جنوبی ایشیاء میں روایتی اور جوہری صلاحیتوں کا ایک بڑھتا ہوا مقابلہ وقوع پزیر ہو رہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہندوستان اور پاکستان نے دو درجن سے زائد دوہری صلاحیت کے حامل ڈلیوری سسٹم کا اضافہ کیا ہے اور وہ اپنے اپنے جوہری Triad بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ کچھ عرصے سے دونوں ممالک اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں انسداد قوت کی صلاحیت اور پلیٹ فارم شامل کررہے ہیں اور دونوں ممالک انسداد قوت کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے آزادانہ طور پرمتعدد نشانہ بننے والے دوبارہ داخلے والا اسلحہ (ایم آئی آر وی) یا ایم آئی آر وی سے لیس بیلسٹک میزائلوں کو شامل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
جوہری مادہ کی پیداوار کئی دہائیوں سے جاری مقابلے کا حصہ ہے٫ جو ہندوستانی اور پاکستانی اسٹریٹجک فورس کے سائز ، دائرہ کار اوراس کے خدوخال کا تعین کرنے میں ایک اہم عنصر رہے گا۔ جنوبی ایشیا میں جوہری مادہ کا معمہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ جنیوا میں تخفیف اسلحے سے متعلق کانفرنس (سی ڈی) میں پیداوار پر پابندی عائد کرنے پر بات چیت شروع کرنے کی کوششیں اب تک ناکام رہی ہے۔ لہذا ، اس تعطل کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرنا شائد فائدہ مند ہو۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان ہندوستان کے ساتھ ایف ایم سی ٹی کے مسودہ کے لئے مذاکرات میں حصہ لینے پر راضی ہونے سے گریزاں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین مجودہ جوہری مواد بالخصوص پلوٹونیم کےذخائر میں عدم توازن ہے۔ ہندوستان کےجوہری مواد کےذخائرکے حوالے سے شفافیت کا فقدان بھی آگے بڑھنے میں ایک اور اہم رکاوٹ ہے۔ بھارت کے سویلین پلوٹونیم [PU] کے ذخائر جو کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے حفاظتی اقدامات کے دائرہ کار سے باہر ہے،اس مسئلے کا مرکز ہے ، کیونکہ نئی دہلی نے اس مواد کو “اسٹریٹجک ریزرو” کے طور پر نامزد کیا ہے۔ جبکہ جوہری مواد پر بین الاقوامی پینل (IPFM) علیحدہ کردہ ری ایکٹر گریڈ کی پلوٹونیم کو بھارت کےدفاعی پلوٹونیم کےذخائرمیں گردانتا ہے۔ جنوری ۲۰۱۷ تک ایک اندازہ کے مطابق ہندوستان میں ۶.۵۸ ٹن پلوٹونیم کےذخائر موجود ہیں۔
مارک ہیبس جیسے ماہرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شامل تقریبا تمام حکومتیں ہندوستان کے ذخیروں میں شفافیت کا خیرمقدم کریں گی۔ جنوبی ایشیا کے اسٹریٹجک استحکام کے نقطہ نظر سے بھارت کے موجودہ اور بڑھتے ہوئی غیر محفوظ جوہری ذخائر کا پاکستان کے جوہری مادہ کی ضروریات کے تعین کرنے پر براہ راست اثر پڑنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ جوہری برابری کا خواہاں نہیں ہے۔
