4446877029_ea25891b2b_o


۲۱ اپریل ۲۰۱۹ کو خودکش دھماکوں کے ایک سلسلے نے سری لنکا میں گرجا گھروں اور ہوٹلوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔  تین مختلف شہروں ( مشرق میں  بٹی کالئوا اور مغرب میں کولمبو اور نیگمبو) میں متعدد مقامات کو علی الصبح نشانہ بنایا گیا تھا  جس کا بظاہر ہدف اتوار کی اس صبح ایسٹر کی تقریبات کیلئے گرجا گھر آنے والے مسیحی اور پر تعیش ہوٹلوں میں موجود غیر ملکی تھے۔ ( ان حملوں میں) ۲۵۰ سے زائد افراد ہلاک جبکہ ۵۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے۔

سری لنکن حکومت نے جلد ہی حملوں کو ایک مقامی گروہ سے جوڑ دیا، نیشنل توحید جماعت ( این ٹی جے) ماضی میں فقط بدھ مت کی یادگاروں کو تباہ کرنے کیلئے معروف تھی۔ تاہم، کئی  دنوں بعد داعش نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی جس میں این ٹی جے کا مبینہ سربراہ داعش کے خلیفہ ابوبکرالبغدادی سے وفاداری نبھانے کا عہد کررہا تھا۔ سری لنکن سیکیورٹی حکام نے اصرار کیا ہے کہ حملوں کی ہدایات داعش نے دی تھیں۔ حملوں کے فوری بعد سری لنکن حکومت نے این ٹی جے  کے ساتھ ساتھ ایک اور جماعت،  جماعتی میلاٹو ابراہیم ( جے ایم آئی) پر پابندی عائد کردی، اس پر بھی حملوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

 حملوں کے جواب میں سری لنکن حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر دی، بڑے سوشل میڈیا چینلز بلاک (جس کے اثرات بذات خود سوال اٹھائے جانے کے قابل ہیں) اور ہزاروں کی تعداد میں فوجی دستے تعینات کردیئے گئے۔ سری لنکا بھر میں مسلم رہنمائوں نے فوری طور پر حملوں کی مذمت کی اور ایک بڑی مذہبی تنظیم نے مسیحی برادری کے احترام میں  جمعے کی نماز کے اجتماع منعقد نہ کرنے کی تجویز دی۔ اتوار کو گرجا گھروں میں ہونے والی دعائیہ تقریبات بھی منسوخکردی گئیں۔ پولیس اور سیکیورٹی حکام نے متعدد گرفتاریاں کیں اور حکام کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ متعدد مشکوک افراد ابھی بھی آزاد ہیں اور دھماکہ خیز مواد کے ذخائر ابھی دریافت ہونا باقی ہیں۔ ۲۷ اپریل کو سری لنکن سیکیورٹی حکام نے کلمنائی میں داعش کی ایک کمین گاہ پر چھاپہ مارا تھا، اس سے قبل شدید فائرنگ کے تبادلے سے ۱۵ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

 ایک حالیہ ویڈیو میں ابو بکر البغدادی نے خود اعلان کیا تھا کہ سری لنکن حملے  بغوز کا بدلہ چکانے کیلئے تھے ، شمالی شام  میں داعش کا یہ آخری مضبوط ٹھکانہ رواں برس مارچ میں ان سے چھین لیا گیا تھا۔ سری لنکن حکام نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں حملوں کے بارے میں متعدد ذرائع سے پیشگی اطلاعات موصول ہوئی تھیں، اور وزیراعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت آئی ایس آئی ایس رضاکاروں کی واپسی سے آگاہ تھی تاہم اس کے پاس ان کے خلاف قانونی کاروائی کا کوئی اختیار نہ تھا۔

