Secretary_Pompeo_Meets_with_the_Taliban_Negotiation_Team_50632321483-1095×616

Editor’s Note: An English version of this article was originally published on Lawfare and has been republished on South Asian Voices with the permission of the editors.

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد امریکہ نے اس گروہ سے نمٹنے کے لیے دوخطوط پر مبنی رویہ اختیار کیا ہے: جب ممکن ہو دباؤ ڈالا جائے اور جب ضرورت ہو تب مذاکرات کیے جائیں۔ اگرچہ یہ حکمت عملی منطق کے عین مطابق ہے لیکن زمینی حقائق دونوں قسم کی کوششوں کو پیچیدہ کردیتے ہیں۔ دباؤ کی مہم، انخلا کے عمل میں طالبان سے درکار تعاون اور افغانوں کو مزید مشکلات سے بچانے کی کشمکش سے دوچار ہے۔ دریں اثنا، اس گروہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مذاکراتی عمل بھی زیادہ پرآزمائش ہوجاتا ہے۔ پالیسی ساز کیسے ان باہم مخالف اہداف کو متوازن بناتے ہیں، یہ امر آنے والے دنوں میں طالبان کے بیرونی روابط کی راہ متعین کرے گا۔ طالبان کے بیانات کے باوجود ان کی جانب سے اپنے بنیادی مفادات سے پیچھے ہٹنے جانے کا امکان معمولی ہے، ایسے میں باہمی طور پر قبول شدہ محض محدود شرائط پر ہی تعاون کا امکان باقی رہ جاتا ہے۔

عالمی دباؤ کی مہم

امریکی حکام نے انخلاء کے بعد امریکی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے پابندیوں، مالی امداد پر قابو، عالمی شناخت اور مستقبل میں تعاون کی شکل میں واشنگٹن کے باقی ماندہ اختیار کو استعمال میں لانے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ نے طالبان کی مالی وسائل تک رسائی اور ترقیاتی معاونت کو روکنے کیلئے غیرملکی ذخائر، نقد ترسیل، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی امداد اور آمدن کے دیگر ذرائع کاٹ دینے جیسے اقدامات پر مبنی عالمی مہم کی قیادت کی ہے۔ اس کے نتیجے میں طالبان مبینہ طور پر ماسوائے ۰.۱ فیصد کے ملک کے تمام خارجہ ذخائر پر اپنا اختیار کھو چکے ہیں نیز ایک ایسے معاشی نظام پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جو کہ ماضی میں ان کے دور اقتدار کی نسبت کہیں زیادہ پیچیدہ اور ۷۵ فیصد سرکاری اخراجات کے لیے بین الاقوامی معاونت پر انحصار کرتا ہے۔ کسی ملک نے بھی طالبان کی عملی حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا ہے اور امریکہ اور اس کے شراکت داروں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان سے کسی تعلق پر غور سے پہلے محض وعدے نہیں بلکہ عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔

دباؤ کی اس مہم کا مقصد طالبان کی قیادت میں مستقبل کی افغان حکومت کا ڈھانچہ اور اس کے کردار کی تشکیل ہے۔ امریکہ اور عالمی برادری متعدد بیانات جاری کرچکے ہے جس میں انہوں نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے اپنی امیدوں کو بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سیز فائر، آئین کی بحالی، عالمی ذمہ داریوں کی پاسداری، دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ دینے سے اجتناب، سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات اور ایک ایسے ہمہ گیر حل کا مطالبہ کیا ہے جو عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہو۔ گروپ آف سیون اور نیٹو اور اسی طرح کلیدی یورپی شراکت داروں نے بھی ان مطالبوں کو دوہرایا ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آیا طالبان عالمی سطح پر قانونی حیثیت کی خواہش رکھتے ہیں تو صدر بائیڈن اسے اس گروہ کے لیے ایسا ”وجودی بحران“ قرار دیتے ہیں جس میں وہ اپنے بنیادی عقائد اور بین الاقوامی نظام تک رسائی کی ضرورت کو متوازن کر رہا ہے۔

حکومت کے قیام کے لیے فی الوقت طالبان قیادت اور بااثرافغان سیاستدان جن میں سابق صدر حامد کرزئی، سابق سربراہ ہائی کونسل برائے قومی تصفیہ عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار شامل ہیں، ان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان کے ایک ترجمان نے گزشتہ ہفتے تصدیق کی کہ مستقبل کی حکومت کے بارے میں اعلان جلد کیا جائے گا، انہوں نے مزید یہ کہا کہ ”ہماری پوری کوشش ہوگی کہ تمام افغان شامل ہوں۔“ انہوں نے واضح کیا کہ وہ ”شریعت کی رو سے بیان کردہ خواتین کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں،“ سابق حکومت کے حامیوں کے لیے عام معافی کی پیشکش کی اور ”کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف ہماری سرزمین استعمال کرنے کی خواہش رکھنے والوں“ کی سرگرمیوں کو روکنے کا وعدہ کیا۔ ان یقین دہانیوں کے باوجود، گھر گھر تلاشی اور طالبان اراکین کی جانب سے سابق حکومت کے ملازمین اور حمایتیوں کو انتقاماً قتل کیے جانے کی خبریں پہلے ہی سامنے آچکی ہیں۔ ہزاروں افغان ملک سے فرار کی کوشش کی صورت میں اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔

محدود تزویراتی تعاون

اس عالمی مہم کو جو امر پیچیدہ کرتا ہے وہ امریکہ و دیگر کی جانب سے طالبان کے ہمراہ کلیدی ترجیحات پر مل کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ فوری ضرورت غیرملکی عملے اور شہریوں نیز آبادکاری کے خواہشمند افراد کا محفوظ انخلاء ہے۔ طالبان نے جس حیران کن رفتار کے ساتھ ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اس نے واشنگٹن اور دیگر دارالحکومتوں کو افغانستان میں موجود ہزاروں افراد کی محفوظ واپسی کے لیے تیزی سے ہاتھ پیر چلانے پر مجبور کردیا ہے۔ مناسب متبادل موجود نہ ہونے کے سبب امریکہ نے انخلاء کی سہولت کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے اور فی الوقت کابل ہوائی اڈہ جہاں ۶۰۰۰ امریکی فوجی جوان آپریشنز سنبھالے ہوئے ہیں، اس کے اطراف کی حفاظت کے لیے اس گروہ پر انحصار کر رہا ہے۔ گوکہ انخلاء میں سہولت کاری کے معاہدے کی شرائط منظرعام پر نہیں آئی ہیں تاہم امریکی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ مستقبل میں غیرملکی امداد کی بحالی کے لیے طالبان کا تعاون ضروری ہوگا۔

طالبان کی جانب سے امریکیوں کو محفوظ انخلا دینے پر بائیڈن نے حیرت کا اظہار کیا کیونکہ یہ قدم طالبان کی عالمی سطح پر قبولیت کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ یہ انتظام بڑی حد تک امریکی شہریوں کے لیے کیا گیا تھا، طالبان حال ہی میں یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اب افغانوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ گروہ کے ترجمان نے ذہین افراد کے بیرون ملک جانے کے رجحان کی جانب اشارہ کیا اور تعلیم یافتہ افغانوں سے ملک میں رہنے کو کہا۔ بیشک یہ سوچ غیرملکیوں کی واپسی کو محفوظ بنانے کے لیے گروہ کے مجموعی اہداف سے میل کھاتی ہے۔ لیکن طالبان بجائے اس کے کہ پورا تعاون کریں، اپنے وسیع تر اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے مخصوص قسم کا تعاون کر رہے ہیں۔

دوسرا معاملہ جو دباؤ کی مہم کو پیچیدہ کرتا ہے وہ افغانستان کے باقی ماندہ اداروں، اس کی عوام اور وسیع تر علاقے پر اس دباؤ کے اثرات ہیں۔ ملک کے خارجہ ذخائر تک رسائی روک دینے اور معاونت منقطع کرنے پر مبنی امریکی اور عالمی برادری کے اقدامات ایک سنجیدہ معاشی بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ نقدی کی ہرطرف کمی ہوچکی ہے اور قیمتیں ایک ایسے وقت میں بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں جب افغان عدم تحفظ، وبا اور شدید خشک سالی کے اثرات سے پہلے ہی لڑ رہے ہیں۔ طالبان کو ٹیکس، کسٹم ریونیو، منشیات کی اسمگلنگ اور علاقائی ریاستوں جیسا کہ پاکستان اور چین کے ہمراہ اہم معاہدوں کے ذریعے متبادل ذرائع سے رقوم کے حصول کی سہولت حاصل ہے۔ لیکن یہ ریونیو ملک کو عالمی منڈیوں تک پہنچ کھونے سے ہونے والے نقصانات سے نہیں بچا پائے گا۔ دونوں صورتوں میں نتائج بدترین ہوں گے- دباؤ کا عمل جو عوام پر تو معاشی دباؤ ڈالے گی لیکن طالبان کی حکومت اس سے قدرے محفوظ رہے گی۔

