بین الافغان مذاکرات کیلئے مقام اور تاریخ کے عنقریب متوقع اعلان نے افغانستان میں پر امن سیاسی تصفیے کے امکانات کے حوالے سے امیدوں کو جنم دیا ہے۔ یہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا پہلا دور ہوگا۔ جیسا کہ دونوں فریق متعدد مواقع پراعتراف کرچکے ہیں، یہ موجودہ تنازعہ ایک موثر سیاسی حل کا متقاضی ہے اور لمحہء موجود تصفیے کیلئے ایک بے مثال موقع ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ راستہ آسان ہوگا اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ امن حاصل کرنا یقینی ہے۔ امکان یہ ہے کہ یہ عمل ایک ایسے انداز میں شروع ہوگا جو افغان حکومت اور طالبان دونوں سے اپنے سخت موقف پر سمجھوتے کا متقاضی ہوگا۔ اس حوالے سے دو بڑے چیلنجز برقرار ہیں: اول تو یہ کہ ادارہ جاتی سطح پر موجود ابہام اور حکومتی سطح پر حقیقی اتفاق رائے کی کمی مذاکرات سے قبل کے مراحل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ دوئم یہ کہ مذاکراتی ایجنڈے میں حساس نوعیت کے موضوعات شامل ہوسکتے ہیں جو بذات خود مذاکراتی عمل کیلئے رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔
سودے بازی کیلئے سول حکومت کی حیثیت اوردرپیش آزمائشیں
افغان حکومت کے نقطہ نگاہ سے موثر ترین مذاکراتی عمل کی شکل یوں ہوسکتی ہے کہ جہاں اس عمل کی قیادت بھی خالصتاً افغانستان کے سپرد ہو اور یہ افغانستان کا تسلیم کردہ ہو نیز اس میں حکومت کیلئے سودے بازی کی گنجائش ہو۔ مذاکراتی عمل میں افغان حکومت کی حیثیت کو مضبوطی بخشنے میں اس کے پڑوسیوں اور دیگر اہم بین الاقوامی کھلاڑیوں جیسا کہ امریکہ، یورپی یونین، روس، چین ، بھارت اور پاکستان کی حمایت کاکردار ہے۔ افغانستان کے سب سے اہم اتحادی امریکہ اور نیٹو اس وقت تک یہاں سے مکمل فوجی انخلاء نہیں کریں گے جب تک کہ طالبان کی جانب سے تمام شرائط پوری نہیں کی جاتیں اور مذاکرات کے ٹھوس نتائج بشمول مستقل سیز فائر اور امن معاہدے کے نفاذ کیلئے ضمانت حاصل نہیں ہوجاتی ہے۔
حالیہ پیش رفت، جن میں سب سے اہم ۱۷ مئی کو ہائی کونسل فار نیشنل ری کنسیلی ایشن (ایچ سی این آر) کی تخلیق شامل ہے، بھی حکومت کیلئے نیک شگون ثابت ہونگی۔ ایچ سی این آرال ۲۰۱۹ کے متنازعہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہونے امیدواروں کے مابین سیاسی معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے جس کے تحت عبداللہ عبداللہ کو امن عمل کی قیادت اور اشرف غنی کو صدارت سے نوازا گیا۔ اب تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں اور نمایاں سیاست دان جو دو گروہوں میں تقسیم تھے، حکومت کے امن ایجنڈے کی خاطر اس کی پشت پر کھڑے ہیں جس سے اس معاملے پر قومی اتفاق رائے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔
تاہم اتحاد کے اس تاثر کے باوجود انتظامی سطح پر موجود ابہام اور حقیقی معنوں میں اتفاق رائے کی کمی حکومتی حیثیت کو کمزور کرنے کیلئے خطرہ ہیں۔ قبل ازیں ہونے والے امریکہ طالبان مذاکرات جس میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے معاملے پر مذاکراتی عمل میں افغان حکومت کو نظرانداز کیا گیا تھا، اب افغان حکومت کی حیثیت کو کمزور کرتے ہوئے اسے سودے بازی سے محروم کرسکتے ہیں۔
ادارہ جاتی سطح پر غیر ضروری ادارے اس کی واضح مثال ہیں۔ افغانستان میں امن اور مفاہمت کیلئے ادارے بھی اسی قدر قدیم ہیں جس قدر کہ یہ شورش بذات خود۔ حال ہی میں قائم ہونے والا ایچ سی این آر اس نوعیت کا قائم ہونے والا پانچواں ادارہ ہے۔ اس کے باوجود کم از کم دو ادارے جو ایچ سی این آر کے مماثل کردار کے حامل ہیں، اس ادارے کے متوازی کام کررہے ہیں۔ ان میں ۲۰۱۰ میں قائم ہونے والی ہائی پیس کونسل (ایچ پی سی) اور ۲۰۱۹ میں وجود میں آنے والی وفاقی وزارت برائے امن (ایس ایم پی) ہے۔ ایچ سی این آر کا مقصد ایک ایسا ادارہ ہے جو امن مراحل سے متعلقہ تمام امور کی نگرانی کرے جبکہ ایس ایم پی اس کا سیکریٹیریٹ ہے۔ ایچ پی سی کا کردار اور مقصد تاحال واضح نہیں۔ مزید براں، ایچ سی این آر کی حیثیت اور ذمہ داریوں کے بارے میں معاہدے کی شقیں شدید اختلافات اور ٹکراؤ کی صورت میں اس کی حوصلہ شکنی یا اس میں کمی کیلئے کردار ادا کرنے کے حوالے سے مبہم ہیں۔