پاکستان نے ماضی میں علاقائی استحکام اور دائمی عمل اور رد عمل کے چکر، جو گذشتہ سات دہائیوں میں عداوت اور عدم اعتماد کے باعث پرورش پا رہا تھا، کو روکنے کےلئے ہندوستان کو متعدد بار دو طرفہ اقدامات کی تجویز پیش کی ہے۔ پاکستان نے ۱۹۷۲ اور ۱۹۷۴ میں جوہری ہتھیاروں سے پاک زون کے قیام کے ساتھ ساتھ اعلانیہ جوہری ہتھیاروں کےحصول سے قبل نیوکلیئر عدم پھیلاؤ معاہدے (NPT) پر بیک وقت عمل پیرا ہونےکی تجویز دی۔ اور اس نے حال ہی میں strategic restraint regime کے تحت تجاویز پیش کی ہیں کہ جیسا کہ کروز میزائل کے تجربہ کی پیشگی اطلاع اور جوہری تجربے پر قانونی طور پر دوطرفہ تعطل کی پابندی۔
ہندوستان کی طرف سے ان تمام تجاویز کو مسترد کردیا گیا ہے۔ لہذا آگے بڑھنےکا ایک دوسرا راستہ ایک کثیرالجہتی فریم ورک کے ذریعے ہی ممکن ہے جیسے کہ FMCT، جو جنوبی ایشیاء میں پیچیدہ سلامتی الجھن کو کم کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ تاہم اس تناظر میں پاکستان کی طرف سے کسی بھی یکطرفہ اقدامات یا مراعات کی توقع رکھنا، جو اس کی علاقائی سلامتی کے خدشات اور صلاحیتوں میں بڑھتے ہوئے تضادات کا ازالہ نہیں کرتا، ایک غیر حقیقی عمل ہو گا۔
:تجویز
میں تجویز کرتا ہوں کہ تمام غیر محفوظ سویلین جوہری مادوں کے ذخیرے، جس میں پلوٹونیم اور انتہائی افزودہ یورینیم (ایچ ای یو) کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء میں نامزد کردہ سولین جوہری پیداواری سہولیات شامل ہوں، کو IAEA کے حفاظتی اقدامات کے تحت کر دیا جائے اور ان کو مجوزہ FMCT کے دائرے میں شامل کیا جائے۔علاوہ ازیں، IAEA کے ذریعے سول نیوکلیئر پاور ری ایکٹر اور جوہری ایندھن کی سہولیات اورفوجی سرگرمیوں کے مابین ایک واضح اور قابل تصدیق طریقے سے ایک دوسرے سے الگ رکھا جانا چاہئے۔
چونکہ ری ایکٹر گریڈ پلوٹونیم کے سویلین ذخیرے ہتھیاروں کے استعمال کے قابل ہیں اور بحریہ کے ری ایکٹروں کی افزودہ یورینیم کو تیزی سے ہتھیاروں کے لئے درکار سطح تک افزودہ کیا جاسکتا ہے، لہذا اس تجویز سے ہتھیاروں کےلئے ممکنہ طور پردستیاب جوہری مواد کی مقدار میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ اس سے تمام دوہرے استعمال والے جوہری پلانٹ، ادارے اور ایسے سامانوں پر جامع حفاظتی تدابیر کا اطلاق بھی ہوسکے گا جو سویلین جوہری توانائی کے پروگراموں کا حصہ تو ہیں، لیکن فی الحال کسی بھی نگرانی کی ذد میں نہیں آتے۔ ان اداروں اور مواد کو شامل کرنے سے ان کے بین الاقوامی تحفظ اور سلامتی کے معیار میں بھی بہتری آئے گی۔ اگر اس طرح کے اقدام کی کامیابی کا امکان ہوا تو پاکستان کی طرف سےFMCT مذاکرات سے باہر رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی ، اور اس طرح جوہری عدم پھیلاؤ کی تنظیم کو تقویت ملے گی۔
