800px-Agni

 مارچ ۱۱، ۲۰۲۴ کو  بھارت کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگیٹایبل ری-انٹری وہیکل (ایم آئی آر وی) ٹیکنالوجی سے لیس زمین سے مار کرنے والے جوہری میزائل کے کامیاب تجربے کا اعلان کیا۔ مشن دیویاسترا نامی میزائل کا تجربہ بھارتی ریاست اوڈیشہ کے جزیرے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے کیا گیا، جس نے بھارت کو ایم آئی آر وی صلاحیت رکھنے والے مخصوص ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ اس خصوصی کلب میں امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے اپنا پہلا ایم آئی آر وی تجربہ جنوری ۲۰۱۷ میں کیا تھا جس میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ابابیل کا استعمال کیا گیا تھا۔


سرکاری طور پر اگنی-۵ کی رینج ۳،۱۰۶ میل ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں نے ۲۰۱۲ میں پہلے تجربے کے وقت بھی یہ اندازہ لگایا تھا کہ یہ ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) ہے جس کی رینج ۴،۷۹۰ میل تک ہے۔ یہ رینج نہ صرف پورے چینی خطّے ، بشمول اس کے مشرقی ساحل ، بلکہ یورپ اور افریقہ کے  بھی کچھ علاقوں کا احاطہ کرے گی۔ کچھ تجزیہ کاروں کے خیال کے مطابق سالوں سے ڈی آر ڈی او کی اگنی-۵ کے بھاری سب-سسٹمز کو کم وزن کمپوزٹ میٹیریل سے بدل کر وزن کم کرنے پر مرکوز خصوصی توجہ سے ظاہر ہوتا ہے  کہ یہ میزائل ۴،۹۷۰ میل کی رینج سے بھی آگے تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگنی ۶، جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے، کی رینج ۶،۲۱۳ میل تک ہونے کا امکان ہے، جس سے اس کی پہنچ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے کچھ علاقوں تک  ہو جائے گی۔


بھارت کے لیے اہمیت


 گو کہ تازہ ترین تجربہ اگنی-۵ کا دسواں تجربہ ہے، لیکن ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کے ساتھ پہلا ہے۔ ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ہی میزائل خود مختار (انڈیپنڈنٹ)گائیڈنس سسٹمز اور نیویگیشن کنٹرولز کے ساتھ متعدد وار ہیڈز لے جا سکتا ہے جو مختلف رفتار  کے ساتھ سینکڑوں میل کے فاصلے پر جداگانہ ا ہداف کو نشانہ  بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارتی ذرائع کے مطابق اگنی -۵ ایم آئی آر وی میں مقامی ایویونکس سسٹم ہے اور اس میں ہائی پریسیشن سینسر پیکجز شامل ہیں تاکہ درست ہدف کو یقینی طور پرنشانہ  بنایا جا سکے۔ تجربے کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان میں وار ہیڈز کی تعداد واضح نہیں کی گئی لیکن عمومی اندازہ ہے کہ یہ چار سے چھ وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ کچھ اندازوں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ وار ہیڈز کی تعداد  ۱۰ سے ۱۲ تک ہے۔


بھارت کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگیٹایبل ری-انٹری وہیکل (ایم آئی آر وی) ٹیکنالوجی سے لیس زمین سے مار کرنے والے جوہری میزائل کے کامیاب تجربے کا اعلان کیا
ایم آئی آر وی کی صلاحیت رکھنے والے اگنی -۵ کی آزمائش گو کہ  بھارت کے لئے ایک اہم سنگ میل ہے لیکن یہ بذاتِ خود کوئی  تکنیکی معجزہ نہیں ہے، کیونکہ یہ ٹیکنالوجی ۱۹۶۰ کی دہائی کے آخر سے موجود ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ  وہ پہلا ملک تھا جس نے ۱۹۷۰ میں ایم آئی آر وی (کی حامل) آئی سی بی ایم  کی تنصیب کی، اس کے بعد سوویت یونین نے پیروی کی۔ مبصرین نے یہاں تک قیاس آرائی کی ہےکہ دسمبر ۲۰۲۱ میں لانچ کیے گئے بھارت کامبینہ طور پر پاکستان کے لیے مخصوص  درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا اگنی- پی میزائل ،ایم آئی آر وی کی صلاحیت کو جانچنے کے لئے دو ری انٹری وہیکل لے کر گیا تھا۔  غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اکتوبر ۲۰۲۱ میں اگنی -۵ یوزر ٹرائل بھی ایم آئی آر وی سے لیس تھا۔ تاہم  تازہ ترین اگنی-۵ ٹیسٹ میں کوئی ڈیکوائے وار ہیڈ نہیں تھا؛ اس نے محض ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا۔