باہم مقابل اور بسا اوقات مماثل کردار کے حامل ان اداروں کی حیثیت ابہام کا شکار ہے جو قومی اتفاق رائے میں کمی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ دونوں امیدواروں میں سیاسی معاہدہ اگرچہ اتحاد کو ظاہر کرتا ہے تاہم حقیقی اتفاق رائے ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں قومی اہمیت کے حامل متنازعہ امور پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اور یہ بے حد واضح ہے کہ افغانستان ایسے کسی بھی اتفاق رائے سے کوسوں دور ہے- متعدد سیاسی جماعتیں اس امر پر متفق ہیں کہ وہ امن چاہتی ہیں تاہم اس امن کی صورت کیا ہو گی اور اس کے تحت کس قسم کے سیاسی و قانونی انتظامات کئے جائیں گے یہ بیان کیا جانا ابھی باقی ہے۔ یہ امن ایجنڈا بھی ابھی اتنا ہی غیر واضح ہے جتنا کہ وہ عمل جس کے ذریعےسے اس ایجنڈے کو پورا کیا جائے گا۔
اسی طرح، افغانستان کی کثیرالقومیتی آبادی کی ضروریات و طرز فکر سیاسی جماعتوں کے موقف سے نہیں جھلکتے۔ ایک حقیقی اتفاق رائے تک پہنچنے کیلئے افغان معاشرے میں نسلی، علاقائی بنیادوں پر موجود گروہوں اور معاشرتی و سیاسی گروہوں کا احاطہ کئے ہوئے جامع بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔ نسلی بنیادوں پر موجود اقلیتوں، تشدد سہنے والے متاثرین، خواتین نیز بعض دور دراز کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا اداروں کی بھی اس عمل میں آواز شامل ہونی چاہیئے جو کہ بلا امتیاز ان کو متاثر کرتا ہے۔ قومی اتفاق رائے کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ایجنڈے کے کلیدی حصوں پر بھرپور اور مکمل بحث نہ کرلی جائے جس میں مذاکرات کیلئے شرائط، سمجھوتے کی حدود نیز اس لائحہ عمل پر بات چیت شامل ہو جس کے ذریعے سے ہم اجتماعی طور پر ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھ سکیں جہاں دیرپا امن قائم رہ سکے۔ یہ اتفاق رائے مستقبل کی حکومت کی شکل، طاقت کے ارتکاز میں کمی اور عبوری انصاف جیسے امور جو کہ اس امن کیلئے بنیاد ہیں، ان پر بھی وسیع تر فہم کا متقاضی ہے۔
بدترین صورت: امن مذاکرات کی ناکامی
اگر مندرجہ بالا چیلنجز سے نہ نمٹا گیا اور انہیں بدستور باقی رہنے دیا گیا تو ایسے میں بدترین کیفیت رونما ہوسکتی ہے اور وہ ہے مذاکرات کی ناکامی اور ایک تاریخی موقع کی رخصتی۔ اگر حکومت مذاکرات کی میز پر موجود اپنے دھڑوں کو متحد کرنے اور انہیں ساتھ ملانے میں ناکام رہتی ہے تو طالبان ایسے میں زیادہ بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرلیں گے۔ علاقائی کردار جن میں سب سے اہم پاکستان ہے نیز ایران اور روس امریکہ کی واپسی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کیلئے ممکنہ طور پر طالبان کی حمایت کر سکتے ہیں۔ ایسے میں تشدد کی لہر میں اضافے کے ساتھ ساتھ طالبان اپنے سیاسی نظریات یعنی شرعی قوانین کی حامل ایک اسلامی امارات، موجود آئین کی منسوخی اور شہریوں کے آئینی حقوق کے خاتمے کے مطالبے پر زیادہ شدت سے اصرار کرسکتے ہیں۔ امن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں امریکی افواج کا ملک میں قیام ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔ یہ افغانستان کیلئے تباہ کن ہوگا۔ کرونا وبا کے باعث معیشت کی زبوں حالی کے بعد عالمی حمایت میں کمی ایک انسانی بحران اور حتیٰ کہ خانہ جنگی کو بھی جنم دے سکتی ہے ۔
