جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست کے مشاہدہ کاروں کے لیے پاک فوج (پی اے) اور دنیا کے بارے میں اس کی رائے ہمیشہ سے ہی گہری دلچسپی کا موضوع رہے ہیں۔ کرنل ڈیوڈ او اسمتھ (ریٹائرڈ) نے اپنی کتاب ”دی کوئٹہ ایکسپیریئنس: ایٹی چیوڈز اینڈ ویلیوز ود ان پاکستانز آرمی“ میں ایک ایسے پہلو کو کھوجنے کی کوشش کی ہے جس پر دستیاب ادب میں اس قدر تحقیق نہیں کی گئی جس قدر کہ ہونی چاہیے تھی۔ اسمتھ نے پی اے کے (اعلیٰ سطحی، وسطی اعلیٰ سطح کے اور جونیئر مڈ لیول) افسران کے خیالات اور اقدار پر روشنی ڈالی ہے جنہوں نے ۱۹۷۷ سے ۲۰۱۴ کے درمیان پی اے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں خدمات سرانجام دی ہیں۔ یہ کتاب ظاہر کرتی ہے کہ ۳۷ برس کے عرصے میں پی اے کا نقطہ نگاہ زیادہ تبدیل نہیں ہوا جس سے یہ تجویز کیا جاسکتا ہے کہ یہ تسلسل اس تحقیق کے مکمل ہونے کے بعد بھی ممکنہ طور پر جاری ہے جو اسمتھ کے تجزیے کو آج بھی برمحل بناتا ہے۔
کتاب میں اسمتھ پی اے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کی تاریخ، ڈھانچہ، اعدادوشمار، مذہبی میلان اور تعلیمی نصاب کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ پس منظر اس کتاب کے تجزیوں اور مشاہدوں میں ہموار ربط فراہم کرتا ہے جو چار اہم شعبوں کے بارے میں پاکستانی افسران کے نظریات کو کھوجتی ہے۔ ان میں بیرونی خطرات اور دوستیاں؛ اندرونی خطرات اور دوستیاں؛ ریاست اور اس کے ادارے؛ اور جوہری امور جیسے شعبے شامل ہیں۔ کتاب اداروں کے نقطہ نگاہ اور ریاست کی اندرونی و بیرونی پالیسیوں کے مابین ایک تعلق تجویز کرتی ہے۔ جیسا کہ ذیل میں بحث کی گئی ہے، اسلام آباد کی پالیسیاں بڑی حد تک پی اے کے افسران کے ذہنی میلان سے مطابقت رکھتی ہیں جو کہ اس روایتی عقیدے کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ پاکستان کی داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی کی سمت پی اے متعین کرتا ہے۔
بیرونی خطرات اور دوستیوں کے بارے میں نقطہ نگاہ
بھارت، امریکہ، چین اور سعودی عرب کے بارے میں پاک فوج کے تاثرات ان ممالک کے بارے میں پی اے کے خیالات اور ریاست کی خارجہ پالیسی کے درمیان ایک واضح تعلق کا اشارہ دیتے ہیں۔ حسب توقع، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں سخت گیر بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں جو کہ بھارت کے بارے میں پاکستان کی معاندانہ خارجہ پالیسی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ (خاص کر پاک فضائیہ اور بحریہ کے) جونیئر افسران بھارت سے لاحق خطرات کے ضمن میں سینیئرافسران کی نسبت کم سخت گیرموقف رکھتے ہیں تاہم اس کے باوجود اسٹاف کالج اور ادارے میں بڑی حد تک غالب بیانیہ سخت بھارت مخالف ہوتا ہے، پاکستان کی بھارت پالیسی جس کی عکاس ہے۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ یہ ناقابل بھروسہ غیرمستقل شراکت دار ہے جس نے اسلام آباد کو وقتاً فوقتاً اپنے مفادات کے لیے ”استعمال“ کیا ہے اور اس کے بعد جلد ہی چھوڑ دیا ہے۔ پریسلر پابندیوں کا قصہ افسران کی اکثریت کے ذہن میں نقش ہے۔ بعض، خطے میں عدم استحکام لانے کیلئے واشنگٹن کو موردالزام ٹھہراتے ہیں جس نے سویت یونین کے افغانستان سے نکلنے کے فوری بعد اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا تھا۔ یہ مسلسل عدم اعتماد پاکستان کی امریکہ کی جانب خارجہ پالیسی سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو واشنگٹن کو بطور شراکت دار قبول کرنے میں ہچکچاہٹ یا دہشتگردی کے خاتمے کی حکمت عملی کے حوالے سے امریکی امیدوں پر پورا اترنے سے انکار سے عبارت ہے۔
