاتی (ٹیکنالوجی) میدانوں میں تزویراتی تعاون پر بھی بات چیت کی۔ ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ کرسٹوفر لینڈو نے بھارتی وفد کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں تجارت کے تعاون پر اتنا ہی زور دیا جتنا کہ اقدامات برائے انسدادِ دہشت گردی پردیا گیا تھا۔اس امر کا اعادہ نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ وفد کی ملاقات میں بھی کیا گیا۔

گو کہ بھارتی ابتدائی طور پر نقصان کو کم کرنے اور امریکہ-بھارت تعلقات کی تصدیقِ نو کرنے امریکہ آئے لیکن پاکستانی وفد نے طالبان کے افغانستان پر حصولِ اقتدار کے بعد اعتمادیت کے بحران کا سامنا کرتے ہوئے دورۂ واشنگٹن کیا۔تاہم نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کے مسئلے کی وجہ سے پڑنے والی دراڑ سے (پاکستان کو) تدبیراتی (ٹیکٹیکل) فوائد حاصل کرنے کا موقع ملا۔پاکستانی وفد نے کانگریشنل پاکستان ککاس، ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی اور انفرادی سینیٹروں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں تقریباً مکمل طور پر امریکہ کی توجہ تنازعے کی طرف مبذول کرانے اور بھارت پر سندھ طاس معاہدےکی بحالی کے لیےدباؤ ڈالنے پر دی۔
خصوصاً امریکہ کے ساتھ اپنی زیادہ تر سفارتی کوششوں میں پاکستان نے صدر ٹرمپ اور ان کی ذاتی پالیسی ترغیبات کو متاثر کرنے پر بہت زور دیا۔ پاکستانی وفد نے اپنی متعدد ملاقاتوں کے دوران ٹرمپ کے ثالثی کے دعوے کی بار بار تصدیق کی جبکہ دیگر پاکستانی حکومتی اہلکاروں نے کریپٹو پالیسی کو ان کی ذاتی توجہ کَشی کے لیے استعمال کیا۔اگرچہ پاکستانی وفد کے پاس واشنگٹن کے تزویراتی طبقے کے خیالات بدلنے کی صلاحیت محدود تھی، تاہم بعد میں ہونے والی منیر-ٹرمپ ملاقات ایک بڑی علامتی کامیابی تھی۔ یہ ملاقات، جو کسی فوجی سربراہ کے بجائے عموماً کسی غیر ملکی صدر یا سربراۂ حکومت کا اعزاز ہوتی ہے،اس خبر کے بعد ہوئی کہ پاکستان نے رسمی طور پر ٹرمپ کو 2026 نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے تاکہ ان کی “امن کے علمبردار” کے طور پر خدمات کو تسلیم کیا جا سکے۔منیر اور ٹرمپ نے پاک بھارت تنازعہ، کرپٹو، اہم معدنیات (کریٹیکل منرلز) اور ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے اسرائیل-ایران تنازعہ پر گفتگو کی۔
بھارت اور پاکستان کے لئے مشکلات
ٹرمپ کے ثالثی کے دعووں کی بدولت ہونے والی بے چینی کے باوجود بھارت کو ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور (ہاؤس فارن افئیرز کمیٹی) اور وزارت خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) کی جانب سے حمایت کے بیانات ملے۔یہ وفد چین اور مشرق وسطی سے ظاہر ہونےوالی بڑی جغرافیائی مشکلات کے پیش نظر نئی دہلی کی امریکہ کے لیے تزویراتی اہمیت کو بھی اجاگر کرنے میں کامیاب رہا۔
تاہم وفد کا دو طرفہ اعتماد بحال کرنے کا مقصد وائٹ ہاؤس کی جانب سے مسلسل متاثر ہوتا رہا۔جب وفود شہر میں موجود تھے، ٹرمپ نے یہ بیان جاری رکھا کہ انھوں نے تنازعے کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ کہ پاکستان کی قیادت بہت مضبوط” ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت-پاکستان ثالثی پر (اپنے) پیش پیش رہنے کو داخلی محصولات پر انتظامی اختیارات کا جواز بھی بنایا۔ان مواقف نے واشنگٹن میں ری پبلکنز کے لیے بھارت کے جنگ بندی سے متعلقہ بیانیےکی اعلانیہ حمایت کو مشکل بنا دیا اور پاکستان کو امریکہ سے بھارت کو مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرنے کا موقع دیا۔
ٹرمپ-منیر ملاقات کے باعث امریکہ-بھارت کے تعلقات پر بھی پریشانی کے سائے لہرائے، کیونکہ مودی نے خاص طور پر کینیڈا سے جی-7 سمٹ سے واپسی پر ڈی سی میں آنے کی دعوت کو مسترد کر دیا جب منیر اس وقت شہر میں ہی موجود تھے۔ ٹرمپ کی دونوں رہنماؤں کو بیک وقت واشنگٹن اکٹھا کرنے کی ممکنہ کوشش ، نئی دہلی کو یہ عندیہ دیتی ہے کہ امن کا پیامبر نظر آنے کی (ٹرمپ کی) خواہش اہم ترین ترجیحات میں شامل ہے۔ایسے اقدام کو بھارتی تزویراتی طبقہ واشنگٹن کےاسلام آباد کو نئی دہلی پر دباؤ ڈالنے کا موقع فراہم کرنے کے طور پر دیکھتا ہے اور یہ تیسرے فریق کی مداخلت کی مخالفت پر مبنی بھارتی مؤقف کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ نتیجتاً بھارتی سکریٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک غیر معمولی سخت بیان جاری کیا کہ بھارت کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کو قبول نہیں کرتا اور نہ کبھی کرے گا۔
