2035748576_c051526ca4_o-1095×616-1

 بھارت کی خارجہ پالیسی نے ۲۰۲۳ میں واسودھائیو کٹمبکم یا “دنیا ایک خاندان ہے” کے اصول کو مجسم روپ دیا۔ ایک طرف تو بھارت نے “اجلاس برائے عالم جنوب کی آواز” کے ذریعے عالم جنوب کے ممالک کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جبکہ دوسری جانب جی ۲۰ کے سربراہ کے بطور اپنے سال بھر طویل کردار کو استعمال میں لاتے ہوئے جامعیت کی وکالت کے ذریعے افریقن یونین کی رکنیت سازی یقینی بنائی۔


اسی طرح، دو طرفہ محاذوں پر بھارت نے وسطی اور یکساں عظیم قوتوں کے ہمراہ شراکت داریوں کو متنوع بنایا جیسا کہ جرمنی اور روس۔ بھارت اور فرانس نے سائبر اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں دو طرفہ تعاون میں اضافہ کیا اور یوں دونوں ریاستوں نے اپنے روابط کو بھی ٹھوس شکل دی۔


بھارت کے ۲۰۲۳ کے لیے جو معاملہ غالباً سب سے زیادہ زیرِ تبصرہ رہا، وہ بھارت کا معاونت یافتہ معاہدوں جو “سمندر سے ستاروں تک” پھیلے ہوئے تھے، ان کے ذریعے سے امریکہ کے ہمراہ اپنے تعلقات کو استحکام بخشنا تھا۔ دونوں کے درمیان اختلافات کے وقفوں کے باوجود، ۲۰۲۴ میں بھی دونوں کے  بیچ تعلقات کا فقط پھلنا پھولنا متوقع ہے، شرط بس یہ ہے کہ دونوں جانب ان تعلقات کو محض چین کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم شراکت داری کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ خود کو درپیش تمام مسائل کو کلی شکل میں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

جی ۲۰ کی کامیابی اور دو طرفہ تبادلے


ستمبر ۲۰۲۳ میں امریکی صدر جو بائیڈن نے جی ۲۰ اجلاس کے سلسلے میں بھارت کا دورہ کیا، جو کہ بھارتی قیادت کی واضح توثیق تھی۔ یہ دورہ جی ۲۰ کی ضمن میں بھارت کے قائدانہ کردار کو حاصل امریکی حمایت اور ان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی اہمیت کا ایک مظاہرہ تھا۔ روس یوکرین جنگ، بھارتی قیادت میں جی ۲۰ کو ایک مشترکہ بیان کے اجراء سے باز نہیں رکھ سکی، جو کہ امریکہ اور بھارت کی ایک مشترکہ ترجیح تھی۔ بائیڈن کے ستمبر ۲۰۲۳ کا دورہ ایف ۴۱۴ جیٹ انجن کی تیاری کے لیے مذاکرات کی منظوری اور ۳۱ عدد ایم کیو-۹ بی فاصلاتی پائلٹ کے ذریعے اڑائے جانے والے طیاروں کے لیے بھارتی درخواست سے عین قبل واقع ہوا۔


جون ۲۰۲۳ میں وزیراعظم مودی کا دورۂ امریکہ علامتی اور اسی طرح ٹھوس پن کے اعتبار سے بلند مقام رکھتا تھا، جس نے تمام محاذوں پر روابط کو علی الاعلان تقویت بخشی۔ وزیراعظم مودی کے سرکاری دورے نے امریکی کانگریس کے مشترکہ سیشن سے خطاب نیز مشترکہ دفاعی کوششوں میں شرکت پر بھارتی ناپسندیدگی کے سبب اس کے بطور دفاعی شراکت دار موزونیت کے بارے میں امریکی خدشات پر ردعمل دینے کا ایک موقع فراہم کیا۔ ۲۰۲۳ میں کواڈ کے انسداد دہشت گردی ورکنگ گروپ کے تحت بھارت امریکہ تعاون کو آگے بڑھاتے ہوئے، ۲۰۲۴ میں بھارت امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کواڈ اجلاس کے سلسلے میں میزبانی کرے گا۔

 بھارت اور امریکہ دونوں  ۲۰۲۴ میں الیکشن کی جانب بڑھ رہے ہیں، اور ایسے میں تعلقات میں مثبت رفتار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھارت امریکہ روابط، دونوں ممالک میں دوطرفہ معاونت کا لطف پا رہے ہیں کیونکہ دونوں ریاستیں چین سے وابسطہ خطرے کو ترجیح دیتی ہیں۔ مزید برآں، بھارت اور امریکہ تعاون اور “ناقابل اتفاق ہوئے بغیر عدم اتفاق” کی عادت کو اپنا رہے ہیں، ایسے میں دوطرفہ شراکت داری سیاسی قیادت میں تبدیلیوں کو جھیل سکے گی اور معمولی سفارتی اختلافات کو جذب کر لے گی۔

دفاعی روابط اور ارتقاء پذیر امریکہ بھارت شراکت داری

 بھارت کہ ۲۰۱۶ میں “نمایاں دفاعی شراکت دار” کا عہدہ ملنے سے نہ صرف دفاع اور سلامتی کے شعبے میں امریکہ کے دیگر اہم تزویراتی اتحادیوں سے ہم پلہ سلوک کے قابل ہوا بلکہ اس نے تجارت پر عائد انضباطی رکاوٹوں میں بھی تخفیف کی۔ دونوں ممالک نے ۲۰۲۳ میں سپلائی چین کی سلامتی کے معاہدے اور باہمی دفاعی معاہدے پر مذاکرات کا آغاز کیا، جو بھارتی اور امریکی کمپنیز کو ایک دوسرے سے دفاعی سازوسامان کی پیداوار کے معاہدے حاصل کرنے کی اجازت دے سکیں۔اس نے بھارت کو تزویراتی تجارتی منظوری (ایس ٹی اے ۱) کی حیثیت حاصل کرنے کے قابل کیا ہے تاکہ سول اور دفاعی خلائی شعبہ جات میں امریکہ کو جدید ٹیکنالوجی کی پراڈکٹس فراہم کی جا سکیں۔


جنرل سیکیورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ (جسومیا)، لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ (لیموا)، کمیونیکیشن، کمپیٹیبلٹی اینڈ سیکیورٹی ایگریمنٹ (کوم کاسا) اور بیسک ایکچینج کو آپریشن ایگریمنٹ (بیکا) جیسے بنیادی معاہدوں پر دستخط کے ذریعے، بھارت نے اہم حساس نوعیت کی ٹیکنالوجیز اور دفاعی نظاموں کی منتقلی سے وابستہ امریکی خدشات سے نمٹنے کے لیے اہم قدم اٹھا لیے ہیں۔ مثال کے طور پر لیموا پر دستخط نے بھارت اور امریکہ کو منظم دفاعی تعاون کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ، لاجسٹکل سپورٹ کے لیے ایک دوسرے کی ملٹری بیسز تک باقاعدہ ببنیادوں پر رسائی دی ہے۔


سالانہ “۲+۲” وزراء مذاکرات اور انٹرسیشنل ڈائیلاگ کے ذریعے بھارت اور امریکہ دونوں نے ہی دفاع اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی شراکت داری کو ترجیح دی ہے۔ حساس اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز (آئی سی ای ٹی) پر لی گئی پیش رفت کی افتتاحی تقریب جنوری ۲۰۲۳ میں منعقد ہوئی، جس کے بارے میں توقع ہے کہ یہ سائبر سیکیورٹی، خلا اور ایرواسپیس کے میدانوں میں تعاون کو فروغ دے گی۔ جون ۲۰۲۳ میں آغاز پانے والے امریکہ بھارت ڈیفینس ایکسلریشن ایکوسسٹم (انڈس ایکس) نے، انوویشن فار ڈیفینس ایکسلینس (آئی ڈیکس) اور ڈیفینس انوویشن یونٹ (ڈی آئی یو) کے ہمراہ تعاون میں “بھارتی اور امریکی اسٹارٹ اپس کی جانب سے جدید ٹیکنالوجیز کی مشترکہ تیاری اور مشترکہ پیداوار میں مدد کی ہے”۔

 

چندریان-۳ مشن اور خلا


سال ۲۰۲۳ کے وران امریکہ بھارت تعاون کا نمایاں ترین نکتہ بیرونی خلا میں تھا۔ ۲۰۰۸ کا چندریان-۱ مشن چاند پر پانی کی دریافت کا باعث بنا تھا، اب امریکہ اور بھارت چندریان-۳ مشن کے لیے ایک بار پھر سے یکجا ہوئے، اور بھارت چاند کے قطبِ جنوب پر پہنچنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ ۲۰۲۳ میں بھارت نے امریکی قیادت میں قائم معاہدہ آرٹیمز پر بھی دستخط کیے تاکہ بھارت اور امریکہ کے درمیان وسیع تر دو طرفہ خلائی تعاون میں سہولت کاری کی جا سکے۔


خلا اور دفاعی ٹیکنالوجی کے معاہدے ۲۰۲۳ میں امریکہ بھارت تعلقات کی میراث کی تکمیل کرتے ہیں۔ تزویراتی تجارتی ڈائیلاگ اور امریکہ بھارت ایڈوانسڈ ڈومینز ڈیفینس ڈائیلاگ خلا اورمصنوعی ذہانت سے متعلقہ ٹیکنالوجی کے انتقال میں سہولت کاری کر سکتے ہیں۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایئر فورس لیبارٹری نے اس ضمن میں، یونائیٹڈ نیشنز اسپیس فورس اور بھارت اسٹارٹ اپ ۱۱۴AI کے مابین ایک نئی معاونت یافتہ تحقیق و ترقیاتی معاہدوں کی قیادت کرتے ہوئے اس سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے، یہ معاہدہ خلائی میدان میں آگہی کے حوالے سے دوہرے استعمال والے سافٹ ویئرز تیار کرتا ہے۔

اختلافات کا عبور


روابط میں مثبت رفتار کے باوجود بھی، عدم توجہی کا شکار رہنے والے بعض مسائل جو ۲۰۲۴ میں بھی برقرار رہیں گے، ان کے سبب امریکہ بھارت تعلقات کے درمیان معمولی خلل پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکی پابندیوں کے امکان کے باوجود بھی بھارت نے روسی خام تیل اور ہتھیاروں کی خریداری جاری رکھی ہے کیونکہ وہ روس اور امریکہ کے درمیان تزویراتی توازن قائم رکھنے کا خواہاں ہے۔ گو کہ بھارت کو روسی ساختہ ایس-۴۰۰ ڈیفنس سسٹمز کی خریداری کے باوجود امریکی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے سبب ۲۰۱۸ کے پابندیوں کے ایکٹ سے استثنیٰ ملا تھا، روس کے ہمراہ بھارتی دفاعی روابط کا جاری رہنا، طویل المدت میں امریکہ کے ہمراہ دفاعی شراکت داری کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چونکہ بھارت کا ۸۶ فیصد اسلحہ روس میں تیار کیا گیا ہے – جو کہ سرد جنگ میں تعاون کی میراث ہے – ایسے میں امریکی پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ روسی تسلط سے چھٹکارے میں کچھ وقت لگے گا۔ تاہم یوکرین میں جاری جنگ اور اس ثبوت کی موجودگی میں کہ روس نے اہم نوعیت کے شہری انفرااسسٹرکچرز کو نشانہ بنایا ہے، ۲۰۲۴ میں روس یوکرین جنگ پر بھارتی غیرجانبداری کڑے امتحان سے دوچار ہو گی۔


اسی طرح اسرئیل حماس تنازعے کا شدت اختیار کرنا بھی، بحر ہند میں بھارت کے تزویراتی پوسچر پر اثرانداز ہو گا۔ چونکہ مسلح غیر ریاستی گروہ بحر ہند کے قریب تجارتی جہازوں کو نشانہ بنا چکے ہیں، جبکہ بھارتی بحریہ نے بڑے ذخیرہ جاتی جہاز کے اغوا کا خاتمہ کیا تھا، ایسے میں بھارت بحیرہ عرب میں بیرونی کرداروں کی موجودگی کو محدود بناتے ہوئے ‘ترجیحی سلامتی شراکت دار’ کے طور پر اپنی حیثیت کو منوائے گا۔ اس ضمن میں بھارت اپنی ساحلی حدود میں ‘چیزوں کو محض متوازن’ رکھنے کی حکمت عملی سے جان چھڑانے کو ترجیح دے گا اور بحیرۂ احمر میں امریکی بحری موجودگی کو “حسبِ موزوں” دیکھنا چاہے گا – جو نہ تو بہت زیادہ ہو اور نہ ہی بہت کم – تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تنازعے کی صورت میں بھارتی بحری مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ۲۰۲۳ میں امریکی قیادت میں مشترکہ بحری فورسز میں شمولیت کے باوجود بھی بھارتی بحریہ نے خطے میں اپنے تزویراتی مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنی صلاحیتوں کی حد تک بحیرہ احمر میں موجود اپنے جہاز رانی کے راستوں کا تحفظ جاری رکھا جو امریکی قیادت میں قائم اتحاد “محافظین ترقی کا آپریشن” میں شمولیت کے بغیر ہے – یہ بحیرہ احمر میں جہاز رانی میں مدد کی خاطر قائم شدہ ایک پیش رفت ہے۔


