یوکرین کی جنگ نے روسی آمریت سے جڑے خطرات اور قوم پرست نظریات کی یکجائی سے لاحق عدم استحکام کے امکانات کو نمایاں کیا ہے۔ ولادیمیر پوٹن کا روس داخلی سطح پر حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے، روس کو مغرب کے خلاف بنیاد پرست بناتا ہے، اور جنگ کے لیے تاریخی بیانیوں اور اپنے بہترین شہریوں کو تباہ کرتا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں نے یوکرین پر حملے کے لیے روسی آمریت کو درست طور پر ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور دوبارہ یورپ کی جانب امریکی توجہ مبذول کروائی ہے۔ لیکن امریکہ نے اپنی روس مخالف حکمت عملی کو عسکری بنیادوں پر قائم عظیم طاقتوں کے مقابلے کے بنیادی ڈھانچے میں بڑی آسانی کے ساتھ ضم کرلیا ہے، عظیم طاقتوں کا مقابلہ عالمی سطح پر چینی عروج کو دیکھنے کے لیے امریکی عینک ہے۔
فروری سے روس اور چین کے بارے میں امریکی بیانات ملتا جلتا پیغام دے رہے ہیں (یعنی کہ) امریکہ تائیوان کو چینی حملے سے بچانے اور کمزور روسی ریاست کے دفاع کے لیے دونوں ریاستوں کا عسکری مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ روس اور چین کے خلاف عظیم طاقتوں کے مقابلے پر مبنی سوچ اپنانے کا عمل اس تباہ کن اور عالمی سطح پر پھیلتے ہوئے نظریاتی خطرے سے غافل کرتا ہے جو دونوں ریاستوں کی جانب سے عالمی استحکام کو لاحق ہے۔
اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی چین مخالف حکمت عملی کے نام پر جمہوری طور پر کمزور ریاستوں کو گلے لگا چکا ہے اور ان کے آمرانہ اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات کو بین الریاستی طور پر لاحق سلامتی خطرے کے طور پر دیکھنے سے انکاری ہے۔ امریکہ کو اپنی روس مخالف حکمت عملی ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ اپنی خارجہ پالیسی میں روس اور چین کے رہنماؤں کو آمرانہ قوم پرستی کے عالمی عروج میں حصہ دار کے طور پردیکھنا چاہیئے نا کہ انہیں محض عالمی طاقت کی جدوجہد میں ایک عام دشمن سمجھا جائے۔ اس حکمت عملی کے حصے کے طور پر امریکہ کو اپنے اتحادیوں اور شراکت دار ریاستوں میں موجود آمرانہ خطرات اور نسلی بنیادوں پر قوم پرستی کے خطرات سے نمٹنے کا عہد کرنا چاہیئے۔
آمرانہ ریاستیں اس انفرادی وجہ کے سبب باعث تشویش ہیں کہ یہ عدم استحکام لانے والی، نظریاتی بنیادوں پر لڑی گئی ایسی جنگوں کو جنم دے سکتی ہیں جسے داخلی سطح پر محدود قیود کا سامنا ہو ۔ ادارہ جاتی حدود قیود سے بالاتر ریاستی اقدامات اشرافیہ، حکمران جماعتوں اور قوم پرست نظریات کے طابع ہوتے ہیں۔ امریکی اتحادی ریاستیں جمہوری زوال کے سفر میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عمل درآمد کے دوران روس جیسے مضبوط اشرافیہ کے طے کردہ نمونوں کی پیروی کر سکتی ہیں۔