وائٹ ہاؤس کی ناپیش بینی نے بھارتی وفد کی کامیابیوں پر اثر ڈالا ہے، جو ادارہ جاتی روابط پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔مودی کے ٹرمپ کے ساتھ ذاتی تعلقات کے باوجود بھارت کو ان کے ساتھ ذاتی رابطے میں ایسی مشکلات کا سامنا ہے جس کا سامنا پاکستان کو نہیں ۔ایک جمہوری ملک کے طور پر، جو اپنی داخلی عوام جو (ملک)کی شان و شوکت میں کمی آنے پر منفی ردعمل ظاہر کرتے ہیں، کا ممنون ہے، بھارت کو ٹرمپ کے قریبی حلقے کے افراد کو خوش کرنے کے لیے ذاتی کوششیں کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی، خصوصاً جبکہ یہ واشنگٹن میں نئی دہلی کے لیے دو حزبی حمایت کو متاثر کرسکتی ہیں۔واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی بدنظمی سے بچنے کے لیے نئی دہلی ممکنہ طور پر چین کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے روابط بڑھانے جیسے اقدامات کرے گی۔
تاہم قیادت کی سطح پر اعتماد کا کم ہونا مستقبل میں امریکہ اور بھارت کے تعاون کو کمزور کر سکتا ہے۔مثلاً ٹرمپ کے دعووں کے باعث کہ وہ تجارت کو سبب بنا کر جنگ بندی پر مجبور کریں گے، نئی دہلی کی واشنگٹن کودفاعی سامان کا ایک قابل اعتماد فراہم کنندہ سمجھنے کی رائے متاثر ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کا”امن قائم کرنے” کا زبردست رجحان اور مئی 2025 کی جھڑپ کے بعد منیر کا گرم جوش خیرمقدم، بھارت کی جانب سے مستقبل میں پاک بھارت بحرانات میں اپنی عملی غرض و غایت (آپریشنل انٹنٹ) کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے کی رضامندی پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
اسلام آباد اور واشنگٹن تعلقات میں سنجیدہ ادارہ جاتی اور ساختی کمزوریاں ہیں جن کو رہنما سطح کے روابط حل نہیں کر سکتے۔
دوسری جانب پاکستان ایک زیادہ مرکزیتِ شخصی (پرسنلسٹ) انتظامیہ، جو اداروں اور قائم کردہ اعتبار کو ثانوی حیثیت دیتی ہے، کے ساتھ مزید آرام دہ ہو سکتا ہے ۔تاہم اس نقطہ نظر کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی ٹرمپ کی توجہ کشمیر سے ہٹے گی، امریکہ کی جانب سے بھارت پر کوئی بھی دباؤ – چاہے وہ کشمیر پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے ہو یا سندھ طاس معاہدےکی بحالی کے لیے ہو – (وہ) بھی کمزور پڑ جائے گا۔اسلام آباد کی جانب سے نوبل امن انعام کے لیے (ٹرمپ) کی نامزدگی کے ایک دن بعد ہی ایرانی جوہری تنصیبات پر ٹرمپ کے حملوں کی باضابطہ طور پر مذمت کرنے کے باعث پاکستان کی صدر ٹرمپ کی براہ راست توجہ کَشی مزید کمزور پڑگئی ہے۔
مجموعی طور پر اسلام آباد اور واشنگٹن تعلقات میں سنجیدہ ادارہ جاتی اور ساختی کمزوریاں ہیں جن کو رہنما سطح کے روابط حل نہیں کر سکتے۔مثلاً ٹرمپ کے تجارتی معاہدے کے وعدے کے باوجود امریکہ پاکستان اقتصادی تعلقات امریکہ بھارت تعلقات کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ چین کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی فوجی اور اقتصادی موجودگی پر بھی امریکی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔بیجنگ کو واشنگٹن کے لیے بنیادی خطرہ سمجھتے ہوئے، نئی دہلی کے گہرے ادارہ جاتی تعلقات اور چین کا مقابلہ کرنے میں امریکی مفادات کے لیے اس کی تزویراتی اہمیت اسے طویل المدتی شراکت داری کے لیے زیادہ سازگار مقام فراہم کرتی ہے۔جہاں نئی دہلی واشنگٹن کے ساتھ کثیر الجہتی تعلقات سے لطف اندوز ہوتی ہے، امریکہ-پاکستان کا ادارہ جاتی تعلق خود کو انسدادِ دہشت گردی کے لیے تعاون تک محدود رکھنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔اس لحاظ سے گو کہ دونوں دورہ کرنے والے وفود کا کامیابی کا ریکارڈ ملا جلا رہا ہے، تاہم بھارت اور پاکستان واشنگٹن میں برابر کی حیثیت نہیں رکھتے۔
***
This article is a translation. Click here to read the article in English.
Image 1: The White House via Wikimedia Commons
Image 2: The White House via Wikimedia Commons