شمال مغربی بحر ہند میں سمندری تجارت گزشتہ چھ ماہ کے دوران دوہرے خطرات کا شکار رہی ہے۔ ایک طرف یمن سے تعلق رکھنے والے حوثی باغیوں نےبحیرہ احمر سے گزرنے وا لے بین الاقوامی بحری جہازوں پر حملے کیے ہیں, جن کا مقصد غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ_ جس میں اب تک تقریبا ۳۵ ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں_ کی بندش کے لیے اسرائیل پر عالمی دباؤ ڈالنا ہے۔ دوسری طرف اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صومالی ساحل اور خلیج عدن کے قریب سمندری قزاقی کے واقعات کى ڈرامائی اند از میں واپسی ہوئی ہے۔
ان واقعات کے دوران ، مارچ کے اواخر اور اپریل کے اوائل میں ، ہندوستانی بحریہ نے ۲۳ جنگی جہازوں کی تعیناتی کا آغاز کیا، جو بحر ہند میں اب تک ہندوستان کی سب سے بڑى تعيناتی ہے، جس میں مغربی ساحل پر ۱۲ جہاز، بحیرہ عرب میں ۱۰ اور خلیج عدن میں ۲ جہاز شامل ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر قابل ذکر بات یہ ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں پہلی بار ہندوستانی بحریہ نے اپنی ١٦ میں سے ١١ فعال آبدوزوں کو بھی تعينات كر ديا ہے ، جو ہندوستانی بحریہ کی بیرونی اور داخلی پوزیشن میں جاری تبدیلی كی طرف اشارہ ہے۔ بیرونی طور پر یہ تعیناتی بحریہ کی جانب سے اپنی آبدوزوں کو علاقائی دشمنوں کے خلاف مزاحمت کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔ داخلی طور پر یہ اپنےاندرونی عنا صر کو ٹیکنالوجی کےحصول کی حالیہ مشکلات کے پیش نظر ہندوستان کے آبدوزی بیڑے کی طاقت کی یقین دہانی کراتا ہے۔
بیرونی صورتحال اور علاقائی ڈیٹرنس
تقریبا ایک دہائی قبل، والٹر سی لاڈوگ جیسے بیرونی مبصرین نےاس خیال كو رد کیا تھا کہ ” ہندوستانی بحریہ کی جدت کا بنیادی محرک غیرعلاقائی بحریہ کے بارے میں تشویش ہے۔” درحقیقت، ہندوستانی بحریہ کا آبدوزی دستہ تاریخی طور پر اس کا سب سے کمزور حصہ رہا ہے – جو کہ فی الحال پانچ فرانسیسی اسکارپین (کلواری کلاس)، چار جرمن ٹائپ ۲۰۹ (شیشومر کلاس) اور سات روسی کلو (سندھوگھوش کلاس) آبدوزوں پر مشتمل ہے. اس کے مقابلے میں چین اس وقت مختلف اقسام کی ۶۰ آبدوزیں چلا رہا ہے اور ۲۰۳۵ تک اپنے زیر آب بحری بیڑے کی تعداد ٨٠ تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اب کئی ذرائع آبدوزوں پر ہندوستانی بحریہ کی بڑھتی ہوئی توجہ اور غیرعلاقائی بحریہ کے بارے میں اس کے خدشات کے درمیان تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہندوستانی بحریہ کو طویل عرصے سے چین کی پیپلز لبریشن آرمی نیوی (پی ایل اے این) کے حوالے سےتشویش تھی، جوکہ اب اہلکاروں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی بحری فوج ہے اور حالیہ برسوں میں بحر ہند میں اس نے اپنی موجودگی میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگست ۲۰۲۲ میں بھارت نے سری لنکا پر دباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش کی کہ وہ چینی جاسوس جہاز یوآن وانگ 5 کو ہمبنٹوٹا بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے روک دے۔ ابھی حال ہی میں نئی دہلی اور مالے کے درمیان سفارتی تنازعہ کے دوران ایک اور چینی تحقیقی اور نگرانی کا جہاز مالدیپ میں لنگر انداز ہوا تھا۔ اسی طرح یوآن وانگ 3 جیسے دیگر بحری جہاز اہم بھارتی میزائل تجربات سے قبل کئی بار بحر ہند میں داخل ہو چکے ہیں۔ آبدوزوں سمیت کم از کم چھ چینی بحری جہاز ہمہ وقت بحر ہند میں کام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس اشاعت کے وقت بھی ۱۳ بحری جہاز موجود تھے۔
