۲۰۱۹ میں کونڈکلم میں واقع بھارت کے سب سے بڑے جوہری ری ایکٹرز میں سے ایک کو میل ویئر حملے کا سامنا ہوا جو نا صرف پلانٹ کی فائروال کو عبور کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ مبینہ طور پر ڈیٹا اور انفارمیشن بھی چوری ہوئی۔ گو کہ یہ نقب پلانٹ کے ایڈمنسٹریٹو نیٹ ورک میں لگائی گئی تھی اور یہ اتنی مہلک نہیں تھی جتنا کہ دیگر میل ویئر حملے ہوتے ہیں، مثلاً اسٹکس نیٹ جو انتہائی حساس کمپیوٹر وائرس ہے اور ایران کے نتناز میں واقع جوہری سینٹری فیوجز پر حملے کے سبب معروف ہے، تاہم اس حملے نے دنیا بھر میں جوہری تنصیبات کے حفاظتی اقدامات کے بارے میں سنجیدہ نوعیت کے خدشات پیدا کیے۔ حملے کا الزام گوکہ شمالی کوریا کے ایک گروہ پر عائد ہوا تاہم اس بارے میں افواہیں اور غیر یقینی صورتحال سائبرحملہ آوروں کی نشاندہی سے جڑے چیلنجز نیز خطے میں پہلے سے موجود تناؤ کی کییفیت کو مزید ابتر بنانے میں سائبر حملوں کے ممکنہ کردار کو نمایاں کرتی ہے۔
کونڈکلم پر حملہ نا صرف معاشی سبوتاژ یا بدنیت کرداروں کے ذریعے ڈیٹا چوری کے خطرے کو سامنے لایا بلکہ یہ ریاستی وغیر ریاستی عناصر کی جانب سے سائبر انفرا اسٹرکچر میں موجود کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے اور پاکستان و بھارت کی ان کے سامنے بے بسی کے بارے میں سوالات کو بھی پیش منظر پر لے آیا۔ ۲۱ ویں صدی میں قومی سلامتی سے جڑے خدشات پر اور اس کیلئے پاکستان اور بھارت کی مشترکہ وانفرادی حکمت عملی پر دوبارہ سوچ بچارکے عمل میں یہ سوال بنیادی نوعیت کے ہیں۔ کونڈکلم ایک ایسی گھڑی کی علامت ہے کہ جہاں پاکستان اور بھارت دونوں سائبر کمزوریوں سے براہ راست دوچار ہیں اور جو ہیکنگ کے معمولی خطرات سے کہیں بڑھ کے ہے اور جس کے اثرات سیکیورٹی کے نئے شعبوں تک پھیل جانے کے امکانات ہیں۔ دو تاریخی حریفوں کے درمیان دوطرفہ تعاون بلاشبہ کٹھن ہوگا تاہم چونکہ دونوں ریاستیں جوہری توانائی کے میدان کو وسعت دینا چاہتی ہیں اور سائبر خطروں کے خلاف نظام کی مضبوطی کیلئے کام کر رہی ہیں، ایسے میں ایک دوطرفہ لائحہ عمل جو مستقبل میں درپیش خطرات کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کام کر سکے، اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز) کی جانب اہم قدم ہو سکتا ہے۔
سائبر میدان کی خصوصیات
سائبر سیکیورٹی کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ حکومت کے قومی سلامتی مفادات اور نجی شعبے کے کاروباری مفادات ڈیٹا، معلومات اور مالی وسائل کی چوری کے خوف کی شکل میں یہاں یکجا ہوجاتے ہیں۔ حساس تنصیبات اور ان سے متعلقہ سسٹمز کے لیے موثر سائبر سیکیورٹی کاروباری و قومی سلامتی مفادات کو ایک دوسرے کے ساتھ نہایت باریکی سے یکجا کردے گی۔ سائبر مداخلت اپنے اندر بوکھلاہٹ کی فضا پیدا کرنے اور حساس معلومات کی چوری اور نتیجتاً ان کی فروخت یا ان کے پھیل جانے کا خدشہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستوں کو اپنی تنصیبات کی مادی حفاظت اور سائبر حملوں کیخلاف تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ بھارت اور پاکستان جوہری توانائی کے منصوبوں پر آگے بڑھتے ہوئے معاہدوں پر دستخط اور اپنے شراکت داروں کے ہمراہ تعاون کو آگے بڑھا رہے ہیں، ایسے میں ان مقامات کے محفوظ ہونے کو یقینی بنانے کیلئے دونوں ریاستوں کو اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔
سائبر خطرات ممکنہ اشتعال انگیزی کے نئے خدشات کے ساتھ ساتھ اندازے کی غلطیوں اور غلط تاثر اخذ کرنے کیلئے بھی دروازے کھول دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائبر میدان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا کسی قسم کا تعاون جو اعتماد سازی کے اقدام (سی بی ایم) کے طور پر کام کر سکے، مستقبل میں سائبر حملے کی صورت میں خطرات میں کمی یا ذمہ داروں کے تعین میں مددگار ہوسکتا ہے۔ جوہری تنصیبات پر ہونے والے متعدد سائبر حملے اور ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی کے واقعات اس حد کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جہاں جوہری تنصیبات پر حادثاتی یا دانستہ سائبر رسائی، جوہری تحفظ کے شعبے میں ایک نئی جہت کی شکل اختیارکرچکی ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایسوسی ایشن (آئی اے ای اے) جیسے ادارے جوہری تنصیبات پر سائبر سیکیورٹی میں اضافے کیلئے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کر چکے ہیں تاہم پاکستان اور بھارت کو بھی اپنے اپنے داخلی سلامتی لائحہ عمل کے تحت جوہری توانائی کے منصوبوں کی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ پچاس برسوں میں بارہا ایک دوسرے کے سامنے آنے کے سب پاکستان اور بھارت کے پاس ایک دوسرے سے روابط کے لیے محدود جواز ہیں تاہم چونکہ سائبر شعبہ تیزی سے اہمیت اختیار کر رہا ہے، ایسے میں ایک دوسرے پر یقین یا اعتماد سازی کے لیے کسی قسم کے اقدامات مستقبل کے خطرات میں کمی میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی غیرملکی تکنیکی معاونت اور شراکت داری کے ذریعے زیادہ مضبوط جوہری توانائی کے منصوبوں کیلئے بنیاد رکھ چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں کچھ مشترکہ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں۔ نمایاں بہتری کے باوجود دونوں ریاست اب بھی اندرونی خطرات اور سائبرسیکیورٹی کو لاحق خدشات سے دوچار ہیں۔ غیر ریاستی عناصر کی غیرقانونی سرگرمیاں، اندرونی سطح پر خطرات سے بچاؤ کا کمزور نظام اور سائبر سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا فہم ان چند شعبہ جات میں شامل ہیں جہاں پاکستان اور بھارت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ کونڈکلم واقعے سے ظاہر ہوا کہ ان کمزوریوں کا بھارت پاکستان کی روایتی دشمنی کے اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو چاہیئے کہ وہ آئی اے ای اے کے تربیتی منصوبوں کی معاونت سے ایک مشترکہ تربیتی طریقہ کار وضع کریں تاکہ اپنے سیکیورٹی لائحہ عمل میں سائبر سیکیورٹی میں سقم کے فوری نقصانات کو سمجھا جا سکے۔ ذمہ داروں کا تعین سائبر حملوں سے وابستہ ایک بنیادی چیلنج ہوتا ہے اور اعتماد کی کمی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے سائبر حملے کی صورت میں دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے کا زیادہ امکان ہے، ایسے میں یہ تربیتی منصوبے ناقابل نشاندہی یا کسی تیسرے گروہ کی ایسی سرگرمیاں جو کامیابی کی صورت میں دونوں ریاستوں کے مفادات کے خلاف ہوں، ان کے بارے میں باہمی افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہیں۔
