بھارت اور پاکستان دونوں نے گزشتہ انتخابات میں خواتین قانون سازوں کی ریکارڈ توڑ نمائندگی دیکھی۔ بھارت میں، ۲۰۱۹ کے عام انتخابات میں لوک سبھا کی نشستوں پر ۷۰۰ سے زائد خواتین نے مقابلہ کیا، جس میں سے ۷۸ ( تقریباً ۱۱ فیصد) نے کامیابی حاصل کی- بھارتی انتخابی تاریخ میں یہ کامیاب خواتین امیدواروں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ پاکستان میں بھی ۲۰۱۸ کے انتخابات میں پارلیمنٹ کیلئے مقابلہ کرنے والی خواتین کی تعداد بلند ترین تھی۔ تاہم،۱۸۳ میں سے محض ۸ ( تقریباً ۴ فیصد) خواتین امیدوار پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرپائیں۔
دونوں ممالک کی پارلیمنٹ میں اگرچہ صنفی تفریق اب بھی زیادہ ہے، تاہم بھارت میں خواتین قانون سازوں کی سیاسی شناخت جو نچلی ترین سطح سے کی جانے والی متحرک سیاسی جدوجہد کے سبب انہیں ملی، پاکستان کو اہم سبق دیتی ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں اگر آئندہ انتخابات میں پدرانہ سیاسی رواج کے خاتمے میں سنیجدہ ہوں تو وہ بھارت کی جانب دیکھ سکتی ہیں۔
نچلی ترین سطح پر تبدیلی
پاکستان میں، الیکشن قانون (۲۰۱۷) خواتین کی انتخابی عمل میں شرکت خواہ بطور امیدوار ہو یا ووٹ دہندہ، اس میں رکاوٹ ڈالنے کو جرم قرار دیتا ہے۔ یہ قانون سیاسی جماعتوں کو پابند بناتا ہے کہ عام انتخابات میں وفاقی و صوبائی اسمبلی دونوں میں کم از کم پانچ فیصد خواتین امیدوار مقابلہ کررہی ہوں۔ ۲۰۱۸ کے انتخابات میں، تمام بڑی قومی جماعتوں نے یہ تعداد کم از کم فیصد کے قریب رکھی جبکہ ۴۵ فیصد سیاسی جماعتوں نے ایک بھی خاتون امیدوار کو نامزد نہیں کیا۔ یوں، جہاں بہت سی جماعتوں نے قانون پر عمل ہی نہیں کیا وہیں وہ جماعتیں جنہوں نے اس پر عمل کیا انہوں نے بھی محض کوٹے کو پر کرنے تک خواتین امیدواروں کو منتخب کیا۔ زیادہ تر خواتین امیدواروں کوبطور حکمت عملی ایسے حلقوں کیلئے ٹکٹس جاری کئے گئے جہاں سے جماعت کے جیتنے کے امکانات نہیں تھے۔ ان میں سے بہت سی امیدواروں نے انتخابات کیلئے مہم تک نہ چلائی اور بینر پر اپنی تصویریں تک نہ دیں۔
انتخابات میں کوٹے کے تحت نمائندگی کے علاوہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں خواتین کیلئے ۶۰ مخصوص نشستیں ہیں۔ تاہم بالواسطہ انتخابات کے نظام کے سبب سیاسی جماعتیں یہ نشستیں قابلیت یا جنس کی بنیاد پر دینے کے بجائے ذاتی پسند اوراقرباپروری کی بنیاد پر نوازتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان مسلم لیگ نواز ( پی ایم ایل این) میں مخصوص نشستوں کیلئے خواتین امیدواروں کی فہرست ان خواتین تک محدود رہی ہے جن کے جماعت کی مردانہ قیادت کے ساتھ قریبی خاندانی تعلقات ہیں۔
قومی سطح کیلئے قانونی دائرہ کار کے علاوہ، سنہ ۲۰۰۰ میں جنرل مشرف کے مقامی حکومتوں کے منصوبے نے ضلعی، بلدیاتی اور یونین کونسل کی سطح پر خواتین کیلئے ۳۳ فیصد کوٹا متعارف کروایا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان بھر میں تقریباً ۱۰۰،۰۰۰خواتین سیاست میں آئیں تھی۔ ۲۰۱۰ میں قومی اسمبلی کی جانب سے آئین میں ۱۸ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی حکومتوں نے قانون سازی کے ضمن میں مرکز سے زیادہ وسائل اور طاقت حاصل کرلی۔ اس کے بعد سے، تمام صوبوں کا مقامی حکومتوں کا قانون جسے ۲۰۱۳ میں پیش کیا گیا تھا، خواتین کیلئے مخصوص نشستوں کا نظام نافذ کرچکا ہے تاہم اس کی کامیابی تمام صوبوں میں غیر یکساں ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۵ کے کنٹونمنٹ انتخابات میں ۱۹۹ نشستوں میں سے محض دو پر خواتین منتخب ہوئیں تھیں، یہ نتیجہ مشرف کے ۳۳ فیصد کوٹے سے میل کھانے میں صریحاً ناکام رہا۔ بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور دیگر علاقے جہاں کی آبادی نسبتاً روایت پسند ہے، مخصوص نشستوں پرخواتین کے مقابلے کی شرح اس قدر کم ہے کہ منتخب ہونے والی زیادہ تر خواتین کونسلرز بلامقابلہ فاتح رہیں۔ پنجاب اور سندھ میں، جہاں دیگر دو صوبوں کے مقابلے میں خواتین کی شرکت کہیں زیادہ ہے، وہاں خواتین کیلئے مخصوص کوٹا کم کرتے ہوئے بالترتیب ۱۵ اور ۲۲ فیصد کردیا گیا۔