یوکرین جنگ کے دوران روسی فیصلہ سازی جمہوری عمل کو انتہائی سطح تک کمزور بنانے کے نتائج کو عیاں کرتی ہے۔ دہائیوں سے جاری جمہوری زوال اور دائیں بازو کی مضبوط قوم پرستی نے روسی اداروں کے اندر جانچ پرکھ کے نظام کو آخر کارمٹا ڈالا اور طاقت کو پوٹن کے ہاتھوں میں مجتمع کر دیا۔ پوٹن تک اصل انٹیلی جنس کی معمولی مقدار ہی پہنچ سکی جبکہ انہیں یوکرین میں کامیابی کے امکانات کے حوالے سے غلط معلومات دی گئیں نیز اندرونی سطح پر ایسی ہر مخالفت کا قلعہ قمع کر دیا گیا جو حملے کی حوصلہ شکنی کر سکتی تھی۔ اسی طرح اب جبکہ جنگ ابتدائی دو ماہ کے دوران ہی ۱۵،۰۰۰ روسی جانوں کی قیمت کے عوض تعطل تک پہنچ چکی ہے، تب بھی کلی طور پر ریاستی قبضے میں موجود داخلی ذرائع ابلاغ اور معلومات کے بہاؤ نے کسی بھی جنگ مخالف تحریک کو پوٹن کے اقدامات پر اثرانداز ہونے سے روک رکھا ہے۔
امریکی اتحادیوں اور شراکت دار ممالک میں جمہوریت کی شکست و ریخت بھی ملتے جلتے سفر پر گامزن ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ ان ریاستوں کے مشتعل کرنے والی خارجہ پالیسی اپنا لینے اور ان کا بطور قابل بھروسہ شراکت دار باقی نہ رہنے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ امریکہ کے بھارت سے تعلقات جسے چین کے مقابلے کے لیے “اقدار پر مبنی” شراکت داری کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، دونوں طرح کے ان اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ ہیں، ان کی قیادت میں بھارت کو تباہ کن جمہوری زوال کا تجربہ ہوا ہے۔ امریکہ جہاں اپنی انڈو پیسیفک حکمت عملی میں بھارتی شرکت کا خواہاں ہے وہیں اس نے بھارت کی جانب سے آزادی صحافت پر حملوں، اقلیتوں کو نشانہ بنانے، ریاستی سرپرستی میں تشدد کے ریکارڈ اوراشتعال انگیز خارجہ پالیسیوں کو بڑی حد تک نظرانداز کیا ہے۔
جمہوری زوال، جس میں مذہبی قوم پرستی پیوست ہے، بھارت کے توسیع پسندانہ اور غاصبانہ پالیسیاں اپنانے کا سبب بنا ہے۔ ۲۰۱۹ میں بھارت کے قوم پرست پروپیگنڈے نے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی کے لیے جواز فراہم کیا اور ۲۰۲۰ میں چین کے ہمراہ لداخ کی سرحدوں پر جھڑپوں میں تناؤ کو بھڑکایا۔ حتیٰ کہ چوٹی کے قوم پرست ہندو رہنماوں نے ”اکھنڈ بھارت“ تک کا نعرہ لگا ڈالا جو افغانستان سے میانمار تک پر مشتمل ہے؛ یہ وہ خطرناک نظریہ ہے جو علاقائی عدم استحکام کا باعث ہو سکتا تھا۔ امریکی پالیسی ساز اگرچہ بھارت کو انڈوپیسیفک میں توازن کار کے کردار میں دیکھتے ہیں تاہم داخلی سطح پر نئی دہلی کے نظریاتی عزائم اسے تباہ کن اثرات کے حامل علاقائی تنازعوں، سرحدی لڑائیوں اور اندرونی ابتری میں دھنساتے ہیں۔
دفاعی تعاون میں اضافے کے باوجود بھارت کو ابھی خود کو امریکہ کے قابل بھروسہ شراکت دار کے طور پر ثابت کرنا باقی ہے۔ بھارت روس کے ہمراہ ایک گہرا اور طویل عرصے سے جاری دفاعی تعلق رکھتا ہے اور یہ اپنی داخلی سیاست کو بڑی حد تک چینی سانچے میں ڈھال رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں بھارت نے یوکرین پر حملے کی مذمت سے انکار کیا ہے جبکہ حکمران جماعت کے حامی ذرائع ابلاغ میں امریکہ مخالف بیانیے پر مبنی معلومات کی بھرمار دیکھنے کو ملی ہے جبکہ اس نے بھارت کے روس سے تعلقات پر تنقید پر ناک بھوں چڑھائی ہے۔
