ڈاکٹر سی راجہ موہن نے ایس اے وی کی مینجنگ ڈائٹریکٹر اکریتی واسودیوا اور ڈپٹی ڈائریکٹر برگٹا سکچرٹ سے بھارتی خارجہ پالیسی سے متعلقہ متعدد امور پر بات چیت کی جن میں امریکہ چین بھارت تزویراتی مثلث، امریکہ طالبان معاہدے کے علاقائی مضمرات، اور بھارتی خارجہ تعلقات پر داخلی ہلچل کے اثرات جیسے موضوعات زیربحث آئے۔ ڈاکٹر موہن نیشنل یونیورسٹی سنگاپور میں انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ قبل ازیں وہ ساؤتھ ایشین سٹڈیز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی اور راجا رتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سنگاپور میں پروفیسر تھے۔ وہ نئی دہلی میں متعدد تھنک ٹینکس بشمول انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالسز، دی سینٹر فار پالیسی ریسرچ اور آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے ساتھ کام کرچکے ہیں، اور کارنگی انڈیا کے بانی ڈائریکٹر بھی تھے۔ وہ تزویراتی امور اور خارجہ پالیسی پر بھارت کے نمایاں مبصرین میں سے ایک ہیں۔ ان سے گفتگو کے چیدہ چیدہ حصے ذیل میں درج ہیں۔
بھارتی خارجہ پالیسی: کثیرالقومی وابستگی کے فوائد و نقصانات
کثیرالقومی وابستگی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک وابستہ اور غیر وابستہ کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک نظریاتی عدسہ ہے جس نے ہمیشہ ہمیں بھارتی تعلقات کو زیادہ حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھنے سے روکا ہے۔ اس کی مستقل موجودگی نے ہمیں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران بھارتی خارجہ پالیسی کے عملی ارتقاء کو دیکھنے سے باز رکھا ہے۔ میرے خیال میں سب سے اہم چیز جو تبدیل ہوئی ہے وہ یہ کہ بھارت امریکہ کے قریب ہوچکا ہے۔ کثیرالقومی وابستگی کے مقابلے میں عملی صورتحال کا یہ زیادہ بہتر استعارہ ہے۔ اب بھارت امریکہ کے ساتھ ۱۶۰ بلین ڈالر مالیت کی مصنوعات و خدمات کی دوطرفہ تجارت کررہا ہے اور روس کے ساتھ بمشکل ۱۰ بلین ڈالرکی تجارت ہورہی ہے۔ بھارت چین کے ساتھ بھی بڑے پیمانے پر مصنوعات کی تجارت کررہا ہے جو ۲۰۱۹ کے تخمینوں کے مطابق فی الحال ۹۰ بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ بڑی قوتوں کے ساتھ بھارتی تعلقات کے ضمن میں یہ معاشی تفریق، سرد جنگ کے وقت میں بھارت کے امریکہ، روس اور چین سے تعلقات کی نوعیت سے کیفیتاً مختلف ہے۔
مزید براں بھارت کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس ۲۳ بلین ڈالر ہے جبکہ چین کے ساتھ ۵۷ بلین ڈالر کا شدید تجارتی خسارہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس جبکہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ، دونوں ہی اگرچہ مسئلہ ہیں تاہم موخرالذکر زیادہ نتیجہ خیز ہے۔ غیر وابستگی کے دور میں بھارتی خارجہ پالیسی پر اس سوچ کا غلبہ رہا کہ بھارت کو اپنے تعلقات میں یکساں فاصلہ رکھنا ہوگا۔ حالانکہ حقیقی دنیا میں یہ کبھی بھی یکساں فاصلے پر نہیں تھے، حتیٰ کہ سرد جنگ کے دور میں بھی یہ وقت اور حالات کی مناسبت سے بدلتے رہے۔ بھارت سمیت تمام ممالک کی سب سے زیادہ توجہ طاقتوں میں توازن قائم رکھنے پر ہوتی ہے۔ اگر بھارت کے خارجہ تعلقات کے معاملے کو دیکھنے کیلئے بھی طاقت میں توازن اور وہ بھی خالصتاً قومی مفاد کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کثیر القومی وابستگی کے منشور سے دیکھنے کے مقابلے میں بھارتی خارجہ تعلقات کے ضمن میں کارکردگی کو زیادہ بہتر طور پر دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔
بھارت تمام بڑی قوتوں کے ساتھ تعلقات کے ذریعے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی اور اس سے کچھ پہلے سے متعدد معاملات میں امریکہ اس سلسلے میں اہم ترین ثابت ہوا ہے۔ جوہری معاملے اور دہشتگردی کو بطور مثال لے لیجیئے۔ امریکہ نے عالمی جوہری نظام میں بھارت کے انضمام میں مدد کیلئے ہر قسم کا بوجھ برداشت کیا جبکہ چین نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو پاکستانی فوج کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کے معاملے پر ہمیشہ پاکستان پر دباؤ ڈالتا ہے۔ بھارتی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو چین پاکستان کی حفاظت کرتا ہے۔ لہذا تمام بنیادی مفادات کے اعتبار سے دیکھیں تو بھارت امریکہ کو ایک قیمتی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ ماضی میں یہ اعزاز سویت روس کیلئے تھا جس نے کشمیر کے سوال پر ایک ایسے وقت میں بھارت کی بھرپور حمایت کی جب اینگلو امریکن قوتیں اس معاملے پر پاکستان سے مفاہمت کیلئے دباؤ ڈال رہی تھیں۔ لیکن اب روس، چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے سبب زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ماسکو، اس طرح سے بھارت کیلئے اہم ریاستوں سے تعلقات کی راہ بھی ہموار نہیں کرپایا جس طرح سے واشنگنٹن نے نئی دہلی کیلئے یورپ اور ایشیا میں امریکی اتحادیوں کے در وا کئے ہیں۔ لیکن مغرب کے ساتھ روابط میں اضافے کا مجموعی طور پر ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارت کو روس کے ساتھ اپنے تعلقات ترک کردینے چاہئے یا پھر چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہوشیاری کے ساتھ متوازن رکھنے کی اہمیت کو بھول جانا چاہئے۔
بھارت امریکہ روابط کیلئے چین در پردہ محرک؟
بڑے ممالک ایک دوسرے سے محض ایک معاملے کی بنیاد پر تعلقات قائم نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ سوال کہ ”کیا محض چین ہی امریکہ بھارت تعلقات کو قائم رکھنے والی کڑی ہے؟“ نا تو مکمل طور پر بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کا احاطہ کرتا ہے اور نہ ہی امریکہ میں موجود تقریباً چالیس لاکھ بھارتیوں کی موجودگی کے اثرات کا۔ اب دہلی اور واشنگٹن کے تعلقات کی بنیاد وسیع تر ہے۔
تاہم چین کا سوال ، تزویراتی مطابقت کیلئے بنیاد فراہم کررہا ہے۔ ساخت کے اعتبار سے بھارت اور امریکہ دونوں ہی چین کے ہاتھوں چیلنج سے دوچار ہیں جو کہ اس چیلنج سے کہیں بڑا ہے جس کا انہوں نے ۱۹۹۰ کی دہائی میں تصور کیا تھا۔ تب بھارت کثیرالقطبی تصور کو فروغ دیتا تھا (جو امریکہ کو محدود کرنے کی کنجی تھی) اور حتیٰ کہ ۲۰۰۸ تک امریکہ چین کو اپنا سب سے اہم شراکت دار قرار دیتا تھا۔ لیکن اس وقت سے ماحول بدل گیا ہے کیونکہ چینی رویئے میں تبدیلی آگئی ہے۔ اور یہ ازخود ممالک کو دیگر سے اپنے تعلقات موافق بنانے، انہیں قابو میں رکھنے اور منظم کرنے پر اکساتا ہے، اور یہی فی الحال ہورہا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے جوڑنے کیلئے ایک اہم عنصر ہے جس نے امریکہ اور بھارت کو اکھٹا کیا ہے۔
بھارت امریکہ تعلقات: بیانیہ بمقابلہ حقیقت
واشنگٹن میں یہ بحث جاری ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات اس حد کو نہیں چھو سکے ہیں، جس حد تک پہنچنے کی ان میں اہلیت تھی۔ بحث یہ ہے کہ ہم کو بھارت امریکہ تعلقات کا بیانیہ روئے زمین پر رونما نعمت عظیم کے طورپر بیچا گیا اور یہ کہ چین سے مقابلہ کرنے میں بھارت ہمارا مضبوط ترین شراکت دار ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دو طرفہ تعلقات کو ناپنے کیلئے مختلف لوگ مختلف پیمانہ استعمال کرتے ہیں۔ واشنگٹن میں بہت سے لوگوں نے یہ امید کی تھی کہ بھارت، یورپ اور ایشیا میں موجود دیگر امریکی اتحادیوں جیسا بن جائے گا۔ ایسا یقیناً نہیں ہوا ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت اور امریکہ گزشتہ بیس برس میں بے حد قریب آئے ہیں۔ وہ اتنا قریب کبھی نہیں تھے جتنا کہ آج ہیں۔ بھارت اور چین ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دوست ہیں اور کثیرالقطبی دنیا کی باتیں کرتے ہیں، لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں سے ان تعلقات میں عملی طورپر قربت نہیں آئی ہے۔ ایک زمانے میں بھارت کیلئے اس کے روس سے تعلقات اہم ترین تھے لیکن اب وہ نہیں رہے۔ اگر ہم اس کو پیمانے بنائیں کہ ”۲۰ برس پہلے ہم کہاں تھے“ تو امریکہ ہی ہے جس سے فی الوقت بھارت کے بہترین تعلقات ہیں۔ واشنگٹن کیلئے جو اپنے اتحادیوں کے ہمراہ پرآشوب دور سے گزر رہا ہے، اس کیلئے بھارت کے ساتھ شراکت داری میں ہموار طور سے اضافے کی اپنی اہمیت ہے۔
