x

 افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد کی نسبت چین جسے ایک وقت طالبان کا “سب سے اہم شریکِ کار” (پارٹنر) سمجھا جاتا تھا، ایک تبدیل شُدہ صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔چین کے ساتھ مضبوط روابط کے ایک دور کے بعد طالبان اب وسیع تر شراکت داروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔افغانستان کے لیے کسی عظیم تصور کی پیشکش  کے بجائے چین نے افغانستان کے ساتھ اقتدار سنبھالنے سے پہلے سے ہی موجود دوطرفہ معاملت کے بنیادی عوامل پر منظم طور پر کام کرنے کو ترجیح دی ہے، جن میں انسداد دہشت گردی، انسانی ہمدردی پرمبنی امداد، علاقائی رابطہ کاری کے لیے محدوداقدامات اور علاقائی ضابطۂ کاری (میکانزم ) پر زور دینا شامل ہیں۔اسے (چین) افغانستان کی بے تحاشا تائید یا طالبان کو باضابطہ تسلیم کرنے میں دلچسپی نہیں ۔یہ انتخاب چین کو ملک کی تعمیر نو کا بوجھ بانٹنے تو دیتا ہے لیکن یہ اس کے افغانستان میں اثر و رسوخ کو محدود بھی کر سکتا ہے کیونکہ طالبان بھارت جیسی مسابقتی قوتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

معاملت داری کےموجودہ عوامل پر تعمیر

اب تک بیجنگ نے افغانستان کے مستقبل کے لیے کوئی عظیم تزویراتی تصور واضح طور پر پیش نہیں کیا ہے، بلکہ افغان قیادت کےعمل کا پاس کیا ہے۔ (طالبان کے)اقتدار میں آنے سے قبل چین کبھی بھی افغانستان میں سب سے اہم طاقت نہیں رہا؛ 2019 میں، اس وقت کے افغانستان میں چینی سفیر وانگ یو  نے اعتراف کیا کہ چین تنہا ہی افغانستان کو سہارادینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔اس دوران چین کی افغانستان کے ساتھ معاملت کو عوامی طور پر انسدادِدہشت گردی،  انسانی ہمدردی پر مبنی امداد، علاقائی رابطہ کاری کے محدود اقدامات، اور مسائل کے حل کے لیے کثیرالجہتی ضابطۂ عمل کے استعمال کے تناظر میں پیش کیا گیا۔

اس کے بعد سے چین نے افغانستان کے مستقبل کے لئے کچھ تصورات پیش کیے،مثلاً علاقائی اقتصادی تعاون پر مرکوز 2022 کے تونچی اقدام جو افغانستان اورہمسایہ ممالک کے مابین طے پایا۔تاہم چین کے لیے یہ بڑی حد تک پہلے سے موجود منصوبوں کا حصہ تھا؛ مثلاً چین نے کم از کم 2016 سے موجود بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو میں افغانستان کو شامل کرنے کی  برائے نام کوشش کی،جس میں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان تک بڑھانے کا منصوبہ ایک ذریعے کے طور پر 2019 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ گو کہ چین اب بھی سی پیک کو بڑھانے کی ظاہراً کوشش کر رہا ہے، تاہم اس کی عملداری کمزور یا غیر موجود رہی ہے اور طالبان (کی حیثیت) کو سرکاری طور پر تسلیم کیے بغیر آگے بڑھنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔اس دوران  چین-افغانستان تعلقات  کےبنیادی پہلو جاری ہیں اور جاری رہتے ہوئےممکنہ طور پر دوطرفہ تعلقات کی تشکیل کرتے رہیں گے جیسا کہ حالیہ چین-پاکستان-طالبان کے سہ طرفی اجلاس سے ظاہر ہوا، جس میں چین نے ایک مرتبہ پھر سی پیک کو توسیع دینے کے عزم کا اعادہ کیا اور سہ طرفی ضابطۂ کار (میکانزم) اور مشترکہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر زور دیا۔

چین واضح طور پر افغانستان کے جغرافیائی مقام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقائی رابطہ کاری کو مضبوط بنانے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن یہ (خواہشیں) آئی ایس آئی ایس جیسے مسلح دہشت گرد گروہوں، محدود بنیادی انفرا اسٹرکچر ، اور انسانیت سے متعلقہ مسائل جیسی مشکلات کے سبب گھٹ جاتی ہیں۔طالبان میں بھی اندرونی اختلافات ہیں جن کے بارے میں کچھ چینی تجزیہ کاروں کا انتباہ ہےکہ یہ تشدد کو فروغ دے سکتے ہیں۔ان مشکلات کے باوجود چین کے پاس طالبان، جن کا چین کی مغربی سرحد پر متلوّنہ افغانستان پر حکمرانی کرنے کا سب سے زیادہ امکان ہے،  کے ساتھ معاملت کرنے کے علاوہ چند ہی اختیارات بچتے ہیں۔