تاہم دو وجوہات کی بنا پر اس صورتحال کا امکان نہیں ہے۔ اولاً تو افغانستان کے اتحادی جنہوں نے بشمول امریکہ اور یورپی یونین، ۲۰۰۱ کے بعد سے ہونے والی جمہوری پیش رفتوں کی حمایت کی ہے شائد کسی سیاسی و سفارتی مداخلت یا / اور ثالثی کے ذریعے ایسی کسی صورتحال کو پیدا ہونے سے روکیں۔ افغان حکومت اس قسم کی حمایت کا حصول چاہے گی۔ افغان حکومت نے جمہوری اصولوں، بشمول آئین اور شہریوں کے آئینی حقوق کے دفاع کا پرچار کیا ہے، کم از کم بیان بازی کی حد تک۔ دوئم، یہ امکان بھی ہے کہ مذاکرات کار سمجھوتوں کے ذریعے کسی مشترکہ نقطے پر آجائیں گے۔
درمیانی راستے کی کیفیت
درمیانی راستہ نکالے جانے کی کیفیت متعدد وجوہات کی بنا پر سب سے زیادہ ممکنہ صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ ان وجوہات میں مذاکرات کی حمایت میں یورپی یونین، اقوام متحدہ اور دیگر علاقائی طاقتوں کی جانب سے بیانات، امریکہ طالبان موجودہ معاہدہ اور طالبان کی علاقائی سطح پر بڑھتی ہوئی پہچان شامل ہیں۔ طالبان نے افغان قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری رکھ کے مذاکرات کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں فریق اور ان کے اتحادی فی الوقت سیاسی تصفیے کی فوری ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ پاکستان سمیت کلیدی کردار بھی ممکنہ طور پر افغان حکومت اور طالبان کیلئے اپنی حمایت میں توازن پیدا کریں گے کیونکہ ان کی نگاہ میں مستقبل کی حکومت میں طالبان کا اہم حصہ ہوگا۔ افغان حکومت عالمی پیغام پر کان دھرتی اور طالبان کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے ذریعے ایسا کرنے کیلئے اپنی رضامندی کا اشارہ پہلے ہی دے چکی ہے۔ تاہم اس صورتحال میں ایک عنصر افغان حکومت کی حیثیت کو کم کرسکتا ہے اور وہ امریکی انخلاء کے حوالے سے پائی جانے والی بے یقینی اور پاکستان کا طالبان کی جانب ممکنہ جھکاؤ ہے۔
درمیانے راستے پر آنے کیلئے دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے حوالے سے اپنے اپنے موقف اور افغانستان میں طاقت کے توازن میں تبدیلی لانا ہوگی۔ بعض حساس موضوعات طویل مذاکرات کے متقاضی ہیں۔ طالبان جنگجوئوں کی سیکیورٹی فورسز اور شہری زندگی میں شمولیت، نیز عبوری انصاف، آئین میں بہتری اور تعمیر نو وہ امور ہیں جن کا تعلق شہریوں کو طویل عرصے تک پہنچنے والے گہرے صدموں کو دور کرنے سے ہے اور جن پر معاہدے تک پہنچنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اس کیلئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ دونوں فریق اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے معاہدہ تیار کریں اور ریاستی اداروں کی تشکیل نو کریں تاکہ دونوں فریقوں کو کسی حد تک مطمئن کیا جاسکے۔
نتیجہ: فوری طور پر معدوم امکانات
مندرجہ بالا آزمائشوں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ افغان امن عمل سست روی کا شکار اور غیر ہموار ہوگا۔ اگر مذاکرات شروع ہوگئے جو کہ بذات خود ایک کامیابی ہوگی، تو بھی ایسے میں واضح تقسیم کا شکار، نسلی شناختوں سے نمٹنا، ریاست اور اس کے اداروں کی تعمیر نو، عبوری انصاف، جنگجوئوں کی شمولیت نو نیز دیگر دہشت گرد گروہوں سے لاحق خطرات کی حقیقت وہ اختلافی پہلو ہوں گے جو مذاکراتی عمل کو خاتمے کی جانب لے جاسکتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تمام فریقوں کو اس قیمت کا تعین کرنا ہوگا جو وہ ممکنہ امن معاہدے کیلئے ادا کرنے کو تیار ہیں نیز یہ بھی کہ آیا یہ دیرپا امن کو جنم دے سکے گی۔ اس قسم کا سمجھوتا دونوں فریقوں کی جانب سے دیانت داری و باریک بینی، ذہانت اور اخلاقی جرات کا متقاضی ہے۔ ملک میں برسوں سے جاری تشدد کی لہر اور سیاسی عدم توازن کے نتیجے میں اموات کی دردناک تعداد ایسی اخلاقی جرات کے مظاہرے کا مطالبہ کرتی ہے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Dr. Abdullah Abdullah via Twitter
Image 2: Wakil Kohsar/AFP via Getty Images