Nuclear

روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے نتیجے میں، دنیا کی تباہی سے دوری کا وقت بتانے والی قیامت کی گھڑی میں یہ وقفہ ۹۰ سیکنڈز کیا جا چکا ہے۔ یوکرین کی جوہری تنصیبات پر عسکری حملہ، خواہ یہ جانتے بوجھتے ہو یا پھر حادثاتی طور پر، اس کے نتیجے میں تابکاری کی آفت کے جنم لینے سے تنصیب پر کام کرنے والے مزدوروں، قریبی آبادیوں اور اردگرد کے ماحول کے متاثر ہونے کا شدید خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ یوکرین کی جوہری تنصیبات کو درپیش خطرے کی غیر معمولی سطح کو دیکھتے ہوئے، دنیا بھر میں دیگر غیر مستحکم خطوں میں ملتی جلتی صورتحال کے امکانات کو بہتر طور پر سمجھنا ناگزیر ہے۔

جنوبی ایشیا، میں جوہری ہتھیاروں سے لیس حریف بھارت اور پاکستان پرامن اور جنگی دونوں طرح کے مقاصد کے لیے متعدد جوہری ری ایکٹرز چلاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اگرچہ پالیسی ساز اور تجزیہ کار دونوں ہی جوہری اشتعال انگیزی کے خطرات پر اکثر روشنی ڈالتے رہتے ہیں، تاہم بھارتی یا پاکستانی جوہری تنصیبات پر حملے کے نتیجے میں تابکاری کی آفت وہ خطرہ ہے جو آج بھی توجہ سے محروم موضوع ہے۔ یہ مضمون روس یوکرین جنگ میں جوہری خطرات کے حوالے سے ملنے والے اسباق پر روشنی ڈالے گا، جوہری سلامتی کے لیے بین الاقوامی قانونی نظاموں کا تجزیہ کرے گا اور کسی بھی مسلح تنازعے میں جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات تجویز کرے گا۔

قانونی پس منظر

جوہری تحفظ، جوہری سلامتی اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاری کے حوالے سے عالمی قانونی نظاموں کا مقصد جوہری تابکاری کے نقصان دہ اثرات سے ملازمین، عوام اور ماحول کو محفوظ کرنا ہے۔ عالمی جوہری صنعت نے جوہری ٹیکنالوجی کے تحفظ و سلامتی کے لیے ۱۹۸۶ میں ہونے والے چرنوبل جیسے جوہری حادثوں سے سبق سیکھا ہے۔ جوہری سلامتی کے حوالے سے عالمی قانونی نظاموں کا ایک فوری جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی مسلح تنازعے کے دوران جوہری تنصیبات کی سلامتی، کسی بھی کثیرالفریقی قانونی ضابطوں کا مطمع نظر نہیں۔ تاہم دو قانونی ضابطوں میں چند حوالہ جات موجود ہیں۔

۱۹۴۹ کے جینیوا کنوینشن کے اضافی پروٹوکولز I (۱۹۷۷) کی شق نمبر ۵۶ میں درج ہے کہ بین الاقوامی انسانی قوانین (آئی ایچ ایل) کے مطابق کوئی بھی ریاست کسی بھی سویلین جوہری پلانٹ پر حملہ نہیں کر سکتی کہ جس کا نتیجہ تابکاری پھیلنے یا بھاری پیمانے پر شہریوں کے جان و مال کے نقصان کی صورت میں ہو۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس صورت میں جوہری توانائی کے پلانٹس کو نشانہ بنانے کی ممانعت نہیں کی گئی کہ جب ان سے بننے والی بجلی جنگی کوششوں کے سلسلے میں عسکری آپریشنز کے لیے استعمال کی جا رہی ہو۔ بین الاقوامی کنونشن برائے انسدادِ جوہری دہشت گردی (آئی سی ایس اے این ٹی) بھی کسی مسلح تنازعے یا فوجی سرگرمیوں کے دوران مسلح طاقتوں کی تمام سرگرمیوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کنونشن کے تحت، مسلح افواج جوہری تنصیب کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کے لیے ذمہ دار نہیں۔

کچھ دو طرفہ قانونی ضابطے ایسے ہیں جن کا مقصد جوہری تنصیبات پر حملے سے گریز ہے۔ ۱۹۸۸ میں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے جوہری منصوبوں اور تنصیبات پر حملے کی ممانعت کے لیے ایک معاہدے پر پہنچے تھے۔ دونوں ریاستوں نے دوسرے ملک کے جوہری منصوبے یا تنصیب کی تباہی، یا اسے نقصان پہنچانے کی غرض سے بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی اقدام اٹھانے کے لیے وعدہ کرنے، حوصلہ افزائی کرنے، یا اس میں شرکت کرنے سے گریز کا عہد نیز ہر کیلینڈر برس کی یکم جنوری کو اپنے اپنے جوہری منصوبوں اور تنصیبات کا طول البلد اور عرضِ بلد ایک دوسرے سے شیئر کرنے کا عہد کیا تھا۔