بیرونی طور پر یہ تعیناتی بحریہ کی جانب سے اپنی آبدوزوی کو علاقائی دشمنوں کے خلاف مزاحمت کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔ داخلی طور پر یہ اپنےاندرونی عنا صر کو ٹیکنالوجی کےحصول کی حالیہ مشکلات کے پیش نظر ہندوستان کے آبدوزی بیڑے کی طاقت کی یقین دہانی کراتا ہے۔
مزید برآں ، اگرچہ چینی بحریہ سے درپیش خطرے کو کم کرنا ہندوستانی بحریہ کا ایک طویل مدتی مقصد ہے ، لیکن پاکستانی بحریہ پر اپنی برتری کو برقرار رکھنا بھی اس کا ایک تزویراتی مفاد ہے۔ اگست ۲۰۲۳ میں بحیرہ عرب میں چین اور پاکستان کی فلیگ شپ مشق “سی گارڈین” کے تازہ ترین اعادہ سے چند ماہ قبل بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے چین اور پاکستان کی طرف سے “مشترکہ خطرے” کا حوالہ دیا، خاص طور پر پاک بحریہ کی توسیع کے لئے چین کی حمایت (جس کے زیادہ تر پلیٹ فارم اب چینی ہیں)۔ پاکستان پہلے ہی فرانسیسی ایئر انڈیپنڈنٹ پروپلشن (اے آئی پی) سے لیس اگوسٹا ۹۰-بی ایس بھی چلا رہا ہے۔ پاک بحریہ جنوبی ایشیا کی پہلی بحری فوج ہےجو اس ٹیکنانا لوجی کی حامل ہے۔ اے پی سسٹم آبدوز کو ہفتوں تک زیر آب آپریشنز کی اجازت دیتا ہے ، جو کے جنگ کے دوران لامحالہ فوقیت کا حامل ہے۔.
داخلی قوت: قابل اعتماد آبدوزی صلاحیتوں کو برقرار رکھنا
ایسے میں اے آئی پی کی کمی ہندوستانی بحریہ کیلنے دور حاضر کی سب سے بڑی پریشانی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ۲۰۱۶ میں اے آئی پی سے لیس یوآن کلاس کی چار نئی آبدوزوں کے معاہدے کے بعد بھارت میں یہ خدشات پیدا ہو گئے تھے کہ بھارتی بحریہ اپنی قابلیتی برتری کھو رہی ہے۔ بھارت کی پہلی جوہری آبدوز آئی این ایس چکر کے سابق کمانڈر نے بھارت کی زیر آب موجودہ صلاحیتوں کو ‘ افسوسناک’ قرار دیا۔ ۲۸ اپریل۲۰۲۴ ء میں چین نے پاکستان کے لیے بنائے گئے یوآن کلاس کے پہلے بحری جہاز کو لانچ کیا جسے ہنگورکلاس کا درجہ دیا گیاہے اور وہ اس معاہدے کی روح کو ثابت کرتا ہے۔ چین ۲۰۱۸ میں اے آئی پی مینوفیکچررز کلب میں دیر سے سہی لیکن بھرپور انداز میں ابھرا ، جہاں اس کی ٹائپ ۰۳۹ اے چینی بحری بیڑے میں سب سے خاموش آبدوز بن گئی ہے۔
مزید برآں، ہندوستانی بحریہ کے آبدوزی بیڑے کو متعدد مسائل کا سامنا ہے، اس کی دوسری جوہری آبدوز (آئی این ایس اری گھاٹ) کو غیر معمولی تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےجبکہ مستقبل قریب میں اس کی کلو کلاس کشتیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ پروجیکٹ ۱-۷۵ کے ذریعے اے آئی پی سسٹم کے حصول کے لیے بھارت کی اپنی کوشش مختلف مراحل میں رکی ہوئی ہے، کیونکہ متعدد متعلقہ آلات بنانے والی کمپنیاں ہندوستانی بحریہ کی مطلوبہ خصوصیات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس میں روس بھی شامل ہے ، جس کا اپنا ایک ثابت شدہ اے آئی پی نظام نہیں ہے۔ ۱-۷۵ کے تحت اے آئی پی کے حصول کے لئے ہندوستان کی مسلسل جدوجہد اس بات سے عیاں ہے کہ وہ جرمنی اور اسپین کے ساتھ اس ضمن میں مسلسل رابطے میں ہے اورمئی کے اوائل میں نئ دھلی نے۶۰ فیصد سے زیادہ دیسی اجزاء کے ساتھ چھ نئی اے آئی پی سے لیس آبدوزوں کے لئے ۷،۱۸۷،۷۱۲ امریکی ڈالر کے ٹینڈر کی منظوری بھی دی۔ یقینی طور پر بھارتی بحریہ اس فرق کو مٹائے کی غرض سے اپنے پرانے آبدوز پروگرام کے تحت مزید كلواری کلاس اسکارپین کی خریداری کر رہی ہے اور مستقبل میں نیول گروپ فرانس کے ذریعہ ہندوستان کے پرانے اسکارپینز میں اے آئی پی سسٹم فٹ کروائے گی.
