R_img2.png-2-e1694452509786-1095×616-1

اگست۲۰۲۳ میں بھارت چاند کی سطح پر کامیابی کے ساتھ اترنے والا چوتھا ملک بنا اور اس فہرست میں پہلے سے موجود ممالک امریکہ، روس اور چین کے ساتھ شامل ہو گیا۔ بھارتی خلائی تحقیق کے ادارے (اسرو) کی جانب سے ۱۴ جولائی کو ستیشن دھاون خلائی مرکز سے چندریان – ۳ (سی ایچ – ۳) مشن کے حصے کے طور پر وکرم لینڈر چاند پر چھان بین کے لیے لانچ وہیکل مارک – ۳ (ایل وی ایم ۳) پر روانہ ہوا تھا۔ ایک مہینے سے زائد کے سفر کے بعد، لینڈر چاند کے جنوبی قطب پر اتر گیا اور عالمی توجہ پانے اور تاریخ رقم کرنے کا ذریعہ بنا۔

وکرم لینڈر، پراگیان نامی ایک روور اپنے ہمراہ لے گیا تھا جو اپنے تحقیقاتی مقاصد کی تکمیل اور چاند کے ماحول کی ویڈیوز زمین پر ارسال کرنے کے لیے چاند کی سطح پر لڑھکا دیا گیا۔ مفوضہ کاموں کی تکمیل کے بعد، شمسی توانائی سے چلنے والا روور ۱۴ دنوں پر مشتمل قمری شب کا آغاز ہوتے ہی غیرفعال حالت میں داخل ہو گیا۔ اگرچہ یہ عین ممکن ہے کہ روور یخ بستہ شب کے بعد دوبارہ بیدار ہو جائے، تاہم سی ایچ – ۳ مشن بھارت کے لیے پہلے ہی سائنٹیفک اور سافٹ پاور کے میدانوں میں ایک فتح ہے۔ وہ لمحہ جب دنیا بھر میں لاکھوں نگاہیں وکرم لینڈر کو چاند کے قدرے کم کھوجے گئے خطے میں قدم رکھتے ہوئے دیکھ رہی تھیں، ایک عام انسان کو یہ قمری نشاۃ الثانیہ کی صبح کے آغاز کی مانند دکھائی دیتا تھا۔

خلاء اور بھارتی جستجو

اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ خلاء کا شعبہ جغرافیائی سیاسی اثرورسوخ کے لیے ایک میدان ہے، خلاء کے حوالے سے بھارتی جستجو کے پس پشت سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کے اہداف اور ساتھ ہی ساتھ مقتدرہ قوت کے طور پر اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کی خواہش محرک کا کام کرتے ہیں۔ جب وزیراعظم نریندر مودی نے وکرم لینڈر کے چاند کی سطح کو چھونے کے بعد بھارت اور باقی کی دنیا سے خطاب کیا تو انہوں نے کھلے بندوں کہا کہ “دنیا جی ۲۰ کی بھارتی صدارت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔” طاقت کی نمائش اور خود کو عالم جنوب کے رہنما کے طور پر پیش کرنے کی بھارتی امیدوں کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوئے مودی نے کہا کہ سی ایچ – ۳ کی لینڈنگ ظاہر کرتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک ایسی فتوحات حاصل کر سکتے ہیں۔

چاند پر پہلی مرتبہ اگرچہ امریکہ نے ۵۰ برس سے بھی پہلے قدم رکھا تھا، تاہم سی ایچ – ۳ مشن اس اعتبار سے بالخصوص اہم تھا کہ یہ چاند کے جنوبی قطب کے دشوارگزار علاقے میں کامیابی کے ساتھ لینڈنگ کرنے والا پہلا مشن تھا۔ یہ جغرافیہ قابل قدر ہے کیونکہ یہاں پر پانی، خصوصاً پانی سے بنی برف کے آثار پائے جاتے ہیں، جسے ہائیڈروجن اور آکسیجن میں توڑا جا سکتا ہے اور گمان ہے کہ راکٹ ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

