۶ ستمبر ۲۰۲۱ کو پاکستان کے سینیر صحافی اور ڈان پشاور کے موجودہ ایڈیٹر اسماعیل خان نے ایس اے وی کی مینجنگ ایڈیٹر برگیٹا شوکرٹ سے افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر حالیہ قبضے کے بعد وہاں پاکستان کے کردار، خطے میں عسکریت اور ٹی ٹی پی کی واپسی سے متعلقہ امور پر گفتگو کی۔
افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی پاکستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟
یہ سوال تاحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ طالبان آئندہ کیا کریں گے۔ کسی حد تک یہ امید تھی کہ طالبان نئی حکومت کی تشکیل میں ہمہ گیری اور نمائندگی کے حوالے سے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی برادری کے خدشات کو مدنظر رکھیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کے لیے ہمہ گیری کیا معنی رکھتی ہے؟ کیا وہ ماضی کی سیاسی اشرافیہ میں سے بعض جیسا کہ عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی یا دیگر سیاسی حریف جیسا کہ شمالی اتحاد، پنج شیر، ہزارہ اور ازبک افراد اور سابق جنگجو گروہ جو کہ طالبان کے عروج سے قبل بیش بہا طاقت استعمال کرتے تھے، ان کو شامل کریں گے؟ افغانستان میں موجود مختلف قوموں اور برادریوں کی نمائندگی کا سوال بھی ہے کیونکہ وہ ملک میں طالبان کے نظام حکومت اور استحکام کے لیے طریقہ کار کو طے کرے گا۔
اس کے علاوہ ایک اور سوال یہ ہے کہ طالبان گزشتہ نظام حکومت کی جگہ لینے کے لیے کون سا نظام لانا چاہیں گے؟ وہ آئین کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ میرے خیال میں وہ اسے منسوخ کردیں گے اور ایک نیا آئین تشکیل دیں گے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جو کہا ہے، اگر آپ اس کو سمجھیں تو میرے خیال میں یہ سوال ابھی تک باقی ہے۔ مجاہد نے جو اشارہ دیا ہے وہ یہ کہ سربراہوں کی نئی کونسل ہوسکتی ہے جو کہ نظام اور طرز حکومت کا فیصلہ کرے گی۔ طالبان کے فیصلے اور ان سوالوں سے نمٹنے کے لیے ان کا طرز عمل یہ طے کرے گا کہ افغانستان کون سی کروٹ لے گا۔ یہ کروٹ بلاشبہ پاکستان کے لیے کچھ معنی رکھے گی۔ ماضی کے چالیس برسوں میں ہمارے قبائلی علاقوں نے بہت زیادہ افراتفری، خون بہا، تشدد، دہشتگردی، عسکری کاروائیاں اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی دیکھی ہے لہذا ہمارے لیے اس کے مضمرات ہوں گے۔
پاکستان کے لیے یہ کسی حد تک باعث اطمینان ہے کہ کابل سے بھارت کا نمایاں اثرورسوخ کم ازکم فی الحال کے لیے، ختم ہوگیا ہے۔ ہماری مشکلات لیکن ختم نہیں ہوئی ہیں۔ تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) اب بھی وہی ہیں، اور وہ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے جارحیت اختیار کرچکی ہے۔ یہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ طالبان وعدہ کرتے رہے ہیں کہ کسی دوسرے ملک پر حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن ہمارے معاملے میں یہ پہلے سے ہی ہو رہا ہے۔ ٹی ٹی پی خود کو عیاں کرچکی ہے اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملوں میں خود کو ملوث ظاہرکرچکی ہے۔
تشویش کی دوسری وجہ افغان پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی تھی اور یہ کہ ہماری سرحدوں پر ہزاروں پناہ گزین موجود ہوں گے۔ ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کو سرحدوں پر آتے نہیں دیکھا، اور کم از کم فی الحال کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئندہ کیا ہوگا۔ کیا طالبان کی حکومت ہمہ گیر ہوگی، کیا یہ سب کی ترجمان ہوگی اور افغانستان کے پڑوسیوں کے لیے قابل قبول ہوگی، اور اسی دائرہ کار کو وسیع کرلیں تو کیا عالمی برادری کے لیے قابل قبول ہوگی۔ پھر دوسرا حصہ سلامتی کا پہلو ہے۔ غیرملکی گروہوں کی موجودگی اور ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے۔
طالبان کی جانب سے اس حالیہ اعلان کے بعد کہ ہم نے افغانستان پر قبضہ مکمل کرلیا ہے، کیا آپ امید کرتے ہیں کہ وہ اس قبضے کو برقرار رکھ سکیں گے؟ یا پھر ایک نئے تنازعے کا خطرہ موجود ہے؟
