محمد دائم فاضل
گزشتہ ماہ دنیا بھر کی نظریں بیجنگ میں منعقدہ ون-بیلٹ-ون-روڈ فورم پر مرکوز تھیں جس میں ۲۹ممالک اور دنیا بھر سے ۱۵۰۰ کے قریب مندوبین نے شرکت کی۔ وزیراعظم نواز شریف نے پاکستانی وفد کی نمائندگی کی جو کہ چاروں وزرائے اعلیٰ، کابینہ کے سینئر ممبرز اور دیگر سرکاری عہدیداران پر مشتمل تھا۔
ون-بیلٹ-ون-روڈ ایک کثیرالجہتی منصوبہ ہے جو کہ چینی حکومت نے اس وقت شروع کیا ہے جب امریکہ نے ٹرانس-پیسیفک-پارٹنرشپ کو ترک کر دیا ہے۔ یہ حالات چین کو اپنا اثرورسوخ، ایشیا، یورپ اور افریقہ تک بڑھانے کیلیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ چین کے اس وسیع و عریض منصوبے میں انتہائی اہم محلِ وقوع کی وجہ سے پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن سکے۔
چین-پاکستان-اقتصادی-راہداری(سیپیک)کی صورت میں کثیر چینی سرمایہ کاری سے امید کی جاتی ہے کہ یہ پاکستان کے معاشی پہئے کو رواں کرے گا جو کہ توانائی کی کمی اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل کی وجہ سے جامد تھا۔چینی سرمایہ بالخصوص بلوچستان اور گلگت بلتستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں کےلئے مزید نوکریاں اور مواقع پیدا کرے گا ۔
پاکستان جیساملک جسے حالیہ وقتوں میں سفارتی تنہائی کا سامنا رہا ہے ، کےلئے چینی سرمایہ کاری مثبت تاثر بنانے میں مدد گار ہو گی اور دیگر ممالک بھی سرمایہ کاری کےلئے پاکستان کا رخ کریں گے۔ مزید برآں بھارت کی ون-بیلٹ-ون-روڈ میں عدم شرکت پاکستان کی برصغیر میں اہمیت کو دو چند کر دیتی ہے۔
لیکن ترقی اور خوشحالی کا یہ سفر آسان نہیں ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ کرنا ہے، سیپیک منصوبوں میں شفافیت لانا ہو گی اور سیاسی غیر یقینی کیفییات کو روکنا ہو گا۔ ون-بیلٹ-ون-روڈ ایک عظیم موقع ہے کہ جس میں پاکستان اپنے محلِ وقوع اور استعدادِ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے ساتھ جڑ سکتا ہے۔ اسی بات کی نشاندہی نواز شریف نے ون-بیلٹ-ون-روڈ فورم سے خطاب کے دوران کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ” سیپیک ایک معاشی منصوبہ ہے جو تمام علاقائی ممالک کےلئے کھلا ہے۔ اس کی کوئی جغرافیائی سرحدیں نہیں ہیں”
راجیشوری کرشنا مورتی
جہاں دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک سے اعلیٰ سطحی وفود نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم (“بی آر ایف”) میں شرکت کی وہیں بھارت نے عدم شرکت پر اکتفا کیا۔ بلا شبہ بھارت کے شرکت کرنے اور نہ کرنے سے متعلق بہت سی رائے قائم کی گئیں اور رائے دہندگان نے اپنی اپنی ترجیحات پیش کیں۔
ابھی تک “بی آر ایف” کے ممکنہ اور حقیقی فوائد اور منافع ظاہر کرنے کے لئے ثبوت ناکافی ہیں۔ “بی آر ایف ” میں شمولیت کے معاملہ میں بھارت کی فیصلہ سازی کا موازنہ کسی بھی ایسے ادارے سے کیا جا سکتا ہے جو کسی بڑے منصوبے میں سرمایہ کاری پر غوروفکر کر رہا ہو۔ اسکے علاوہ ایک طرف تو اصل بھارتی خدشات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ نئی دہلی کو محض معاشی اہداف کے وعدوں پر قائل نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہ صورتحال اس لئے سامنے آئی ہے چونکہ اسلام آباد سیپیک سے متعلق غیر فوجی سٹیک ہولڈرز کو اس منصوبے کے فوائد سے مکمل ہم آہنگ کرنے میں مسلسل مشکلات کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے۔
اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کا “بی آر ایف” کی کامیابی اور استحکام کا جائزہ لینے کےلئے انتظار کرنا کس حد تک نقصان دہ ہے؟ جیسے بھی حالات بنیں ترجیحات میں تبدیلی ممکن ہو سکے گی لیکن جب بھارت کو مناسب اور مثبت اشارے ملنا شروع ہو جائیں گے۔ مزید برآں اگر چین “بی آر ایف” کی کامیابی کو یقینی سمجھتا ہے تو کیا وہ یہ نہیں چاہے گا کہ بھارت اس منصوبے کا حصہ بنے، چاہےکچھ تاخیر کے بعد ہی صحیح؟ تو پھر ممکن ہے کہ بھارت کا”بی آر ایف” میں شمولیت کرنے سے قبل حالات کیاجائزہ لینے کے لئے انتظار کرنا اس کے لئے نقصاندہ نہ ہو۔
“بی آر ایف” کو بظاہر ایک بین الاقوامی منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم دراصل یہ صدرژی جنگ پنگ کی میراث کا حصہ ہے اور اس منصوبے کو چین میں ژی جنگ پنگ کی اندرونی مقبولیت کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، جیسا کے ماضی میں ماؤزے تنگ کے لئے کیا گیا۔ اس تناظر میں چین کا یہ توقع کرنا غیر دانشمندانہ ہو گا کہ بھارت بغیر کسی خاطر خواہ پیشکش کے نہ تو صرف چین کے تمام مطالبات پر راضی ہو جائے گا بلکہ اپنے ایسے خدشات کوبھی نظرانداز کر دے گا جو بیجنگ بخوبی جانتا ہے کہ نئی دہلی کے لئے بہت اہم ہیں۔
اگر معاشی فوائد اور تخمینے درست ہوئے، تو ایسا لگتا ہے کہ فی الحال بھارت کی “بی آر ایف” میں عدم شرکت کے کوئی ایسے نتائج پیدا نہ ہوں گے جن سے بھارت نمٹ نہ سکے۔ بلکہ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ “بی آر آئی” کی ضرورت بھارت سی زیادہ چین کو ہے۔
ابھی تک “بی آر ایف” سے متعلق چین کے بیانات اور ردِعمل مماثلت نہیں رکھتے۔ چین کا کشمیر اور اروناچل پردیش (دیگر مسائل کے علاوہ) سے متعلق نقطہ نظر بھارت کےلئے کچھ حوصلہ افزا نہیں رہا ہے۔ کوئی بھی ملک گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔ تو “بی آر ایف” بھارت کو حقیقی طور پر کیا پیشکش کرتا ہے؟ اگر صدر ژی بھارتی شرکت کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں یقیناًکچھ ایسی پیشکش کرنی ہو گی جو واقعی نئی دہلی کےلئے قابلِ غور ہو، نہ کہ محض مستقبل کی اقتصادی خوشحالی کے سنہرے خواب ۔
***
Click here to read this article in English.