مجوزہ اقدام کے خلاف برسرِ پیکار سب سے بڑی رکاوٹیں
ہندوستان کے غیر محفوظ شدہ سویلین جوہری مادوں کے ذخیرے کو مستقبل میں قائم ہونے والے تیز رفتار بریڈر ری ایکٹرز (FBRs) کے بیڑے کے لئے ایندھن کے طور پر مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے،حالانکہ ان میں سے پہلا (۵۰۰ میگاواٹ کا پروٹوٹائپ FBR) آٹھ سال تاخیر کا شکار ہونے کے باوجود ابھی تک شروع نہیں کیا جاسکا۔
FBRs ہندوستان کے تین مرحلے کے جوہری توانائی پروگرام کا ایک حصہ جسے IAEA کے علیحدگی منصوبہ کے تحت حفاظتی اقدامات سے باہر رکھا گیا ہے- جب وہ کام شروع کردیں گے تو اسلحہ اور ری ایکٹر گریڈ پلوٹونیم کی پیداوار میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنےگا۔ علاوہ ازیں، ہندوستان کی اپنی افزودگی، ری پروسیسنگ، اور پلوٹونیم کے پیداواری ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر جاری توسیع پاکستان کی اسٹریٹجک اضطراب اور اس کے دشمن کی صلاحیتوں کےاندازے کو بھی بڑھاوا دے رہی ہے جس کے نتیجے میں اس [پاکستان] کے عملی تقاضے بڑھ رہے ہں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے موجودہ ذخائر، جس میں تقریباً۲۸۰-۲۱۰ کلوگرام ہتھیاروں کےلئے قابل استعمال پلوٹونیم اور ۳.۴۱ ٹن افزودہ یورینیم شامل ہے، ایک قابل اعتماد تسدید کی فراہمی کے لیے نا کافی ہے، جو کہ سہ جہتی ہتھیاروں پر مبنی ہواور جس میں ۱۱ اقسام کے بیلسٹک اور کروز میزائل موجود ہوں (اس میں نصر جیسے مختصر فاصلاتی نظام ہتھیار بھی شامل ہیں)۔
دوسری رکاوٹ یہ ہےکہ پاکستان میں جوہری مواد کا زیادہ ذخیرہ نہیں ہے۔ چار دہائیاں قبل ہونے والے سرکاری فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں پلوٹونیم کی پیداوار دیر سے شروع ہو ئی. پاکستان نے ۱۹۸۶ میں اپنے پہلے۵۰ میگاواٹ (تھرمل) پروڈکشن ری ایکٹر پر کام شروع کیا۔ یہ منصوبہ ۱۱ سال کے بعد مکمل ہوا۔ اس میں ۱۹۹۸ سے لے کر اب تک تین چھوٹے ۵۰ میگاواٹ پلوٹونیم پروڈکشن ری ایکٹرز کو شامل کیا ہے جن میں سے تیسرا اور چوتھا ری ایکٹرحال ہی میں۲۰۱۱ اور ۲۰۱۴ کے دوران آن لائن گیا تھا۔
لہذا یہ سمجھنا مناسب ہے کہ پاکستان ان ری lیکٹرز کو پلوٹونیم کا ایک اضافی ذخیرہ تیار کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے جو موجودہ اور مستقبل کي ضروریات کو پورا کر ے۔ پہلے ہندوستان کے ساتھ موجود بے تحاشہ فرق کو کم کرکے اور اس کے بعد کچھ اضاضی ذخیرہ بنانے کے ذریعے۔ یہ اقدام پاکستان کے سفارتی موقف کو بڑھاوا دینے کیلئۓ ضرودی ہے جوکہ موجودہ جو ہری ذخیروں كے حساب کتاب کو جوہری مواد مواہدہ (FMT)، نہ کہ FMCT، جوکہ صرف مستقبل کي پیداوار پر نظررکھتاہے، کے تحت کرنےپرزور دیتا ہے.