سری لنکن تاریخی پس منظر میں حملوں کی حیثیت

اگرچہ سری لنکا کا ”کلونیل“ دور، اس کے ”پوسٹ کلونیل“ دور وجود میں آنے والی سنہالہ بدھ مت قوم پرستی اور تامل بغاوت پر مبنی تاریخ نسلی لسانی تنائو کے ایک جال کو پیچھے چھوڑ گئی ہے تاہم ۲۶ برس طویل خانہ جنگی کے خاتمے پر ملک گزشتہ ایک دہائی سے بڑے پیمانے پر شورش سے محفوظ تھا۔ 

 سری لنکن آبادی کی اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے تاہم مسلمان  (تقریبا ۱۰ فیصد) اور مسیحی (تقریباً ۷ فیصد) خاصی بڑی تعداد میں اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سری لنکن آئین کا باب نمبر ۲ بدھ مت کو حاصل خصوصی مقام کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔ ۱۹۴۸ میں آزادی کے بعد کے ادوار میں سنہالہ بدھ مت  لسانی قوم پرستی ان حرکیات کا سبب بنیں جس نے ۱۹۷۲ میں لبریشن ٹائگرز آف تامل ایلام کو جنم دیا، یہ تامل اقلیت کی جانب سے خود ارادیت اور حقوق کی خواہش کا شدید اظہار تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ سری لنکن حکومت کی جانب سے خانہ جنگی میں طاقت کے بھاری استعمال اور نتیجتاً انسانی حقوق اور انصاف کے لئے اٹھنے والے سوالات پراس کی عدم توجہ نے اقلیتوں پر جبر کی فضا کو پروان چڑھایا جس کے نتیجے میں نسلی اور مذہبی تقسیم ظاہر ہوئی۔

سری لنکا میں اس سے قبل کسی مسلم فرد یا گروہ نے سیاسی تشدد پر مبنی حملہ نہیں کیا ۔ مسیحی کبھی کبھارانتہا پسند بدھ قوتوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ مسلم برادری جسے ایک علیحدہ نسلی گروہ سمجھا جاتا ہے، اس کی جزیرے میں اگرچہ صدیوں پرانی تاریخ ہے تاہم کم از کم بیسیویں صدی کے آغاز سے ہی بدھ گروہوں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ واضح ہے۔ حالیہ برسوں میں سنہالہ بدھ گروہوں اور امن کمیٹیوں کے ممبروں کی جانب سے مسلمانوں کی جانب جارحیت کھلے عام دیکھنے کو مل رہی ہے۔

۲۰۱۸ میں مسلمانوں کی جانب سے بدھوں پر حملے کے واحد واقعے کے نتیجے میں صدر نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا تھا۔ تامل مسلم تناؤ کی جڑ کسی حد تک خانہ جنگی کے دوران  ایل ٹی ٹی ای کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ایذاءرسانی کے واقعات میں پائی جاتی ہے۔ تاہم سیاسی حالات مسلم برادری کو تنہا کئے جانے کی کیفیت کی نفی کرتے ہیں: سری لنکا مسلم کانگریس طویل عرصے سے مسلم مفادات کی  ترجمانی کررہی ہے اور مسلم مذہبی امور کی ایک وزارت بھی موجود ہے۔

ہم حملے میں ملوث افراد کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

اگرچہ عالمی جہادی تحریکوں سے منسلک دہشتگردی کے بارے میں سری لنکا میں قدرے کم ہی سننے کو ملتا تھا، تاہم ایسٹر حملوں نے  اس تاثر کو یکسر الٹ کے رکھ دیا ہے۔  سری لنکا کے داعش سے تعلقات کی اطلاعات ۲۰۱۵ اور ۲۰۱۶ کی ہیں۔

 سری لنکا سلفی سوچ کو سمجھنے والوں کیلئے ایک مقامی مرکزکے طور پر ابھر رہا تھا، خاص کر جنوبی بھارتیوں کیلئے۔  دماج کے دارالحدیث انسٹی ٹیوٹ کے فارغ التحصیل افراد پورے خطے میں اپنے مراکز اور شاخیں قائم کر چکے تھے۔  درحقیقت، داعش کے تین ملیالی ممبران نے ماضی میں سری لنکا کے ایک نامعلوم سلفی مرکز سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اگرچہ انہیں نکال دیا گیا، تاہم موجودہ نیٹ ورکس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ یمن جنگ کی وجہ سے دارالحدیث انسٹی ٹیوٹ تک رسائی ختم ہوچکی ہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایک خودکش حملہ آور نے کیرالہ اور تامل ناڈو میں کئی ماہ گزارے تھے، وہاں یہ بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں کی نظروں میں آچکا تھا۔ این ٹی جے اور جنوبھی بھارت میں اسلامی گروہوں کے درمیان مبینہ روابط ہیں جو خطے میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ تامل ناڈو توحید جماعت ( ٹی این ٹی جے) اور سری لنکا توحید جماعت نے اس گروہ سے تعلقات کی تردید کی ہے اور حملوں کی مذمت کی ہے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس گروہ اور اس کے تعلقات کے بارے میں بہت سے سوالات ابھی بھی حل طلب ہیں۔

حالیہ رپورٹس کے باوجود گزشتہ کچھ وقت سے داعش اور دیگر جہادی گروہ غیر عرب افراد کی بھرتیاں کررہے اور مقامی خبروں کا حصہ بن رہے ہیں۔ داعش سے وابستہ ”ٹیلی گرام“ چینلز کئی برس سے تنظیم کے عربی اور انگریزی مواد کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کررہے ہیں۔ درحقیقت، بعض اطلاعات کے مطابق تامل اور دیگر جنوبی زبانوں میں داعش کے ترجمے کا سلسلہ ۲۰۱۴ سے جاری ہے۔

سری لنکا کی مقامی سیاست نے کیا کردار ادا کیا؟

صدر اور وزیراعظم کے درمیان مواصلت میں خرابی کے سبب مناسب طریقے سے پیشگی انٹیلی جنس کی اطلاعات پر عمل نہ ہوسکا جو حملوں کی فوری وجہ بنا۔ مواصلت میں خرابی کی وجہ پہلے سے موجود مسائل ہیں جنہیں ۲۰۱۸ کے اختتام پر پیدا ہونے والے سیاسی بحران سے  بڑھاوا ملا، جس میں صدر نے وزیراعظم کو برطرف کردیا تھا تاہم پارلیمنٹ کی جانب سے انہیں بحال کرنے پر مجبور کیا گیا۔

 ۲۰۱۵ میں، طاقتور صدر مہیندا راجپاکسے جنہوں نے خانہ جنگی کے خلاف حکومتی فتح کو ممکن بنایا تھا اورانتہائی شہرت کمائی، اپنے ماضی کے اتحادی میتھریپالا سریسینا کے ہاتھوں حیران کن شکست سے دوچار ہوئے تھے، جنہوں نے راجاپاکسے کی حریف جماعت کے سربراہ رنیل وکرمیسنگھے کے ہمراہ بطور وزیراعظم اتحادی حکومت قائم کی۔  ادھورے اقدامات اور ان کے ناقص نفاذ سے مامور “ گڈ گورننس” والا  یہ شراکتی اقتدار ہمیشہ اضطراب کا شکار رہا۔

سری لنکا میں جمہوریت اگرچہ بہت تندرست نہیں، تاہم سیاسی نظام کے عناصر جیسا کہ پارلیمنٹ سیاسی رہنماؤں کی آمرانہ روش کے آگے بند باندھنے کا کردار کرسکتی ہے جو کہ نسلی اور مذہبی قوم پرستی کے زہر اور اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ ۲۶ اپریل کو پارلیمنٹ کے سپیکر نے ایک تفصیلی منصوبے کا اعلان کیا ہے جو تجویز کرتا  ہے کہ مذہبی اور نسلی برادریوں کے مابین اتحاد و محبت کے حامی بڑی تعداد میں ہیں۔

مشاہدہ کاروں کو کیا دیکھنے کی ضرورت ہے؟

یہ حملہ اگرچہ ناگزیر نہیں تھا، ایسے بہت سے اشارے تھے جو خطے میں بے چینی کے بڑھنے کا پتہ دے رہے تھے۔ تاہم حملے کے پیمانے اور اس کے نظم نے کئی اہم سوالوں کو جنم دیا ہے۔ ملک میں کثیرالقومیتی نیٹ ورکس کس قدر گہرے ہیں، غیر ملکی حکومت اور سری لنکن مسلم برداری کی جانب سے فراہم کی گئی اس قدر انٹیلیجنس معلومات کو  کیوں نظر انداز کیا گیا،  اور کیا حکومت میں بڑے پیمانے پر غیر ملکی امداد کے بغیر اس سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ حملے سری لنکا میں سیاسی تشدد کے ایک نئے محاذ کو کھولیں گے یا نسلی اور مذہبی گروہوں کے مابین دراڑوں کو گہرا کریں گے۔

لیکن سری لنکا میں مذہبی ہم آہنگی اور یگانگت کی روایت زندہ ہے۔ کولمبو کے آرچ بشپ میلکم رنجیت نے واضح طور پردہشت گردی کے حملوں میں ملوث افراد کو سری لنکن مسلم برادری سے علیحدہ قرار دیا۔ پارلیمینٹری سیلیکٹ کمیٹی برائے مذہبی و گروہی ہم آہنگی جیسے اداروں نے سری لنکن معاشرے کے اس پہلو کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور اسے مزید اجاگر کرنے کی تجویز دی ہے۔ ملک بھر میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی حفاظت اور یادگاری تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

حسب توقع سری لنکنز کی جانب سے  پاکستانی پناہ گزینوں جو خود جہادی تشدد سے جان بچا کے آئے ہیں، کو نکالنے اور لندن میں مقیم تامل صحافی کو آن لائن گروہوں کی جانب سے ہراساں کئے جانے کی صورت میں اسلام کے خلاف منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس حملے کا شدید طور سے داعش سے جڑے ہونا کولمبو میں موجودہ حکومت کو ایسی زبان اپنانے پر اکسا سکتے ہیں جو ”اسلاموفوبیا“ کو بڑھاوا اور ریاستی عناصر اور امن کمیٹیوں کے ممبران کی جانب سے اسلام مخالف تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔ سیاستدانوں، بشمول صدر، کا کہنا ہے کہ افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات سے فوج کے عزم کو نقصان پہنچا ہے اور پولیس نے ملک کے شمال مشرق میں مسلمانوں کی تفصیلات اکھٹا کرنا شروع کر دی ہیں۔ 

 اعلیٰ سیاسی قیادت کی جانب سے گروہی ہم آہنگی کیلئے قوت بننے کا امکان نہیں۔ حتیٰ کہ ان حملوں سے پہلے بھی  موجودہ حکومت کی کمزوریوں نے بہت سوں کو یہ قیاس کرنے پر مجبور کیا کہ ۲۰۱۹ میں ہونے والے انتخابات میں مہیندا کے بھائی اور خانہ جنگی کے ہولناک انجام کے دوران  وزیردفاع  رہنے والے گوتابایا راجپاکسے کی حمایت کی جائے گی۔ اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کرنے کے ساتھ ان کی یہ واضح تجویز کہ ان حملوں کا ردعمل خانہ جنگی کے خاتمے کی یاد تازہ کرے گا،  سری لنکن حکومت میں اعلیٰ ترین سطح پر بے قابو ہوتی سنہالہ بدھ مت قوم پرستی دکھائی دینے کا آغاز ہوسکتی ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1:  Nimal Skandhakumar via Flickr (cropped)

Image 2: Carl Court via Getty

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…