میرے خیال میں یہ بعید از قیاس ہے۔ پورے خطے پر قبضہ کرنا ایک بات ہے لیکن ۷۰،۰۰۰ جنگجوؤ ں کے ذریعے پورے ملک کا اختیار سنبھالے رکھنا بدستور ایک آزمائش رہے گا۔ اگر حکومت کو مسائل درپیش آتے ہیں، اگر آپ میں مخالفت کرنے والی آوازیں موجود ہیں یا پھرکسی قوم یا دیگر گروہ جیسا کہ انفرادی قبائلی گروہ کے ساتھ تنازعات ہیں تو پھر یہ طالبان کے لیے مسئلہ ہوگا۔ میرے خیال میں یہ بڑی حد تک اس پر منحصر ہے کہ وہ کیسی حکومت تشکیل دیتے ہیں، اور وہ کس قسم کا نظام متعارف کرواتے ہیں، وہ طے کرے گا کہ آئندہ کیا ہوگا۔
اب جبکہ طالبان اقتدار میں واپس آچکے ہیں، آپ کیا دیکھتے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے ان کی کیا سوچ ہوگی؟
میرے خیال میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ پاکستان کے طالبان کے ہمراہ ہمیشہ سے ”کوئڈ پرو کو“ نوعیت کے تعلقات رہے ہیں یعنی کہ آپ میری مدد کریں، میں آپ کی مدد کروں گا۔ وہ جانتے تھے کہ ہمارے کیا مفادات ہیں اور ہم جانتے تھے کہ ان کے کیا مفادات ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے مفادات سے بڑھ کے پاکستان کے مفادات کی خاطراقدامات کریں گے۔ وہ ویسا کریں گے جو ان کے خیال میں ان کے لیے بہترین ہوگا۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر افغان طالبان ہمارے قابو میں ہوتے تو جو پہلا کام طالبان نے کیا ہوتا یا انہیں بہت عرصہ پہلے کرگزرنا چاہیے تھا وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے اڈوں کا خاتمہ تھا کیونکہ انہیں ہمیشہ سے حمایت حاصل رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان اور ان کے امیر ہیبت اللہ اخون زادہ سے وفاداری کا وعدہ کرتی ہے۔ اور دوئم یہ کہ وہ تعاون کرتے رہے ہیں، وہ افغان طالبان کے ہمراہ لڑتے رہے ہیں، جب وہ ہمارے قبائلی علاقے سے کارروائیاں کر رہے تھے تو انہوں نے افغان طالبان کو پناہ دی۔ اور پھر ان کی افغان طالبان کے ہمراہ قومی بنیادوں پر اور قبائلی وابستگیاں بھی ہیں۔
اس نئی صورتحال میں طالبان کے رویے کو ڈھالنے کی کوشش کے لیے پاکستان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں؟
فی الوقت پاکستان فقط جو کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں سے رابطے کرے، جیسا کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز کیا یعنی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو فون، خلیجی ریاستوں کے سربراہوں سے بات چیت، بین الاقوامی برادری سے افغانستان کی صورتحال اور آنے والے انسانی بحران پر نگاہ رکھنے کی درخواست وغیرہ۔ طالبان دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کے پاس رقم نہیں ہے۔ پاکستان طالبان کی جانب سے بین الاقوامی برداری سے بات چیت کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم ایک طرح سے رابطہ پل کا کام کررہے ہیں اور ہم بین الاقوامی برداری کے خدشات طالبان تک پہنچا سکتے ہیں۔ شائد ہم اس لیے زیادہ کررہے ہیں کہ کیونکہ ہم اپنے خدشات ذہن میں رکھے ہوئے ہیں کہ اگر افغانستان میں صورتحال بگڑتی ہے، اگر انسانی بحران پیدا ہوتا ہے جوکہ ممکن دکھائی دے رہا ہے، تو پھر ہماری سرحدوں پر ہمارے لیے بڑی پریشانی پیدا ہوجائے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم وہی کررہے ہیں جو ہم ہمیشہ کرتے آئے ہیں: طالبان سے بات چیت اور انہیں قائل کرنے کی کوشش۔ اگر وہ قائل ہوجاتے ہیں تو وہ حامی بھرلیتے ہیں۔ اگر وہ نہیں ہوتے ہیں تو ایک طرح سے وہ ہمیں نظرانداز کردیتے ہیں۔ میرے خیال میں اثرورسوخ محدود ہے۔ لیکن فی الوقت وہ واحد ملک جو کسی حد تک طالبان کے لیے کھڑا ہے اور درحقیقت انہیں تسلیم کرنے کے قریب ہے، وہ پاکستان ہے۔ اس لیے طالبان توجہ سے سنیں گے لیکن وہ صرف اس حد تک سنیں گے جہاں تک ان کے حق میں بہترین ہو۔
خطے میں موجود عسکریت پسند، طالبان کی اقتدار میں واپسی پر کیسے ردعمل دے سکتے ہیں؟ یہ صورتحال سرحد کے ساتھ ساتھ خاص کر خیبرپختونخواہ میں زندگی اور سلامتی پر کیسے اثرانداز ہوگی؟
ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جشن منایا جا رہا ہے۔ القاعدہ اور داعش کے درمیان اختلافات ہیں کیونکہ داعش افغان طالبان کی مخالف ہے اور طالبان کو نظریات سے باغی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لیکن القاعدہ اور دیگر عسکری تنظیموں کو طالبان کی فتح سے فائدہ ہوا ہے۔ طالبان نے امریکیوں کی واپسی یا جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں، شکست کا جشن منایا ہے۔ ٹی ٹی پی نے نہ صرف اس کی تعریف کی ہے اور اس کی مداح سرائی کی ہے بلکہ وہ مزید ایک قدم آگے بڑھی ہے۔ یہ ایک عسکری گروہ جو کہ پاکستان میں متحرک ہے، اس کے عملی اقدامات کا اظہار ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس کا دوسرے گروہوں القاعدہ اور مشرقی ترکستان تحریک اسلامی ، جو بلاشبہ چینیوں کے لیے بڑی پریشانی ہے، تحریک اسلامی ازبکستان اور دیگر پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے ہیں کہ دوحہ معاہدے میں طالبان کس نوعیت کے لائحہ عمل پر رضامند ہوئے تھے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ اگر کوئی گروہ طالبان کے عزم اور عہد کی جانب راغب ہوتا ہے تو ایسے میں بذور قوت اور قابل بھروسہ لائحہ عمل کیا ہوگا اور طالبان کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے۔ ہم ابھی یہ جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی آگے بڑھ رہی ہے۔ افغان طالبان یہ جانتے ہیں کیونکہ پاکستانی ان سے اپنے خدشات بیان کرتے رہے ہیں۔
پاکستانی حکام، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے بارے میں افغان طالبان سے بات چیت کرتے رہے ہیں کیونکہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے بارے میں پہلے یہ خیال تھا کہ وہ قندھار اور اس کے اطراف میں رہتے ہیں جو کہ اس وقت کی افغان حکومت کے زیرنگرانی تھا۔ ٹی ٹی پی لیکن سرحدی علاقوں میں قیام جاری رکھے گی۔ پاکستانی سرحدوں سے متصل افغانستان کے قبائلی علاقوں میں ان کے متحرک اڈے ہیں اور پاکستانی افغان طالبان سے بات کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے اصرار پر طالبان نے ٹی ٹی پی سے بات چیت، انہیں لگام ڈالنے کی کوشش، اور حملے روکنے کیلئے تین سینیئر رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ افغان طالبان نے وہی موقف دوہرایا ہے جو کہ پہلے بھی تھا کہ ”ہم حالت جنگ میں ہیں، ہم پر غیرملکی قابض قوتیں مسلط ہیں، اور ہم وقت آنے پر ٹی ٹی پی سے نمٹ لیں گے۔“ اب، میرے خیال میں اگر پاکستان ان سے بات کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ”اب ہم حکومت سازی کے عمل میں ہیں، اور ہمیں دوسرے کام کرنے ہیں۔ جب ہم اپنے مسائل سے نمٹ لیں گے تب ہم پاکستانی طالبان سے بات کریں گے۔“ لہذا، ہمارے لیے داخلی سلامتی کو لاحق فوری اور یقینی خطرہ سرحد پار موجود ٹی ٹی پی سے ہے۔ اور اب ہم این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی) یا را (دی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ) کو اس کے لیے مورد الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ افغان طالبان ہیں، سوفیصد طالبان۔
گزشتہ روز ایک حملہ ہوا تھا، اور حملے بڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ گزشتہ چند ماہ یا پھر شائد گزشتہ برس سے رجحان کو دیکھیں تو ٹی ٹی پی کی جانب سے زیادہ تر حملے خیبرپختونخواہ میں ہوئے ہیں یا پھر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں ہوئے ہیں جو کہ اب خیبرپختونخواہ کا حصہ بن چکا ہے۔ لہذا ٹی ٹی پی کے حملوں کو سب سے زیادہ ہم جھیل رہے ہیں اور اس کے بعد بلوچستان۔ چونکہ ٹی ٹی پی کی قیادت زیادہ تر قبائلی علاقوں سے ہے، جو کہ اب خیبرپختونخواہ کا حصہ ہے، اس لیے ان حصوں پر ان کی زیادہ توجہ ہے۔ ہمارے لیے یہی مسئلوں میں پہلے نمبر پر ہے۔
Editor’s Note: This article is part of a series in which the SAV editorial staff speaks with scholars and practitioners to understand trends and potential inflection points in South Asian security. See the full collection here.
***
Click here to read his article in English.
Image 1: Muhammad Imran Saeed via Flickr