واشنٹگن پر شدید بداعتمادی اور اس کی پالیسیوں سے مایوسی کے باوجود پاکستانی افسران امریکی سپاہ، ڈاکٹرائن، ٹیکنالوجی اور سازوسامان کو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر سمجھتے ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ مستقبل میں اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ ان شعبوں میں جہاں وہ ممکنہ طور پر فائدے اٹھا سکتا ہے، شراکت داری کا خواہشمند ہوسکتا ہے۔
اسمتھ کا مزید استدلال یہ ہے کہ پاک چین دوستی پر مبالغہ آمیز بیانیے کے باوجود حقائق یہ تجویز کرتے ہیں کہ یہ جذبات زمینی سطح پر موجود نہیں ہیں۔ بہت سے افسران چین کی پاکستان کے ہمراہ شراکت داری پر یہ دعویٰ کرتے ہوئے حقیقت پسند دکھائی دیے کہ یہ شراکت داری برادرانہ محبت کے دعووں سے زیادہ بیجنگ کے اپنے مفادات پر مبنی ہے۔ پی اے کی حقیقت پسندی پر مبنی امیدیں یہ وضاحت کرتی ہیں کہ اسلام آباد بعض چینی اقدامات پر قدرے مفاہمت کیوں اختیار کرتا ہے اور حتیٰ کہ بعض پیش رفت جو بصورت دیگر شدید اختلاف کا باعث ہوسکتی تھیں ان پر خاموش کیوں ہے۔ مسعود اظہر (جیش محمد کے سربراہ) کو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دہشتگرد قرار دینے کے فیصلے پر چینی اعتراض کا خاتمہ، اسلام آباد کا پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کی تحقیقات روک دینے کا فیصلہ، اور ایغور کے مسلمانوں پر بیجنگ کی ایذارسانی کے بعض پاکستانی خاندانوں پر اثرات اس کی مثال ہیں۔
اسی طرح پاکستانی افسران، پاک بھارت تنازعے میں پاکستان کی معاونت کی چینی پیشکش پر انحصار میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ چین کے حوالے سے افسران کی حقیقت پسندی اشارہ دیتی ہے کہ وہ اس سے بلاوجہ امیدیں نہیں باندھتے ہیں اور اس پر توجہ چاہتے ہیں جو کہ چینی شراکت داری سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی خدشات کے باوجود پاک بھارت بحران کی صورت میں چین بھارت کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان کے ہمراہ سازباز نہیں کرسکتا۔
سعودی عرب کے بارے میں یہ کتاب ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی افسران اس تزویراتی شراکت داری کو مغرب سے شراکت داری کے مقابلے میں محدود حیثیت کا سمجھتے ہیں جیسا کہ پاکستان کی سعودی عرب کے بارے میں پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے۔ سعودی عرب سے مذہبی تعلق کے باوجود اس سے یا اس کی سپاہ کے حوالے سے معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ دہائیوں تک جب تک مذہب اور مشترکہ مفادات جیسے دعوے مناسب سہولت کار رہے دوطرفہ تعلقات برقرار رہے۔ تاہم گزشتہ دہائی میں ریاض اور اسلام آباد کے تعلقات کمزور پڑگئے ہیں اور تعلقات کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے مذہبی زاویہ ناکافی دکھائی دیتا ہے۔ بھارت اور سعودی عرب میں بڑھتے تعلقات اور پاکستان کی ایران اور ترکی سے بڑھتی ہوئی قربت نے پاکستان سعودی عرب کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
داخلی سلامتی کو لاحق خطرات پر نقطہ نگاہ
بیرونی خطرات کے علاوہ داخلی سلامتی کو لاحق خطرات کے بارے میں پی اے کا نقطہ نگاہ اور ریاست کی دہشتگردی کیخلاف پالیسی میں بھی تعلق موجود ہے۔ اسمتھ زور دیتے ہیں کہ ۱۹۷۰ سے ۱۹۹۰ کی دہائی تک پاکستان میں سلامتی کی صورتحال قدرے بے ضرر تھی باوجود اس کے کہ تب بلوچستان میں شورش جاری تھی جو کہ حکومتوں کی اولین ترجیح نہیں سمجھی جاتی تھی اور جسے ”وقتاً فوقتاً ’قابو‘ میں کیا جاتا تھا“ نیز ڈیورنڈ لائن کے ساتھ ساتھ غیر رسمی ہتھیاروں پر مبنی ”کلاشنکوف کلچر“ بڑھ رہا تھا۔ تاہم ۲۰۰۱ میں افغانستان میں امریکی عسکری آپریشنز پاکستان کی سلامتی کی صورتحال پر بری طرح اثرانداز ہوئے اور جو کہ ۲۰۰۹ کے بعد مزید ابتر ہوگئے۔ جوں ہی پی اے نے پاکستان مخالف عسکری گروہ جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک نفاذ شریعت محمد سے وابستہ خطرات سے نمٹنے کی کوشش کی تو اسے بھاری پیمانے پر جانی نقصان کا سامنا ہوا اور داخلی سلامتی کو لاحق خطرات کے حوالے سے حوصلے ماند پڑنے لگے۔