معاہدے کی توثیق کے بعد سے اس کے مطابق، بھارت اور پاکستان ہر سال اپنی اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست کا ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہیں۔ یہ ان دونوں ممالک کے درمیان جوہری خطرات میں کمی کے لیے اٹھائے گئے اولین اقدامات میں سے ایک ہے اور دونوں ریاستوں نے امن، بحران اور تناؤ کے عروج کے ادوار میں اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔

روس-یوکرین جنگ سے حاصل شدہ اسباق

قانونی نظاموں میں گو کہ حفاظتی خامیوں اور سلامتی کی خلاف ورزیوں کی روک تھام پر توجہ مرکوز کی گئی، تاہم یوکرین میں جوہری تنصیبات کے اوپر یا ان کے اطراف میں حملے کے امکانات نے جوہری تنصیبات کے تحفظ و سلامتی سے جڑی مشکلات کی پیچیدگیوں میں مزید ایک درجے کا اضافہ کیا ہے۔ عمومی طور پر جوہری تنصیبات کی تعمیر اس طرز پر نہیں ہوتی کہ یہ عسکری حملے سہہ سکیں۔ ”گہرائی میں دفاع” اور تابکاری کے پھیلاؤ سے بچاؤ جیسے اقدامات کسی بھی جوہری سہولت کو چوری، تابکاری کے اخراج یا سبوتاژ سے تو شائد محفوظ رکھ سکیں، لیکن کسی بھی جوہری سہولت کی اس طرز پر تعمیر کہ یہ براہ راست نشانہ بنانے والے فضائی حملوں سے خود کو بچا سکے، بہت مشکل ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے گاڑیوں کے صنعت کار گاڑیوں میں حفاظتی خصوصیات (مثلاً ٹریفک کے اشاروں کی پہچان، خود کار ہنگامی بریکیں) تو متعارف کروا سکتے ہیں لیکن وہ انہیں حادثات سے محفوظ نہیں بنا سکتے۔

جوہری تنصیبات پر فوجی حملے پہلے بھی ہو چکے ہیں لیکن یوکرین جیسی صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ قبل ازیں ہونے والے حملوں کا ہدف (۱۹۸۱ میں اوسیراق، عراق پر حملہ اور ۲۰۱۱ میں شام میں ایک مشتبہ جوہری تنصیب پر حملہ) زیرِ تعمیر مقامات تھے اس لیے تابکاری کے اخراج کا خطرہ نہیں تھا نیز یہ حملے دورانِ جنگ نہیں ہوئے تھے۔ یوکرین کی صورت میں نہ صرف یہ کہ ایک متحرک جنگ پہلے سے ہی جاری ہے جو بذات خود پیچیدگیاں پیدا کرتی ہے، بلکہ روسی افواج زاپوریژیا میں واقع جوہری تنصیب کے مقام کو عسکری آپریشنز کے لیے بطور بیس استعمال کر چکے ہیں۔ اس کے ردعمل میں آئی اے ای اے زاپوریژیا جوہری طاقت کے پلانٹ۔(زی این پی پی) کے مقام پر ایک جوہری حفاظت و سلامتی کے ایک محفوظ زون کے قیام کا مطالبہ کر چکا ہے۔

تابکار مادوں کے اخراج کا باعث بننے والے عسکری حملے کے اثرات کے نتیجے میں کوئی بھی خطہ تخفیف اور آلودگی کے اثرات سے پاک کیے جانے کے لیے بھاری مالی اخراجات اور وقت لیوا سرگرمیوں تک ناقابلِ رہائش ہو جاتا ہے۔ اسے صاف ستھرا کیے جانے پر اٹھنے والے براہِ راست اخراجات کے علاوہ تابکاری کا سامنا کرنے والے افراد پر ہونے والے مادی اور سماجی مضمرات ان پر تادیر اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔ اس کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے، ایک قبل از وقت معاہدہ اور حفاظتی زون کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔

خوف اور خدشات کے باوجود بھی جوہری تحفظ، جوہری سلامتی اور ہنگامی صورتحال کی تیاری کی لیے اقدامات نے تاحال یوکرین کی جوہری تنصیبات کو محفوظ رکھا ہے۔ یوکرین کی جوہری تنصیبات کے حوالے سے آئی اے ای اے کا متحرک کردار اور باقاعدگی کے ساتھ فراہم کی جانے والی اپ ڈیٹس نے بین الاقوامی برداری میں پائے جانے والے خدشات میں کمی لانے میں مدد کی ہے۔ مستقبل کے لیے یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہے – جوہری ری ایکٹرز دیگر کئی ایسے ممالک میں کام کر رہے ہیں جو جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان ان ہی میں سے دو ممالک ہیں۔