جوہری تنصیبات کو لاحق سائبر سیکیورٹی چیلنجز: کمزوریوں کا تخمینہ
سویلین جوہری تنصیبات بیک وقت اہم معاشی سرگرمیوں کا مرکز اور حساس تزویراتی مقام دونوں ہوتی ہیں۔ ایسی تنصیبات کو چلانے کے لیے بجلی کی ترسیل، جوہری مواد کی نقل و حمل سے لے کے جوہری ری ایکٹرز کی نگرانی کرنے والے سسٹمز تک سروسز کے پیچیدہ سلسلے کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ ایسی معلومات کو رکھنے کے لیے مادی سلامتی نیز مواد کی نقل و حمل کے لیے وسائل کی سرمایہ کاری اور سائبر شعبے سے متعلقہ کاروباری خطرات سے نمٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی نئی اشکال جیسا کہ دہشتگرد تنظیموں کا سویلین تنصیبات کو ممکنہ طور پر نشانہ بنانا، کاروباری و صنعتی جاسوسی، کاروباری چوری اور معلومات کا غیردانستہ طور پر افشاء ہونا جوہری تنصیبات کی فعالیت کو لاحق ممکنہ خطرات ہیں۔ آئی اے ای اے، ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوکلیئر آپریٹرز (وانو) اور روساتم آٹومیٹڈ کنٹرول سسٹمز جیسی عالمی تنظیموں نے جوہری تنصیبات پر حفاظتی اقدامات کو بڑھانے اور وسعت دینے کے لیے روایتی آگاہی سے کہیں بڑھ کے تربیتی منصوبے ترتیب دئیے ہیں۔ وہ ریاستیں جو مزید جوہری توانائی کے منصوبے لگانا چاہتی ہیں یا پہلے سے موجود منصوبوں کو منظم طور پر چلانا چاہتی ہیں لیکن ایسا کرنے کیلئے ان کے پاس معاشی یا تکنیکی صلاحیتیں موجود نہیں، انہیں ایسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تربیتی منصوبوں کے زیر معاونت فہم حاصل کرنے اور پروٹوکولز وضع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت اور پاکستان اپنی اپنی جوہری توانائی کے امکانات کو وسیع کرنے پر کام سے قبل کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے ماضی میں ہونے والی سائبر چوریوں سے اسباق سیکھ سکتے ہیں۔
مزید ری ایکٹرز لگانے کے عمل میں پاکستان اور بھارت کو اس سے جڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ فضلے کو ٹھکانے لگانا، شہری آبادیوں کو آلودہ ہونے، تباہی یا قدرتی آفات سے محفوظ رکھنا، سامان کی حفاظت و سلامتی اور سائبر کمزوریاں جو مستقبل میں تشویش کی ایک وجہ ہوں گی۔ باوجودیکہ چین اور امریکہ بالترتیب پاکستان و بھارت کی معاونت کر رہے ہیں، دونوں ممالک کا سائبر سیکیورٹی انفرااسٹرکچر ابھی نوزائیدہ حالت میں ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے فقط اپنی سائبر سیکیورٹی پالیسیوں کا اعلان کیا ہے اور دونوں پالیسیوں میں جوہری تنصیبات کو لاحق سائبر سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کیلیے بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے پالیسی خاکے یا تو سائبر سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے جوہری تنصیبات کو عمومی طور پر بیان کرتے ہیں یا پھر اس جہت کو یکسر نظرانداز کرتے ہیں۔