بھارت میں خواتین قانون سازوں کیلئے لوک سبھا یا راجیہ سبھا ( پارلیمنٹ کا ایوان بالا) میں کوئی کوٹا مخصوص نہیں۔ عام انتخابات میں جہاں قومی جماعتوں کیلئے خواتین امیدواروں کی پابندی نہیں، آئین کی ایک شق دیہی کونسلز کی ۳۳ فیصد نشستوں کے خواتین کیلئے مخصوص کئے جانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان آئینی شقوں کا بنیادی مقصد نچلی ترین سطح پر صنفی تفریق کا خاتمہ ہے۔ نچلی ترین سطح پر کوٹا سسٹم بلند نظر خواتین کو ان کی عملی زندگی کے آغاز پر ہی سیاسی کردار کیلئے تیاری کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔ یہ عوام میں بھی خواتین کی قیادت کیلئے قبولیت کو بڑھاتا ہے۔
جہاں بھارتی آئین دیہی کونسل کی نشستوں کا تیسرا حصہ خواتین کیلئے مخصوص کرتا ہے، وہیں خاوند یا والد کی جانب سے ان دیہی خواتین کونسلرز کو اپنے طاقت کے کھیل میں بطور پیادہ استعمال کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ جیسے جیسے یہ خواتین سیاسی کامیابی اوراپنے عہدے کے سبب شعور حاصل کرتی ہیں، تجربے کے ذریعے خودمختاری حاصل کرلیتی ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان میں زیادہ تر خواتین سیاستدان انتخابات میں حصہ لیئے بغیر مخصوص نشستوں کے ذریعے براہ راست سیاست میں قدم رکھتی ہیں۔ ان کا کوئی حلقہ نہیں ہوتا۔ انہیں مہم چلانے یا ووٹ دہندگان سے درخواست کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اسی لئے ان کے وقت کے ساتھ سیاسی طور طاقتور ہونے کے امکانات کم ہیں۔
سیاسی شناخت کی حامل خودمختار خواتین کو میدان میں اتارنا
۲۰۱۹ کے لوک سبھا کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی خواتین امیدواروں کا سیاسی کردار برسوں کی جدوجہد سے تعمیر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے حلقوں میں بتدریج قدم مضبوط کرنے کے ذریعے سے متعلقہ سیاسی جماعتوں میں درجہ بدرجہ کامیابی حاصل کی۔ سمرتی ایرانی جنہوں نے کوئی اور نہیں بلکہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر راہول گاندھی کے خلاف ۵۵،۱۲۰ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی، معمولی سیاسی پس منظر کی حامل ہیں۔ جہاں ان کا خاندان سیاسی طور پر متحرک اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا رکن تھا ، وہیں وہ اپنے خاندان میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے والی پہلی فرد ہیں۔ اسی طرح سادھوی پراگیا نے کانگریس کے مضبوط امیدوار دگ وجے سنگھ کو ۳۶۴،۸۸۲ ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ سمرتی کی طرح انکا خاندان بھی سیاسی طور پر متحرک تھا تاہم ان کا نمایاں سیاسی مقام نہیں تھا۔ بھارت کی خواتین سیاسی قیادت میں، ممتا بینر جی ( ۲۰۱۱ سے مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ) جیسے نام خواتین کو غیر سیاسی خاندانی پس منظر کے باوجود سیاست کو بطور کیریئر اپنانے کیلئے تحریک دیتے ہیں۔ متوسط بنگالی گھرانے میں پیدا ہونے والی بینرجی کو ۲۰۱۱ میں مغربی بنگال کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے میں چار دہائیوں تک مسلسل سیاسی جدوجہد کرنا پڑی۔ ان کی قائم کردہ جماعت ، آل انڈین تری نامول کانگریس نے ۲۰۱۹ کے انتخابات میں اپنے ۴۱ فیصد ٹکٹس خواتین امیدواروں کو دیئے۔