پاکستانی افسران (جن میں سے زیادہ تر جونیئر اور وسط سطحی اختیارات کے حامل ہیں) جنہوں نے سابقہ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کیخلاف آپریشنز میں حصہ لیا تھا یقین رکھتے ہیں کہ بھارت سے لاحق سلامتی خطرات کے مقابلے میں ملک کو لاحق داخلی سلامتی خطرات زیادہ ٹھوس ہیں۔ تاہم کالج میں ڈائریکٹنگ اسٹاف (ڈی ایس) بھارتی خطرات کو داخلی خطرات پر ترجیح دیتا ہے۔ نصاب جو کہ روایتی طور پر بھارت کیخلاف روایتی آپریشنز پر توجہ دیتا ہے، بڑھتے ہوئے داخلی سلامتی خطرات کی وجہ سے مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔ اسٹاف کالج داخلی سلامتی کیلئے آپریشنز کو نیم روایتی جنگ (ایس سی ڈبلیو) قرار دیتا ہے جو کہ بڑی حد تک مقامی آبادی کے ”دل اور ذہن جیتنے“ کے بجائے ہتھیاروں کے ذریعے ”عسکریت پسندوں کو کچلنے کیلئے“ آپریشنز پر مبنی ہوتےہیں۔ بعض افسران یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ عسکری آپریشنز میں اگر کوئی مارا گیا ہے تو وہ ”اسی کے قابل“ تھا۔ اس عام رجحان کے ہمراہ نیم جنگی آپریشنز کے اشتراک سے ایک مہلک سلامتی حکمت عملی وجود میں آئی ہے جو کہ ضرب عضب اور ردالفساد آپریشنز کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں جیسا کہ ماورائے عدالت قتل خصوصاً پشتون برادری کے افراد کا۔
اسمتھ نے محسوس کیا ہے کہ باوجودیکہ پاکستان عسکری گروہوں کے خطرے میں جکڑ رہا ہے، پی اے کے افسران اپنے عسکری اور سیاسی اہداف کی تکمیل کے لیے بھارت مخالف عسکری گروہوں کی پرورش کی روایت کی حمایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ اسٹاف کالج میں ایک ایس سی ڈبلیو مشق کے اہم اسباق کا خلاصہ کرتے ہوئے ایک کمانڈنٹ کی جانب سے بیان کیا گیا: ”ہمارے پاس ہمارے اپنے عسکریت پسند ہیں، اور اگر ضرورت پڑی تو ہم ان کو استعمال کرسکتے ہیں۔“ پی اے کی جانب سے دیگر ممالک (بھارت اور افغانستان) کیخلاف عسکری گروہوں کے استعمال کی حمایت ایک تاریک منظر تخلیق کرتی ہے اور یہ تجویز کرتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں یہ روایت بلاتعطل جاری رہنے کا امکان ہے اور حتیٰ کہ اگر پی اے کے اہداف کیلئے ضرورت محسوس ہوئی تو اس میں شدت بھی آسکتی ہے۔
ریاست اور اس کے اداروں پر رائے
بیرونی اور داخلی سلامتی خطرات کے علاوہ یہ کتاب عسکری اور سویلین گورننس کے بارے میں پی اے کے تاثرات اور منتخب حکومتوں کے تختے الٹنے سے آلودہ ماضی کے درمیان تعلق کا اشارہ دیتی ہے۔ زیادہ تر افسران اصولی طور پر جمہوریت کے تصور کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ خیال کرتے ہیں کہ پاکستان مغربی طرز کی خالص جمہوریت کے لیے تیار نہیں کیونکہ اس کے ”سول سیاست دان بہت بدعنوان اور بددیانت ہیں اور عوام بہت ان پڑھ ہے۔“ بہت سے عسکری گورننس کو نااہل اور بدعدنوان سیاست دانوں کا معقول نعم البدل خیال کرتے ہیں۔ بلکہ جب سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے زرداری حکومت کا تختہ نہیں الٹا تو افسران کی جانب سے اسے ایک ”احسان“ کے طور پر دیکھا گیا۔
