5330401479_2d754ffc96_o-1095×616-1
People displaced by the 2010 flooding in Pakistan collect clean drinking water from a tapstand in the town of Ghari Kharo, in western Sindh Province. UKaid funding from the British government’s Department for Intrernational Development is helping the NGO Mercy Corps deliver clean water and sanitation facilities to over 160,000 people in Sindh, as they return home to destroyed houses and partially flooded communities and agricultural land. In some parts of Sindh the water may take many months more to fully drain away, despite the flooding originally occuring in August and September 2010. More than 20 million people were affected across Pakistan, making the flooding possibly the single biggest humanitarian crisis the world has ever seen.

فروری ۲۰۲۳ میں پاکستان آنے والا آئی ایم ایف کا مشن، اپنے پروگرام کے لیے نویں جائزے کی تکمیل کے لیے تیار تھا، جو کہ دسمبر ۲۰۲۲ سے موخر ہو رہا تھا۔ اسٹاف لیول پر دستخط پانے والے معاہدے سے قبل مذاکرات سے ظاہر ہوا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ قلیل المدتی معاشی پیداوار اور سیاسی نیک نامی کے بجائے طویل دورانیئے میں میکرواکنامک استحکام کو جگہ دینے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد بھی معیشت کو بادِ مخالف کے سامنا جاری رہے گا، جس سے معاشی سختیوں کے لیے آئی ایم ایف کو مورد الزام ٹھہرانے کی فضاء قائم ہو گی اور پاکستان کو مختصرالمدتی نقصان پہنچانے والے امریکی اجارہ داری کے منصوبوں کو تقویت ملے گی۔ اس سب کے باوجود، توقع ہے کہ پاکستان لیت و لعل کے ساتھ کام لیتے ہوئے ۲۰۲۴ کے آغاز میں آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام میں داخل ہو جائے گا۔ یہ کہانی پاکستان کے لیے اور آئی ایم ایف کے ہمراہ اس کے تعلقات کے لیے نئی نہیں۔

پاکستان کی معیشت: مالی سال ۲۰۲۲ میں پیش رفتیں

فروری ۲۰۲۲ میں پاکستان میں مضبوط معاشی پیداوار کا چکر شروع ہونے کے بعد، پاکستان کی درآمدات آسمان سے باتیں کرنی لگیں۔ مالی سال ۲۰۲۲ میں، ملک نے ۸۰ بلین ڈالر کی درآمدات کیں جبکہ اس کی برآمدات ۳۱ بلین ڈالر پر بدستور موجود رہیں۔ غیر ملکی زر مبادلہ کی اضافی ضرورت نے پاکستانی روپے پر دباؤ ڈالا جو باقی کے مالی سال ۲۰۲۲ اور مالی سال ۲۰۲۳ کے پہلی دو سہ ماہیوں کے دوران مسلسل اپنی قدر کھوتا رہا۔ روپے کی قدر میں کمی سے قرضوں کی واپسی مزید مہنگی تر ہو گئی جس سے قرضے کا بحران پیدا ہوا جس نے ملک کو دیوالیہ ہونے کی نہج پر پہنچا دیا۔ پاکستان، سری لنکا اور مصر، وہ تین ممالک جو ۲۰۲۲ کے دوران دیوالیہ پن کے ریڈار پر موجود تھے، ان تمام کو حکومتی محصولات کا ۴۰ فیصد قرضوں پر لیے گئے سود کی ادائیگی میں دینا پڑ رہا تھا۔ آخر کار سری لنکا مئی ۲۰۲۲ میں یہ سرخ لکیر پار کر گیا اور اس نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔

اپریل ۲۰۲۲ میں جب اتحادی حکومت قائم ہوئی تھی، تب ایک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت ۱۸۰ روپے کے لگ بھگ تھی۔ یوکرین پر روسی حملہ اسی وقت ہوا تھا اور بہت سی ابھرتی ہوئی اور فرنٹیئر مارکیٹس تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ مضبوط معاشی پیداواری چکر سے گزرنے کے باوجود بھی پاکستان میں مہنگائی کی شرح بلند رہی اور شرح نمو کے تین فیصد رہنے کی توقع کی گئی- لیکن معیشت نے پریشانی کی علامات ظاہر نہیں کیں۔ 