آج کے دور میں چاند پر کھوج میں شامل پانی کا عنصر اسے ۱۹۶۰ کی دہائی میں جاری خلائی دوڑ سے منفرد بناتا ہے، نیز آج کے دور میں خلائی سرگرمیوں کے پس پشت قومی وقار اور جغرافیائی سیاسی برتری کے ساتھ ساتھ منفرد معاشی جوڑتوڑ بھی معنی رکھتی ہے۔ خلائی مشنز کے مد میں فیول پر آنے والے بھاری اخراجات کو دیکھتے ہوئے باندھے گئے مفروضوں کے مطابق چاند اس مد میں اخراجات میں کمی اور مشن کی مدتِ زندگی میں اضافے کے ذریعے سیٹلائٹس اور راکٹس کے لیے دوبارہ ایندھن بھرنے کا مرکز بن سکتا ہے۔ مزید برآں، چاند کے خالص پانی کے مطالعے سے ہمیں زمین اور چاند کے ماخذ کو سمجھنے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ ہمارے سیارے پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔ جنوبی قطب پر ایسی چوٹیاں بھی ہیں، جن پر مسلسل یا تقریباً مسلسل سورج کی روشنی پڑتی رہتی ہے، جو اس خطے کو شمسی توانائی کے ذریعے چاند پر سرگرمیوں کے لیے ایک خاطرخواہ مقام بناتے ہیں۔ ایسے میں یہ امر باعث حیرت نہیں کہ خلاء میں پہلے سے موجود دیگر ریاستیں جیسا کہ امریکہ اور چین کے مشنز بھی چاند کے جنوبی قطب پر تحقیق کر رہے ہیں یا ایسا کرنے والے ہیں۔

امریکہ بھارت شراکت داری کے لیے فتح

(چندریان کی چاند یاترا کے بعد) امریکی نائب صدر کاملا ہیرس اور ناسا ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن سمیت کلیدی عہدیداران کی جانب سے بڑے پیمانے پر مبارکبادیں پیش کی گئیں، جن میں دونوں ممالک کی شراکت داری کے مستقبل پر زور دیا گیا۔ یورپی خلائی ایجنسی اور سوئیڈش خلائی کارپوریشن کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھی چندریان – ۳ مشن میں معاونت کی تھی۔ وکرم لینڈر اپنے ساتھ ناسا کا لیزر ریٹٹروریفلیکٹر ایرے لے کر گیا تھا جو کہ ایک اضافی آلہ تھا جس نے لینڈر کے محل وقوع کے تعین میں مدد دی تھی۔ بھارت کے چاند پر قدم، خلائی میدان میں امریکہ کے ہمراہ اس کے موجودہ اور بڑھتے ہوئے اُس تعاون میں حصہ ڈالتے ہیں، جس کی عکاسی ناسا اسرو سنتھیٹک اپرچر ریڈار مشن (نسار) سے لے کر امریکہ بھارت سول و کمرشل خلائی ورکنگ گروپس اور ۲۰۲۴ میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے مشترکہ انسانی مشن تک میں بڑھتی ہوئی شراکت داری کی تفصیلات بتاتے مشترکہ بیان سے ہوتی ہے۔

مزید برآں آرٹیمس سمجھوتے میں بھارت کا اضافہ یقینی طور پر واشنگٹن کے لیے درست وقت پر سامنے آیا ہے۔ آرٹیمس سمجھوتے جنہیں امریکہ فروغ دیتا ہے، شہری مقاصد کے لیے خلائی کھوج اور چاند، مریخ اور اس سے دور دراز کے علاقوں میں خلائی مقاصد کے لیے انسانی سرگرمیوں کے لیے ماوراء قانون انتظام ہے۔ یہ سمجھوتے ناسا کے آرٹیمس مشن کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، جو چاند پر واپس جانے اور مریخ پر انسانی مشنز کے لیے راہیں ہموار کرنے کی غرض سے ترتیب دیا گیا ہے۔

ماضی میں نئی دہلی آرٹیمس سمجھوتے پر شمولیت میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہے، ایسے میں اس پر دستخط سے بین الاقوامی سطح پر زیرِ گفتگو آنے والے اور قانونی طور پر پابند کرنے والے معاہدوں کے حوالے سے بھارت نے اپنی روایتی ترجیح سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ دیا ہے۔ ایک فعال، خلائی مسافر ریاست ہونے کے ناطے، بھارت کے آرٹیمس معاہدے پر دستخط نے خلاء کے ضمن میں، خاص کر قمری وسائل کے حوالے سے ان اصولوں کو تقویت بخشی ہے جن کا امریکہ داعی ہے۔ان ۴ ممالک میں سے ایک ہونے کے ناطے جو کبھی بھی چاند پر قدم رکھنے میں کامیاب ہو پائے ہیں، بھارت اس معاہدے پر عملدرآمد اور اس کی وکالت کے ذریعے اس معاہدے کے اصولوں کی مضبوطی کے لیے حصہ ڈال سکتا ہے۔

