بمطابق ۱۲ مئی، پاکستان میں کرونا مریضوں کی تعداد ۳۲۰۰۰ سے زیادہ ہو چکی ہے، جبکہ جاں بحق مریضوں کی تعداد ۷۲۰ تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے عین جس روز ملک میں ایک دن میں سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد سامنے آئی، اس وقت وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ چونکہ اس پالیسی کا اعلان تمام صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے کیا گیا تھا، اس لئے یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ پاکستان میں وبائی مرض کیخلاف کارکردگی کیلئے وہ قومی اتفاق رائے تخلیق کرپاتی ہے جس کا طویل عرصے سے انتظار ہے یا نہیں۔
اس بحران کے آغاز سے ہی پاکستانی قیادت لاک ڈاؤن کی شدت اور اس کے پھیلاؤ کے معاملے پر تقسیم کا شکار رہی ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں نے وزیراعظم کی خواہشات کے برعکس مختلف درجوں کا لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے ، جبکہ وزیراعظم لاک ڈاؤن کے غریب اور دیہاڑی دار طبقے پر منفی اثرات کی وجہ سے اس کے مخالف رہے ہیں۔ آخر کارانتظامیہ بھی ۹ مئی سے ”سمارٹ“ لاک ڈاؤن منصوبے، اور ”کم خطرات کی حامل“ صنعتیں کھولنے، نیز ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگوں پر نگاہ رکھنے کے منصوبوں کے ذریعے سے ملک بھر میں جزوی لاک ڈاؤن کی جانب رخ موڑ چکی ہے۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے اگرچہ مرکز کی ہدایات پر عمل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے تاہم مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مابین ہفتوں سے جاری سیاسی گرماگرمی کے باعث خدشہ ہے کہ جوں ہی ملک لاک ڈاون کی پابندیوں سے آزادی کی طرف جائے گا داخلی سطح پر مزید اختلاف پیدا ہوں گے۔
چونکہ ایک قومی پالیسی تشکیل دینے کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے، ایسے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے مابین تعاون کی کمی نیز سندھ میں پی پی پی اور حکمران جماعت کے مابین سیاسی تصادم کی وجہ سے خطرہ ہے کہ اس بحرانی کیفیت میں عمران خان کا بطور قومی لیڈر تشخص مجروح ہوگا۔ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے باوجود غیر مربوط پالیسی ردعمل صحت کے اس بحران کو مزید گھمبیر نیز پاکستان میں صحت کے انفراسٹرکچر کو مغلوب کر سکتا ہے۔ یہ صورتحال مرکز کی جانب سے گورننس کے حوالے سے خدشات اور سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
کووڈ ۱۹ کیخلاف مرکز کا ردعمل
وفاق اور صوبوں کے مابین صحت کے معاملے پر موجودہ تقسیم کی جڑیں پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں پنہاں ہیں۔ ۲۰۱۰ میں ۱۸ ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی حکومتیں اپنے اپنے شعبہ صحت کا انتظام چلانے کیلئے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ وفاقی حکومت دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ بین الصوبائی تعاون اور وسیع تر صحت کی پالیسی وضع کرنے کی ذمہ داری رکھتی ہے۔ چونکہ کووڈ ۱۹ سے نمٹنے کیلئے معاشی انتظامات، سرحدوں پر سختی وغیرہ جیسے امور پر فیصلہ سازی کیلئے بیک وقت متعدد شعبہ جات نیز وفاقی حکومت کے زیر انتظام دیگر متعدد شعبہ جات کے مابین تعاون ضروری تھا، لہذا ایسے میں ایک مربوط قومی پالیسی ناگزیر تھی۔
وبا کیخلاف وفاق کا ردعمل تردید سے شروع ہو کر تزبزب میں تبدیل ہوچکا ہے، وزیراعظم عمران خان عوام سے اپنے پہلے خطاب میں معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے رہے۔ خان کی غریبوں کیلئے پریشانی بے محل نہیں تاہم ان کی جانب سے لاک ڈاؤن کی کھلم کھلا مذمت سندھ میں پی پی پی حکومت پر براہ راست تنقید محسوس ہوئی کیونکہ اس وقت سندھ حکومت عوامی مقامات، بازار اور پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کرنا شروع کرچکی تھی۔ تاہم جلد ہی پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی قیادت میں قائم صوبائی حکومتیں اور بلوچستان میں واقع مخلوط حکومت نے اپنے اپنے صوبوں میں جزوی لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا۔ اس کی وجہ سے عوام میں یہ الجھن اور تقسیم پیدا ہوئی کہ آیا لاک ڈاؤن کی پابندی پر عمل کیا جائے یا نہیں۔
