اپریل ۹ کو نصف شب کے بعد عمران خان پاکستان کی تاریخ میں عدم اعتماد کے ووٹ (وی او این سی) کے نتیجے میں بے دخل کیے جانے والے پہلے وزیراعظم بنے، جن کے خلاف یہ قرار داد قومی اسمبلی کے اکثریتی ممبران نے منظور کی۔ اس عمل میں پاکستان کے سپریم کورٹ کا کردار کلیدی نوعیت کا تھا کیونکہ عدم اعتماد کا ووٹ سپریم کورٹ کے ۷ اپریل کے اس مختصر حکم نامے کی وجہ سے ممکن ہوا جس نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ووٹ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششوں کو روکا تھا۔ گو کہ مختصر حکم نامہ عدالتی فیصلے کی وجوہات کی وضاحت نہیں کرتا ہے تاہم عدالتی قانون، فیصلے کے پیچھے موجود ممکنہ توجیح پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ فیصلہ اس جانب ایک واضح اشارہ ہے کہ آئینی عہدے داران کے غیرقانونی اقدامات محض اس لیے برداشت نہیں کیے جائیں گے کہ ووٹ دہندگان میں واپسی کو نمائندوں پر مشتمل اسمبلی کی بحالی کی نسبت زیادہ پرکشش متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے- یہ وہ فیصلہ ہے جو پاکستان کی نمائندہ جمہوریت کے کام کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
عدالت کی شمولیت
اس امر کی شناخت اہم ہے کہ سپریم کورٹ کس طرح عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کے لیے اکھاڑا بنی۔ عوام میں معیشت کی وجہ سے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کے بین بین حزب اختلاب کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کرنے کے منصوبے کو سازگار ماحول ملا ۔ اس کا نتیجہ پی ڈی ایم کے ۸ مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کی صورت میں ہوا۔
عدم اعتماد کے ووٹ سے پچھلے ہفتے میں عمران خان کا ”خط“ لہرانے کا معاملہ چھایا رہا؛ وہ خط جو بقول ان کے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی خاطر ان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے نکالنے کی سازش کا ثبوت فراہم کرتا تھا۔ ۳ اپریل کو جب قومی اسمبلی وزیراعظم کی قسمت کے فیصلے کے لیے یکجا ہوئی تو اس خط کی بے حد اہمیت تھی۔ قبل اس کے کہ عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنے کا عمل شروع ہوتا، قومی اسمبلی کے اسپیکر نے وزیر اطلاعات کو فلور دے دیا، جنہوں نے غیرملکی حمایت یافتہ انتقال اقتدار کے الزام کو دہرایا اور عدم اعتماد کے ووٹ کو ریاست سے ”غداری“ کے مترادف ٹھہراتے ہوئے آئین کے آرٹیکل ۵ کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ردعمل میں اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو ایک ”سازش“ کا غیرقانونی نتیجہ قرار دینے کے بعد اسے مسترد کر دیا۔ اسپیکر کے فیصلے کے فوری بعد صدر کی جانب سے وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کا فیصلہ سامنے آیا۔
قومی اسمبلی کی تحلیل اسپیکر کے قرارداد مسترد کرنے کے فیصلے کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔ آئین کے آرٹیکل ۵۸ (۱) کے تحت، صدر وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تاہم یہ تجویز کرنے کے لیے لازم ہے کہ وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا نہ ہو۔ اس شرط کا مقصد کسی وزیراعظم کو اس امر سے باز رکھنا ہے کہ وہ اسمبلی کے ان اکثریتی ممبران جن کا وہ اعتماد کھو چکا ہو، بذریعہ تحلیل ان کی برطرفی کے ذریعے خود کو عدم اعتماد کے ووٹ سے بچا سکے۔ اسپیکر کے عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے سے عمران خان کے اختیارات کی راہ میں حائل واحد رکاوٹ دور ہو گئی اور انہیں ۳ اپریل کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے مطالبے کی آزادی مل گئی۔