تاہم جولائی ۲۰۲۲ تک، غذائی اجناس اور ذرائع توانائی کی مہنگائی، دونوں ۲۰ فیصد کو چھو رہے تھے جبکہ پاکستان ایک ایسے مالی سال میں داخل ہو رہا تھا کہ جہاں اس پر دو طرفہ، کثیر الفریقی اور کاروباری قرض دہندگان کو قرضوں کی واپسی کے مد میں ۳۰ بلین ڈالر سے زیادہ ادا کرنا تھا۔ اس کے سرکاری غیر ملکی خارجہ ذخائر میں تیزی سے کمی آئی اور یہ ۸ بلین ڈالر سے کم رہ گئے اور نومبر ۲۰۲۲ میں اگلی قسط کی واپس ادائیگی تک اسی سطح پر رہے۔

پاکستان پر نافذ شدہ پیشگی اقدامات: آئی ایم ایف کی دلچسپی کے متغیرات

عام طور پر آئی ایم ایف پروگرامز وصول کنندہ ممالک کے معاشی منتظمین سے ایسی پالیسی اپنانے کا تقاضہ کرتے ہیں جو میکرواکنامک سطح پر استحکام لائیں تاکہ معیشت کی ساخت میں موجود مسائل کو حل کیا جا سکے۔آئی ایم ایف نے جہاں پاکستان کے معاملے میں بھی یہی سوچ اپنائی، وہیں سیاست دانوں اور ملک میں میکرواکنامک منتظمین کے لیے ان پالیسیوں کا نفاذ باعث آزمائش ثابت ہوا۔

آئی ایم ایف کا پہلا مجوزہ پیشگی ایکشن شرح تبادلہ کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق آزاد چھوڑنا تھا جس پر بعض پالیسی سازوں نے مارکیٹ میں پہلے سے موجود سقم جو ڈالر کو افواہوں کی بنیاد پر یرغمال بنا لیتے ہیں، ان کی بناء پر اس پر اعتراض کیا۔ مارچ ۲۰۲۳ تک، روپیہ جنوری ۲۰۲۲ میں اپنی قدر کے مقابلے میں ۳۸ فیصد قدر کھو چکا تھا اور جنوری ۲۰۲۳ تک اس میں اضافی۱۹.۶ فیصد کمی آ گئی تھی۔

دوسرے پیشگی اقدام نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا۔ پاکستان نے جنوری ۲۰۲۳ میں ۱۳ فیصد کے مقابلے میں شرح سود میں ۲۰ فیصد تک اضافہ کر لیا، اس کے باوجود مہنگائی میں اضافہ جاری رہا۔ کھانے پینے کے اجزاء کی مہنگائی فروری ۲۰۲۳ میں ۴۰ فیصد سے زیادہ بڑھ گئی جو اس بات کی جانب اشارہ دیتا ہے کہ غذائی طلب معیشت میں دستیاب نقد کی مقدار سے آزاد ہو کر سفر کر رہی ہے۔

تیسرے پیشگی اقدام کا مقصد اضافی ٹیکسز کے ذریعے محصولات کے مد میں ۶۰۰ ملین ڈالر جمع کرنا تھا۔ حکومت نے ایک ضمنی بجٹ منظور کیا جس میں جنرل سیلز ٹکس کو ۱۸ فیصد تک بڑھانے جیسے معاشی اقدامات شامل تھے تاکہ مالی ہدف پورا کیا جا سکے۔ یہ اقدامات سخت عوامی غم و غصے کا سبب بنے کیونکہ اس سے بجلی، گیس اور پٹرول کی مقامی قیمتیں تیزی سے بڑھ گئیں۔ غربت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا حل بی آئی ایس پی کو ذریعے کے طور پر استعمال کرنا ہے تاکہ غریب افراد کو نقد کی فراہمی کے ذریعے بڑھتی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ایک اور متنازعہ نکتہ وسیع اور پھیلتا ہوا گردشی قرضہ ہے جو کہ صارفین کی جانب سے وصولیوں کی شرح میں کمی کی وجہ سے توانائی کے شعبے میں اکھٹا ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی کی پیداواری کمپنیوں کو عدم ادائیگی اور کم ادائیگیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ عدم ادائیگیوں کا نتیجہ ۹ بلین ڈالر کے قریب کے گردشی قرضہ اکھٹا ہونے کی صورت میں نکلا ہے جو ریاست کی پہلے سے دباؤ کا شکار مالی حالت کو مزید دباؤ میں لاتا ہے۔ اپنی ماضی کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے، آئی ایم ایف نے سسٹم میں موجود قرضوں کے ڈھیر کو نظر انداز کرتے ہوئے گردشی قرضے کے بہاؤ کو کم کرنے پر زور دیا۔ فنڈز کے نقطۂ نگاہ سے رقوم کا پیچھا کرنے کے ضمن میں ریاست کی مالی حیثیت بہت کمزور تھی، لہذا اس نے بڑھتے ہوئے قرضوں سے بچنے کے لیے دستیاب مالی گنجائش کو استعمال کرنا چاہا۔