اگر امریکہ بھارت کے آمریت کی جانب سرکاؤ کو نظرانداز کرتا ہے تو ایسے میں وہ دنیا بھر میں چین اور روس کی گونج کو نشانہ بنانے میں ناکام ہو جائے گا۔ جمہوری شکست و ریخت کے مقابلے کے لیے عزم کے بغیر لبرل ازم کے غلاف میں لپٹی ”آزاد اور قابل رسائی انڈو پیسیفک“ حکمت عملی محض عسکری بنیادوں پر قائم عظیم طاقتوں کے مقابلے کو سہارا دینے کے لیے ایک سفارتی سہارا رہ جائے گی۔ بھاری ہتھیاروں کے برعکس آمرانہ نظریات غیر محسوس طور پر سرحدوں کے پار اور قوم پرست حدود میں سرایت کر جاتے ہیں۔ روس اور چین دنیا بھر میں آمرانہ تحریکوں کے لیے مثال ہیں۔
آمرانہ قوم پرست نظریات کے پھیلاؤ اور اس کی کشش سے نمٹنے کے لیے اتحادی ریاستوں کے اندر موجود خطرات کی نشاندہی اور دفاعی شراکت داری کو توانا جمہوریت کے اعلیٰ معیار سے نتھی کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس ضمن میں امریکہ بھارت تعلقات اور امریکہ یورپ سلامتی بلاک جہاں شراکت داریوں کو باہمی طور پر موجود لبرل جمہوری اقدار کے طور پر پیش کیا گیا تھا، آزمائش کے لیے اہم موقع فراہم کرتے ہیں۔
امریکہ بھارت شراکت داری میں دوطرفہ بداعتمادی اور طویل عرصے سے موجود غیر یقینی کی کیفیت سے نمٹنے کے لیے امریکہ کو بھارت میں جمہوری زوال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی ساز اگرچہ تعلقات کو چین کے خلاف ایک لبرل جمہوری جواب کے طور پر سراہتے ہیں لیکن جب تک بھارت میں جمہوریت شکست و ریخت کا شکار رہے گی، شراکت داری کو کاٹسا پابندیوں کا مسئلہ حل کرنے، ڈیفنس ٹیکنالوجی اور ٹریڈ انیشی ایٹو سے ہٹ کے ٹیکنالوجی کے بامعنی تبادلے اور یوکرین بحران پر ایک مشترکہ پیغام کی تیاری میں مشکلات درپیش رہیں گی۔
بھارت کو روسی میزائل سسٹمز کی خریداری کے سبب درپیش کاٹسا پابندیوں سے آزاد کرنے اور امریکی دفاعی ٹیکنالوجی کے حصول یا مشترکہ پیداوار کے لیے امریکہ کو چاہیئے کہ جمہوری اقدار کا ایک پیمانہ طے کرے جس پر پورا اترنا بھارت کے لیے لازم ہو۔ جمہوریت کا حامی ایک ادارہ فریڈم ہاؤس جس نے مارچ ۲۰۲۱ میں بھارت کی ”آزاد“ سے ”جزوی آزاد“ کے درجے پر تنزلی کی تھی، بھارت میں شہری آزادی کے زوال، مذہبی اقلیتوں پر حملے اور انتخابی سالمیت کو لاحق خطرات کو ناپنے کے لیے ایک ماڈل فراہم کرتا ہے۔ اس امر کا امکان کم دکھائی دیتا ہے کہ بھارت امریکی ایماء پر اکثریتی سیاست کی اپنی روش ترک کرے گا؛ وہ کسی بھی فرض شدہ غیر ملکی مداخلت کے معاملے میں غیرمعمولی طور پر حساس ہے۔ لیکن امریکہ اپنے شہریوں، کمپنیوں اور اشاعتی اداروں کے بلا کسی خوف و خطر بھارت پر آزادانہ تحقیق کے حق کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ابتدا میں امریکہ کو سفارتی ملاقاتوں میں مذہبی قوم پرستی کیخلاف آواز اٹھانی چاہیئے اور حکومت اور عوام میں روس کی جانب جھکاؤ کی نگرانی کرنی چاہیئے۔ اقدار اور امیدوں کی ٹھوس بنیادوں پر ترتیب نو بھارت کو زیادہ متوازن علاقائی کردار کا حامل اور امریکی حکمت عملی میں ایک مضبوط شراکت دار بنائے گی۔