تحلیل کے بعد حزب اختلاف کی ہنگامہ آرائی نے سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار استعمال کرنے کی جانب راغب کیا جس کی اجازت اسے آئین کا آرٹیکل ۱۸۴(۳) دیتا ہے۔ آرٹیکل ۱۸۴(۳) عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی معاملے کا نوٹس لے سکتی ہے جو ”عوامی مفاد“ میں ہو اور اس کا تعلق شہریوں کے ”بنیادی حقوق“ سے ہو۔ اگر عدالت بذات خود مطمئن ہو کہ معاملہ اس دورخی پیمانے پر پورا اترتا ہے تو یہ کسی بھی فریق کی جانب سے عدالت کا دروازہ کھٹکائے بغیر بھی معاملے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں سوموٹو کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم یہ پہلا موقع تھا کہ جب پارلیمنٹ کی تحلیل کی قانونی حیثیت پر عدالت کے سوموٹواختیار کے تحت فیصلہ کیا گیا ہو۔ ماضی کے واقعات میں، غم و غصے کا شکار پارلیمینٹیرینز نے عدالت میں درخواستیں دائر کی تھیں؛ حتیٰ کہ اس واقعے میں بھی تحلیل کے چند گھنٹوں بعد ہی مبینہ طور پر پٹیشنز تیار کی جا رہی تھیں کہ سپریم کورٹ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ سپریم کورٹ نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ اس کا پھرتی دکھانا جائز تھا کیونکہ بنچ میں موجود ”ہر ایک“ کا خیال تھا کہ یہ ”آئینی معاملہ“ ہے۔
عدالت اور پارلیمنٹ
قبل اس کے کہ سپریم کورٹ سپیکر کے کردار کی قانونی حیثیت کی جانچ کر سکتی، اسے آئین کے آرٹیکل ۶۹ سے نمٹنا تھا جو عدالت کو پارلیمنٹ میں کی گئی ”کسی قسم کی کارروائی کی حیثیت“ پر سوال اٹھانے سے روکتی ہے۔ اس شق کا بغور مشاہدہ شائد یہ تاثر دے کہ اسپیکر کے اقدامات یا پارلیمنٹ کی حدود میں اٹھائے گئے کسی بھی اقدام کو عدالتوں کی جانب سے جانچ پرکھ سے تحفظ حاصل ہو گا۔ تاہم ایسی ”بے دخلی کی شقوں“ (یعنی وہ شقیں جو عدالتوں کے اختیار کو بے دخل کرتی ہیں) کے بارے میں عدالتی فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بعض کیفیات کہ جن میں عدالت اب بھی مداخلت کر سکتی ہے، ان کے لیے ازخود استثنیٰ تشکیل دے لیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی کارروائی عدالتی جانچ پڑتال سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتی بشرطیکہ درخواست گزار یہ ظاہر کر سکے کہ معاملہ عدالت کی جانب سے تشکیل کردہ تین مثتثنیات میں سے ایک کے تحت ہے۔
بے دخلی کی کسی شق کے تحت تحفظ پانے کے لیے درخواست گزار کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ چیلنج کیا گیا فیصلہ/ کیا گیا فیصلہ آیا (الف) دائرہ اختیار کے بغیر لیا گیا یا ( ب) ”خلاف ضابطہ“ (یعنی ایک ایسے ادارے کی جانب سے کیا گیا جو غیر مناسب طور پر تشکیل دی گئی تھی) یا (ج) بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ بدنیتی، ”حقائق میں بددیانتی“ یا ”قانونی بددیانتی“ ہو سکتی ہے۔ موخرالذکر قانونی جواز کے بغیر کیے گئے فعل کو بیان کرتی ہے جو اس قدر ”سراسر غیرقانونی“ ہو کہ اس پر قانون کی رو سے غور ممکن ہی نہ ہو، خواہ یہ لازمی طور پر بدنیتی پر مبنی نہ ہو۔ اسپیکر کے کردار کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کو یہ طے کرنے کی ضرورت تھی کہ عدم اعتماد کے ووٹ کا استرداد درج کردہ تین مستثنیات میں سے ایک کے تحت آتا ہے۔ گو کہ مختصر حکم نامے میں یہ درج نہیں کیا گیا، تاہم کورٹ نے معاملے کو واضح طور پر اس معیار پر پورا اترتے ہوئے دیکھا بصورت دیگر وہ سپیکر کے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کرنے کے فیصلے کا جائزہ شروع نہ کرتی۔