یہ پیشگی اقدامات اگرچہ پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے انتہائی اہم ہیں تاہم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آئی ایم ایف کی مجوزہ اصلاحات ہر گزرتے جائزے کے ساتھ مقامی حالات اور معیشت کی حرکیات سے دور سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کی سیاسی قیمت یہ ہے کہ سیاست دانوں کو عوامی ناپسندیدگی کا سامنا ہے جہاں انہیں عوام کی جانب سے مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ فنڈز سے کیے گئے اپنے وعدے سے مکر جائیں۔ سیاسی یو ٹرنز اعتماد کی خلیج کو مزید گہرا کرتے ہیں اور آئی ایم ایف کے ہمراہ معاہدے پر دستخط کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں جس کا اظہار حالیہ مہینوں کے دوران التواء کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

آئی ایم ایف سے موجودہ مذاکرات کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات یہ تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان کو میکرواکنامک آزمائشوں کا سامنا جاری رہے گا اور اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ فنڈز کا دروازہ دوبارہ کھٹکھٹائے۔ اس کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ آخر کار ادارہ ملک کو بچانے کے لیے میدان میں آئے گا اور مختصر المدتی دورانیے میں چیلنجز حل ہو جائیں گے۔ تاہم پاکستان کو مستقبل کے پروگرامز میں میکرواکنامک بے یقینی کے ادوار دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کے لیے ردعمل

آئی ایم ایف دیرپا استحکام کی خاطر مختصر دورانیے میں نقصان اٹھانے پر زور دیتا ہے۔ پاکستان میں سیاست دانوں کے پاس اس پروگرام میں رہنے کے لیے ایسی صورتحال میں بہت معمولی ترغیبات رہ جاتی ہیں کہ جب بعض مہنگی اصلاحات اقتدار میں ان کے دورانیے سے کہیں زیادہ طویل وقت کے لیے ہوتی ہیں۔ مختصر دورانیئے میں مہنگائی، سخت معاشی اقدامات اور اضافی ٹیکس وہ غیر معروف اقدامات ہیں جو موجودہ حکومت کے سیاسی سرمائے کو داؤ پر لگانے کا خطرہ رکھتے ہیں جو اقتدار میں ایک سال کی مدت کے لیے آئی تھی۔ لہذا سیاسی مہم جوئی حکومت کو وہ اصلاحات بھی منقطع کرنے کی جانب ترغیب دلاتی ہے جو ضروری پالیسیوں کے ضمن میں مقامی پس منظر سے مطابقت رکھتی ہیں، جو اکثر اسے آئی ایم ایف کے مخالف کھڑا کر دیتی ہیں۔

پاکستان میں آئی ایم ایف بڑی حد تک سیاست کی نظر ہو چکا ہے، جس کی ایک وجہ حکومت کا اپنی ناکامیوں کا بوجھ آئی ایم ایف کے کندھے پر ڈالنا ہے۔ ابتداء میں موجودہ حکومت نے دو طرفہ قرض دہندگان سے معاہدوں میں کامیابی کے ذریعے آئی ایم ایف سے نمٹنے سے گریز کی توقع کی تھی۔ تاہم دو طرفہ معاہدوں کے امکانات اس وقت معدوم ہو گئے جب ممکنہ قرض دہندگان نے سرمایہ کاری کو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی معیشت کے تیکنیکیی جائزے سے مشروط کر دیا۔ ایسے میں حکومت اس وقت بہت تیزی کے ساتھ اپنی سیاسی ساکھ کھونے کے خطرے سے دوچار ہو گئی کہ جب اگر وہ ایسی مالی انتظامات کرنے کے قابل نہ ہوتی جو ملک کو فوری دیوالیہ ہونے سے بچا سکتے۔

آئی ایم ایف کے جائزے میں التوا کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ نے یہ دعوی شروع کر دیا کہ فنڈ امریکہ کے زیراثر تھا اور یہ کہ امریکہ پاکستان کو دیوالیہ پن کی جانب دھکیل رہا تھا تاکہ چین پر اسے بچانے کے لیے میدان میں اترنے پر مجبور کرنے کی صورت میں زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے۔ ان کہانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے اقتدار سے برطرف ہونے والے وزیراعظم عمران خان نے امریکہ مخالف مضبوط بیانیہ تیار کیا۔ وزیراعظم خان نے زور دیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے جہاں جنوبی ایشیا کو تنہائی میں دھکیلنے کی پالیسی اپنائی ہے، وہیں وہ پاکستان میں ‘رجیم چینج‘ کی سازش کے پس پشت ہے۔ اس بیانیے کو عوام کی جانب سے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا جنہوں نے آئی ایم ایف پروگرام میں التوا کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی امریکی سازش کے حصے کے طور پر دیکھا۔ یہ بیانیہ فنڈ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی سیاست بازی، ادارے کا کردار عوام کی نظروں میں مشتبہ ہونے اور سماج میں اس کی بدنامی کا موجب ہوا۔