معاملت کے زِیر و بم

چینی حکام کا خیال ہے کہ مستقبل میں طالبان افغانستان کی قیادت کریں گے اور اس لیے انہیں(طالبان) انتظامیہ کے اتھ معاملت رکھنی ہوگی۔بیجنگ نے (طالبان کے) ملک پر اقتدار حاصل کرنےسے قبل اس گروپ کے ساتھ رابطہ استوارکرنے کی بنیاد رکھی تاکہ ممکنہ طویل تنازعہ کی پیش بندی کی جا سکے ؛ اس نے جون 2021 میں اس گروپ کے “سیاسی دھارے” میں دوبارہ شامل ہونے کا مطالبہ کیا، جولائی میں روابط میں اضافہ کیا، اور برسرِ اقتدار آنے سے تقریباً دو ہفتے قبل بیجنگ میں ایک طالبان وفد کی میزبانی کی۔بر سرِ اقتدار آنے کے بعد طالبان نے چین کو افغانستان کی تعمیر نو میں اپنا “سب سے اہم شریکِ کار” قرار دیا۔

چین 16 ممالک میں سے ایک تھا جس نے کابل میں اپنا سفارت خانہ برقرار رکھا اور 26 ستمبر 2021 کو نئی طالبان حکومت کے ساتھ اپنی پہلی رسمی ملاقات کی۔چین وہ پہلا ملک بھی تھا جس نے طالبان کے زیر قیادت افغانستان کے لیے ایک نئے سفیر کو تعینات کیا اور وہ پہلا ملک تھا جس نے طالبان کے مقرر کردہ سفیر کو تسلیم کیا، اس موقع پر صدر شی جن پنگ نے 41 دوسرے سفیروں کے ساتھ رسمی تقریب میں (افغان)سفیر کے اسناد بھی قبول کیے۔اقتدار میں آنے کے بعد، چین نے طالبان کے لیے اقوام متحدہ میں مسلسل زبانی حمایت فراہم کی ہے (اور) امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پابندیاں ختم کرے اور افغانستان کے غیر ملکی اثاثہ جات آزاد کرے۔اس تناظر میں چینی سفارت خانے کے بیان کردہ چینی اور طالبان عہدیداروں کے مابین تعاملات (انٹریکشنز) میں سال 2024 میں مارچ کے آخر سے جولائی کے آخر تک (نمایاں) اضافہ ہوا۔

یہ تبدیلیاں بظاہر طالبان کے لئے چین کی مرکزی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔تاہم 2024 میں ان (تعاملات) کی بلند ترین سطح کی نسبت حال میں سرکاری تعاملات  خاصےکم ہو گئے ہیں؛ سفارت خانے کے بیان  کے مطابق 2025 کے پہلے چار مہینوں میں تعاملات 2024 کے اسی دور کی نسبت نصف ہو گئے ہیں۔حال ہی میں چین کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان  نے پاکستان اور طالبان کے ساتھ 10-11 مئی کو کابل میں سہ طرفی مذاکرات میں شرکت کی، جس کے دو ہفتے بعد بیجنگ میں ان(ممالک) کے وزرائے خارجہ کے مابین پس ازیں سہ طرفی مذاکرات ہوئے۔بیجنگ میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اکتوبر 2023 کے بعد پہلی بار چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ علیحدگی میں ملاقات کی۔تاہم محض وانگ ہی وہ غیر ملکی وزیرِ خارجہ نہیں ہیں جن سے متقی نے حال ہی میں ملاقات کی ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ طالبان خطّے کے دیگر شراکت داروں کی توجہ حاصل کر رہا ہے؛ کچھ ہفتے پہلے دوحہ میں متقی نے قطر کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور سے ملاقات کی اور وہ ایران بھی گئے جہاں انہوں نے ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔در حقیقت متقی نے ایران کے صدر سے بھی ملاقات کی۔ اس کے برعکس متقی نے کبھی شی سے ملاقات نہیں کی۔

