پاکستان کو تین برس کیلئے ملنے والے ۶ ارب ڈالر کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے تحت ۹۹۱.۴ملین ڈالر کی پہلی قسط حال ہی میں موصول ہوچکی ہے۔ آئی ایم ایف کے بہت سے صارف مالیاتی اور موجودہ اکاؤنٹ خسارے کا شکار ہوتے ہیں جس کا نتیجہ گرتے ہوئے غیر ملکی کرنسی ذخائر کی صورت میں ہوتا ہے اور پاکستان بھی ان سے مختلف نہیں۔ حالیہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ منصوبے کے تحت پاکستان نے بھاری ٹیکسوں، حکومتی اخراجات میں واضح کٹوتی اور کاروباری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی اصلاحات کے ذریعے سے اپنے ریونیو میں اضافے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس معاہدے کے جدوجہد کرتی پاکستانی معیشت پر سنجیدہ نوعیت کے ناپسندیدہ اثرات مرتب ہوں گے جس میں معاشی ترقی کی سست شرح، روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری ممکنہ طور پر شامل ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسی اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ جس جگہ پر یہ فی الحال ہے، وہاں اس معاشی بحران کے بدترین اثرات کا نچلے طبقے کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ اس کے بجائے پی ٹی آئی کو پاکستان کے معاشی ڈھانچے کو درپیش مسائل سے نپٹنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی تعمیر و ترقی پراثرات
جولائی میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت پاکستان سختی سے کام لیتے ہوئے ٹیکسوں کے ذریعے سے جی ڈی پی کا چار سے پانچ فیصد ریونیو اکھٹا کرے گی۔ اس سے جی ڈی پی کے موازنے میں ٹیکس کی شرح ۴. ۱۰فیصد سے بڑھ کے۱۵.۳ فیصد ہوجائے گی۔ مزید براں موجودہ حکومت نے قابل ٹیکس آمدن میں اضافے، ٹیکس چھوٹ کے خاتمے اور جنرلائیزڈ سیلز ٹیکس کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں بدلنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق ریونیو کے لئے جذباتی اہداف طے کئے گئے ہیں تاہم انکا حصول ممکن نہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے سال رواں کل ٹیکس ریونیو میں۹.۷۴ بلین امریکی ڈالر، ۲۰۲۰ میں ۹.۳۷ بلین ڈالر اور۲۰۲۱ میں ۸.۱۸ بلین ڈالر اضافے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ فی الوقت ٹیکسوں کے ان نئے منصوبے کے حوالے سے کوئی وضاحت موجود نہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ، روپیہ ۲۰۱۷ سے اب تک ۵۰ فیصد کے قریب اپنی قدر کھو چکا ہے۔ افراط زر کی شرح نو فیصد تک پہنچ چکی ہے اور آنے والے مہینوں میں اس میں مزید اضافے اور ۱۳ فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ روپیہ، جون میں ڈالر کے مقابلے میں کم ترین سطح۱۶۴ روپے پر پہنچ گیا۔ گراوٹ کے باوجود، پاکستان کی برآمدات میں تبدیلی نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ ۳۰بلین امریکی ڈالر سے زائد تک جاچکا ہے۔
عوام الناس میں بے چینی بڑھ رہی ہے کیونکہ بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں اور ٹیکس دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ روپیئے کی گراوٹ، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور بھاری ٹیکسوں سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں تاجروں نے آئی ایم ایف کے نافذ کردہ ٹیکسوں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی جانب سے متعارف کروائے گئے ٹیکسوں کے پیچیدہ نظام کیخلاف ہڑتال کی کال دی ہے۔ مثال کے طور پر ہنڈا اٹلس کارز پاکستان نے اپنی پیداوار ۱۰ روز کیلئے روک دی اور انڈس موٹرز نے بھی جو کہ ٹویوٹا ماڈل تیار کرتے ہیں جولائی کے مہینے میں آٹھ روز کیلئے پیداوار روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔
سخت معاشی فیصلے پہلے ہی ملک میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کو متاثر کرچکے ہیں۔ جون ۲۰۱۹ کے بجٹ میں امور تعلیم و خدمات کیلئے بجٹ میں ۲۰.۵فیصد کمی کی جاچکی ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی بجٹ پر بھی بڑی کٹوتیاں لاگو کی گئی ہیں۔ ایسا ملک جو اپنے جی ڈی پی کا فقط۲ .۴فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو کہ خطے میں افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر کم ترین ہے، اور جہاں پانچ سے ۱۶ برس کے ۸ . ۲۲ملین بچے پہلے ہی سکولوں سے باہر ہیں، اس کیلئے یہ ایک مایوس کن پیش رفت ہے۔
یہ اقدامات یقیناً آنے والے برسوں میں پاکستان کی معاشی پیداوار کو محدود کریں گے۔ اندازہ ہے کہ آئندہ برس جی ڈی پی پیداوار کی شرح ۴.۲فیصد گرجائے گی، گزشتہ ایک دہائی میں یہ کم ترین شرح ہوگی جو پاکستان دیکھے گا جبکہ اس کے جنوبی ایشیائی پڑوسی جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کو سات فیصد پیداواری شرح کا تجربہ ہورہا ہے۔ روپیے کی قدر میں از حد گراوٹ اور بلند شرح سود پیداواری لاگت میں اضافے کے سبب ملک کی معاشی سرگرمیوں کو سست کردے گا اورآنے والے برسوں میں قرضوں پر سود کی قیمت میں اضافے کرے گا۔ یہ بعد میں نہ صرف قرضوں کی واپسی کو مہنگا کردے گا بلکہ قرضے کی بھاری قیمتوں کے سبب غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی کرے گا۔ دریں اثناء، صنعتوں کی بندش اور پیداوار میں کمی ہمراہ حکومتی اخراجات میں کمی ممکنہ طور پر بے روزگاری میں اضافے کا سبب ہونگے جس سے غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف کے در پر دوبارہ دستک
پاکستان کا آئی ایم ایف پر انحصار کوئی نئی بات نہیں۔ ۱۹۵۸ سے ملک آئی ایم ایف سے قرضوں کے ۲۲معاہدے کر چکا ہے اور اس کی درآمدات مسلسل کم از کم برآمدات سے زیادہ رہتی ہیں جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ رہتا ہے۔ نتیجے میں پیدا ہونے والا ادائیگیوں میں عدم توازن کا بحران ہی اسے بار بار آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور کرتا ہے۔
ملک کا آئی ایم ایف پر دہائیوں پرانا انحصار اقتصادی ڈھانچے میں خرابیوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اولاً ، پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور محض کچھ کم ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے ساتھ ساتھ محدود منڈیوں تک رسائی پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہے۔ جہاں تک برآمدی مصنوعات کا تعلق ہے تو وہ عالمی منڈی میں معیار یا بلند قیمتوں کی وجہ سے مقابلہ کرنے میں کام ناکام ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی یہی معاملہ ہے: پاکستانی برآمدات ماسوائے چین کے علاقائی منڈیوں تک آسان رسائی سے قاصر ہیں۔ ورلڈ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیاء میں بین العلاقائی تجارت سے علاقائی جی ڈی پی کا محض ایک فیصد وصول ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ مشرقی ایشیا اور پیسیفک سے کریں تو وہاں بین العلاقائی تجارت خطے کے جی ڈی پی کے۱۱ فیصد پر مشتمل ہے۔
دوئم ،ٹیکس سے بچنے کی عام روایت اس مالیاتی خسارے کا موجب ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ امر یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اشرافیہ، کاروباری طبقہ اور زمینداروں پر ٹیکس نافذ کیا جائے بجائے اس کے کہ بوجھ متوسط طبقے پر منتقل کیا جائے۔ پی ٹی آئی، اس روایت کو ختم کرنے کیلئے کام کررہی ہے، اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹیکس دہندگان کی فہرست میں ۱۳۷۰۰۰افراد کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ ایک ایمنسٹی سکیم کے تحت دولتمند پاکستانیوں کے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے ذریعے ممکن ہوا ہے جس سے ۴۰۰ ملین امریکی ڈالر کے لگ بھگ مالیت کے ٹیکس اکھٹا ہوسکیں گے۔
سوئم، پاکستان نے بڑی تعداد میں درآمدی مصنوعات کیلئے اپنی منڈی کو کھول دیا جو کہ مقررہ تبادلے کی شرح کے نظام کے تحت پاکستانیوں کیلئے قابل خرید تھیں۔ اس کا نتیجہ درآمدات کی طلب میں اضافے کی صورت میں نکلا اور اس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو پیدا ہوا ہے۔
