سیاسی دنیاعمومی طور پر جنگ اور امن کے سوالات سے بھرپور ہوتی ہے۔ پالیسی ساز خود کو غیر معمولی معاملات جیسے طاقت کا توازن اور باہمی معاشی انحصار میں مشغول رکھتے ہیں۔جنوبی ایشیا کی ریاستیں بالخصوص پاکستان اور بھارت بھی اس معاملے سے مبرا نہیں ہیں۔ اہم مسائل جو ان ملکوں کے شہریوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں ، اکثرو بیشتر نظر انداز کر دئے جاتے ہیں۔ ان نظر انداز ایشوز میں سے ماحولیاتی مسائل جن کا تعلق موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے ہے، سب سے ذیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بڑھتے ہوئے سیلاب، خشک سالی، سمندری طوفان اور دیگر قدرتی آفات جیسے مسائل لامحدود انسانی بحران کو جنم دے سکتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں دو بڑی طاقتیں ہونے کے باعث پاکستان اور بھارت کےلئے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کےلئے عالمی نظام کے اندر رہتے ہوئے اقدامات کریں چونکہ یہ خطرات سارے خطے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
سابقہ دہائی میں جنوبی ایشیا نے ماحولیاتی حادثوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا ہے جس سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کو ئی غیر معمولی بات نہیں ہے تاہم ۲۰۱۰ میں جب اس نے ملک کے پانچویں حصے کو لپیٹ میں لیا تو یہ واضح ہوا کہ آئندہ سیلابہ خطرہ شدید تر ہو گا۔ ماحولیاتی سائنسدانوں کے مطابق سمندروں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح کے سیلاب ۲۰۱۴ میں کشمیر اور ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۵ میں بھارت میں بھی آئے۔ محض بھارت میں گرمی کی لہر نے پچھلے چار سالوں میں ۴۶۲۰ زندگیاں نگل لیں اور ۲۰۱۵ میں دو ہفتوں پر مشتمل گرمی کی لہر نے پاکستان میں ۱۲۵۰ افراد کی جان لے لی۔۲۰۱۶ میں خشک سالی سے ۳۳۰ ملین لوگ بھی متاثر ہوئے۔
پاکستان اور بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش کی ۱۷ فیصد آبادی سمندری سطح میں اضافے سے متاثر ہو گی اور اگلے ۴۰ سالوں میں ۱۸ ملین لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ نیپال میں ہر سال مون سون کے دوران زمین کی سب سے اوپری تہہ تقریباً ۱.۷ ملی میٹر تک بہہ جاتی ہے جسکی وجہ سے فصلوں کو اگانا اور رزق حاصل کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
بہت سے سیاسی عوامل اس نازک’ سٹیٹس کو ‘ میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ کمزور ادارہ جاتی سیٹ اپ، بحرانوں سے نمٹنے کےلئے متعلقہ اداروں کے بیچ کم تر تعاون اور احتساب کا نہ ہونا ان مسائل میں شامل ہیں۔ ۲۰۱۴ میں مقبوضہ بھارتی کشمیر میں مقامی آبادی کو آفات سے بچنے کےلئے کم وسائل ہونے کی وجہ سے بچاؤ کی کوششوں میں ذبردستی شامل کیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا آفات کے دوران موثر کام نہ کر سکنے کی بھی طویل تاریخ ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں کے برعکس صنعت کاری کی کم شرح اور زراعت کاری پر زیادہ توجہ ہونے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی آبادی ماحولیاتی مسائل سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ جب ایک ملک کی معیشت بیرونی ماحولیاتی مسائل سے پر خطر ہو تو اسکی سکیورٹی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے ناپید ہوتے وسائل پاکستان اور بھارت کے بیچ کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان نے بھارت پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کو سکیورٹی اور غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔یہ کشیدگی بڑھ کر مسلح تصام کا روپ دھار سکتی ہے چونکہ دونوں ملک پانی پر خاصہ انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں جاری مسئلہ محض نظریاتی نہیں ہے۔ کشمیر کے دریا پاکستان اور بھارت کے اربوں لوگوں کو تازہ اور صاف پانی فراہم کرتے ہیں۔ مزید برآں قدرتی وسائل پر کشیدگی کا فائدہ دہشت گرد بھی اٹھا سکتے ہیں۔
چونکہ موسمیاتی چیلنجز بین الاقوامی سرحدوں کو خاطر میں نہیں لاتے، اس لئے یہ نازک صورتحال جنوبی ایشیائی ریاستوں کے بیچ ماحولیاتی سفارتکاری پر زور دیتی ہے۔ ان ایشوز کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانا پہلا قدم ہے۔ ریاستوں کو سارک کے فورم کو عالمی سطح پر دباؤ ڈالنے اور مالی امداد حاصل کرنے کےلئے استعمال کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا ئی ریاستیں دوسرے ملکوں بالخصوص امریکہ سے سکیورٹی اور تجارت معاہدات کرنے کے دوران ماحولیاتی سکیورٹی کی شقیں بھی معاہدات کا حصہ بنا سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیائی ریاستوں کی طرف سے عالمی فورمز پر موثر لابنگ بھی ضروری ہے چونکہ ٹرمپ انتظامیہ اس تناظر میں اپنا نا گزیر کردار ادا کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی ۔ کابینہ کی اہم پوزیشنوں پر ماحولیاتی تبدیلی سے نابلد افراد کی تعیناتی اور” پیرس کلائمیٹ اکارڈ” سے انخلاء یہ بتاتا ہے کہ امریکہ ایسے مسائل میں عدم دلچسپی لے رہا ہے۔
مقامی سطح پر بھی بہتر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ درختوں کو اگانا عالمی حدت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے چونکہ جنگلات فضاء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس میں وعدہ کیا ہے کہ حکومتی مدت ختم ہونے سے پہلے ایک ارب درختوں کو اگایا جائے گا۔ پالیسی سازوں کو صنعتی پالیسیاں اور قوانین بنانے سے بیشتر ماحولیاتی اثرات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ عوام کو بھی ماحولیاتی بدحالی کے اثرات سے باخبر کرنا ہو گا جو مختلف تعلیمی منصوبے شروع کر کے بتایا جا سکتا ہے۔ ایسے علاقے جہاں پر کم شرح خواندگی ہے وہاں میڈیا ماحولیاتی مسائل کو بتانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ سال کا وہ وقت ہے جب گرمی کی لہر ہزاروں لوگ مارتی ہے، سیلابوں کا خوف کسانوں کو پریشان کرتا ہے اور لوگوں کا ذریعہ معاش عالمی حدت کی وجہ سےسکڑ جاتا ہے۔ جنوبی ایشیائی حکومتوں کو عالمی فورمز پر مزید دباؤ بڑھانا چاہیے اور ماحولیاتی مسائل کے خاتمے کےلئے متاثر کن لابنگ بھی کرنی چاہیے۔ ہر موسمِ گرما جنوبی ایشیا میں مزید تباہی لاتا ہے لیکن صورتحال کو اب بھی قابو کیا جا سکتا ہے تاہم وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: DFID via Flickr.
Image 2: Austin Yoder via Flickr.