بر سرِ اقتدار آنے کے فوراً بعد کے دور کی نسبت یہ واضح ہے کہ طالبان کے پاس شراکت داروں کے ساتھ روابط استوارکرنے کے لیے زیادہ اختیارات موجود ہیں، جس کے سبب یہ اپنی سفارتی کوششوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کر سکتے ہیں: یہ گروپ متحدہ عرب امارات اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر رہا ہے لیکن چین کے ساتھ مسابقتی ممالک بشمول بھارت اور ممکنہ طور پر امریکہ کے بھی، جو طالبان کی بطور دہشت گرد تنظیم کی درجہ بندی کا جائزہ لے رہا ہے۔حال ہی میں طالبان نے روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا، جس نے طالبان کی بطور دہشت گرد تنظیم کی تعین کاری کو ختم کیا اور یہ طالبان کے سفیر کو قبول کرنے والا پانچواں ملک بن سکتا ہے۔

جیسے جیسے یہ مزید شراکت دار حاصل کرتے جارہے ہیں، طالبان اب ایک “متوازن خارجہ پالیسی” کی پابندی کر رہے ہیں، (وہ) اب چین کو اپنا “سب سے اہم شریکِ کار” نہیں بلکہ محض اس کے سب سے اہم شریکِ کاروں ’’میں سے ایک” کے طور پر گنواتےہیں۔ یہ خصوصاً حالیہ بھارت-پاکستان تنازعہ کے پیشِ نظر اہم ہے جس میں چین نے ابتدائی طور پر پاکستان کی حمایت کی، جس سے بھارت کے ساتھ (اس کے) تعلقات متاثر ہوئے۔بحران کے بعد چینی اور پاکستانی سفیروں کی10-11 مئی کو طالبان سے کابل میں ملاقات کے بعد، پاکستانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ چین اور پاکستان نے بھارت کو افغانستان سے نکال باہر کیا ہے۔تاہم کچھ دن بعد طالبان کے وزیر خارجہ نے پہلا رابطہ (فرسٹ کونٹیکٹ) بھارت کے وزیر خارجہ کے ساتھ فون پر کیا جبکہ بھارتی حکام  نے افغانستان میں “دلیرانہ کارروائیوں” کے بارے میں اشارے دیے۔اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ طالبان بین الاقوامی سطح پر (اپنی حیثیت کو) باضابطہ تسلیم کروانے کو اہمیت دیتے ہیں،وہ جتنا ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ شراکت داروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ چین کے اثر و رسوخ کو محدود کر سکتا ہے۔چین ضروری اقتصادی سرمایہ کاری فراہم کرتا ہےلیکن دیگر ممالک جیسا کہ روس، بھی ایسا کرتے ہیں۔ سرمایہ کاری کی پیشکشوں پر عمل درآمد کرنے میں حائل  چین کی ابتدائی مشکلات ممکنہ طور پر توازن کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔

سفارتی طور پر تسلیم کیے جانے کے امکانات

جیسا کہ میں نے کسی اورمقام پر بحث کی ہے، چین نے افغانستان کے خلا  کواس طرح پُرنہیں کیا جس کی کچھ نے پیش گوئی کی تھی، بلکہ اس نے محتاط انداز اپنایا اور اقتصادی روابط کو بامعنی انداز میں بڑھانے کے لیے کم لگن کا مظاہرہ کیا۔اس کی بدولت دوطرفہ تعلقات محدود نوعیت کے ہیں، طالبان موجودہ اقدامات کو تیز تر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ایک بڑے تجارتی عدم توازن کا جائزہ لے رہے ہیں۔

چونکہ چین اب تک طالبان کو باضابطہ تسلیم کرنے والا پہلا (ملک) بننے سے انکاری ہے، سو جب تک سفارتی سطح پر (طالبان کو) تسلیم کرنے کا سوال حل نہیں ہو جاتا، تب تک تعلقات کو مکمل طور پر بڑھانا ناممکن ہے۔کچھ خبریں یہ عندیہ دیتی ہیں کہ متعدد علاقائی طاقتوں کی جانب سے بیک وقت (طالبان کو) تسلیم کرنے کے سبب ساکھ کو دھچکا پہنچانے سے بچا جا سکتا ہے۔اس اثنا میں جب کہ اقوام متحدہ افغانستان کے لیے نیا منصوبہ تیار کر رہا ہے، یہ احتمال ہے کہ چین اس عمل کے تناظر میں کسی ممکنہ تسلیم کو بھی شامل کرے گا۔ایسا کرنے سے یہ (چین) پہلے حاصل کیے گئے اثر و رسوخ کو ان دیگر شراکت داروں کے حق میں گنوا سکتا ہے جنہیں طالبان (اپنی حیثیت) تسلیم کروانے کی غرض سے آمادہ کرنا چاہ رہے ہیں۔تاہم افغانستان کی تعمیر نو میں درپیش مسلسل رکاوٹوں کے پیشِ نظر بیجنگ کے لیے شاید یہ امر باعثِ شادمانی ہو کہ دوسرے شراکت دار افغانستان میں قدم رکھیں بجائے اس کے کہ طالبان حکومت کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی سیاسی قیمت چکائی جائے۔