اگرچہ FMT شینن مینڈیٹ سے مطابقت رکھتا ہے جو کہFMCT مذاکرات کی بنیاد ہے، اور یہFMCT سےایک قدم آگے ہے کیوںکہ یہ جوہری عدم پھیلاؤ كے ساتھ ساتھ تخفیف اسلحہ کی بھی بات کرتا ہے۔ اس کے با وجود پاکستان کا FMT پرموقف جویری ہتھیاروں سے مسلح اقوام کی خاطر خواہ حمایت حاصل نہیں کرپائے گا کیونکہ ان ممالک کے پاس پہلے سے ہی بڑے ذخیرے موجود ہیں اور وہ کئی دہائیاں قبل اضافی پیداوار بند کر چکے ہیں. لہذا پاکستان کے FMT پرموقف کا بنیادی مقصد واضح طور پر جنوبی ایشیاء میں موجودغیر متوازن سٹاک کے مسئلے کو حل کرنا ہے (جدول دیکھیں)۔
پاکستان کے اپنے جوہری مواد کے ذخائر ميں کمی بھی ایک وجہ ہوسکتی ہےجس کی بنا پر سی ڈی میں پاکستان کے نمائندے نے ۲۰۱۴ میں مختلف ہتھیاروں میں استعمال کے قابل جوہری مواد کے موجودہ اسٹاک کے بارے میں خدشات کو اجاگر کیا: “ہم تجویز کرتے ہیں کہ ہتھیاروں میں استعمال ہوئے والے جوہری مادے کو اس معاہدے کے تحت نہ چھیڑا جائے، اور اس کو مستقبل میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق آئندہ کے کنونشن میں نمٹا جائے۔“ انہوں نے مزید استدلال کیا کہ ہر قسم کاجوہری مواد – خواہ وہ نئے جنگی ہتھیاروں کے لئےمختص کیا گیا ہو یا موجودہ وار ہیڈز کی تبدیلی کیلئے، علاوہ ازیں ،کسی بھی غیر محفوظ شدہ ری ایکٹرسے حاصل شدہ سول پلوٹونیم اور بحریہ کے لئے افزود ہ یورینیم – کا حساب کتاب ہونا چاہئے اور ان سب كوFMCT کے حفاظتی انتظامات کے دائرے میں لایا جانا چاہئے۔ انہوں نے علاقائی یا عالمی سطح پر ماضی اور مستقبل کے غیر محفوظ جوہری مادوں کی “باہمی اور متوازن کمی” پر زور دیا۔ اس کے بعد اگست ۲۰۱۵ میں سی ڈی میں ایک ورکنگ پیپر، “فسلائل میٹریل ٹر یٹی کے عناصر” جمع کروایا گیا جس میں پاکستان کی سابقہ پوزیشن کا اعادہ کیا گیا.
ستم ظریفی یہ ہے کہ ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سی ڈی میں ہتھیاروں میں استعمال نہ ہونے والے مواد یا اضافی سٹاک کے حساب کتاب کروانے کی حمایت کرنا پاکستان کے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ہندوستان اسے آسانی سے اپنے فائدے میں استعمال کرسکتا ہے۔ بھارت اپنے غیر محفوظ ذخیرے کا ایک حصہ ایف ایم ٹی کے تحت اکاؤنٹنگ کے لئے کھولنے کا اعلان کرسکتا ہے اور اس کے ایک حصے یا باقی تمام حصے کو ہتھیاروں کیلیۓ نامزد کرسکتا ہے۔ اس سے ہتھیاروں كا توازن ہندوستان کے حق میں مستقل طور پر منجمد کیا جاسکتا ہے ، جہاں وہ پاکستان پر بھاری فائدہ اٹھائے گا۔ اس سے قطع نظر کہ ہندوستان اس طرح کا راستہ اپنانے کا انتخاب کرتا ہے یا نہیں ، پاکستانی فالتو ذخیرے کی عدم موجودگی میں ، کسی بھی دوطرفہ ، علاقائی ، یا کثیرالجہتی نظام كے تحت غیر محفوظ شدہ ذخائر (سول یاملڑی) میں کمی پاکستان کے لئے ایک نان اسٹارٹر ہے۔
تیسرا چیلنج جنوبی ایشیاء میں سویلین اور فوجی فیول سائیکل اور ری ایکٹر آپریشنوں کے لئے شفافیت اور علیحدگی کی تصدیق کو یقینی بنانا ہوگا۔ ایسا کرنا بنیادی طور پر اس بات پر منحصر ہوگا کہ آیا IAEA اس طرح کی مکمل علیحدگی اور اس کی درستگی کی جامع نگرانی اور توثیق کرسکے گی یا نہیں۔ اس کیلئےضروری ہو گا کہ تمام سویلین فیول سائیکل کی سہولیات یا بجلی اور ریسرچ ری ایکٹر یا بریڈر ری ایکٹر جو کسی بھی سول انرجی پروگرام کا حصہ ہیں۔ اور اس میں تیار کردہ مواد کو حفاظتی اقدامات کے تحت رکھا جائے۔