بھارتی اور پاکستانی رقابت کے لیے سبق

 پاکستان کے دو جوہری توانائی کے پلانٹس اس کے ساحلی شہر کراچی میں کام کرتے ہیں۔ بھارت کے متعدد جوہری ری ایکٹرز تراپور، کائیگا اور کندن کلام سمیت اس کی ساحلی پٹی کے اوپر یا اس کے قریب واقع ہیں۔ دونوں ریاستیں گزشتہ مسلح تنازعوں میں ایک دوسرے کی ساحلی پٹی کے اوپر حملے کر چکی ہیں۔ بھارتی بحریہ نے ۱۹۷۱ میں کراچی کے ساحل پر حملہ کیا تھا جبکہ پاکستان کی بحریہ نے بھارت کے ساحلی شہر دوارکا پر ۱۹۶۵ میں حملہ کیا تھا۔ میزائل کی رینجز اور ان کی درستگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ، اب دونوں ممالک کے لیے ایک دوسرے کی جوہری سہولیات کو نشانہ بنانا تیکنیکی لحاظ سے ممکن ہے، یہ اس صورت میں بھی ممکن ہے کہ جب یہ جوہری سہولیات اس زمینی سرحدوں سے متصل نہ ہوں۔

ساحلِ سمندر پر واقع یہ ری ایکٹر بشمول ان کے جو ملک کے اندرونی حصوں میں تعمیر کیے گئے ہیں، فضائی حملے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اگرچہ مندرجہ بالا میں بیان شدہ مسلح تنازعے، دونوں کے درمیان عدم حملے کے دو طرفہ معاہدے سے قبل کے ہیں، لیکن اس امر کی کوئی ضمانت موجود نہیں کہ یہ معاہدہ مستقبل میں ہونے والے کسی مسلح تنازعے کی صورت میں حملے کو روکے گا۔ مستقبل کے بارے میں مفروضے قائم کرنے کے ضمن میں آنے والے برسوں سے بہت معمولی شواہد ملتے ہیں۔ دونوں ریاستیں متعدد بحرانوں کے باوجود بھی گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کسی مسلح تنازعے میں ملوث نہیں ہوئی ہیں۔ ۱۹۹۹ میں کارگل بحران کے دوران لڑائی بھی صرف ایک سیکٹر تک محدود رہی تھی۔

جوہری ری ایکٹر پر حملے سے جڑا ایک اور مسئلہ اشتعال انگیزی کے بڑھنے کے خطرے کا ہے۔ کسی عسکری جوہری سہولت کے اوپر حملہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو متاثر کر سکتا ہے جبکہ کسی سویلین جوہری طاقت کے پلانٹ پر حملہ بجلی کی فراہمی میں خلل کا باعث ہو سکتا ہے۔ جوہری سہولت کے اوپر حملہ عوام الناس میں خوف پیدا کرے گا اور یہ دشمن کے لڑائی کے عزم پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ تابکاری کے اخراج کی صورت میں، قریبی علاقے ممکنہ طور پر آلودہ اور ناقابل رہائش ہو جائیں گے۔ متاثرہ علاقوں کو خالی کروانے کا عمل عوام کو درپیش مصائب اور مشکلات میں اضافہ کریں گے اور یہ ریاست کو درپیش ایک اور آزمائش کی صورت اختیار کر لے گا۔

بڑے پیمانے پر تابکار مادوں کے اخراج کی صورت میں، سرحد پار جانے والے اثرات حملے کو ایک عالمی مسئلے کی شکل دے سکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے مابین مسلح تنازعے کے دوران کسی جوہری سہولت کے اوپر حملہ ایک ایسی جارحیت سمجھا جا سکتا ہے جو نشانہ بنائی گئی ریاست کے لیے سرخ لکیر پار کرنے کی مانند حیثیت رکھ سکتا ہے۔ ایسا حملہ مسلح تنازعے کو جوہری سطح کے تنازعے میں بدل سکتا ہے۔ اس تناظر میں، ایسے اقدامات پر غور کرنا اہم ہے جنہیں مستقبل میں کسی آفت سے بچاؤ کے لیے عالمی برادری استعمال کر سکتی ہے۔