اگرچہ اس طرح کی تعیناتیاں ان تاریخی رکاوٹوں پر اثرانداز نہیں ہوتی جن کا ہندوستان كو روایتی طور پر دفاعی اكتساب کے ضمن سامنا ہے، لیکن یہ بحریہ کے نظریاتی مقاصد کو پورا کرنے اور اس کے موجودہ آبدوزی بیڑے کی مزاحمتی صلاحیتوں کی توثیق کرنے کے لئے کافی ہیں ، جس سے بالآخر خطے میں حتمی سیکورٹی فراہم کنندہ کے طور پر ہندوستان کی پوزیشن میں اضافہ ہوگا
ہندوستانی بحریہ اپنے قلیل مدتی عزم کے تحت اس بات کو یقینی بنانے کے لئے متحرک ہےکہ اس کی موجودہ آبدوز کی صلاحیتیں قابل اعتماد رہیں اور اس کی موجودہ آپریشنل کارکردگی متاثر نہ ہو۔ نئی ریکارڈ توڑ تعیناتیاں اس مقصد میں مدد دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگست ۲۰۲۳ میں ہندوستانی بحریہ کی حال ہی میں کمیشن شدہ اسکورپین – آئی این ایس وگیر – نے آسٹریلیا کے فریمینٹل تک پہنچنے کے لئے ایک توسیعی رینج تعیناتی کا آغاز کیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی ہندوستانی آبدوز نے آسٹریلیا کے لئے۴۳۵۰ میل سے زیادہ کا مشن شروع کیا ہے اورعالمی سطح پربھی یہ اسکورپین کی سب سے طویل تعیناتی ہے۔
:قانون کا نفاذ ڈیٹرنس کے ساتھ
ہندوستانی بحریہ صومالی ساحل پر بحری قزاقی کا مقابلہ کرنے والے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ جنوری ۲۰۲۴ کے بعد سے ہندوستانی بحریہ بحری قزاقوں کے خلاف اپنی کارروائیوں ، حملوں کو روکنے ، کنٹینر والے جہازوں کو بچانے اور شمالی بحر ہند میں بحری جہازوں کے عملے کو آزاد کرانے میں سرگرم ہے۔ تديري لحاظ سے یہ اقدام غیر ریاستی سمندری خطرات کو کم کرنے میں ہندوستانی بحریہ کی افادیت کی عکاسی کرتا ہےکیونکہ ہندوستانی بحریہ صومالی ساحل پر قزاقی کا مقابلہ کرنےوالی قدیم ترین قوتوں میں سے ایک ہے۔ تزویراتی طور پریہ ہندوستانی بحریہ کو بحر ہند کی سمندری لائن آف کمیونیکیشن (ایس ایل او سی) کو محفوظ بنانے میں اہم مقامی بحری طاقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔
اگرچہ بحر ہند میں ہندوستانی بحریہ کی قانون کے نفاذ سے متعلق کارروائیوں کے لئے بحری جنگی جہاز کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ، لیکن آبدوزیں بحریہ کے نئے نظریے کے نحت ” ترجیحی پلیٹ فارم” سمجھی جاتی ہیں جوکہ چوک پوائنٹس میں مداخلت اور دشمن کے ایس ایل او سی زکو روکنے پر زور دیتا ہے۔ بھارتی بحریہ کی آبدوزی صلاحیتوں کے مظاہرہ کا مقصد اپنی زیر آب صلاحیتوں کے بارے میں اندرونی خدشات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی اور غیرعلاقائی مخالفین کو روکنا بھی ہے، علاوہ ازیں یہ اس کی نفاذ قانون کے پیش نظر کی جانے والی بڑی تعیناتیوں کے ضمن میں جغرافیائی سیاسی علامات کی طرف بھی اشاره کرتے ہیں۔ بہرحال، بھارتی فوج کی بڑے پیمانے پر تعیناتی پر چین کا رد عمل منفی رہا ہے اور بحیرہ احمر کے خطرات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے بجائے وہ اسے محض ‘طاقت کا مظاہرہ‘ قرار دے رہا ہے۔
اگرچہ اس طرح کی تعیناتیاں ان تاریخی رکاوٹوں پر اثرانداز نہیں ہوتی جن کا ہندوستان كو روایتی طور پر دفاعی اكتساب کے ضمن سامنا ہے، لیکن یہ بحریہ کے نظریاتی مقاصد کو پورا کرنے اور اس کے موجودہ آبدوزی بیڑے کی مزاحمتی صلاحیتوں کی توثیق کرنے کے لئے کافی ہیں ، جس سے بالآخر خطے میں حتمی سیکورٹی فراہم کنندہ کے طور پر ہندوستان کی پوزیشن میں اضافہ ہوگا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Kilo Class Submarine via Flickr
Image 2: INS Chakra via Flickr