پاک-بھارت جنگ بندی معاہدہ (سی-ایف-اے) مشکلات میں ہے۔ ۲۰۰۳ میں کیا گیا یہ معاہدہ جس نے ۱۵ سال تک دونوں اطراف سرحدی کشیدگی کو قابومیں رکھا اب دونوں فوجوں کے بڑھتے تنازعات کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہے۔ دونوں اطراف سے چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ فائرنگ اب معمول کا حصہ لگتی ہے۔ حالیہ سالوں میں ایسی نوعیت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق ان واقعات کی تعداد ۲۰۱۵ میں ۱۵۲ تھی جو ۲۰۱۶ میں ۲۲۸، ۲۰۱۷ میں ۸۶۰ اور اس سال کے پہلے دو مہینوں میں ۴۳۲ تک پہنچ چکی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سی-ایف-اے میں حالیہ خلاف ورزی کے پیچھے کچھ محرکات ہیں ، جیسا کہ ۲۰۱۰ میں کشمیر میں شورش کی واپسی، بھارت کی سرجیکل سٹرائیک اور پاک-بھارت بگڑتے ہوئے تعلقات ۔ تاہم اس سب کے پیچھے ایک اور واحد عنصر بھی کارفرما ہے اور وہ ہے حکومتی نظر اندازی۔ سی-ایف-اے کو شروع کرتے ہوئے اس کے دیرپا ہونے کا کوئی خیال نہ تھا تاہم معاہدے نے حیرت انگیز طور پر سرحدی خلاف ورزیوں کو کنٹرول کرنے میں اگلے کئی سال کامیابی سمیٹی ۔ بد قسمتی سے دونوں حکومتوں نے اس اہم وقت میں معاہدے کے سقم دور کرنے کی کوشش نہ کی۔
سی-ایف-اے کے ڈھانچے کو سمجھنے کےلئے اسکی شروعات کو دیکھنا ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کی کشمیری سرحد ۱۹۴۸ کی جنگ کے بعد سے گرم رہی ہے جبکہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ ۱۹۸۹ میں کشمیر میں شورش کے بعد میں ہوا۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں دونوں افواج نہ صرف فائرنگ کا تبادلہ اور آرٹیلری شیلنگ کر رہی تھیں بلکہ ایک دوسرے کی فوجی چوکیوں پر بھی حملہ آور ہو رہی تھیں۔ اس کشیدگی کا نقطہِ عروج ۱۹۹۹ کی کارگل جنگ تھی جب کشمیری مجاہدین کے روپ میں پاکستانی فوجیوں نے بھارتی علاقے پر قبضے کی کوشش کی۔ جنگ کا خاتمہ کشیدگی کی کمی کا باعث نہ بن سکا بلکہ اس میں شدت آ گئی۔ ایسے ہی کچھ حالت کے اندر سی-ایف-اے معاہدہ عمل پذیر ہوا۔
ماضی میں کئی بار ناکام ہونے کے بعد اسلام آباد اور نئی دہلی نے ۲۰۰۳ میں امن کےلئے کچھ اقدامات اٹھائے۔ پاکستان نے ایک عوامی بیان میں لائن آف کنٹرول پر غیر مشروط اور یک طرفہ جنگ بندی کی پیشکش کی۔ جواب میں بھارت نے اعلان کیا کہ وہ نہ صرف اس پیشکش کے حوالے سے مثبت ہے بلکہ لائن آف کنٹرول کے علاوہ دونوں ملکوں کی باقی کی سرحد اور سیاچن پر بھی جنگ بندی کےلئے تیار ہے۔اور اس طرح سی-ایف-اے ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کی ‘ہاٹ لائن’ کے تحت ۲۵ نومبر ۲۰۰۳ کو نافذ العمل ہو گیا۔ یہ ہاٹ لائن عشروں تک کم نوعیت کے سرحدی تنازعات، جیسے فضائی حدود کے خلاف ورزی، کے معاملات کو حل کرتی رہی۔ تاہم اب بھارت اور پاکستان کو ساری سرحد پر وسیع مذاکرت کرنے کا کہا گیا۔ معاہدہ فون پر طے پایا اور ڈی-جی-ایم-اوز نہ تو اس وقت ملے اور نہ ہی اگلے ۱۰ سال تک ملاقات کی۔ نتیجتاً دونوں اطراف سے کسی شخص نے معاہدے پر دستخط نہ کئے اور معاہدہ محض زبانی بنیادوں پر قائم رہا۔