امریکی تزویراتی مفکرین کو یورپ اور امریکہ میں موجود قوم پرست، آمریت کے لیے رغبت رکھنے والی جماعتوں کی بین الملکی کشش کا بھی معائنہ کرنا ہوگا۔ ہنگری کی یورپی یونین و نیٹو ممبرشپ اور روس سے قربت کے پیش نظر وہاں تیزی سے زوال پذیر جمہوریت توجہ کی متقاضی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست وکٹر اوربان کی قیادت میں ہنگری نے روس پر پابندیوں کی حمایت کے معاملے پر دیگر یورپی ممبران سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے پوٹن کے موقف کو دوہرایا کہ ایڈری ایٹک کوسٹ کے بعض حصے ”ہنگری سے لیے گئے تھے۔“ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک جہاں ادارہ جاتی سطح پر کڑی جانچ پڑتال کا نظام موجود ہے، وہاں بھی دائیں بازو کی مقبول جماعتوں نے پوٹن کی قیادت کو سراہا اور روسی حمایت میں موقف کی تائید کی۔ انتہا پسند اور مقامی دہشت گرد گروہ ممنوعہ سوشل میڈیا ویب سائٹس تک رسائی کے لیے چینی اور روسی انٹرنیٹ سرورز کے استعمال کے ذریعے مزید ایک ہاتھ آگے نکل گئے۔
امریکہ کو اپنے یورپی اتحادیوں کے ہمراہ تعاون کرنا چاہیئے تاکہ ایسے نظریات کو بطور قومی سلامتی خطرے کے نشانہ بنایا جا سکے۔ اس کے لیے امریکی دفاعی و قومی سلامتی کے ادارے وہی لائحہ عمل استعمال کر سکتے ہیں جو وہ داخلی سطح پر چین کی مجرمانہ سائبر نقل و حرکت کی نگرانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ان نسل پرست سماجی میڈیا پلیٹ فارمز کے کردار پر تحقیق کرنا شامل ہے جو وہ چینی اور روسی سائبر مداخلتوں میں ادا کرتے ہیں۔ یورپی یونین غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے مضبوط تر نظام رکھتا ہے اور باہمی سطح پر زیادہ موثر طور پر کارکردگی دکھانے کیلئے اپنے ریپڈ الرٹ سسٹمز میں نیٹو کو شامل کرنے جا رہا ہے۔ امریکہ، غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے پہلے سے موجود اپنے نظام میں اپنی ڈیٹرنس حکمت عملی کو شامل کرنے کے ذریعے داخلی اور اپنے شراکت دار ممالک میں غیر جمہوری طاقتوں کو براہ راست نشانہ بنا سکے گا۔
اگر امریکہ کی بھارت، نیٹو اور یورپی یونین کے ہمراہ شراکت داریاں مشترکہ اقدار کی بنیاد پر ہیں تو فریقین کو انہیں اپنی اور اقدار کی خاطر نیز دور رس اتحاد کی خاطر ان پر قائم رہنا چاہیئے۔ وہ شراکت داریاں وقت پڑنے پر زیادہ مضبوط ثابت ہوتی ہیں جو مجموعی دفاعی صلاحیتوں کی کلی بنیاد کے بجائے جمہوریت کی مستحکم بنیادوں پر استوار کی گئی ہوں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: The White House via Flickr
Image 2: Alex Wong via Getty Images