کتاب سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستانی افسران عسکری گورننس کو اس وقت تک ترجیح دیتے ہیں جب تک یہ پی اے کی ساکھ اور ہم آہنگی میں رکاوٹ نہ ہو۔ جس لمحے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچنا شروع ہوا تو افسران سویلین قیادت کی جانب سے حکومت سنبھالنے پر معترض نہ رہے۔ مشرف اور ضیا حکومتوں کے بارے میں تبدیل ہوتے تاثرات سے یہ طرزفکر واضح جھلکتا تھا۔ یہ رجحانات پاکستان میں ”خالص“ جمہوری موڑ آنے کی امید کم ہی باقی رہنے دیتے ہیں۔ کتاب میں یہ مشاہدہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ حتیٰ کہ عمران خان کی موجودہ حکومت کو بھی فوج کی بھرپور حمایت حاصل ہے جو کہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔ یہ صورتحال تجویز کرتی ہے کہ پی اے پاکستان میں گورننس کے مستقبل پر چھائی رہے گی، خواہ یہ کسی سویلین چہرے کی آڑ میں ہو یا پھر براہ راست عسکری قیادت کے ذریعے ہو۔
جوہری ہتھیاروں پر رائے
داخلی اور خارجی سلامتی کو لاحق خطرات کے علاوہ پاکستان کے جوہری منصوبے پر افسران کے خیالات کے بارے میں اسمتھ کی معلومات خاص کر تشویش ناک ہیں۔ باب پنجم سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے جوہری افکار سرد جنگ کے دوران کی امریکی سوچ سے بے حد متاثر ہیں اور جن کا محور ایک انتہائی طاقتور دشمن ریاست سے روایتی جنگ کو روکنا ہے۔ اس سوچ کی بنیاد پر پاکستانی عسکری افسران بھارت کو جنگ سے باز رکھنے کے لیے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار (ٹی این ڈبلیوز) سمیت جوہری ہتھیاروں پر بے حد بھروسہ کرتے ہیں۔ پاکستانی افسران کی جانب سے ٹی این ڈبلیوز کے استعمال کے تزویراتی نتائج کو بالعموم مسترد کیا جانا اس لحاظ سے باعث تشویش ہے کہ بھارت زور دیتا ہے کہ اس کے ردعمل میں جوہری ہتھیاروں کی قسم کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہوگی۔ خیال رہے کہ ایک طاقتور ڈیٹرنس کے ساتھ ساتھ جوہری لڑائی کو متوازن کرنے پر مبنی پاکستان کی حکمت عملی بھارت میں ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی (این ایف یو) کو مزید لچکدار بنانے کی بحث کو مزید ہوا دیتی ہے ۔ افسران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کو ”غریب آدمی کی فضائی افواج“ خیال کرنا بھارتی تشویش کو بڑھاوا دیتا ہے اور نئی دہلی میں این ایف یو مخالف دھڑوں کو مزید توانا کرتا ہے۔
حاصل کلام
ڈیوڈ او اسمتھ کی معرکہ آرا کتاب ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں اور اسی طرح خارجہ پالیسی میں دلچسپی رکھنے والوں کو لازماً پڑھنا چاہیے۔ چونکہ پاک چین تعلقات کی جانب توجہ میں اضافہ ہورہا ہے اس لیے بہتر ہوتا کہ اگر کتاب میں سنکیانگ میں مسلمانوں سے چینی ناروا سلوک کے بارے میں افسران کی رائے بھی معلوم کی جاتی۔ پاکستان کشمیر کے تنازعے کو تزویراتی نکات کے علاوہ مذہب کی نگاہ سے دیکھتا ہے نیز خود کو مسلم دنیا کے چیمپیئن کے طور پر پیش کرتا ہے ایسے میں قاری یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیا پاکستانی سپاہ سنکیانگ کے مسئلے کو مذہب کی عینک سے دیکھتی ہے یا پھر زمینی حقائق پر مبنی سیاست کی نگاہ سے۔ اگر کتاب میں اس پہلو کو بھی کھوجا گیا ہوتا کہ آیا پاکستان میں سویلین نقطہ نگاہ بھی پی اے کے افسران کے نقطہ نگاہ سے اتفاق رکھتا ہے تو یہ بھی بہت سود مند ثابت ہوتا۔ بہرحال کتاب میں شناخت کیے گئے تعلقات نیز پی اے کی ادارہ جاتی سوچ میں تسلسل مشاہدہ کاروں اور پالیسی سازوں کے لیے جنوبی ایشیا میں سلامتی کے وسیع تر رجحانات کی بہتر تصویر پیش کرتا ہے۔ قاری کو پی اے کے ذہن میں جھانکنے کا موقع فراہم کرنے کے علاوہ پاکستانی اداروں کے افکار اور خارجہ پالیسیز کے درمیان تعلقات کے تفصیلی مطالعے کے لیے یہ کتاب ایک بہترین نقطہ آغاز فراہم کرتی ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Al Jazeera English via Flickr
Image 2: Prime Minsiter’s Office, Pakistan via Twitter