چین کے لیے مضمرات؟

سی ایچ – ۳ مشن اگرچہ ٹیکنالوجی کی ناقابلِ تردید فتح ہے، تاہم چین سے تعلق کے ضمن میں جغرافیائی سیاسی محرکات اور اثرات پر مبالغہ آرائی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔ نئی دہلی اور بیرونی ممالک میں موجود تجزیہ کاروں نے بھارت کے خلائی پروگرام اور چین کے ہمراہ مقابلے کے درمیان تعلق کو بیان کیا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی خلائی قابلیتیں ہمراہ زمین پر اس کے ساتھ ابتری کا شکار ہوتے دو طرفہ تعلقات کے باعث، بھارت اپنی خلائی قابلیتوں میں اضافے کی جانب مائل ہوا ہے تاکہ وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائے۔

روایتی طور پر عسکری قوت کے اعتبار سے چین بھارت کو اپنا “ہم پلہ” نہیں سمجھتا ہے، تاہم بعض کو امید ہے کہ چاند پر قدم رکھنے سے ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ اپنی واضح برتری کے نقطۂ نگاہ کو تبدیل کر سکتے ہیں اور بھارت کے ساتھ مزید احترام سے پیش آ سکتے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی صلاحیتوں میں واضح فرق کے سبب، سی ایچ – ۳ مشن کے، بھارت کے بارے میں چین کے نقطۂ نگاہ میں واضح تبدیلی لانے کا سبب بننے کے امکان نہیں۔ ۲۰۲۲ میں چین نے بھارت کے مقابلے میں ۱۲ گنا زیادہ مدار تک پہنچنے والے خلائی سفر کیے اور ۲۵ گنا زیادہ وزن کے حامل پے لوڈز مدار میں پہنچائے تھے۔چین تیانگونگ کی تعمیر بھی مکمل کر چکا ہے جو کہ تین ماڈیولز پر مشتمل، زمین کے زیریںِ مدار (لیو) میں موجود ایک خلائی اسٹیشن ہے جس میں مستقل طور پر عملہ تعینات رہے گا۔

گو کہ سی ایچ – ۳ کا چاند پر قدم رکھنا شاید بھارتی خلائی صلاحیتوں کے بارے میں چین کے نقطۂ نگاہ کو تبدیل نہ کرے، تاہم یہ ممکن ہے کہ بھارت کا چاند پر قدم رکھ دینا جبکہ روس کی لونا – ۲۵ پروب کو چاند پر اتارنے کی کوشش میں ناکامی جیسے عوامل مل کر، چین میں چاند پر تحقیق کے بین الاقوامی اسٹیشن پر روس کے ہمراہ اپنی شراکت داری کی مضبوطی کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کریں۔ امریکی قیادت میں آرٹیمس بلاک اور چین-روس بلاک کے ذریعے امریکہ چین عظیم طاقتوں کے مقابلے میں خلاء کو تو گھسیٹا جا چکا ہے۔ ایسے میں (۲۸ شراکت داروں اور پھلنے پھولنے کے ساتھ) بھارت کی اس میں شمولیت کے باعث، آرٹیمس سمجھوتوں کی مقابلتاً طاقت چین کو امریکی قیادت میں خلاء میں قائم ہونے والے نظام کے حوالے سے پریشان کر سکتی ہے۔

تاہم آرٹمیس بلاک کے بارے میں چین کو زیادہ خدشات کو جگہ نہیں دینی چاہیئے کیونکہ جغرافیائی سیاسی ‘بلاکس’ میں کوئی واضح حدبندی موجود نہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب، یو اے ای سمیت مختلف ممالک اور حتیٰ کہ یورپی یونین بھی امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ خلائی سرگرمیوں میں تعاون کرتی ہے۔ بھارت بھی ایسی ریاستوں کہ جو امریکی آرٹیمس بلاک کا حصہ نہیں، ان کے ہمراہ شراکت داریوں کے ذریعے اس ابہام کو باقی رکھتا ہے۔ بھارت، چین، برازیل کے مابین ۱۵ویں برکس سربراہ کانفرنس کے موقع پر مودی نے تجویز کیا تھا کہ برکس خلاء میں چھان بین کے لیے ایک کنسورشیئم تشکیل دے، جس کا نتیجہ، ان دونوں ممالک کے درمیان چاند کے مشنز پر تعاون کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