مستقبل کے لیے راہِ عمل

کسی بھی جوہری سہولت کے اوپر فوجی حملے کے نتیجے میں جوہری یا تابکاری سے متعلقہ حادثے سے جڑے خدشے پر ایک منطقی ردعمل تو یہ ہے کہ ایسے کسی واقعے کے رونما ہونے کے امکان کو محدود کیا جائے۔ بھارت اور پاکستان کو ان جوہری سہولیات کی فہرست کی تازہ کاری اور توسیع کرنے کی ضرورت ہے جن کا سالانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کے ہمراہ اشتراک کیا جاتا ہے۔ دونوں ریاستوں نے نئی سہولیات تعمیر کی ہیں جنہیں ان کی فہرستوں میں شامل کیا جانا چاہیئے۔ مزید برآں، بھارت اور پاکستان دونوں کو جوہری خطرے میں کمی کے لیے بات چیت کا آغاز کرنا چاہیئے۔ اس سے نہ صرف شفافیت میں اضافہ اور باہمی اعتماد پیدا ہو گا، بلکہ یہ ان کے افعال کے قابلِ پیشنگوئی ہونے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرے گا۔ دونوں کے درمیان دو طرفہ معاہدے کی زبان کو بھی اتنا واضح بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی مسلح تنازعے کی صورت میں ان کی جوہری سہولیات بدستور محفوظ رہیں۔ ایک دوسرے سے جڑے جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ہونے کے سبب، کسی ایک ملک میں جوہری یا تابکاری حادثے کے دوسرے ملک میں تباہ کن اثرات ہو سکتے ہیں۔

نئے کثیرالفریقی عالمی انتظامات کے ذریعے کسی دوسری ریاست میں جوہری سہولت کے اوپر یا اس کے قریب حملوں کو غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیئے۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آئی اے ای اے جوہری سلامتی، جوہری تحفظ اور ہنگامی تیاریوں و معلومات کے لیے پہلے سے ہی ایک ڈپازٹری باڈی کے طور پر وجود رکھتی ہے، یہ نئے قانونی انتظامات کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کر سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈپازٹری اور نگران باڈی کا کردار اختیار کر سکتی ہے۔ طے پانے والے حتمی معاہدے کی شراکت دار ریاستیں، آئی اے ای اے کے معلوماتی سرکیولرز (آئی این ایف سی آئی آر سیز) کے مطابق اپنے اپنے جغرافیائی نقاط کی فہرست کاری کرتے ہوئے اور انہیں پھیلاتے ہوئے اپنی اپنی جوہری سہولیات کی وضاحت کر سکتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ معاہدے کو بطور مثالِ سامنے رکھتے ہوئے، ریاستی فریق اپنے علاقوں میں کسی بھی نئی جوہری سہولت کی تعمیر کی صورت میں اس فہرست کو تازہ ترین کر سکتے ہیں، اور یوں شفافیت میں اضافہ نیز کسی بھی دوسری ریاست کی جانب سے عسکری حملے کے خلاف اضافی تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ عالمی قانونی وجود کسی بھی عسکری حملے کی صورت میں ذمہ داری کے لیے دفعات بھی رکھ سکتا ہے تاکہ حملہ آور کو نقصانات کے لیے متاثرہ ریاست کو ادائیگی کرنا پڑے۔ یہ عدم تعمیل کی صورت میں احتساب اور تعزیری کارروائی دونوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ جوہری سہولیات پر عسکری حملے کو غیر قانونی قرار دینے والا ایک کثیر الفریقی قانونی معاہدہ ایک نئی عالمی روایت ڈالنے میں مدد دے گا۔

عسکری حملے کے نتیجے میں تابکاری کے اخراج سے وابستہ خطرات، عالمی برادری کو ایسے وقوعے کو رونما ہونے سے روکنے کے لیے محرک کی فراہمی کے لیے کافی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک دو طرفہ معاہدہ ایک عالمی روایت قائم کرنے یا مروجہ طریقۂ عمل طے کرنے کے لیے کافی نہیں۔ صرف ایک کثیرالفریقی معاہدہ ہی جوہری سہولیات پر حملہ نہ کرنے کی روایت قائم کر سکتا ہے۔

جنگیں اور مسلح تنازعے تباہ کن ہوتے ہیں۔ تابکاری کی تباہی کا خوف صرف مصائب کو مزید ابتر کرتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان غیر مستحکم تعلقات، کسی جوہری سہولت کے اوپر عسکری حملے کا امکان، اور اس سے وابستہ تابکاری اور جوابی اشتعال انگیزی ایک ہولناک صورتحال پیش کرتے ہیں۔ یوکرین کی جوہری تنصیبات کے اوپر حملے کے موقع پر جس خوف نے دنیا کو جکڑ لیا تھا، وہ سانحہ جنوبی ایشیا میں دوہرایا جا سکتا ہے اور زیادہ ابتر شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ایک حملے کے خطرے اور اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے، جنوبی ایشیا میں اس وقوعے کے رونما ہونے سے روکنے کے لیے عالمی سطح کی کوششوں کی فوری ضرورت ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Pallava Bagla/Corbis via Getty Images

Image 2: Dimitar Dilkoff/AFP via Getty Images

 

Share this:  

Related articles

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ Hindi & Urdu

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

چین اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے قریبی تعلقات…

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…