ناقد متعدد مسائل پر جاری اختلافات کی جانب انگلی اٹھاتے ہیں۔ بہرحال یہ بھولنا آسان ہے کہ دہلی اور واشنگٹن مخصوص مسائل پر اپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے مجموعی طور پر شراکت داری کو مضبوط بنانا سیکھ چکے ہیں۔ بھارت کی جانب سے روس سے ایس-۴۰۰ میزائل سسٹم کی خریداری یا ایران سے کیسے معاملات رکھے جائیں، جیسے امور پر اختلاف نے بھی ان دونوں کو تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آنے اورایک ساتھ زیادہ کام کرنے سے نہیں روکا ہے۔ یہ وہ خطوط ہیں جن پر یہ تعلقات قائم ہیں لیکن بیانیئہ ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے- آیا بھارت مناسب حد تک دوستانہ رویہ رکھتا ہے، یا بھارت امریکہ کیلئے رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے؟ دہلی کے بیانیئے میں بھی امریکہ کے سامنے حد سے زیادہ سپردگی اور بھارتی خودمختار خارجہ پالیسی کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی حمایت میں مستقل بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ بے حد اہم ہوگا کہ آج کے مقبول بیانیئے سے مغلوب نہ ہوا جائے کیونکہ آج سے پہلے بھارت کی خارجہ پالیسی اس قدر عملی ہرگز نہ تھی۔
بھارت چین تعلقات کے مستقبل کے خطوط
یہ اختلافات سے نمٹنے کا معاملہ ہے جو بے حد نمایاں ہوگیا ہے۔ سرحدی تنازعے کے حل ہونے کے دور دور تک امکان نہیں ہیں۔ ڈوکلم تنازعے نیز چینی سپاہ کی جدیدیت اور بھارت کی اس کے ہم پلہ ہونے کیلئے ناکافی کوششوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو سرحد فوجی اعتبار سے بے حد متنازعہ ہوچکی ہے۔ ماضی میں، چین کے ساتھ بھارتی سرحد سیاسی اعتبار سے متنازعہ تھی تاہم عسکری اعتبار سے یہ پرسکون تھی۔ تجارتی خسارے میں بےحد اضافہ ہوا ہے اور بھارت اس کا کوئی حل تلاش نہیں کرسکا ہے۔ بھارت کہہ چکا ہے کہ اس نے آر سی ای پی سے چینی مسئلے کی وجہ سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن آپ چین پر دروازے بند نہیں کرسکتے ہیں- آپ کو اب بھی ان کے ساتھ تجارت اور معیشت کے مسئلے پر بات چیت کرنا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو بیجنگ آج اسلام آباد کی حمایت میں زیادہ جارحانہ رنگ اختیار کرچکا ہے خواہ کشمیر کے سٹیٹس کو میں تبدیلی اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اس معاملے پر ممکنہ بحث کروانے کا معاملہ ہو یا پھر اقوام متحدہ میں مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کا مسئلہ ہو جس پر بھی چین ہی بڑی رکاوٹ تھا۔ لہذا بھارت اور چین کے مابین تمام مسائل زیادہ پیچیدہ اور بے قابو ہوچکے ہیں۔ دہلی کے لئے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس دیوکے ساتھ تعلقات کو کیسے قابو میں رکھے جو اس کے پڑوس میں پیدا ہوچکا ہے۔
امریکہ طالبان معاہدہ اور بھارت کی افغانستان میں ممکنہ فوجی مداخلت
بھارت کیلئے اصل سوال یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کی صورت میں یہ خطے میں پیدا ہونے والی نئی صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرتا ہے؟ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں بھارتی شمولیت کے حوالے سے ماضی کی امریکی حکومتوں کے مقابلے میں بہت مختلف سوچ اپنائی ہے۔ جہاں ماضی کی حکومتوں نے نئی دہلی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان کی حساسیت کے پیش نظر عسکری اعتبار سے دور رہے اور معاشی مدد ہی جاری رکھے، ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ”آپ قریبی ہمسایہ ہیں، آپ مزید کچھ کیوں نہیں کررہے؟“ لہذا بھارت کیلئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ افغانستان میں مزید کیسے کام کرے- زیادہ مالی امداد کرے، زیادہ سفارت کاری کرے، اتحاد قائم کرے یا پھر ہم کو اپنی فوجیں زمین پر اتارنے پر غور کرنا چاہئے؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ افغانستان میں کچھ نہ کرنے کا فیصلہ جو کہ قابل عمل نہیں، اس سے لے کر بھارتی افواج کے امریکی افواج کی جگہ لینے تک کے فیصلے کے بیچ میں متعدد امکانات موجود ہیں۔
