۲۰۲۰ میں جب کووڈ ۱۹ کی وبا بے قابو ہونے لگی تب ہی معمولی سی امید ابھرنا شروع ہوئی۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے ویکسین کی تیاری کے لیے تعاون کیا اور فائزر، موڈرنا اور آکسفورڈ-ایسٹرازینکا کی تیار کردہ ویکسینزسمیت متعدد امیدوار میدان میں آئے۔ گوکہ اس ضمن میں واقعات کی ترتیبِ ظہور خاصی تیز رفتار تھی تاہم سرکاری سطح پر بھاری سرمایہ کاری جیسا کہ امریکہ میں آپریشن وارپ سپیڈ نے اس امر کو یقینی بنایا کہ وبا پھوٹنے کے ایک برس کے اندر اندر ویکسین سامنے آجائے؛ جو کہ کسی ویکسین کی معمول کی تیاری کیلئے معینہ مدت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتار ہے۔
بھارت اگرچہ ابتدا میں کی گئی تحقیق اور پیداوار کیلئے کوششوں کا حصہ نہیں تھا تاہم یہ امر پہلے سے طے شدہ تھا کہ آخرکار ویکسین کی تیاری اور پیداوار میں اس کا بڑا حصہ ہوگا۔ بھارت ”دنیا کا دوا خانہ“ کے طور پر جانا جاتا ہے اور پوری دنیا کی تقریباً ساٹھ فیصد ویکسینز تیار کرتا ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا بھی بھارت میں ہے جو دنیا میں ویکسین کا سب سے بڑا تیارکنندہ ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ نے آکسفورڈ-ایسٹرازینکا اور نوواویکس سمیت ویکسین تیار کرنے والے اداروں سے متعدد معاہدے کیے ہیں۔ آکسفورڈ-ایسٹرازینکا کے ساتھ کوویشیلڈ کی ایک ارب خوراک تیار کرنے کے معاہدے پر دستخط کے بعد سیرم انسٹی ٹیوٹ کے سی ای او آدر پوناوالا نے اعلان کیا کہ خوراک بھارت اور دنیا کے مابین برابر برابر تقسیم ہوگی۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ کے دنیا بھر کو ویکسین فروخت کرنے سے بھارت کو یہ موقع میسر آیا ہے کہ وہ دنیا کو ویکسین لگائے جانا یقینی بنانے میں تعمیری کردار ادا کرے۔ خاص کر ایسے میں کہ جب زائد آمدن کے حامل ملک سب سے پہلے اپنے شہریوں کی دیکھ بھال پر توجہ دے رہے ہیں۔ نیز، چونکہ بھارت کا قریبی پڑوس میں چین کے ساتھ مقابلہ ہے تو وہ چین کے اثرورسوخ میں کمی کیلیے لائحہ عمل کے طور پرویکسین کو موثرطور پر استعمال کرسکتا ہے۔
بھارت کی ویکسین ڈپلومیسی معرض وجود میں
تیاری کے معاہدے کے علاوہ پوناوالا نے گلوبل الائنس برائے ویکسین اینڈ امیونائزیشنز (گیوی) اور اس کے تحت کوویکس کو ۱۰۰ ملین ویکسیینز فراہم کرنے کے لیے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ہمراہ ۱۵۰ ملین ڈالر مالیت کے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ یہ سہولت کم اور درمیانے درجے کی آمدنی والے ۹۲ ممالک کو فائدہ پہنچائے گی۔ یہ ایک انتہائی موثرپیغام تھا جو بھیجا گیا، خاص کر اس لیے کہ اس وقت امریکہ نے کوویکس ویکسین انیشی ایٹو میں شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ مزید براں، اس نے انسانیت کیلئے مسلسل بھارتی کاوشوں کو اجاگر کیا نیز یہ دنیا بھر کو ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے میں اس کے کردار کا اعتراف بھی ہے۔
تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جنوری ۲۰۲۱ میں جھانکیں تو عالمی سطح پر ویکسین فراہمی کیلئے کوششوں میں بھارت کی اہمیت عیاں ہے۔ جیسے ہی ۱۶ جنوری کو بھارت میں داخلی سطح پر ویکسین لگانے کی مہم شروع ہوئی تو ملکوں کی کثیرتعداد نے اس سے ویکسین کیلئے پوچھنا شروع کردیا۔ اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ بھارت نے جولائی ۲۰۲۱ تک اپنے ۳۰ کروڑ شہریوں کو ویکسین لگانے کا بڑا ہدف مقرر کیا تھا، وزیراعظم نریندر مودی کیلئے ویکسین کی برآمد پر روک تھام سیاسی لحاظ سے آسان ہوسکتی تھی۔ تاہم جیسا کہ بھارت سے ہائیڈراوکسی کلوروکوئین کی برآمد میں دیکھا گیا تھا، بھارت عالمی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں کی ضرورت دونوں کو نبھا رہا ہے۔ اس کے جہاں کاروباری فوائد ہیں، وہیں ویکسین ڈپلومیسی بھارت کے بیرونی دنیا میں بطور سافٹ پاور تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے وزیراعظم مودی کی کوششوں کا تسلسل بھی ہے۔
مزید براں کم آمدنی والے ممالک کوویشیلڈ ویکسین کو زیادہ آسانی سے سنبھال سکتے ہیں۔ فائزر اور موڈرنا کی تیار کردہ ویکسین کو انتہائی سرد ماحول میں بالترتیب منفی ۷۰ ڈگری سینٹی گریڈ اور منفی ۲۰ پر محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس، کوویشیلڈ کو فقط ۲ سے ۸ ڈگری سینٹی گریڈ پر محفوظ کیا جاسکتا ہے، جو کہ ان ممالک جہاں سرد خانوں کے نظام کی کمی ہے، ان کیلئے اسے زیادہ قابل استعمال بنادیتی ہے۔
سب سے پہلے پڑوسی یعنی سب سے پہلے ویکسین
بھارت میں ویکسین لگانے کی مہم شروع ہونے کے بعد جلد ہی وزارت برائے خارجہ امور نے ویکسین میتری مہم کا اعلان کردیا جس کے تحت بھارت نے کوویشیلڈ کی خوراکیں افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، ماریشس، میانمار، نیپال، سیشیل اور سری لنکا کو عطیہ کی ہیں۔ اس ابتدائی عطیے کے بعد سے بھارت عمان کو بھی ٹیکے بھیج چکا ہے اور متعدد کیریکوم ممالک کو بھی ارسال کرے گا۔ ان عطیات کے علاوہ سیرم انسٹی ٹیوٹ کم آمدن والے ممالک کو کم قیمت پر ٹیکے فروخت کررہا ہے اورمتعدد ممالک نے بھارت میں تیار ہونے والی ویکسین کی خریداری کیلئے معاہدے کیے ہیں جن میں بنگلہ دیش، بحرین، برازیل، مراکش، منگولیا، میانمار، نکاراگوا، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ بھارت نے سب سے پہلے اپنے قریبی پڑوسیوں پر توجہ دی؛ وہ خطے میں اپنے اثرورسوخ کیلئے چین کے ساتھ مسلسل برسرپیکار ہے اور مودی نے ”سب سے پہلے پڑوسی“ کی پالیسی کو ترجیح دی ہے۔ جہاں چین اپنی ویکسین ڈپلومیسی کی کوششوں کے ذریعے دوسروں پر سبقت لے جانے پر نگاہ رکھے ہوئے ہے، وہیں بھارت بدستور بہت سے ممالک کی ترجیح بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ چین کی تیار کردہ کچھ ویکسینز کے موثر ہونے کے بارے میں موجود خدشات ہیں؛ حال ہی میں چین کی بائیوفارماسوٹیکل کمپنی سائنوویک کی تیار کردہ ویکسین کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ کورونا وائرس کیخلاف فقط ۵۰.۴ فیصد موثر ہے نیز تجربات کے اعداد وشمار کی شفافیت پر بھی سوالات موجود ہیں۔ یہ آکسفورڈ-ایسٹرازینکا ویکسین کے برخلاف صورتحال ہے، جو کہ ۹۰ فیصد موثر پائی گئی تھی اور اس کے فیز تھری کے تجرباتی مرحلے کے اعداد وشمار شائع ہوئے تھے۔
مزید براں، بھارت نے ویکسینز عطیہ کی ہیں جبکہ اس کے برعکس چین نے کوشش کی ہے کہ بعض ممالک ویکسین کیلئے متعین قیمت ادا کریں۔ مزید یہ کہ بھارت عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیوایچ او) کی منظور کردہ ویکسین پیش کررہا ہے جو کہ سری لنکا جیسے ممالک جہاں ویکسین کے تجربات کرنے کیلئے ادارہ جاتی صلاحیتوں کی کمی ہے تاہم وہ اب بھی وبا سے نمٹ رہے ہیں، ان کے لیے اہم ہے (کوئی بھی چینی ویکسین ڈبلیو ایچ او کی جانب سے تاحال منظور نہیں کی گئی ہے)۔
بھارتی سفارتی کوششوں کا روشن مستقبل