سائبر سیکیورٹی خطرات کے حوالے سے مزید ایک چیلنج مناسب ردعمل کا تعین ہے، خاص کر ایسے حملے کی صورت میں جس کے ذمہ دار کا تعین مشکل ہو۔ اگر ایک سائبر حملے کا جواب نامناسب یا غیرمتناسب ردعمل سے دیا جائے تو ایسے میں یہ خطرات سے نمٹنے میں قومی سلامتی کے نظام کی اثرانگیزی پر سوالات اٹھا سکتا ہے یا مستقبل میں مزید استعمال ہونے کے حوالے سے غیریقینی کیفیت پیدا کرسکتا ہے۔ دنیا کی دیگر جوہری تنصیبات کی طرح پاکستان اور بھارت بھی سائبر سیکیورٹی کے ضمن میں چوری یا معاشی طور پر استعمال ہونے، جاسوسی یا کاروباری طور پر استعمال ہونے، اور سبوتاژ یا دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہونے جیسی سائبر سیکیورٹی کی کمزوریوں سے دوچار ہیں۔ غیرریاستی عناصر اور سلامتی کو لاحق روایتی خطرات کی بیک وقت دونوں ممالک میں موجودگی کے باعث سائبر سیکیورٹی کی کمزوریاں اس امر کی متقاضی ہیں کہ پاکستان اور بھارت اپنے قومی سلامتی ڈھانچے کا ایک مشترکہ جائزہ لیں۔
جنوبی ایشیا میں تعاون کے لیے لائحہ عمل: قومی سلامتی میں معاونت
یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت اپنے روایتی حریفانہ کردار سے ہٹ کے کسی سرگرمی کا حصہ نہیں بن سکتے یا نہیں بننا چاہتے، سائبر سیکیورٹی کمزوریوں کے اثرات کا منقطی جائزہ لینے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جیسا کہ کونڈکلم واقعہ نمایاں کرتا ہے کہ جوہری توانائی کے مقامات پر سائبر خطرات جنوبی ایشیا کو لاحق خطرہ ہے جس سے ہر صورت نمٹا جانا چاہیئے۔ اس امر کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کہ دونوں ریاستیں ایک جیسے چیلنجز کا شکار ہیں مثلاً غیر ریاستی عناصر کی مجرمانہ سائبر سرگرمیاں، ایسے میں جوہری سائبر سیکیورٹی خدشات پر ایک دوطرفہ اور معاونت کا حامل فہم دونوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ گو کہ پاکستان کی جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا سائبر حملہ رپورٹ نہیں ہوا ہے تاہم وہ سائبر شعبے سے متعلقہ واقعات کی نمایاں تعداد کا نشانہ بن چکا ہے جس میں تاوان کی خاطر بجلی کی ترسیل کے بڑے نظام کو ہیک کرنا، اور معاشی ڈیٹا سینٹرز پر حملے کے لیے ابلاغ کی محفوظ لائنز کی جاسوسی شامل ہیں۔ چونکہ دونوں ممالک اپنے سائبر سیکیورٹی لائحہ عمل کو بہتر بنانے کے عمل میں ہیں، ایسے میں پاکستان اور بھارت کو ایک مشترکہ سائبرسیکیورٹی پیش رفت کی جانب توجہ دینی چاہیئے۔
پاکستان اور بھارت روایتی سلامتی چیلنجز میں کمی کے لیے سی بی ایمز پر عمل پیرا ہونے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ تاہم ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے ذریعے معلومات کے تبادلے کا باہمی اہتمام جو دونوں جانب معلومات کے تبادلے کا بنیادی اور مستقل ذریعہ ہے، اس کے علاوہ سی بی ایمز کا یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کا ٹریک ٹو یا تیسرے فریق کی معاونت سے سفارت کاری پر انحصار روایتی دوطرفہ تعلقات کی نسبت زیادہ بامعنی ثابت ہوا ہے۔ تاہم روایتی سیکیورٹی کے شعبوں کےبرعکس سائبر سیکیورٹی ، خاص کر غیرعسکری تنصیبات میں پائی جانے والی کمزوریاں ایک ایسے حملے کا خطرہ ہیں جہاں ذمہ داران کا تعین کرنا ممکن نہیں۔ سائبر سیکیورٹی خطرات کے خلاف روایتی دوطرفہ تعلقات شائد اتنے موثر ثابت نہ ہوں کیونکہ ایسی دراندازیاں، حملے اور چوریاں تاوقتیکہ بھرپور تحقیقات کسی نتیجے تک پہنچ جائیں، اس کے ذمہ دارانہ نامعلوم ہی رہتے ہیں۔
یہ امر کہ دونوں ریاستوں کی جانب سے ان کمزوریوں سے ناکافی طرز پر نمٹا جاتا ہے، بذات خود بھارت اور پاکستان کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ مسائل سے دوطرفہ طور پر نمٹنے کیلئے طریقہ کار کا جائزہ لیں۔ ماضی کے زیادہ تر روابط میں تزویراتی مسائل سے نمٹنے کی ہی کوشش کی گئی اور جنہیں دونوں فریقوں کے قومی خدشات کی وجہ سے سختی اور لچک سے عاری صورتحال درپیش رہی۔ تاہم سائبر سیکیورٹی اور نامعلوم کرداروں کے ہاتھوں ہونے والے واقعات، غیر روایتی سلامتی طریقہ کاروں کے لیے ایک کاروباری اور صنعتی نقطہ نگاہ فراہم کرتے ہیں۔ سائبر سیکیورٹی ، خطرات میں کمی اور انہیں دور کرنے کے ساتھ ساتھ سویلین تنصیبات کی ورچوئل سلامتی پر توجہ دیتی ہے جسے ایک دوسرے کے قومی سلامتی طریقہ کاروں پر اثرانداز ہوئے بغیر اور فقط مشترکہ خطرات یا کمزوریوں پر توجہ مبذول کرتے ہوئے مشترکہ طور پر برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے لیے ایک دوطرفہ تعاون کا حامل لائحہ عمل نا صرف کاروباری وصنعتی سلامتی کا ذمہ اٹھاتا ہے بلکہ یہ سلامتی کو غیر روایتی، نامعلوم ذمہ داران کے ہاتھوں پہنچ سکنے والی ٹھیس کو روکنے کیلئے بھی کارآمد ہوتا ہے۔
اس قسم کے مشترکہ تعاون کی ابتدائی سطح پر مشترکہ طور پر سیکھنے کے عمل پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔ سائبر سے متعلقہ امور پر ایک مشترکہ تدریسی و تکنیکی تجزیہ دونوں ریاستوں کے باہمی خدشات پر فہم میں اضافہ کرے گا۔ دونوں ریاستیں، سائبر سیکیورٹی اینڈ انفرااسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی (سیسا) کے تحت تشکیل دیے گئے امریکی ماڈل کو اپناتے ہوئے اپنے موجودہ آفات سے نمٹنے کے اداروں میں وسعت لاتے ہوئے اس میں علیحدہ ایجنسیاں قائم کرسکتی ہیں جو بطورخاص جوہری سائبر سیکیورٹی کو لاحق خطرات سے نمٹیں۔ اس قسم کا انتظام نا صرف پاکستان اور بھارت کے روایتی سلامتی لائحہ عمل جس پر دوطرفہ معاندانہ ماحول کاغلبہ ہے، اس کے دائرہ کار سے باہر ہوگا بلکہ یہ بین الاقوامی متعلقہ کرداروں کو وانو مشن سپورٹ پروگرام کی طرز پر معاونت کی پیشکش کا موقع بھی فراہم کرے گا۔ ایک ایسا مشترکہ فہم جو علمی مباحثے پر اپنی توجہ مرکوز رکھے، دونوں ممالک کے قومی مفادات کو ٹھیس پہنچائے بغیر خطرات کے تجزیے اور موجودہ لائحہ عمل کے سقم میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ معاونت کا حامل ممکنہ تربیتی منصوبہ بین الاقوامی متعلقہ کرداروں کو یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ آئی اے ای اے کی معاونت اور تربیتی منصوبوں کو جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں دیگر ممکنہ سرمایہ کاروں سے یکجا کریں تاکہ سائبر سیکیورٹی، کمپیوٹرسیکیورٹی، ڈیٹا کے تحفظ، فائروال اور چوری کے واقعات، میل ویئر، آئی پیز کی جاسوسی یا غیردانستہ خلاف ورزی اور اس جیسے دیگر واقعات کے بارے میں ادراک میں اضافہ کیا جا سکے۔ ایک علمی مباحثہ اس سلسلے میں ممکنہ اولین قدم ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے لیے ریاست کی جانب سے رسمی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہ جنوبی ایشیا کے سلامتی کے ماحول میں ایک چیلنج ہے۔ یہ علمی مباحثہ بین الاقوامی مداخلت کے لیے ایک بنیاد فراہم کر سکتا ہے، اس موضوع پر موجود علمی مواد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو بہتر بنا سکتا ہے۔
دوسرا درجہ، ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے وسیلے کے بطور کردار کی ادائیگی کیلئے سویلین جوہری انٹرپرائزز کو تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ ایسا وسیلہ دونوں فریقوں کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ وہ سائبر حملوں اور سائبر واقعات سے جڑے خطرات کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ہمہ جہت پلیٹ فارم تیارکریں جہاں وقت کے ساتھ مکالمے کا عمل جاری رہے۔ جس وقت سویلین جوہری انٹرپرائزز بطور وسیلہ کردار ادا کررہی ہوں گی، اس وقت دو طرفہ سی بی ایمز دونوں ریاستوں کی سائبر سیکیورٹی پالیسیوں میں غیر تزویراتی و کاروباری دونوں اعتبار سے پائی جانے والی کمی سے نمٹ سکیں گے۔ سائبر سی بی ایمز سہہ رخی ہوسکتے ہیں۔ پہلے، وہ جو سائبر کمزوریوں کے دوطرفہ ادراک کی معاشی ضرورت سے نمٹ سکیں۔ دوئم، جو خودمختار نظام یا جزوی تابکاری جیسے واقعات میں انسانی سلامتی کے پہلوؤں سے نمٹ سکیں۔ سوئم، ایسی تنصیبات کو سائبر اسپیس میں داخلی و بین الاقوامی سطح پر لاحق ممکنہ کمزوریوں کے بارے میں معلومات یکجا کرنا اور ان کا تبادلہ۔ بھارت اور پاکستان میں جوہری توانائی کے منصوبوں میں وسعت کا مطلب یہ ہے کہ آخرکار نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن جیسے اداروں کو ان کے صنعتی یا کاروباری مفادات کے پیش نظر ایسے اقدامات کی اجازت مل سکتی ہے جو کہ پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی یا انڈین اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کے دائرہ کار سے باہر ہوں۔
تعاون کے تیسرے درجے میں سائبر اسپیس پر ایک مشترکہ ٹاسک فورس کی تشکیل شامل ہوسکتی ہے جو سویلین تنصیبات کو لاحق خطرات کی شناخت اور ان کا خاتمہ کر سکے۔ دونوں ریاستیں اگر اس مشترکہ ٹاسک فورس کو ادارہ جاتی مدد فراہم کریں تو یہ مزید مضبوط کی جاسکے گی جیسا کہ یہ دونوں انڈس واٹرکمیشن کے معاملے میں کر چکے ہیں تاکہ پانی کی تقسیم کے مسائل سے نمٹا جا سکے۔ انڈس واٹرکمیشن کے معاملے میں دونوں ممالک نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ کارکردگی میں کمی تھی اور یہ دونوں باہمی کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ پیش رفت کا حصہ بنے تھے۔ یہ مشترکہ ٹاسک فورس ان امور پر پاکستان اور بھارت کو تاحال حاصل ہونے والے فہم کی بنیاد پر سائبر سیکیورٹی کمزوریوں سے متعلقہ خطرات کے تخمینے پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ چونکہ سائبرخطرات بالعموم نامعلوم افراد کی جانب سے یا بلاعذر ہوتے ہیں یا پھر ان کا مقصد کاروباری و معاشی فائدہ ہوتا ہے، سویلین تنصیبات پر حملے کا قومی سلامتی ردعمل کے لیے محرک ثابت ہونے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم چونکہ مواد کی حفاظت اور سائبر سیکیورٹی بین الاقوامی حفاظتی معیارات سے مطابقت کی فہرست میں اہم ترین عناصر میں سے ایک ہیں، ایسے میں ایسے واقعات حفاظتی خدشات کے گہرائی میں جائزے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ایسے شعبہ جات کی نشاندہی کہ جہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے، پاکستان اور بھارت کے لئے جوہری تنصیبات میں سائبر کمزوریوں کے دوطرفہ مطالعے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی دوطرفہ پیش رفت کے لیے آئی اے ای اے جیسی تنظیمیں معاونت کر سکتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں مشترکہ مطالعہ، ٹریک ٹو ڈائیلاگ اور مشترکہ ٹاسک فورس پر مبنی اس تین مرحلہ جاتی حکمت عملی کو سائبر سیکیورٹی کے میدان کی ہمہ وقت تبدیل ہوتی نوعیت کو ظاہر کرنے کیلیے استعمال میں لا کے اس کا دائرہ کار مزید وسیع کرسکتے ہیں۔ ایسے اقدامات سائبر اسپیس کو لاحق خطرات کے بارے میں نقطہ نگاہ، غیرروایتی قومی سلامتی اور جنوبی ایشیا میں جوہری تنصیبات کی کمزوریوں کے درمیان تعلق کے بہتر ادراک میں بھی حصہ ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت ایسی جوہری تباہی کا بوجھ نہیں برداشت کرسکتے ہیں جو انسانی سلامتی، معاشی بوجھ اور جو اشتعال انگیزی کا ذریعہ بن جائے۔ دونوں ہی ممالک حساس معلومات پر تاوان کی خاطر حملوں، ہیکنگ، تلاشی اور جاسوسی کا شکار نیزحساس تنصیبات کے کاروباری و بنیادی نوعیت کے ڈیٹا کی چوری کے خطرات کی لپیٹ میں ہیں ایسے میں اس معاملے پر باہمی تعاون کا حامل فہم اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ دونوں ریاستوں میں حفاظت کے بین الاقوامی معیار سے مطابقت میں بہتری آئی ہے تاہم سائبر سیکیورٹی اور اندرونی خطرات پر فہم کے حوالے سے پیش رفت اب بھی سستی کا شکار ہے جبکہ یہ وہ مشترکہ میدان ہے کہ جسے اس خطرے کے حوالے سے باہمی فہم (جو اگرچہ معاونت کے ساتھ ہو) حاصل کرنے کیلئے تیار کیا جا سکتا ہے۔ سائبر سیکیورٹی اور قومی سلامتی پر اس کے اثرات اہمیت کے حامل ہیں اور یہ روایتی رقابتوں کے مقابلے میں خود کو زیادہ طاقتور کے طور پر پیش کرنے کیلئے تیار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو ایسے کارآمد حل کی ضرورت ہے کہ جہاں وہ اپنی ان کمزوریوں کو سمجھ سکیں اور آخر کار انہیں دور کرنے کیلئے جدوجہد کرسکیں جو کہ مستقبل میں جوہری توانائی کی پیداوار کے ان کے منصوبوں کی راہ میں حائل چیلنجز کو مزید ابتر بنا سکتی ہوں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: via Pixabay