بدقسمتی سے سمرتی، سادھوی اور ممتا جیسی مثالیں پاکستان میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ سیاسی جماعتوں میں موروثیت کا رواج مضبوط خاندانی پس منظر کی حامل خواتین سیاست دانوں کی مدد کرتا ہے۔ تقریباً تمام آٹھ منتخب امیدوار مضبوط سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر مہناز عزیز سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز کی اہلیہ ہیں۔ غلام بی بی بھروانہ سابق ممبر قومی اسمبلی ( ایم این اے) غلام حیدر بھروانہ کی پوتی ہیں۔ بھروانہ خاندان ضلع جھنگ میں برسوں سے مضبوط سیاسی حیثیت رکھتا ہے۔ نفیسہ شاہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی صاحبزادی ہیں اورسیاسی طور پر طاقتور جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ شازیہ مری ایک اور مضبوط قبیلے مری کی نمائندہ ہیں اور کامیاب سیاستدان و ایم این اے عطا محمد مری کی بیٹی ہیں۔ فہمیدہ مرزا سابق ایم این اے کی بیٹی ہیں اور سابق وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا کی اہلیہ ہیں۔
ان خواتین سیاستدانوں کو ملنے والے ووٹ بڑی حد تک ان کی سیاسی جماعتوں سے زیادہ ان کے خاندان کیلئے ہوتے ہیں۔ شائد اسی لئے ان خواتین کا زیادہ جھکاؤ صنفی تفریق کے خاتمے کیلئے سٹیٹس کو جو کہ موروثی سیاسی جماعتوں میں طاقت کے یکجا ہونے کو ظاہر کرتا ہے، اسے چیلنج کرنے کے بجائے اسے برقرار رکھنے کی جانب ہے۔
خواتین کے ووٹ ڈالنے کی حوصلہ افزائی
بھارت اور پاکستان دونوں میں خواتین ووٹ دہندگان کی تعداد میں اضافے کے باوجود، پاکستان میں صنفی تفریق پریشان کن ہے۔ ۲۰۱۹ میں، بھارتی مرد وخواتین ووٹ دہندگان میں فرق محض ۴.۰ فیصد تھا۔ بہت سی ریاستوں میں خواتین ووٹرز میں ووٹ ڈالنے کی شرح مردوں سے زیادہ تھی۔ پاکستان میں ۲۰۱۳ کے انتخابات میں ۶۲ ۴۳. فیصد ووٹرز خواتین تھیں جو کہ ۲۰۱۸ کے انتخابات میں گھٹ کے۷۸.۳۹ فیصد رہ گئی۔ خواتین ووٹرز کی تعداد میں کمی اور ڈالے گئے ووٹوں میں بڑھتی ہوئی صنفی تفریق کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی گئی۔ ووٹ ڈالنے کے عمل میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت سیاسی جماعتوں کو خواتین کوبااختیار بنانے سے متعلق معاملات کے حوالے سے زیادہ چوکس بناتا ہے۔ مثال کے طور،۲۰۱۹ کے لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران تقریباً تمام ہی جماعتیں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نعروں کے ساتھ آئیں۔ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا کے انتخابات کے دوران منعقدہ سروے سے معلوم ہوا کہ خواتین کو بااختیار بنانا دوران انتخابات دس اہم ترین مسائل میں سے ایک تھا۔
نمائندہ جمہوریت ہونے کے ناتے بھارت اور پاکستان کو اسی طرح اپنی قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاہم خواتین کو بااختیار بنانا محض پارلیمنٹ میں ان کی تعداد بڑھانے کا نام نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافے کی پاکستان کی ترکیب خواتین قانون سازوں کی تعداد میں اضافے میں کردار تو کرسکتی ہے لیکن یہ خواتین کے مسائل پر بہتر قانون سازی کرسکے یا خواتین کی سیاسی روابط کے بغیر شمولیت کو ممکن بنائے یہ ضروری نہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لئے، پاکستان کوخواتین کیلئے ایسی جگہ جہاں وہ سیاسی تعلق و روابط کے بنا بھی عہدہ سنبھال سکیں کی تشکیل کیلئے بھارت کی مثال پر عمل کرنے پرغور کرنا چاہئے۔ صنفی برابری کیلئے میدان ہموار کرنے کیلئے جہاں قوانین اہم ہیں، وہیں حقیقی تبدیلی سیاسی جماعتوں کے اندر سے آنی چاہئے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Kartikeya Kaul via Flickr
Image 2: Paula Bronstein via Getty Images