اگرچہ پاکستان کے تمام تحقیقی اور پاور ری ایکٹرز موجودہ اور ذیر تکمیل IAEA کےحفاظتی اقدامات کے تحت کام کرتے ہیں جبکہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ ۲۰۰۸ میں ہندوستان کو IAEA نے اجازت دی تھی کہ وہ امریکہ – ہندوستان سول جوہری معاہدے کے لئے ”علیحدگی منصوبے“ کے تحت آٹھ دباؤ والے بھاری واٹر ری ایکٹر (۲،۳۵۰ میگا واٹ کے PHWRs) اور اس کے بریڈر ری ایکٹر کو حفاظتی اقدامات سے باہر رکھیں۔ ہندوستان نے ۲۰۳۹ تک۱۰ (۷۰۰ میگاواٹ) PHWRs اور چھ (۶۰۰ میگاواٹ) FBR بنانے کے منصوبوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ تین مر حلوں کے سول جوہری توانائی پروگرام کا حصہ ہونے کے باوجود ، ان پاور اور بریڈر ری ایکٹرز کو “فوج” کی فہرست سے واضح طور پر باہر رکھا گیا ہے، اگرچہ علیحدگی کے اصولوں کے تحت کسی ری ایکٹر کو صرف اس شرط پر سویلین نامزد کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ کسی بھی طرح سے ہندوستان کے اسٹریٹجک پروگرام سے وابستہ نہیں ہوں. اس انتظام نے ری ایکٹر آپریشنز اور فیول سائیکل سرگرمیوں کی تین متوازی اور ایک دوسرےمیں مدغم راستے بنا دیئے ہیں، یعنی سول (حفاظتی اقدامات کے تحت)، سول (حفاظتی اقدامات کے باہر)، اور فوج (حفاظتی اقدامات کے باہر).
IAEA صرف اسی صورت میں سول اور فوجی جوہری تنصیبات کی ایک درست اور تصدیق شدہ علیحدگی کی تصدیق کرسکتا ہے جب ۲۰۰۸ کے ہندوستان کے علیحدگی کے منصوبے پردوبارہ تبادلہ خیال کیا جاۓ۔ جیسا کہ جان کارلسن نے استدلال کیا ہےکہ ہندوستان کی سویلین غیر محفوظ اور فوجی جوہری تنصیبات کے متراکب ہونے کی بناپر IAEA کےموجودہ حفاظتی اقدامات کے تحت مواد کے انحراف کا امکان بڑھاتا ہے، جس سے این ایس جی کی رکنیت کی شرائط میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایک بار جب حفاظتی انتظامات کا ایک اور موثر معاہدہ طے پاگیا تو، یہ IAEA کو اپنے حفاظتی اقدامات کی شفافیت، مکمل، اور درستگی کی نگرانی اور رپورٹ کرنے کے قابل بنائے گا۔
پاکستان کےسویلین اور دفاعی پروگرام میں کوئی ایسا انقطاع نہیں ہے۔ اگرچہ اس کے پاس ایک چھوٹا غیر محفوظ فوجی جوہری ایندھن ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کے لئے مواد تیار کرنے کے لئے وقف ہے ، 2006 میں قومی معاشی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک “خالص سویلین” تجارتی پیمانے پر جوہری فیول سائیکل کے قیام کے لئے 1.2 بلین ڈالرکی منظوری دی ہے جس کو IAEA کےحفاظتی اقدامات کے تحت رکھا جائے۔ اس میں فرنٹ اینڈ سہولیات یعنی یورینیم پروسیسنگ ، تبادلوں ، افزودگی ، اور ایندھن کے ساخت شامل ہوں گے – اور دباؤ والے پانی کے ری ایکٹر کےایندھن کی مقامی طور پر پیداوار کر سکے گا.
۲۰۱۲ میں پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان ایٹمی ایندھن کے کمپلیکس/جوہری توانائی کے ایندھن والے کمپلیکس پر کام کر رہا ہے جس میں ایک کیمیائی پروسیسنگ پلانٹ ، افزودگی پلانٹ ، سیملیس ٹیوب پلانٹ 1 ، ایندھن کی ساختگی کا پلانٹ ، اور جوہری ایندھن کے ٹیسٹنگ پلانٹ شامل ہیں، جس کی لاگت کا تخمینہ ۵۱.۲۹۸ ارب روپے ہے۔ یہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو ایک مکمل سویلین فیول سائیکل کو شامل کرنے کے قابل بنائے گا جو کہ پیداواری ری ایکٹروں اور فوجی فیول سائیکل سے الگ ہے- IAEA کی نگرانی کے تحت پہلے سے ہی محفوظ ریسرچ اور پاور کے ری ایکٹرز میں شامل کرنے کے قابل ہو جائے گا.