اپنی غیر مادی ساخت کی وجہ سے سی-ایف-اے قانونی اور فعالیت میں کم موثر ہے۔ اس میں ایک معاہدے کے بنیادی شرائط کم تر ہیں جو کہ عموماً عالمی طور پر جنگ بندی کے معاہدوں میں موجود ہوتی ہیں۔ اس میں نقاط کو نافذ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ، غیر جانبدار مبصرین اور ثالثی کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہے کیا، اس عنصر کی تشریح بھی موجود نہیں ۔ کیا سرحد پار فائرنگ خلاف ورزی ہے یا ٹینکوں کا سرحد پار کر جانا؟ کیا دونوں طرح کی خلاف ورزیوں کو ایک ہی طرح سے دیکھا جائے گا؟ آرٹیلری کےلئے سرحد پر نظر رکھنے کےلئےغیر مقبوضہ چوٹیوں پر آپریشنل چوکی بنانے کو کیا سمجھا جائے گا چونکہ یہ کوئی تباہ کن یا نقصان دہ عمل تو نہیں؟ ۔ اس لئے ان شرائط کے نہ ہونے سےحادثاتی طور پر سرحدی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ اس ابہام کی وجہ سے پاکستان اور بھارت خلاف ورزیوں کے حوالے سے مختلف اعدادوشمار پیش کرتے ہیں ۔
۲۰۰۳ میں سی-ایف-اے پر مبصرین کی طرف سے دستخط ہوتے وقت اس معاہدے کو تقویت نہ دی گئی چونکہ کارگل جنگ ، پاکستان کی کشمیریوں کی مدد اور جوہری تجربات کے تناظر میں وہ وقت دونوں ملکوں کے بیچ غیر یقینی سے دوچار تھا۔اس بات کا امکان تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ جلد ہی ناکام ہو جائے گاجیسے بہت سے دوسرے پاک-بھارت معاملات بھی ناکام ہو چکے تھے جس میں ۲۰۰۳ میں شروع کیا گیا امن مذاکرات کا عمل بھی ہے جو ۲۰۰۷ میں ناکام ہو گیا۔
لیکن اسکے باوجود سی-ایس-ایف دیرپا اور کامیاب ثابت ہوا۔ حقیقت میں پچھلی کئی دہائیوں میں پاک-بھارت تعاون کی یہ واحد کامیاب مثال ہے۔ سی-ایس-ایف معاہدے سے قبل سرحدی کشیدگی کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ۲۰۰۲ میں ان واقعات کی تعداد ۵۷۰۰ تھی جو جنگ بندی ہونے کے بعد ۲۰۰۰ کی دہائی میں تقریباً صفر ہو گئی۔
بد قسمتی سے سی-ایس-ایف اپنی کامیابی میں نئی دہلی اور اسلام آباد کےلئے غیر مرئی ہو گیا ۔ معاہدے کو کامیابی کے سالوں میں نہ تو میڈیا میں اور نہ ہی حکومتی سطح پراسکو زیرِ بحث لایا گیا۔ اس نظر اندازی کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور بھارت ۲۰۰۰ کی دہائی کے دوران سی-ایس-ایف کی تجدید یا اس کو دوبارہ قابلِ عمل بنانے کی طرف نہ لوٹے، اسکے باوجود کہ اسی عرصہ کے دوران دونوں ملک دیگر معاملات پر بات چیت کر رہے تھے۔
معاہدے میں ۲۰۱۰ کے آس پاس جب دراڑیں نمودار ہوئیں تو پاکستان اور بھارت نے انکو سدھارنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ ۲۰۱۳ میں ڈی-جی-ایم-اوز کو دوبارہ مسئلے کا حل نکالنے کی ذمہ داری دی گئی لیکن اس میٹنگ کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ تب سے یہ مشورے متواتر آتے رہے ہیں کہ (سی-ایس-ایف) معاہدے کو باقاعدہ بنایا جائے اور ڈی- جی-ایم-اوز کی ایک اور میٹنگ رکھی جائے۔ لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی چونکہ دونوں اطراف مذاکرات کے دوران اپنی اپنی پوزیشن کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اگر دونوں حکومتیں اسے کشمیر معاملے سے الگ کر دیں اور اعلیٰ سطحیٰ پر سیاسی وسائل مہیا کر دیں تو آج بھی سی-ایس-ایف کو بچایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس میں ایک بڑا سبق ہے۔ پاک-بھارت تعاون چونکہ کھبی کبھار ہی ہو پاتا ہے اس لئے (سی-ایس-ایف) تعاون کی کسی ہلکی سی کوشش کو بھی پروان چڑھانے اور حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر یہ معاملہ بھی پاکستان اور بھارت کے دیگرمسائل کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Stefan Krasowski via Flickr
Image 2: Andolu Agency via Getty