طالبان پر دباؤ ڈالنے والی ریاستوں کے لیے ایک اضافی آزمائش یہ سوال ہے کہ انسانی مدد کو آیا برقرار رکھا جائے اور کیسے برقرار رکھا جائے۔ اس قسم کی بیرونی امداد ناگزیر ہے نیز ملک بھر میں شدید ابتری سے دوچار ہونے کے سبب پناہ گزینوں کی تعداد میں مزید اضافے اور وسیع تر خطے میں عدم توازن پیدا ہونے کے خدشے کے پیش نظراس معاونت کی ضرورت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بائیڈن نے انسانی امداد کے ذریعے افغان عوام کی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی امداد فراہم کرنے کیلئے بھرپور کوششوں اور امداد فراہم کرنے والوں کو بلا روک ٹوک رسائی کا مطالبہ کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رسائی بذریعہ طالبان ہونے کے بجائے بیرونی ایجنسیوں کے ذریعے سے ہوگی۔

 اس لائحہ عمل کے تحت کارروائی جاری رکھنے کے لیے بھی طالبان کی منظوری ضروری ہوگی جس کی بناء پر خاص مقامات یا آبادیوں تک رسائی فراہم کرنے کے ضمن میں ان کو برتری ہوگی اور ناجائز فوائد پورے کرنے کا امکان پیدا ہوگا۔ اس سے دباؤ کی مہم کے اثرات بھی اس حد تک مندمل ہوجائیں گے کہ یہ طالبان حکومت کی بعض ناکامیوں پر پردہ ڈالیں گے کیونکہ اس طرح شہریوں کو کم از کم محدود امداد مئیسر ہوگی۔ متحرک حکومت کی غیرحاضری اور پالیسی امور کو ایڈہاک بنیادوں پر چلائے جانے کے سبب خدمات کی فراہمی میں تعطل کے سبب عوامی سہولیات بشمول بجلی اور پانی کی عنقریب کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ انسانی مدد ایسے انتظامی سقم سے نہیں نمٹ سکتی تاہم یہ طالبان کو اس بحران کے پوری طرح سامنے سے بچا سکتی ہے جس کا دوسری صورت میں اس کو سامنا ہوسکتا ہے۔

مستقبل کیلئے راہ

جیسا کہ اب تک واضح ہوچکا ہے کہ امریکہ اور دیگر ہم خیال ریاستوں کے لیے افغانستان میں کوئی آسان راستہ باقی نہیں رہا۔ عروج پاتے طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ کے بیان کی صورت میں عالمی برادری کے مطالبات کو پوری طرح قبول کیے جانے کے بہت کم امکانات ہیں۔ یہ وہی مقاصد ہیں کہ جن پر مبنی نقطہ نگاہ، سیاسی تصفیے کے خواہشمند امریکہ نے دوحہ مذاکرات کے دوران اپنایا تھا اور جسے طالبان نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اب جبکہ طالبان افغانستان کے عملی طور پر حکمران ہیں، ایسے میں وہ اپنی راہ تبدیل کرلیں گے، اس پریقین نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حد تک محدود تعاون جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو، اس کو یکسر مسترد کردیا جائے۔ انخلاء کے عمل کی تکمیل اور انسانی مدد کی فوری ضرورت کے علاوہ انسداد دہشتگردی اور انسداد منشیات میں تعاون وہ شعبے ہیں جو امریکہ کی بیرونی صلاحیتوں کو توانا کرتے ہیں۔

طالبان کے القاعدہ سمیت تنظیموں سے پرانے روابط کو دیکھتے ہوئے انسداد دہشتگردی میں انکی شراکت داری کا امکان دکھائی نہیں دیتا ہے۔ وہ عالمی دباؤ کے باوجود بھی اس گروہ سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں اور تقریباً یقینی ہے کہ وہ ایسا جاری رکھیں گے۔ یاد رہے کہ مستقبل میں دہشتگردی کیخلاف عزائم پر گفتگو کے دوران وہ فروری ۲۰۲۰ میں دوحہ میں امریکہ طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی زبان دہراتے ہیں جس میں انہوں نے ”امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے والے کسی گروہ یا فرد بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے“ کا عزم کیا تھا۔ جیسا کہ لکھا گیا ہے، یہ الفاظ ان گروہوں کو اس وقت تک افغانستان میں رہنے کی جگہ دیتے ہیں جب تک کہ وہ حملے کا ارادہ نہ کرلیں- (یہ معاہدہ) رسمی طور پر امتیاز برتتا ہے لیکن اس کا طالبان فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ ایسے گروہوں کی سرگرمیوں کو روکنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے طالبان نے مبینہ طور پر ان کے ممبران کے ”اندراج اور ان کی نقل و حرکت محدود کرنے“ کا آغاز کیا ہے، البتہ یہ اقدامات اس سطح کے نہیں ہیں کہ جنہیں واپس نہ لیا جاسکے۔