تازہ ترین ٹیسٹ سے متعلقہ خبروں کو پیش کرنے کا وقت اور  تاثر دینے کا عمل (پروجیکشن) واقعی قابل توجہ ہیں۔ ۲۰۱۹ کے انتخابات سے قبل کیے گئے اینٹی سیٹلائٹ (اے ایس اے ٹی) ٹیسٹ کی طرح، ملکی اور بین الاقوامی مبصرین نے آنے والے انتخابات سے قبل اسی سطح کے تکنیکی مظاہرے کی توقع کی تھی۔اگرچہ بی جے پی کی زیر قیادت حکومت اسے ایک اہم پیش رفت کے طور پر سراہ رہی ہے ، لیکن یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے متعدد اضافی تجربات کی ضرورت ہوگی۔ یہ امر کہ ایم آئی آر وی کی صلاحیتوں کے لئے موزوں وار ہیڈز کی کامیاب تصغیر  میں امریکہ اور سوویت یونین کو کئی سال لگے، خصوصی طور پر قابل توجہ ہے۔

علاقائی مسائل


یہ تازہ ترین تجربہ مبینہ طور پر چین کے لیے جوابی عمل ہے کیونکہ بھارت کے موجودہ میزائل رینج پہلے ہی پاکستان کے پورے خطّے کا احاطہ کر چکے ہیں۔ لیکن اعلانیہ ارادے سے قطع نظر، اس تجربے سے  پاکستان کی اسٹریٹیجک سوچ پرنمایاں اثر ہونے کا امکان غالب ہے۔   نئی دہلی کی جانب سے میزائل نوٹیفکیشن معاہدے سے روگردانی کرنے پر  پاکستان کا پہلا رد عمل
تشویش کا اظہار کرنا تھا کیونکہ  ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق معاہدے کی حقیقی روح کی پاسداری نہیں کی گئی۔ بیان کے مطابق، ’’بھارت کی جانب سے پیشگی نوٹیفکیشن شیئر کیا گیا تھا تاہم اس نے پری نوٹیفیکیشن آف فلائٹ ٹیسٹنگ آف  بیلسٹک میزائلز ایگریمنٹ  کے آرٹیکل ۲ میں طے شدہ ۳ دن کی ٹائم لائن پر عمل نہیں کیا۔


ایم آئی آر وی کا استعمال اپنی نوعیت میں ایک جارحانہ حکمت عملی ہے اور سرد جنگ کے دوران اسے زیادہ تر  پہلے حملے کے ہتھیار (فرسٹ سٹرائیک ویپن)  کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے یہ دعویٰ غلط ہے کہ اس سے  مزاحمت (ڈیٹرنس) میں اضافہ ہوگا، بالخصوص جبکہ اس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان سلامتی کی کشمکش میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ مزید برآں  یہ خطے میں مہنگے ہتھیاروں کی دوڑ شروع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


دوسری طرف  یہ دشمن کو ایک  ہدف کو ایک  ہی نشانے میں  متعدد وار ہیڈز کو باآسانی بے اثر کرنے کے قابل بنا کر ایک گھاٹے کی صورت حال پیش کرتا ہے، جس سے  مزاحمت (ڈیٹرنس)  میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مزید برآں اگرچہ ایم آئی آر وی کا استعمال ممکنہ طور پر بیلسٹک میزائل ڈیفنس (بی ایم ڈی) سسٹم کے خلاف موثر جوابی کارروائی کے طور پر ہوسکتا ہے، تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے پاس بی ایم ڈی نہیں ہے، اور چین کی بی ایم ڈی صلاحیت بھارت چین ڈیٹرنس معاملات میں ایک اہم عنصر نہیں ہے کیونکہ اس کا مستعمل بنیادی طور پر امریکی میزائل خطرے کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ہانس کرسٹیان نے کہا، “جب تک چین درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کے خلاف ایک موثر میزائل ڈیفنس سسٹم تیار نہیں کرلیتا، بھارتی میزائلوں پر ایم آئی آر وی کے استعمال کی فوجی ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘‘۔ اسی طرح اگنی -۵ کو بنیادی طور پر چین کے پورے خطّے کا احاطہ کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اسے ایم آئی آر وی سے لیس کرنے سے اس کا وزن بڑھے گا ، جس سے اس کی رینج کم ہوجائے گی ، جس سے چین کے خلاف اس کا بنیادی مزاحمتی کردار کمزور تر ہوجائے گا۔


اگنی -۵ میں ایم آئی آر وی کا استعمال بھارت کے جوہری نظریے کے تقدس کو مزید پامال کرتاہے۔ نئی دہلی کی سرکاری جوہری پالیسی کا محور  قابل اعتماد کم ترین  مزاحمت ( ڈیٹرنس) اور
ترکی بہ ترکی جوابی کارروائی کے اصول ہیں۔ تاہم ایم آئی آر وی کے ضمن میں اس کی حالیہ پیش قدمی کم ترین مزاحمت  اور اس کے  مدافعاتی  تصور کے منافی ہے۔ اورکچھ ہو نہ ہو،  یہ تجربہ بھارت کے ارتقا پذیر جوہری نقطۂ نظر  سے پہلو بدل کر پاکستان کے خلاف کاؤنٹر فورس ٹارگٹنگ کی طرف جانے  کی ایک اور تصدیق ہے۔ ۲۰۱۹ میں کرسٹوفر کلیری اور وپن نارنگ نے نوٹ کیا تھا کہ ’’اگر بھارت چین کے لیے مختص کیے گئے ایم آئی آر وی  (سے لیس)میزائل پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے (میزائل ٹریجیکٹری کو بلند تر یا پست ترکر کے)، تو جو وہ  اوّل الذکر کے خلاف اپنی بقا کے لیے استعمال کرے گا، وہی  مؤخر الذکر کے خلاف ممکنہ فرسٹ اسٹرائیک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے‘‘۔


اس پیش رفت سے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں مزید تیزی آئے گی اور جنوبی ایشیا میں ایک خطرناک وار ہیڈ ریس کو ترغیب ملے گی۔ مستقبل میں ممکنہ طور پر  پاکستان کا ردعمل اپنے جوہری آپشنز کو مزید)متنوع بنانا اور اپنی ایم آئی آر وی صلاحیت کو کامل ترکرنا ہوگا۔ یہ پیش رفت نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان پہلے سے ہی دِگر گوں علاقائی استحکام کو مزید نقصان پہنچائے گی جس سے   فرسٹ سٹرائیک  عدم توازن پیدا ہوگا جہاں ہر فریق کو حملہ کرنے میں پہل کی ترغیب ملے گی۔ استحکام کے لئے اسی خطرے کے باعث  امریکہ ۲۰۱۰ میں اپنے دسویں جوہری پوزیشن کے جائزے میں اپنے آئی سی بی ایمز  میں ایم آئی آر وی کے استعمال کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوا۔ جنوبی ایشیا میں خدشات میں کمی کے قابل اعتماد اقدامات اور بحرانات کو کم کرنے کے میکانزم کی عدم موجودگی میں، ہر بحران، خواہ ارادی ہو یا  غیر ارادی ، جوہری حد تک بڑھ جانے کا خطرہ ہے۔ ایم آئی آر وی کے استعمال سے یہ خطرہ کچھ درجے مزید بڑھ جاتا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Agni Missile via Wikimedia Commons

Image 2: Agni-III via Flickr.

Share this:  

Related articles