چوتھی رکاوٹ یہ ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت اپنے غیر محفوظ سویلین جوہری مواد کی پیداوار کی سہولیات اور ذخیرےکی نگرانی کے لئے راضی ہوں گے۔ پاکستان کے پاس کوئی غیر محفوظ استعمال شدہ سویلین ایندھن کا اسٹاک یا جوہری ماده موجود نہیں ہے – کیونکہ اس کے تمام پاور اور ریسرچ ری ایکٹرز IAEA کے حفاظتی اقدامات کے تحت ہیں، تاہم ہندوستان کے فیصلہ سازوں کو یہ قبول کرنا مشکل ہوگا۔
اس بات کا قطعی امکان نہیں ہے کہ ہندوستان اپنے سول-فوجی جوہری پروگرام کی ”علیحدگی منصوبے“ کے IAEA کے ۲۰۰۸ کے حفاظتی معاہدے میں نظر ثانی یا ترمیم پر اتفاق کر ے. اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے غیر محفوظ سول جوہری مواد ( پلوٹونیم اور ایچ ای یو) کو ایک اسٹریٹجک ریزرو اور سول پروڈکشن اور فیول سائیکل کی جگہ کے طور پر نامزد کیا جا چکا ہے ، اور سیف گارڈز سے باہر ہیوی واٹر پاور اور بریڈر ری ایکٹر اس کے اسٹریٹجک پروگرام سے وابستہ ہیں۔
یہ اقدام کیونکر کارآمد ہو سکتا ہے
اب یہ واضح طور پر پاکستان کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ وہ ہندوستان کے جوہری ماده کی پیداوار میں اضافے ، سویلین جوہری ماده کے غیر محفوظ اسٹاک کو بنانے اور اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت اور جوہری پروگرام کے متوازی اور ایک دوسرے میں مدغم دھاروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قباحتوں کو دور کرے۔
اگراس کے نتیجے میں پاکستان اپنی پوزیشن کو تبدیل کرتا ہے اور سی ڈی پر مذاکرات میں دوبارہ شامل ہوتا ہے تو اس سے ہندوستان دفاعی پوزیشن میں آ جائے گا اور امکان ہے کہ وہ ان مذاکرات کی علی الاعلان مخالفت کرے جس سے پاکستان مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سول ذخیرہ اور تمام غیر محفوظ سول جوہری مواد تیار کرنے والی سہولیات پر بحث کوFMCT میں شامل کرنے پر غور کیا جائے۔ سویلین اور فوجی جوہری تنصیبات اور کارروائیوں میں واضح طور پر علیحدگی کرنا بھی ہندوستان کے مفاد میں ہوگا۔ اس سے ہندوستان کی NSG میں داخلے کے تعطل میں بھی بہتری آئے گی۔
جنوبی ایشیاء کے علاوہ یہ تجویز مشرقی ایشیاء کےافق پر پیدا ہونے والے عدم پھیلاؤ کے خدشات کو دور کرنے کے لئے موزوں ہے جس کا براہ راست اثر امریکہ کے قومی سلامتی کے مفادات پر ہے, نہ صرف خطے میں اس کے اتحاد کے تعلقات بلکہ مزید جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لحاظ سے بھی۔ IAEA سیف گارڈ سسٹم کے تحت ہر طرح کے ہتھیاروں میں استعمال کے قابل سویلین جوہری مواد کا احاطہ کرنا اسلحہ کے عالمی کنٹرول اور عدم پھیلاؤ کی کوششوں کو مضبوط بنانے کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اہداف خاص طور پر اکیسویں صدی میں اہم ہیں کیونکہ یہ امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ مشرقی ایشیاء جیسے تناؤ کے شکار خطوں میں جوہری پھیلاؤ کے خاتمے کے خطرہ کے ساتھ سویلین پلوٹونیم کے ذخائر اگلے بڑے پھیلاؤ کے خدشات میں شامل ہیں۔