اس حوالے سے مروجہ قانونی اصول جسے بارہا سپریم کورٹ کی حمایت حاصل رہی ہے، یہ بیان کرتا ہے کہ کسی بھی سرکاری اہل کار (جیسا کہ اسپیکر) کو بذات خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے اور وہ صرف وہی کرنے کا اختیار رکھتا ہے جس کی اجازت اسے قانون دیتا ہے۔ لہذا اسپیکر کو اپنی خواہش کے طابع عمل کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا، اور قرارداد کو مسترد کرنے کا اختیار قانون کی کسی شق کے تحت ہی ہو سکتا تھا۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل ۹۵ اس ضمن میں اہمیت رکھتا ہے۔ یہ عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے طریقہ کار وضع کرتا ہے اور پابند بناتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی کے کم از کم ۲۰ فیصد اراکین کی جانب سے پیش کی جائے۔ تاہم آرٹیکل ۹۵ ایسی قرارداد کو مسترد کرنے کے لیے اسپیکر کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں دیتا ہے۔ اس کے بعد اسپیکر جو واحد قدم اٹھا سکتا ہے وہ قرارداد پر ووٹ کے لیے اسے ایوان کے سامنے پیش کرنا ہے۔ یہی وہ وجہ دکھائی دیتی ہے کہ جس کے سبب سپریم کورٹ نے اسپیکر کے مسترد کرنے کو ”آئین کے منافی“ قرار دیا کیونکہ وہ قرارداد پیش کرنے والے ممبران کی وفاداری کا تجزیہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اسپیکر کے مسترد کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دینے کی بے حد اہمیت ہے کیونکہ اس کے بغیر اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس قسم کی صورتحال میں جو بنیادی قانونی اصول نافذ ہوتا ہے وہ یہ بیان کرتا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی اقدام کی بنیاد پر استوار کی گئی کوئی بھی ”عمارت“ اس غیرقانونی اقدام کے ساتھ ہی منسوخ ہو جائے گی۔ اس واقعے میں اسمبلی کی تحلیل، اسپیکر کے فیصلے کی بنیاد پر تعمیر کی گئی عمارت تھی، لہذا اس کی تحلیل بھی غیرقانونی تھی۔
ماضی کے واقعات
سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی تحلیل کو ہمیشہ منسوخ نہیں کیا ہے، حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں کہ جب تحلیل غیرقانونی قرار پا گئی ۔ ۱۹۸۹ میں حاجی سیف اللہ کیس میں عدالت نے (اس وقت کے صدر) جنرل ضیاءالحق کی جانب سے وزیراعظم جونیجو کی قیادت میں قائم قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کے خلاف چیلنج کی سماعت کی تھی، یہ چیلنج ضیاء کی موت کے بعد لیکن انتخابات سے قبل دائر کیا گیا تھا جو کہ نومبر ۱۹۸۸ میں ہونا تھے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ تحلیل آرٹیکل ۵۸ (۲) ( بی) کے تحت وضع کردہ شرائط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے غیرقانونی تھی – یہ شق جو بعد ازاں منسوخ ہو گئی، صدر کو ایسی صورت میں اسمبلی کی تحلیل کا اختیار دیتی تھی کہ جب اسے محسوس ہو کہ حکومت آئین کے مطابق کام نہیں کر سکتی ہے۔ تاہم عدالت نے متعدد وجوہات کی بنا پر اسمبلی کو بحال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے قرار دیا تھا کہ درخواست گزار نے (جو ممبر قومی اسمبلی تھے) ”دیر“ سے عدالت سے رابطہ کیا (اس التواء کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ضیا کی موت تک اس چیلنج کو دائر ہی نہیں کیا جا سکتا تھا)۔ اس التواء کا نتیجہ یہ تھا کہ تب تک پورا ملک ”انتخابات کی جانب قدم بڑھا چکا تھا“ اور سیاسی جماعتوں اور اسی طرح عوام نے انتخابات میں جانے کے فیصلے کو ”قبول“ کر لیا تھا۔ لہذا، ووٹ دہندگان کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے کی اجازت دینے کی صورت میں ہی ”قومی مفاد“ کا بہتر طریقے سے تحفظ ممکن ہو سکتا تھا، جو انتخابی عمل کے انعقاد کی حمایت کے لیے موجود ”واضح قومی اتفاق رائے“ سے ظاہر ہوتا تھا اور جہاں (”غیرجماعتی“ بنیادوں پر انتخابات کے برعکس کہ جس کا نتیجہ تحلیل شدہ اسمبلی کی صورت میں نکلا اور جس نے اپنے نمائندوں کے کردار پر شبہات پیدا کیے) سیاسی جماعتیں آخر کار مقابلہ کرنے کے قابل ہوتیں۔