تاہم اس انتخاب  کی بھی ایک قیمت ہے۔مثلاً جیسے جیسے طالبان چینی حریف بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مزید جستجو کررہے ہیں، یہ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو دعوت دیتا ہے، نہ صرف مسابق ترقیاتی منصوبوں کے لیے بلکہ حریفانہ علاقائی رابطہ کاری کے اقدامات کے لیے بھی،جیسا کہ طالبان کا بھارتی سرمایہ کاری شُدہ چابہار بندرگاہ کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری شُدہ بندرگاہوں پر ترجیح دینا، جو کہ  چین کی خطّے سے متعلقہ اُمنگوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔

ماحصل

طالبان کے “سب سے اہم شریکِ کار” کے طور پر  چین کی حیثیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ طالبان کے زیر قیادت افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بڑھانےمیں محتاط رویے کے باعث چین اب طالبان کو پہلے سے زیادہ فعال طور پر نئے شراکت دار تلاش کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے، جو کہ افغانستان میں اس کے اثر و رسوخ کو کم کر سکتا ہے۔گو کہ بیجنگ نے افغانستان کی تعمیر نو میں درپیش مشکلات کے باعث ایک مضبوط ترکردار ادا کرنےسے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم یہ منفی تزویراتی نتائج کو دعوت دے سکتا ہے جس کا چینی حکام کوسامنا کرنا پڑے گا۔

اب جبکہ طالبان کی حکومت کو چار سال مکمل ہونے کو ہیں، چینی حکام کا یہ ماننا ہےکہ انہیں ان (طالبان) کے ساتھ معاملت استوارکرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، تاہم طالبان کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے پر چین آمادہ نہیں جب تک کہ عالمی یا کم از کم علاقائی حمایت ان کے ساتھ نہ ہو۔اگرچہ چین پاکستان اور طالبان کے ساتھ واقعۂ  پہلگام اور بھارت-پاکستان تنازع کے بعد سہ طرفی کوششیں بڑھا رہا ہے، طالبان کا زور دینا کہ وہ پہلے سے زیادہ متوازن خارجہ پالیسی اپنائیں گے، افغانستان میں مزید شراکت داروں کو لائےگا – یہاں تک کہ کچھ ایسے بھی (ہو سکتے ہیں) جو چینی تجزیہ کاروں کے خدشے کے مطابق بیجنگ کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔گو کہ چین مستقبل میں طالبان کے لیے ایک اہم شریکِ کار ملک رہے گا، تاہم یہ کئی میں سے محض ایک بنتا جا رہا ہے، (چین) افغانستان کو  مستحکم کرنے کا بوجھ کچھ(ممالک) کے ساتھ بانٹ سکتا ہے مگر ساتھ ہی اسے ملک (افغانستان) میں دوسرے (ممالک) سے بڑھتی ہوئی مسابقت  کے اندیشے کا سامنا بھی ہے۔ 

***

This article is a translation. Click here to read the article in English.

 
Share this:  

Related articles

म्यांमार के नियोजित चुनावों से अधिक रोष का ख़तरा Hindi & Urdu

म्यांमार के नियोजित चुनावों से अधिक रोष का ख़तरा

8 अप्रैल, 2025 को म्यांमार की सैन्य सरकार, जिसे तत्मादाव…

स्थिरता की नाज़ुकता: पहलगाम के पश्चात् भारत-पाकिस्तान परमाणु सीबीएमएस Hindi & Urdu

स्थिरता की नाज़ुकता: पहलगाम के पश्चात् भारत-पाकिस्तान परमाणु सीबीएमएस

पहलगाम हमले के पश्चात् उत्पन्न भारत-पाकिस्तान संकट ने पुनः क्षेत्रीय…

पाकिस्तान के प्रक्षेपास्त्र कार्यक्रम के विरुद्ध प्रतिबंध: दक्षिण एशिया में अमेरिका की बदलती  प्राथमिकताएँ Hindi & Urdu