ایسے عزائم اگرچہ دور دور تک قابل بھروسہ نہیں لیکن یہ پھر بھی متبادل سے بہتر ہیں۔ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ دہشتگردی کیخلاف پورے افق پر نگاہ رکھنے کی اپنی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ طالبان پر یہ واضح کردے کہ کسی بھی حملے کے افغانستان سے تعلق ہونے کے سنگین نتائج ہوں گے۔ واشنگٹن کو طالبان کے ہمراہ اپنے مشترکہ مخالف دولت اسلامیہ خراسان (آئی ایس کے پی) کے خلاف محدود تعاون پر غور کرنا چاہیئے۔ اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ یہ گروہ طالبان اور وسیع تر خطے کیلئے ایک خطرہ ہے، اس کیخلاف آپریشن میں کامیابی کے امکانات بہ نسبت ان تنظیموں کے خلاف آپریشن سے زیادہ ہیں جو طالبان کے ہمراہ نظریاتی اتفاق رکھتی ہیں۔ درحقیقت آئی ایس کے پی کے خلاف مشترکہ خاموش آپریشنز پہلے سے ہی جاری ہیں اور یہ اس ضمن میں ایک نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ امریکہ ضروری فضائی نگرانی کی سہولت کو برقرار رکھنے کا اہل اور اس کا خواہش مند ہے۔

 دوسرا معاملہ جس پر امریکہ اور طالبان مشترکہ دلچسپی رکھتے ہیں، وہ انسداد منشیات ہے۔ طالبان کے ترجمان نے بطور خاص ایک ایسے شعبے کے طور پر اس جانب توجہ دلوائی جس میں اسے متبادل فصلوں کی فراہمی کی شکل میں ”عالمی معاونت کی ضرورت“ ہے تاکہ افغانستان کو ”منشیات سے پاک ملک“ بنایا جاسکے۔ یہ ہدف اگرچہ مبالغہ آمیز ہے لیکن یہ ہدف طالبان کے گزشتہ دور حکومت میں منشیات کی پیداوار کیخلاف کریک ڈائون سے میل کھاتا ہے۔ گروہ اگرچہ منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ سے فی الوقت وصول ہونے والے ریونیو کو مدنظر نہیں رکھتا ہے تاہم یہ اس کے نفاذ کو پرآزمائش بناسکتا ہے۔ یہ حقیقت کہ یہ گروہ امریکی اور دیگر علاقائی ریاستوں کے مفادات سے مطابقت رکھنے والے ایک مسئلے پر عالمی معاونت کی بھرپورخواہش رکھتا ہے، بہرحال یہ تجویز کرتا ہے کہ تعاون بین الاقوامی برادری کی جانب سے درکار وسائل کی سرمایہ کاری تک وسیع کیے جانے کے قابل ہے۔ اگر یہ واضح ہوجائے کہ ان اپیلوں کا مقصد محض معاونت کے لیے رقوم کا حصول ہے اور یہ طالبان کے عمل سے میل نہیں کھاتی ہیں تو ایسے میں ان کوششوں کو ترک کردینا چاہیئے۔

ان محدود اہداف کے علاوہ امریکہ اور عالمی برادری زیادہ سے زیادہ جس کی امید کرسکتے ہیں وہ دباؤ اور روابط کے درمیان کٹھن توازن قائم کرنا ہے۔ طالبان کے بدترین رجحانات کو لگام ڈالنے کے لیے مناسب دباؤ برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی آبادی کو کچھ سہولیات دینے کیلئے درکار معاونت کی پیشکش کے ذریعے متعلقہ ریاستیں افغانستان کے مستقبل کے لیے بہترین لائحہ عمل ترتیب دے سکتی ہیں۔ پاکستان، چین اور روس کی جانب سے گروہ سے تعلقات کو رسمی شکل دینے کی عین ممکنہ صورت میں یہ نقطہ نظر اور بھی پرآزمائش ہوجائے گا اور ایک اہم ہدف کی خاطر ایک مشترکہ عالمی موقف کو جس حد تک ممکن ہو، برقرار رکھنے کی جانب توجہ دلوائے گا۔ واشنگٹن کو طالبان سے تعلق رکھنے والے ممالک، اولاً پاکستان پر بھی دباؤ ڈالنا چاہیئے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے سرخ لکیر طے کرے اور ان نتائج کو بیان کرے جو اس کی خلاف ورزی کی صورت میں ہوں گے۔ انسداد دہشت گردی اور انسداد منشیات کیخلاف محدود تعاون کے ساتھ ساتھ یہ نقطہ نگاہ امریکہ اور اسکے شراکت داروں کو یہ موقع دے گا کہ وہ افغانستان میں اپنے کلیدی مفادات برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ جانچ سکیں کہ آیا طالبان اپنے الفاظ پر قائم رہتے ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Wikimedia Commons

Image 2: U.S. Institute of Peace via Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles