
بھارت نے 30 اگست 2024 کو باضابطہ طور پر پاکستان کو ایک نوٹس جاری کیا جس میں سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) پر نظرِ ثانی اور ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس میں آبادیاتی (اور) زرعی مطالبات کی تبدیلیوں اور صاف توانائی (کلین انرجی) کی ترقی کو تیز کرنے کی فوری ضرورت پر تشویش کا حوالہ دیا گیا تھا۔ آئی ڈبلیو ٹی ، جس پر 1960 میں دستخط ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ کے نظام سے پانی کی تقسیم کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریائی پانی کا 19.48 فیصد بھارت اور 80.52 فیصد پاکستان کو دیا گیا، مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت کا خصوصی حق ہے جبکہ پاکستان کو مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا اکثریتی حصہ حاصل ہے۔ اس معاہدے کی بطور تعاون کےمعاہدے کی تاریخی اہمیت کے باوجود، بھارت یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ یہ (معاہدہ) پاکستان کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچاتا ہے، منصوبوں کی منظوری کو پیچیدہ بناتا ہے، اور موسمیاتی تبدیلی جیسی جدید مشکلات(چیلنجز)سےناکافی طور پر نمٹتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے قانونی، ماحولیاتی اور جغرافیائی سیاسی خدشات کے پیشِ نظر آئی ڈبلیو ٹی کی بنیادی کشیدگیوں پر نظر ثانی اور اس میں اصلاحات کی ضرورت ناگزیر ہے۔
پن بجلی (ہائیڈرو الیکٹرک) منصوبوں پر قانونی تنازعات
اپنے آغاز سے ہی آئی ڈبلیو ٹی کو پانی کی تقسیم کے کامیاب معاہدے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اندرونِ ملک بڑھتی ہوئی پانی کی ضروریات اور آب و ہوا (سے متعلقہ تبدیلیوں) کے بڑھتے ہوئے بحران نے بھارتی پالیسی سازوں کو اصلاحات پر زور دینے پر مجبور کیا ہے۔ ترمیم کے مطالبے 2005 میں شروع ہوئے تھے، جنہوں نے 2016 میں کشن گنگا اور رتلے پن بجلی (ہائیڈرو الیکٹرک) منصوبوں پر تنازعات کی وجہ سے زور پکڑ ا۔ کشن گنگا منصوبے میں دریائے کشن گنگا کے پانی کا بجلی پیدا کرنے کے لیے پہلے راستہ بدلا جاتا ہے پھر اسے واپس دریا میں لوٹا دیا جاتا ہے، پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کرنے سے (دریا کا) نشیبی بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔اسی طرح پاکستان نے پانی کی دستیابی پر اس کے ممکنہ اثرات کی بناء پر رتلے منصوبے پر اعتراض کیا ہے۔ ان تنازعات کے نتیجے میں کافی تاخیر ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے بھارت کو کافی مالی نقصان اُٹھانا پڑاہے اور منصوبےکی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ سرمایہ کار جاری قانونی چارہ جوئی کے باعث اپنی سرمایہ کاری کو خدشات کے خوف کی وجہ سے اکثر ایسے منصوبوں سے وابستہ ہونے سے ہچکچاتے ہیں۔ مثلاً رتلے منصوبہ ابتدا میں جی وی کے انڈسٹریز کو دیا گیا تھا ، لیکن منصوبے سے متعلقہ طویل قانونی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ٹھیکیدار نے آخر کار دستبرداری اختیار کرلی۔
اس معاہدے کی بطورتعاون کے معاہدے کی تاریخی اہمیت کے باوجود، بھارت یہ دلیل پیش کرتا ہےکہ یہ (معاہدہ) پاکستان کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچاتا ہے، منصوبوں کی منظوری کو پیچیدہ بناتا ہے، اور موسمیاتی تبدیلی جیسی جدید مشکلات(چیلنجز)سے ناکافی طور پر نمٹتا ہے۔
آئی ڈبلیو ٹی کے آرٹیکل 9 میں اس طرح کے تنازعات کے حل کے لئے تین سطحی طریقہ کار کا خاکہ پیش کیا گیا ہے: سندھ طاس کمیشن، ایک غیر جانبدار ماہر( نیوٹرل ایکسپرٹ) اور ایک ثالثی عدالت۔ بھارت کار گزاری اور کم بیرونی دخل یابی کا حوالہ دیتے ہوئے غیر جانبدار ماہر (سے متعلقہ) کارروائی پر عمل پیرا ہونے کی وکالت کرتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ثالثی عدالت کو ترجیح دیتا ہے، جو اسے کشن گنگا اور رتلے جیسے منصوبوں کو چیلنج( دعوتِ مبازرت) کرنے کا موقع دیتا ہے، (جس کا) ممکنہ (نتیجہ) حکم امتناع (ہو سکتا ) ہے۔ بھارت کا استدلال ہے کہ غیر جانبدار ماہر (نیوٹرل ایکسپرٹ) اور ثالثی عدالت دونوں کے استعمال کی دو رُوْیہ روش معاہدے کے مقصد کو کمزور کرتی ہے اور اہم منصوبوں میں تاخیر کرتی ہے۔ 2016 میں عالمی بینک نے معاہدے کے نامزد ثالث کی حیثیت سے ایک غیر جانبدار ماہر اور ثالثی عدالت دونوں کو بیک وقت مقرر کرکے کسی حل تک پہنچنے کوآسان بنانے کی کوشش کی۔ اس فیصلے کو بھارت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس نے حجت پیش کی کہ اس (فیصلے)نے معاہدے کے تنازعات کے حل کےقائم کردہ نظام (میکانزم) کی خلاف ورزی کی ہے، جو غیر جانبدار ماہرین کو سب سے پہلے ترجیح دیتا ہے۔ آخر کار ثالثی عدالت کا اجلاس بلایا گیا، جسے بھارت نے پاکستان کا ساتھ دینے کے طور پر مُراد لیا۔ اس سے تنازعات طویل ہوگئے ، جس سے اہم پن بجلی (ہائیڈرو الیکٹرک) منصوبوں پر عمل درآمد میں مزید تاخیر ہوئی۔ لہٰذا بھارت اس معاہدے میں ترمیم کا مطالبہ کرتا ہے جس سے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو (زیادہ) کارگزار بنایاجا سکے۔ تیسرے فریق کی مداخلت کو کم کرکے بھارت منصوبے کی ترقی میں تیزی لانا چاہتا ہے اور عالمی بینک جیسے اداروں پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے، جو معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرتا ہے لیکن ثالثی کی متناقض کوششوں کی وجہ سے اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سندھ طاس کو درپیش موسمیاتی مشکلات (چیلنجز )
منصوبے پر عمل درآمد کی مشکلات کے علاوہ، سندھ طاس آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث بڑھتے ہوئے دباؤ سے نبرد آزما ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بھارت اور پاکستان دونوں کے لئے پانی کی قلت میں اضافے کا خدشہ ہے۔ طاس کا قریباً 25 سے 30 فیصد پانی برفانی تودوں (گلیشیئرز )اور برف پگھلنے سے حاصل ہوتاہے، جس کی وجہ سے یہ (طاس) آب و ہوا کے تغیر ات سےزد پذیری کا شدّت سےنشانہ بن جاتا ہے۔ غیر یقینی مون سون اور تیزی سے پگھلتےبرفانی تودے پانی کے بہاؤ (فلو پیٹرن) میں خلل ڈال رہے ہیں، جس کا تخمینہ 2030 تک 50 فیصد پانی کی کمی ظاہر کرتا ہے۔ عالمی موسمیاتی پیمانے ( گلوبل کلائمیٹ ماڈلز) ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ طاس میں پہلے ہی بارشوں میں اضافہ ہو چُکا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں بھارت اور پاکستان دونوں میں زراعت اور اندرونِ ملک پانی کی فراہمی کے لئے اہم خطرات پیش کرتی ہیں (اور)سندھ طاس معاہدے کو معاصر مشکلات( چیلنجز)کے مطابق ڈھالنے کی فوری ضرورت اُجاگرکرتی ہیں۔
سال 2021 میں بھارتی پارلیمانی کمیٹی کی ایک رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے معاہدے پر نظر ثانی کی باضابطہ سفارش کی گئی تھی۔ اس تجویز کا جنوری 2023 میں اعادہ کیا گیا جب بھارت نے پاکستان کو ترمیم کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔ دستاویز میں تنازعات کو مؤثر اور منصفانہ اندازسے حل کرنے کے لئے “62 سالوں میں سیکھے گئے اسباق” کو شامل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ بھارت کے مخصوص خدشات میں پاکستان کی جانب سے بھارتی پن بجلی ( ہائیڈرو الیکٹرک) منصوبوں کی مخالفت بھی شامل ہے، جن کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کے معاہدے کے توثیق شدہ حقوق کے دائرۂ کار میں ہیں۔ مزید برآں، بھارت نے اپنی بڑھتی ہوئی اندرونِ ملک ضروریات اور موسمیاتی تبدیلی کی بڑھتی ہوئی مشکلات ( چیلنجز) کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے لئے، بالخصوص پنجاب، ہریانہ اور راجستھان جیسی پانی کی کمی والی ریاستوں میں پانی کی غیر متناسب تقسیم پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارت نے آب و ہوا کے زد پذیر علاقوں خصوصاً لداخ اور راجستھان میں صاف توانائی (کلین انرجی) کی پیداوار اور آبپاشی کے لئے وسائل کے استعمال کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاہم، پاکستان اب بھی خائف ہے اور اکثر ان پیش رفتوں کو اپنی آبی سلامتی کو کمزور کرنے کی کوششوں کے طور پر گردانتاہے۔
ترمیم پر پاکستان کے اعتراضات
دریائے سندھ کا طاس پاکستان کے لیے ناگزیر ہے، (کیونکہ وہ پاکستان کی) زرعی پیداوار کا 90 فیصد فراہم کرتا ہے اور اس (پاکستان) کی جی ڈی پی میں تقریباً 25 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ دریا کنارے زیریں سطح کی ریاست ہونے کے ناطے پاکستان دریائے سندھ کے بلا تعطل بہاؤ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور اپنے آبی حصے میں کسی بھی قسم کی کمی کو اپنی بقا کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے۔ 2016 میں اڑی حملے اور 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت نے اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے بارے میں بیان بازی تیز کردی اور دھڑلے سےکہا کہ ‘خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے’۔ اس طرح کی بیان بازی، جس کی بنیاد پُرانی گہری بداعتمادی پر ہے، نے پاکستان کو ملک کی سلامتی اور معیشت پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں اہم خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے آئی ڈبلیو ٹی میں بھارت کی مجوزہ ترامیم کی سختی سے مخالفت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ مزید برآں، پاکستان جموں و کشمیر میں بھارت کے اقدامات بشمول اس کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو آبی وسائل پر قابو پانےکی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہ جغرافیائی و سیاسی تناؤ موجودہ اختلافات کو بڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے تعاون ناممکن ہو جاتا ہے۔

فروری 2024 میں پاکستانی میڈیا اور سیاسی شخصیات نے اکثر بھارت پر ‘آبی دہشت گردی’ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا، خاص طور پر دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی بیراج جیسے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر)کے منصوبوں کے حوالے سے، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے پانی کے بہاؤ پر تسلط قائم کرنا ہے۔ تاہم اس بیانیے کو ماضی میں دونوں فریقین کی جانب سے چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ 2010 میں پاکستان کے سابق انڈس واٹرز کمشنر جماعت علی شاہ نے بیان دیا کہ معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے حصے کا پورا پانی مل رہا ہے اور بھارت کو اپنے مختص حصے کے اندر ڈیم تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے۔ان کے بیان پر پاکستان میں شدید تنقید کی گئی جو اس معاملے کی حساسیت کی عکاسی کرتی ہے۔
پاکستان کے سابق انڈس واٹرز کمشنر جماعت علی شاہ نے 2010میں بیان دیا کہ معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے حصے کا پورا پانی مل رہا ہے اور بھارت کو اپنے مختص حصے کے اندر ڈیم تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے۔ان کے بیان پر پاکستان میں شدید تنقید کی گئی جو اس معاملے کی حساسیت کی عکاسی کرتی ہے۔
اہم نا اہلیتیں اور مستقبل
آئی ڈبلیو ٹی، جو کبھی تعاون کی علامت ہوا کرتا تھا،اب ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی، قانونی تنازعات اور پرانی بداعتمادی نے اس کی محدودیت کو بے نقاب کر دیا ہے، اور اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے بھارت اور پاکستان کو اپنی سیاسی دشمنی پر اجتماعی بقا کو ترجیح دینا ہوگی۔ ایک نظر ثانی شدہ آئی ڈبلیو ٹی آب و ہوا کی مطابقت پذیری (ریزیلینس) کے اقدامات کو مربوط کرسکتا ہے ، وسائل کی تقسیم کو بہتر بنا سکتا ہے ، اور تنازعات کے حل کو کارگزار بناسکتا ہے۔
دونوں ممالک کو اس مشترکہ مقصد کے لیے سب سے پہلے اندرون ملک ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔اگرچہ پاکستان کا الزام ہے کہ مغربی دریاؤں پر بھارتی پن بجلی کے منصوبے (پانی کے)نشیبی بہاؤ میں خلل ڈالتے ہیں اور آبپاشی کی ضروریات کو خطرے میں ڈالتے ہیں، تاہم وہ اپنے پانی کے انتظام میں اہم نقائص دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان برطانوی دور کے فرسودہ نہری نظام پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہے اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) جیسے اداروں میں بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے آئی ڈبلیو ٹی کے ذریعے مختص پانی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اپنے آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کو جدید بنانے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ نے حکومت اور وسائل کے انتظام میں اپنی خامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیےاکثر بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور’آبی دہشت گردی’ کے الزامات کا استعمال کیا ہے۔ پانی کے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانا اور حکومتی اصلاحات پاکستان میں اندرونِ ملک نااہلیوں کو کم کرنے کے لئے ضروری اقدامات ہیں۔ بھارت کی جانب سے پانی کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں زیادہ شفافیت اور یقین دہانی پاکستان کے خدشات کو دور کر سکتی ہے۔
دونوں اطراف کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پانی کے مشترکہ انتظام سے آبی وسائل کے زیادہ مؤثر استعمال، ضیاع کی کمی اور اہم زرعی عرصےمیں پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح کے تعاون سے خشک سالی اور سیلاب کے اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جس سے زرعی پیداوار مستحکم ہوسکتی ہے۔ بالآخر ایک تعاون پر مبنی ڈھانچہ (فریم ورک) جو قومی مفادات کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اہم حقائق کے ساتھ متوازن کرے، سندھ طاس معاہدے کو تنازعہ کی بنیاد کے بجائے جنوبی ایشیا میں امن کی بنیاد میں تبدیل کر سکتا ہے۔
****
This article is a translation. Click here to read the original in English.
Image 1: Arsalan Majid via Wikimedia Commons
Image 2: Muhammad Usman Ghani via Flickr