کوویشیلڈ کے علاوہ دو اور ویکسینز پر بھی کام جاری ہے جو کہ بھارتی سفارتی کوششوں کو فائدہ پہنچائیں گی۔ ان میں سے پہلی کوویکسن ہے جو کہ بھارت بائیوٹیک کی تیارکردہ بھارت کی مقامی ویکسین ہے۔ بھارت میں اسے ہنگامی استعمال کی اگرچہ اجازت مل چکی ہے تاہم تیسرے فیز کے تجربات کے اعداد وشمار کی کمی کی وجہ سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ ویکسین غیر موثر ہونے کے خدشات کے باوجود بھی بھارت آتمانربھر بھارت مہم (خودانحصاری) کے نام پر ویکسین میں خودانحصاری کو فروغ دے رہا ہے۔ تاہم اگر فیز تھری تجربات کے اعداد و شمار میں تاثیر اعلیٰ سطح پر پائی گئی تو ایسے میں یہ بھارتی سفارتی ترکش میں ایک اور تیر ثابت ہوگی۔
اسی طرح حالیہ انکشاف کہ برطانیہ میں نوواویکس کی ویکسین فیز تھری کے تجربات میں ۸۹.۳ فیصد موثر پائی گئی اور ۹۰ فیصد کے قریب موثر ہونا بھارت کے لیے نیک شگون ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ، نوواویکس کے ہمراہ اس ویکسین (کوواویکس) کی دو بلین خوراکیں تیار کرنے کیلئے شراکت داری کرچکا ہے اور اس نے پہلے ہی سال رواں کے دوسرے نصف میں فلپائن کو ۳۰ ملین ویکسینز فراہم کرنے کیلئے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ مزید ویکسینز کے موثر ثابت ہونے سے بھارت بھی اپنی ویکسین میتری مہم کو پھیلانے اور باقی کی دنیا کو مزید ویکسینز عطیہ/ فروخت کرنے کی حیثیت میں آجائے گا۔ اورچونکہ سیرم انسٹی ٹیوٹ اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھا رہا ہے، اس لیے مزید ویکسینز بھی دستیاب ہو سکیں گی۔
بھارت کی ویکسین خرید کے انہیں قریبی پڑوسیوں کو عطیہ کرنے پر آمادگی اور گیوی اتحاد سے جڑی بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں نیز ویکسین برآمدگی کی اجازت دینا امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین اور دیگر زیادہ آمدنی والے ممالک سے یکسر مختلف ہے جنہوں نے اپنے شہریوں کی تعداد سے کہیں زیادہ خوارکیں محفوظ کرلی ہیں۔ یہ وزیرخارجہ ایس جے شنکر کی قیادت میں بھارت کی خارجہ پالیسی کے مسلسل ارتقاء کا مظہر ہے جس کے تحت انہوں نے بھارت کے معمول کے شراکت داروں سے ہٹ کے دیگر ممالک تک رسائی کو ترجیح بنایا ہے؛ یہ بلاشبہ ان کی کوششوں کیلیے نمایاں نیک نامی کا باعث ہوگا۔ جیسا کہ جے شنکر کہہ چکے ہیں کہ ”عالمی سطح پر ہمارے روابط کی جو سطح اور شدت ہے، فقط کچھ برس پہلے تک اس قسم کی صورتحال سے دوچار کسی دوسرے کے لیے اس کا ادراک بھی مشکل ہوتا۔“
بھارت ابھی اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کے مرحلے میں ہے، ایسے میں دیگر ممالک کو کووڈ ۱۹ ویکسین کی پیشکش پر ممکنہ ردعمل کا شرطیہ خطرہ ہے لیکن تاحال بھارت کے اندر اس پیشکش کے حوالے سے محدود ردعمل سامنے آیا ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم مودی نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے حالیہ خطاب میں کہا کہ ”بھارت نے بحران کی اس گھڑی میں ہزاروں برس پرانی دعا सर्वे सन्तु निरामया یعنی کہ پوری دنیا صحت مند رہے پر عمل پیرا ہوکے اپنی عالمی ذمہ داری پوری کی ہے۔ فی الوقت ”بھارت میں تیار کردہ“ فقط دو کرونا ویکسینز ہیں، لیکن آنے والے دنوں میں بہت ساری ویکسینز آئیں گی۔ یہ ویکسینز دیگر ممالک کو زیادہ بڑے پیمانے اور زیادہ تیزی سے سہارا دینے میں ہماری مدد کریں گی۔“
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Ministry of Health and Family Welfare, India via Press Information Bureau