اسی طرح وفاقی حکومت کی قومی اتحاد قائم کرنے کی کوششیں بھی بدنظمی کا شکار رہیں۔ بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے باعث کووڈ ۱۹ پر پارلیمنٹ کا ۲۵ مارچ کو اجلاس تو طلب کیا گیا، تاہم وزیراعظم اپنے ابتدائی خطاب کے بعد حزب اختلاف کے نقطہ نگاہ کو سنے بغیر ہی اجلاس سے رخصت ہوگئے اور یوں وہ مزید سیاسی تقسیم کا سبب بنے۔ وفاقی حکومت نے حزب اختلاف کی جانب سے کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کا اجلاس طلب کرنے سے بھی انکار کردیا، جو کہ بین الصوبائی ہم آہنگی کیلئے ذمہ دار ادارہ ہے۔ اسی دوران پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے حزب اختلاف بالخصوص سندھ میں پی پی پی کیخلاف تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔ حکومت سندھ اگرچہ اس بحران پر حرکت میں آنے والی پہلی صوبائی حکومت تھی تاہم بارہا اس پر یہ الزام عائد ہوتا رہا کہ سندھ حکومت بحران کیخلاف غیر موثر انتظامیہ کی حامل، تقسیم کو اکسانے والی اور وفاقی حکومت کیخلاف ”کیچڑ اچھالنے“ کی مہم چلا رہی ہے۔
وزیراعظم کے بتدریج فعال کردار اپنانے کے بعد وفاقی حکومت نے وبا سے متاثرہ شہریوں اور صنعتوں کیلئے ۵.۶۶ بلین ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔ وفاقی حکومت نے ۵۹۵ ملین ڈالر لاگت کا حامل پری پیئرڈنیس اینڈ رسپانس پلان بھی متعارف کروایا نیز ہسپتالوں کیلئے ٹیسٹنگ کٹس اور حفاظتی سامان خریدا گیا اور عارضی لیب و ہسپتال قائم کئے گئے۔ تاہم سندھ میں کووڈ ۱۹ ریلیف فنڈ کا سیاست کی نظر ہوجانا اس امر کی واضح مثال ہے کہ ایسے اقدامات کو ثمرآور بنانے کیلئے باہمی تعاون ہی اصل کنجی ہے۔
سندھ میں سیاسی مقابلہ
اب جبکہ وفاقی حکومت کو ایک متحدہ اور جامع ردعمل دینے کیلئے خاصی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے، سندھ میں ایک سیاسی تنازعہ شروع ہوچکا ہے، جہاں پی پی پی کی حکومت بحران کیخلاف ردعمل میں سب پر سبقت لے گئی تھی۔ پاکستان میں کووڈ ۱۹ کا پہلا مریض فروری کے اختتام پر کراچی میں رپورٹ ہوا تھا۔ ردعمل میں سندھ حکومت نے پھرتی دکھاتے ہوئے تعلیمی ادارے بند کردیئے اور کیسز کی تعداد میں اضافہ ہونے پر جزوی سے مکمل لاک ڈاؤن کی طرف چلی گئی۔ وبا پھوٹنے کے بعد صوبائی سطح پر فوری ردعمل، ابتدائی مرحلے پر ٹیسٹنگ اور معاملے پر بطور پبلک ہیلتھ ایمرجنسی توجہ دینے کے سبب سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے تعریفیں سمیٹی ہیں۔ اسی اثناء میں پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی نمایاں قائدانہ کردار نبھاتے ہوئے معاملے پر پہلے کثیرالجماعتی ورچوئل اجلاس کا انعقاد کیا نیز وہ لاک ڈاؤن سے متعلق ابتدائی اقدامات اٹھانے میں کوتاہی پر وفاقی حکومت پر تنقید بھی کرتے رہے۔
مراد علی شاہ ”متضاد اشارے“ دینے پر وفاقی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور لاک ڈاؤن پابندیاں اٹھانے کیلئے وفاقی دباؤ کیخلاف بھی مزاحمت کرتے رہے۔ سندہ نے وفاق سے اختلاف کرتے ہوئے دوران رمضان مساجد میں نمازوں کی باجماعت ادائیگی کی اجازت دینے سے بھی انکار کیا- بعد ازاں پنجاب اور بلوچستان نے اس اقدام کی پیروی کرتے ہوئے جماعت کے حجم کو پانچ نمازیوں تک محدود کردیا۔ اسی طرح سندھ حکومت نے وزیراعظم کی جانب سے امدادی کاموں کیلئے رضاکارانہ تنظیم کے قیام کا بھی خیرمقدم نہیں کیا اور الزام عائد کیا کہ یہ سیاسی جماعت کے کارکنوں پر مشتمل تنظیم ہوگی جنہیں حکومت کے امدادی منصوبوں کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔
پی ٹی آئی اور پی پی پی قیادت کے مابین سیاسی تصادم کووڈ ۱۹ کیخلاف کوششوں پر پہلے ہی اثرانداز ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی قیادت، حکومت سندھ کے ایمرجنسی ریلیف آرڈیننس کو عدالت میں اس بنیاد پر چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ یہ وفاق کے دائرہ اختیار میں مداخلت ہے ۔ سندھ کابینہ نے صوبے کیلئے بطور امدادی اقدام یہ آرڈینسس منظور کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کی جانب سے تاخیر سے ردعمل دیئے جانے کے سبب حکومت سندھ کو ٹیسٹنگ کٹس درآمد کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوا ہے۔ اب جبکہ حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے پالیسی اقدامات کو چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ایسے میں وبا کیخلاف انتہائی سست روی کیساتھ اقدامات کے نفاذ سے موثر نتائج پیدا ہونے کا امکان نہیں۔ جس سے خطے میں ہیلتھ کیئر کے شعبے میں گورننس میں مزید ابتری آنے اور بحران سے نمٹنے کے حوالے سے شکایات پیدا ہوسکتی ہیں۔
سندھ میں وفاقی و صوبائی حکومت کے مابین تعاون کی کمی کے کراچی پر بدترین اثرات رونما ہوئے ہیں۔ پی پی پی اگرچہ سندھ کی صوبائی حکومت کی قیادت کرتی ہے تاہم کراچی میں پی ٹی آئی کے قدم مضبوط ہیں- جماعت نے ۲۰۱۸ کے انتخابات میں یہاں سے قومی اسمبلی کی ۲۱ میں سے ۱۳ نشتسوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ کووڈ ۱۹ کا گڑھ اور پاکستان کے گنجان آباد ترین شہر ہونے کے ناطے، وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کوئی بھی کوشش اس وقت تک بیکار ہے جب تک اس کا کراچی میں موثر طور پر نفاذ نہ کیا جائے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی- پی پی پی کے درمیان سیاسی رخنہ شہر میں ایک تقسیم اور الجھاؤ پیدا کررہا ہے اور لاک ڈاؤن کے صوبائی احکامات کا نفاذ چیلنج بن رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی مراکز میں سے ایک میں یہ سیاسی عدم توازن، تباہی کی جانب گامزن معیشت کیلئے مزید تباہ کن ہے، اور یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کیلئے وفاقی حکومت کی کوششوں کو مزید کمزور کررہا ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے صورتحال سے نکلنے کا راستہ
کووڈ ۱۹ بحران سے جس انداز میں نمٹا جارہا ہے، وہ خان کی حکومت کیلئے نیک نامی کا سبب نہیں۔ ہیلتھ کیئر انتظامات کے بارے میں فیصلہ سازی میں صوبے اگرچہ خودمختار ہیں تاہم ایک باہم مربوط قومی منصوبہ تشکیل دینا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایسے منصوبے کی تشکیل و نفاذ میں ناکامی آگے چل کے وفاقی حکومت کو کمزور کرے گی کیونکہ موجودہ صورتحال کے باعث، عمران خان کی ہنگامی کیفیت میں قائدانہ صلاحیتوں پر شکوک و شبہات پیداہوں گے۔
چونکہ یہ وبا پاکستان میں تاحال اپنے عروج کو نہیں پہنچی ہے، لہذا پی ٹی آئی کے پاس صوبوں کے مابین زیادہ مربوط حکمت عملی ترتیب دینے اور ایک مضبوط قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے اب بھی وقت ہے۔ جہاں وزیراظم کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کیلئے صوبوں پر دباؤ جاری ہے، وہیں صوبائی حکومتیں بشمول پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت اس خدشے کا شکار ہیں کہ اس سے کووڈ ۱۹ کو مزید بڑھاوا ملے گا۔ وائرس سے نمٹنے کیلئے صحت کے انفراسٹرکچر اور ٹیسٹنگ کی سہولت کو بہتر بنانے کے بجائے بہت سا قیمتی وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں ضائع کردیا گیا۔ خطرہ یہ ہے کہ ماہرین صحت کی قبل ازیں کی گئی پیشنگوئی کے مطابق اگر دوران مئی ملک میں مریضوں کی تعداد بلند ترین سطح کو چھو لیتی ہے تو ایسے میں بڑھتے ہوئے مریضوں کی تعداد کی وجہ سے ہیلتھ کیئر کا نظام بیٹھ سکتا ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: PMO Pakistan via Twitter
Image 2: AFP via Getty Images