سیف اللہ کیس اور موجودہ تحلیل میں فرق واضح ہیں۔ یہاں مہینوں کا فرق نہیں تھا کیونکہ سپریم کورٹ کی چابک دستی نے کیس کی سماعت و فیصلے کو پانچ دن میں ممکن بنایا۔ نہ ہی ملک میں ”کثیر تعداد میں اکثریت“ انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی یا اس کے انعقاد کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے تھے۔ سماعت کے آخری روز، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ وہ طے شدہ ۹۰ دن کے وقت میں انتخابات کروانے کے قابل نہیں ہو گی کیونکہ حلقوں کی حدبندی میں تبدیلیاں بروقت نہیں کی گئی ہیں۔ پاکستان کی ۲۰۲۲ کی قومی اسمبلی بھی، ۱۹۸۸ میں تحلیل ہونے والی اسمبلی کے مقابلے میں ووٹ دہندگان کی نمائندگی کا زیادہ بہتر طور پر دعویٰ کر سکتی ہے۔ عدالت کے پاس بھی قائل کرنے لائق ایسا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا تھا کہ جس کے سبب وہ پانچ روز قبل لیے گئے غیرقانونی اقدام کو ختم نہ کر سکے۔ ۲۰۲۲ کے فیصلے سے تقریباً ملتا جلتا ۱۹۹۳ کا نواز شریف کیس ہے جہاں صدر غلام اسحٰق خان نے نوازشریف کی اپنے خلاف تباہ کن تقریر کی بنیاد پر بطور وزیراعظم، نوازشریف کی قیادت میں قائم اسمبلی کو تحلیل کرنے کا حکم دیا تھا، جسے وزیراعظم شریف کی جانب سے ایک ہفتے کے اندر چیلنج کر دیا گیا تھا۔
سیف اللہ کیس کی طرح نواز شریف کیس میں بھی عدالت کو پتہ چلا کہ تحلیل آرٹیکل ۵۸ (۲) (بی) کی شرائط پر پوری نہیں اترتی ہے لیکن آخرکار عدالت نے اسمبلیاں بحال کر دیں کیونکہ نوازشریف کیس میں عدالت کے سامنے ۱۹۸۸ کی منفرد مثال پر بحث نہیں کی گئی۔ ۲۰۲۲ کے واقعے کو جب سیف اللہ کیس کے فیصلے کے مقابل رکھا جائے تو ۲۰۲۲ کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب نمائندہ پارلیمنٹ کا پتہ دینے والے انتخابات کی جانب ٹھوس قدم نہ بڑھائے گئے ہوں تو ایسے میں سپریم کورٹ کو تحلیل بحال رکھنے کے لیے ”قومی مفاد“ دستیاب نہیں ہو گا۔ یوں سپریم کورٹ نے ایک مثال قائم کی ہے کہ جہاں ایک غیرقانونی قدم تحلیل کی جانب لے جائے گا، تو سپریم کورٹ نہ صرف ایسے غیرقانونی قدم کو رد کر دے گا جو ”بنیاد“ کا کام دیتا ہو بلکہ اس کے نتیجے میں اس کے اوپر قائم ہونے والی ”عمارت“ یعنی کہ تحلیل کو بھی رد کر دے گی۔
فیصلے کی میراث
یہ مضمون قانونی کہاوتوں میں سے جس آخری کا حوالہ دے گا، وہ شائد اس فیصلے کی میراث کو بہترین طریقے سے بیان کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو اپنے کیے ہوئے غلط فیصلوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ اسپیکر کا فیصلہ، وزیراعظم کی اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے دینے کے لیے ایک کھلم کھلا غیرآئینی چال تھی۔ جب عدالت، اسپیکر کی جانب سے ممبران کی وفاداری پر فیصلہ سنانے کے اختیار پر قائل ہوتی دکھائی نہیں دی تو خان کی چال اور نتیجے میں ہونے والی تحلیل کو استعمال میں لاتے ہوئے عدالت کو اس فیصلے پر اکسایا گیا کہ ”حقیقی مقتدراعلیٰ“ یعنی کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیئے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ جمہوریت ایسی رائے شماری کے ذریعے ہی اپنی ذمہ داری بھرپور طریقہ سے نبھاتی ہے۔ تاہم نئے انتخابات کے مطالبے سے غیرآئینی اقدامات کے لیے معافی مل گئی ہوتی۔ اسمبلی کی بحالی نہ ہونے کی صورت میں بعد ازاں وجود میں آنے والی حکومت کو آئین میں درج جمہوری طریقہ کاروں کو نظرانداز کرنے کے لیے زیادہ ترغیب ملتی۔
لہذا عدالت کا حکمران جماعت کو آئین کی اس عجیب و غریب پامالی سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے ذریعے اس لائحہ عمل پر قابو پانے کا فیصلہ انتہائی اہم تھا۔ دوسرا کوئی بھی فیصلہ یہ اشارہ دیتا کہ عدالت اس بنیاد کے تحفظ میں ناکام رہی ہے جو خود اس کی تخلیق کرتا ہے اور جو آئین کہلاتا ہے۔ لہذا یہ فیصلہ واضح طور پر پیغام دیتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے کی جانے والی پالیٹیکل انجینیئرنگ اگر آئین کی قیمت پر ہو گی تو رد کر دی جائے گی۔ اس عمل کے ذریعے عدالت آئینی عمل پر بھروسہ بھی بحال کرتی ہے جو اس کی نمائندہ جمہوریت کے کام کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Robert Nickelsberg/Liaison via Getty
Image 2: Bloomberg via Getty Images