کینیڈا اور امریکہ دونوں کی جانب سے یہ الزامات کہ خالصتانی علیحدگی پسندوں کو مارنے کی بھارت نے سرپرستی کی تھی، نمایاں سفارتی تناؤ کا باعث بنا تھا۔ اس خبر نے اس بحث کو دوبارہ بھڑکا دیا کہ آیا بھارت امریکہ تعلقات دراصل اقدار پر مبنی ہیں کہ محض تزویراتی ترجیحات پر۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود بھی ملک کے انسانی حقوق کے معاملے سے نمٹنے کے طریقہ اور بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے خدشات کے سبب، امریکہ کی جانب سے وسیع تر پیمانے پر بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈز پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو امریکی کمیشن برائے بین االقوامی مذہبی آزادی کی جانب سے پہلے ہی بے پناہ توجہ دی جا چکی ہے، جس نے امریکی حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ بھارت کو ایسے ملک کا درجہ دے کہ جس کی جانب سے اپنی سرزمین اور بیرون ملک مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جابرانہ سلوک پر خصوصی تشویش پائی جاتی ہے۔

نظر ۲۰۲۴ کی جانب

ممکنہ خلل کے باوجود بھی، دو طرفہ تعلقات بدستور گہرے رہیں گے۔ بھارت کے انڈوپیسیفک اقتصادی فریم ورک (آئی پیف) کا حصہ بننے کے ساتھ توقع ہے کہ کلیدی تجارتی تنازعات پر بھارت امریکی اتفاق اور معاونت یافتہ معاہدے کاروباری روابط میں اضافہ کریں گے۔ اسی طرح آئی پیف کے بے داغ اور منصفانہ اقتصادی ستونوں کا حصہ بننے کی بھارتی کوششیں ماحولیاتی مسائل پر مل جل کر کام کرنے کے امکانات کی پیشکش کرے گا۔


بھارت اور امریکہ زیرِ سمندر ابلاغ، انٹیلی جنس شراکت داری اور آبدوز شکن جنگی ٹیکنالوجی کے ذریعے بحری تعاون میں اضافے کی شکل میں انڈوپیسفک میں چین سے محسوس کیے جانے والے خطرے سے نمٹیں گے اور یوں ۲۰۲۴ میں دفاعی روابط مزید ترقی کریں گے۔ کواڈ کی چھتری تلے ڈائیلاگ اور مشترکہ مشقیں بھی بھارت اور امریکہ کے درمیان رابطوں میں سہولت کاری پیدا کریں گی۔


امریکہ کی جانب سے بھارت کو ایک تزویراتی شراکت دار کے طور پر دیکھنے کا سلسلہ بڑھ رہا ہے اور وہ انڈوپیسفک میں ملک دشمنوں کے خلاف ممکنہ سرگرمیوں کی صورت میں بھارتی معاونت کی درخواست کر چکا ہے۔ تاہم دونوں طرفین کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ یہ شراکت داری محض دفاعی تعاون کے ذریعے چین کے مقابلے تک محدود نہ ہو۔ ان قریبی روابط کے باوجود بھی، بھارت علی الاعلان عسکری اتحادوں میں شمولیت کے خلاف اپنی پالیسی کو ممکنہ طور پر برقرار رکھے گا۔ اور اس کے برخلاف وہ اپنی تزویراتی خودمختاری اور کثیرالقطبی دنیا کے لیے سفارتی عزم کا تحفظ کرتے ہوئے، امریکہ کو اپنے ارادوں کے حوالے سے یقین دہانی کروانے کے لیے امریکی اتحادیوں کے ہمراہ مشترکہ مفادات کی بناء پر قائم اتحادوں کے ساتھ رابطے رکھے گا۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Taj Mahal in India via Flickr

Image 2: Modi and Biden via Flickr.

Share this:  

Related articles