افواج کے عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کے سوال پر نئی دہلی میں دو طرح کے مکتبہ فکر موجود ہیں، اور یہ ۲۰۰۳ میں عراق کے معاملے پربحث کی یاد دلاتے ہیں۔ اس وقت، ایک جانب والوں کا کہنا تھا کہ ہمیں عراق جانا چاہئے کیونکہ بش نے بھارت سے ایسا کرنے کو کہا ہے اور یہ کہ اس نے امریکہ کے ساتھ سیاسی تعلقات کو نئی شکل دینے کیلئے در وا کئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب والوں نے، جن کی رائے بالآخر تسلیم ہوئی، عراق کے داخلی تنازعوں میں گھسیٹے جانے کے خطرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سیاسی طور پر محتاط رہنے پر زور دیا تھا۔ آج بھارت کو افغانستان کے سوال پر اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے اور مختلف امکانات کی صورت میں فوائد اور اس کی قیمت پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں فوجوں کو کاروائیوں میں شامل کرنے کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ بھارت کے پاس اپنی سپاہ کی اس قسم کی حفاظت کی صلاحیت نہیں ہے۔ بھارتی افواج کی وہاں موجودگی، اسے پاکستان یا مسلح گروہوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ انتہائی آسان نشانہ بنا دے گی۔ امریکہ افغانستان میں 1 لاکھ سپاہی اتار سکتا ہے لیکن بھارت ایسا نہیں کرسکتا۔ لیکن کیا کچھ اور ایسے کام ہیں جو بھارت کرسکتا ہے؟ زیادہ اسلحہ فراہم کرے، زیادہ تربیت، زیادہ سامان، انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ؟ یہ ایک دلچسپ بحث ہے۔ دیکھیئے یہ کتنی دور اور کہاں تک جاتی ہے۔
بھارتی داخلی سیاست کے خارجہ پالیسی پر اثرات
برصغیر کو ۱۹۴۷ سے تقسیم کے سانحے کے اثرات جیسا کہ نئی سرحدوں کے پار لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور مذہبی گروہوں کی تقسیم وغیرہ سے نمٹنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑی۔ گزشتہ متعدد برسوں نے ان مسائل کو نمایاں کیا ہے- خواہ کشمیر کا سوال ہو، بنگال سے آسام کی طرف لوگوں کا مسلسل انخلاء ہو، یا پھر دریائے سندھ اور گنگا کے پانی کے وسائل کی تقسیم ہو۔ آپ نے ایک ایسے علاقے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کردیا جو برطانوی راج میں یکجا، سیاسی طور پر معقول حد تک مربوط تھا (پنجاب اور بنگال غیر منقسم ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے تھے) اور اب آپ کے پاس بہت بڑے اور پیچیدہ مسائل ہیں جنہیں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
میرے خیال میں دہلی میں موجود سرکار تقسیم کی تلخ میراث سے نمٹنے کیلئے اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں مختلف سوچ پر عمل پیرا ہے۔ اس سے بھارتی اشرافیہ تقسیم ہوئی ہے اور بھارت کے دوستوں میں تشویش پیدا ہورہی ہے۔ اس کے بھارت کے بین الاقوامی تعلقات پر کچھ اثرات ہوں گے لیکن یہ کتنے زیادہ اور کتنے گہرے ہوں گے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ آج کی باہم مربوط دنیا میں دہلی کیلئے داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی کے مابین تقسیم کرنا مشکل ہوگا۔ نئی دہلی کو اپنی بعض پالیسیوں کی قیمت واضح ہوجانے پر ان کی دوبارہ جانچ کرنا پڑسکتی ہے۔ تاہم ابھی ہم نے ان مسائل پر دہلی کی جانب سے حتمی فیصلہ نہیں سنا ہے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Wikimedia Commons
Image 2: Pool via Getty Images