مستقبل کی راہ: فنڈز کے ساتھ روابط جاری رکھنا

مارچ ۲۰۲۳ کے اختتام پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ۴ بلین ڈالر سے کچھ زیادہ تھے، جو محض ۱۵ دن کی درآمدات کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے دوران معاشی نمو کے ایک سے دو فیصد کے درمیان رہنے کے سبب ملک کا پیداواری منظرنامہ تاریک دکھائی دیتا ہے۔ درآمدات پر پابندیوں نے یہ یقینی بنایا ہے کہ درآمدات کو قابو میں رکھا جائے جو اگرچہ برآمدات کے لیے کوئی بھی بامعنی نتیجے کا سبب نہ ہونے کے باوجود موجودہ اکاؤنٹ خسارے میں ظاہری بہتری کا باعث ہیں۔ گزشتہ سال کے ۱.۹ بلین ڈالر کے موجودہ اکاؤنٹ خسارے کے مقابلے میں، دسمبر ۲۰۲۲ کے دوران پاکستان کا موجودہ اکاؤنٹ خسارہ سکڑ کر ۴۰۰ ملین ڈالر رہ گیا تھا۔

آئندہ ایک برس کے دوران دو پیش رفتیں پاکستان کی معیشت پر اثرانداز ہونے کا امکان رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک اس سال کے اختتام پر ہونے والے انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام ہے۔ حکومت، منڈیوں میں استحکام کی واپسی کی منتظر ہے اور انتخابات کو کم از کم بھی ۲۰۲۳ کی آخری سہ ماہی تک موخر کرنا چاہتی ہے۔ حزبِ اختلاف پنجاب میں جلدی اور وفاق میں اپنے وقت پر اکتوبر ۲۰۲۳ میں انتخابات کے لیے سڑکوں پر نکل آئی ہے، کیونکہ اس وقت انتخابات کا ہونا انہیں سب سے زیادہ فائدہ دیتا ہے۔

دوسرا عنصر جو پاکستان کی معیشت پر ٹھوس اثرات کا باعث ہو گا، وہ اپریل ۲۰۲۴ میں قرضے کی بڑی قسط ہے جو پاکستان کے ذمے واجب الادا ہے۔ ۲۰۲۳ کی آخری سہ ماہی میں آنے والی حکومت کو اپنے پہلے چھ ماہ کے دوران زرمبادلہ کے بحران کا سامنا ہو گا کیونکہ زرمبادلہ کے سکڑتے ہوئے ذخائر اور سخت معاشی صورتحال، قسط کی واپسی کے لیے مالی انتظامات کرنے لائق جگہ نہیں چھوڑے گی۔ اسے ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے ہمراہ ایک اور پروگرام پر بات چیت کرنا پڑے گی۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ہمراہ اسٹاف لیول معاہدے کے بعد دیوالیہ پن کی صورتحال سے واپس نکل آئے گا۔ اس معاشی حیاتِ نو کے ہمراہ، پاکستان کچھ معاشی اشاریوں میں بہتری لانے کے قابل ہو گا اور مختصرالمدتی اپنی بیرونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے قابل ہو گا لیکن جس وقت نئی حکومت ۲۰۲۳ کی آخری سہ ماہی میں حلف اٹھا رہی ہو گی، اس وقت پاکستان ایک بار پھر خود کو دلدل میں دھنسا ہوا پائے گا۔

آئندہ سال، پاکستان ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جائے گا، جو اس پر مزید کٹھن شرائط عائد کرے گا اور ملک میں اپنے اقدامات کی وجہ سے پاکستانیوں کی جانب سے مزید تنقید اٹھائے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ادائیگیوں کے توازن میں بار بار ملنے والے سہارے کے ساتھ، پاکستان میں زیادہ اور کم نمو کے وقفے آتے رہیں گے جن میں میکرواکنامک عدم استحکام کے وقفے ماضی کی نسبت طویل تر ہوں گے۔ بہرکیف، آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہیں اور اس میں مزید ابتری آنے کی توقع ہے کیونکہ دونوں کے لیے حالات جوں کے توں ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Collecting Clean Water via Flickr

Image 2: Water management in Pakistan via Flickr

Posted in:  
Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]