قابل ٹیکس آمدن میں وسعت
آئی ایم ایف سے حالیہ قسط کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ۹.۱۲ فیصد اضافے سے یہ ۸ بلین ڈالر پر پہنچ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ موجودہ حکومت کی جانب سے انتہائی سخت معاشی پابندیوں کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی سوچ پر اکثر “غریب مخالف” ہونے کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کی امداد کے حصے کے طور پر متعارف کروائے گئی معاشی پابندیوں کا نتیجہ اکثر فلاحی امداد میں کٹوتیوں، سرکاری ملکیتی منصوبوں کی نجکاری اور نوکریوں کے کم امکانات کی صورت میں ہوتا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے مشورے کی روشنی میں حکومت پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں حکومتی اخراجات میں کمی، غریبوں پر ٹیکسوں میں اضافہ اور معاشی ترقی کی رفتار میں کمی کی صورت میں ہوگا۔ مستقبل میں اس سے ملتے جلتے ادائیگیوں میں توازن کے بحران سے بچنے کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ برآمدات میں اضافے اور غریبوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے امیروں کیلئے قابل ٹیکس آمدن میں اضافے کے ذریعے سے اپنے معاشی ڈھانچے کو درپیش مسائل سے نمٹنے۔
بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے فی الوقت اکھٹا کئے جانے والے ٹیکس کا فائدہ متعدد عناصر – کمزور معاشی پالیسی اور سب سے اہم معاشی بدعنوانی کی وجہ سے قدرتی طورغریبوں تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اس کے نتیجے میں نقصان عوام کا ہوتا ہے جن کا سامنا ناجائز اور غیر یکساں ٹیکسوں سے ہوتا ہے اور وہ اچھی تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی اور صفائی کی مناسب سہولیات تک رسائی سے محروم رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں عوام کی بڑی تعداد کو لانے، ٹیکس طریقہ کار میں تبدیلی اور ٹیکسوں کے نظام میں موجود سقم کی نشاندہی کے ذریعے سے کرپشن کا مسئلہ حل کرے۔ تاہم کاروباری طبقہ ٹیکسوں کے حوالے سے پالیسی کے خلاف پھٹ پڑا ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کی حکومت کو اس کیلئے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرانا نا انصافی ہوگی کیونکہ اس نے یہ معاشی بحران پاکستان مسلم لیگ نواز ( پی ایم ای لاین) کی حکومت سے ورثے میں لیا جس نے کمزور معاشی پالیسیوں جیسا کہ کھپت اور درآمدی بنیاد پر ترقی کے ماڈل کو جاری رکھا۔ پی ایم ایل این کی سابقہ حکومت آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں بشمول قابل ٹیکس آمدن میں اضافے اور ریاستی اداروں کی نجکاری کے وعدے کو پورا نہیں کرسکی۔ کسی حد تک یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر خود کو آئی ایم ایف کے دروازے پر پاتا ہے۔
اگر وزیراعظم عمران خان بالواسطہ ٹیکس کی جارحانہ ٹیکس پالیسی کو جاری رکھتے ہیں تو غریب سب سے زیاد متاثر ہوگا۔ عام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں اوپر جاچکی ہیں جس کے سبب عام آدمی کیلئے گزارہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ آنے والے مہینوں میں خان کی شہرت جو پہلے ہی اپریل کے گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق ۵۸ فیصد کے مقابلے میں دو ماہ میں گر کے ۴۵ فیصد رہ گئی ہے، اس کو شدید نقصان پہنچا سکتےہیں۔ قومی تاجروں کی ہڑتال کی کامیابی سے حکومت چاروں جانب سے دباؤ میں آچکی ہے اور اسے معاشی بحران کے حوالے سے اپنی سوچ پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ تاہم یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی حکومتی معاشی پالیسیوں کیخلاف بڑھتے ہوئے جذبات کو سہہ پاتی ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Wikimedia
Image 2: AFP via Getty