حاصلِ کلام

وکرم سارا بھائی کا ایک مشہور قول ہے کہ عالمی منظرنامے پر بھارت کو اگر کوئی بامعنی کردار ادا کرنا ہے تو اسے “انسانوں اور سوسائٹی کے حقیقی مسائل کے حل لیے جدید ٹیکنالوجیز کا بے مثال استعمال کرنا ہوگا۔” آج اگر بھارت وہ “بامعنی کردار” ادا کرنا چاہتا ہے جو کہ سی ایچ – ۳ مشن کی کامیابی کے بعد مودی کے تبصرے اور اس کی جی ۲۰ کی صدارت کے مطابق ہو، تو اس کے لیے اسے خلائی پالیسیوں میں حصہ ڈالنے اور خلاء میں جدید شراکت داریوں کی تخلیق کے ذریعے سے ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیابیوں میں اضافہ کرنا چاہیئے۔

چاند پر قدم رکھنے والے ملک کے طور پر اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کے ذریعے اور قانونی طور پر پابند کرنے والے ان اداروں کی تشکیل کے لیے زور ڈالنا چاہیئے کہ جو روایتی طور پر بھارت کی ترجیح رہے ہیں۔ بھارت کو خلائی وسائل کے انتظام، خلائی ملبے میں تخفیف اور خلاء میں عسکریت سمیت دیگر مسائل کے بارے میں خلائی قوانین کی تشکیل کے لیے اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ یہ قوانین خلائی دوڑ میں موجود ممالک کے علاوہ اس سفر پر مستقبل میں روانہ ہونے والے ممالک کے مفادات کا دفاع کرتے ہوں۔

ترقی پذیر ممالک کے رہنماء کے طور پر ابھرنے کے لیے بھارت کو عالمی افق پر پھیلے ممالک کے ہمراہ کام کرنا ہو گا تاکہ خلاء کے حوالے سے پہلے سے موجود تعلقات کو تقویت دی جا سکے اور نئے شراکت دار تخلیق کیے جا سکیں۔ خاص کر اپنے مقامی خلائی پروگرامز کو تیار کرنے کے لیے پرامید ممالک کے ہمراہ ایم او یوز سے آگے بڑھتے ہوئے، قابلیتوں میں اضافے میں مدد، خاص کر ایسی سول خلائی سرگرمیاں جو زمین کے لیے خلاء سے فوائد حاصل کر سکیں، ان کے ذریعے سے ان شراکت داریوں کو فعال کرنا چاہیئے۔ خلاء تک رسائی کے معاملے میں ‘جمہوریت’ قابلِ مساوات اور پائیدار خلائی قوانین کی تیاری میں معاونت کر سکتی ہے۔ آرٹیمیس معاہدے کے دستخط کنندہ ہونے کی حیثیت سے بھارت کو امریکہ اور چین کے ہمراہ تعلقات کو متوازن رکھنے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے خلائی پروگرام کے لیے آزاد خودمختار اہداف اور پالیسی ترجیحات پر عملدرآمد جاری رکھنے کے لیے چاند پر کامیابی سے قدم رکھنے والے ملک کے طور اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

سی ایچ – ۳ کی کامیابی اسرو کے سائنسدانوں کی سخت محنت اور اس کے ابتدائی رہنماؤں کی سائنسی مہارتوں کے ہمراہ طویل عرصے سے قائم اس عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جو انجام کار بھارت کو اپنے اقتدارِاعلیٰ کو تقویت دینے کے ہدف میں مدد دیتا ہے۔ بھارت کی خلائی حکمت عملی کو، خلاء میں جاری سرگرمیوں کے حوالے سے دوراندیشی کے ساتھ جاری رہنا چاہیئے اور اس دوراندیشی کا خلائی پالیسی اور شراکت داریوں میں استعمال کرنا ہو گا تاکہ اپنے سائنسی، جغرافیائی سیاسی اور معاشی ضروریات کو پہچانا جا سکے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Chandrayaan-3 via ISRO.

Image 2: LVM3 M4 Mission Post-Launch via ISRO.

 

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]