جاپان اس حوالے سے ایک اچھی مثال ہے جہاں امریکہ کے بعد ہتھیاروں میں استعمال کے قابل سول پلوٹونیم کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جاپان NPT کا دستخط کنندہ ہے، اور IAEA کے سالانہ بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ جاپانی ذخیروں کی نگرانی اور حفاظت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جاپان کا روکاشو میں تجارتی ری پروسیسنگ پلانٹ لگانے کا منصوبہ ایک طویل عرصے سے ان خدشات کو ہوا دے رہا ہےکہ جنوبی کوریا بھی اس راہ پر چل پڑے گا جبکہ جنوبی کوریا کو مستقلاً ایک جنگجو اور غیریقینی شمالی کوریا کی جنگ کی دھمکیوں کو جھیلنا پڑ رہا ہے. چین اپنی طرف سے جاپان کی ری پروسیسنگ کے منصوبوں پر گہری تشویش کا شکار ہے۔ بیجنگ کے اپنے بڑے پیمانے پر تجارتی ری پروسیسنگ منصوبے توانائی کی ضروریات کی وجہ سے ناگزیر ہیں۔
تاہم جاپان اور جنوبی کوریا کے پاس کوئی غیر محفوظ استعمال شدہ ایندھن یا سویلین ذخیرہ موجود نہیں ہے ، اور چین – جو کہ جوہری ہتھیاروں کی ریاست کے طور پرNPT کے ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے، مبینہ طور پر اسلحے کے لئے جوہری مادہ کی پیداوار کو بہت پہلے ختم کر چکا ہے. اس کے نتیجے میں مشرقی ایشیاء میں “جوہری دھماکا خیز اسلحے” کی دوڑ شروع ہونے کا امکان ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جاپان کا ۴۷ ٹن سول پلوٹونیم کا ذخیرہ براہ راست پھیلاؤ کی تشویش پیدا کرتا ہے، جس میں سے تقریباً ۱۱ میٹرک ٹن پلوٹونیم اس کی سرزمین پر موجود جبکہ۳۷ میٹرک ٹن بیرون ملک ذخیرہ کیا گیا ہے جو کہ لگ بھگ۲ ہزار جوہری ہتھیار بنانے کے لئے کافی ہے۔
جاپان یا جنوبی کوریا کے حوالے سے شفافیت کے خدشات نہیں ہیں۔ اس کے برعکس ، ہندوستان واحد ملک ہے جس میں NPT ریاستوں سے باہر سب سے بڑا غیر محفوظ ہتھیاروں کے استعمال کے قابل سول پلوٹونیم کا ذخیرہ موجود ہے۔ لہذا ہندوستان کے غیر محفوظ سول اور فوجی جوہری مادوں کے ذخیروں میں شفافیت کا فقدان پاکستان کو تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اس کی تسدید کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے اس کے لئے کتنے اقدامات کافی ھوں گے۔ اسی طرح غیر محفوظ سول جوہری مواد کے ذخیرے میں شفافیت کے مسئلے کو حل کرنے کے ذریعے دنیا سی ڈی میں اپنی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے لئے پاکستان پردباؤ ڈال سکتی ہے۔
عالمی سطح پر عدم پھیلاؤ کے اصولوں کو دوسرے ایٹمی دور میں- جو کہ جنوب اور مشرقی ایشیاء میں عمودی جوہری پھیلاؤ میں اضافہ دیکھ رہا ہے، کو صرف علمی سطح پر غیر متنازعہ اور یکساں طور پر قابل اطلاق اصولوں کے ذریعے ہی مضبوط کیا جاسکتا ہے جو کسی ملک کیلئے مخصوص استثناء اور مراعات پیدا نہیں کرتےاور يہ توقع کرتے ہوئے کہ دوسرے ممالک یکطرفہ طور پر پابندیاں اپنائیں۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Reetesh Chaurasia via Wikimedia
Image 2: Alex Halada via Getty