
جولائی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے پاکستانی برآمدات پر عائد محصولات کو تقریباً 29 فیصد سے کم کرکے 19 فیصد کر دیا اور تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو امریکی خام تیل بھیجنے پر اتفاق کیا۔ (اس کے) چند دن بعد (امریکہ) نے بھارتی اشیاء کی وسیع اقسام (رینج) پر اضافی 25 فیصد محصول عائد کر دیا، جس سے کئی اہم مصنوعات کے زمرے میں کل محصول 50 فیصد ہو گیا۔ یہ فیصلے پاکستان کو ایک ایسے خطے میں جہاں وہ شاذ و نادر ہی آگے ہوتا ہے، ایک غیر معمولی اقتصادی موقع فراہم کرتے ہیں ۔
پاکستان کے پاس اب قلیل المدت منڈی کے حصص (مارکیٹ شیئر ) حاصل کرنے، تحفظِ توانائی کو بہتر بنانے اور خود کو امریکہ کے تجارتی دائرے میں ایک مفید کردار کے طور پر دوبارہ پیش کرنے کا موقع ہے۔ لیکن وقت کی اہمیت مسلّم ہے۔ اگر اسلام آباد مستعدی اور ہم ربطی کے ساتھ ردعمل کا اظہارنہیں کرتا تو یہ موقع کسی بھی مستقل نتیجے کے سامنے آنے سے پہلے ہی ختم ہو سکتا ہے۔
تزویراتی گھڑی اور علاقائی خلل
امریکہ کی طرف سے بھارت کی برآمدات پر عائد محصولات میں اضافہ محض تادیبی نہیں بلکہ یہ سیاسی بھی ہے۔ (یہ محصولات) نئی دہلی کی روس کے ساتھ جاری تیل کی تجارت اور تجارت کے باہمی تبادلے پر وسیع تر اختلافات کے حوالے سے واشنگٹن کے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں پاکستان کی امریکہ کے تجارتی اہداف کے ساتھ حالیہ ہم آہنگی، توانائی اور (تجارتی) منڈی (مارکیٹ) دونوں تک رسائی، ایک قابل ذکر تبدیلی کی مظہرہے۔
پاکستان کے پاس اب قلیل المدت منڈی کے حصص (مارکیٹ شیئر ) حاصل کرنے، تحفظِ توانائی کو بہتر بنانے اور خود کو امریکہ کے تجارتی دائرے میں ایک مفید کردار کے طور پر دوبارہ پیش کرنے کا موقع ہے۔
پاکستانی ٹیکسٹائل اور ملبوسات (کے شعبے) خاص طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ مالی سال 2025 کے پہلے آٹھ مہینوں میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں تقریباً 9.3 فیصد کا اضافہ (سال بہ سال) ہوا، جس کی بڑی وجہ نِٹ ویئر، بیڈ ویئر اور ملبوسات کی اصناف تھیں۔ ان مصنوعات نے اس عرصہ میں ملک کی کل برآمدی آمدنی کا تقریباً 55 فیصد حصہ تشکیل دیا۔بھارتی سپلائی چینز (رسدی زنجیر) میں خلل اور بنگلہ دیش میں اہلِ محنت کی پڑتال (لیبر سکروٹنی) کے باعث پاکستان کے پاس خریداروں کا اعتماد حاصل کرنے کا ایک نادر موقع ہے، لیکن کامیابی عمل درآمد پر انحصار کرے گی۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں خلل تیار کپڑوں،گھریلو ٹیکسٹائلز اور مکمل تیار شدہ ملبوسات جیسی وسیع حجم اصناف (ہائی والیوم کیٹیگریز) کو متاثر کرتا ہے (جو ایسے) شعبے (ہیں) جہاں قیمت کی حساسیت ماخذ (سورس کو چُننے) کے فیصلوں کو متاثر کرتی ہے۔بڑے امریکی ریٹیلرز (پرچون فروش) اور ہول سیلرز (تھوک فروش) اکثر متعدد ممالک سے خریداری کر کے سپلائی چینز (رسدی زنجیر) کے خطرات کے خلاف حفاظتی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔اگر پاکستان مستقل طور پر بڑے پیمانے پر فراہمی کر سکے تو یہ ایک متبادل فراہم کنندہ سے بنیادی فراہم کنندہ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
تاہم پاکستان کا فائدہ یقینی نہیں ہے۔ ویتنام، انڈونیشیا، اور کمبوڈیا جیسی جنوب مشرقی ایشیائی معیشتیں مؤثر لاجسٹکس (نقل و حمل و انتظام و انصرام)، مضبوط تر انضباطی نظامات اور کمپری ہنسیو اینڈ پروگریسیو ایگریمنٹ فار ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ (سی پی ٹی پی پی) جیسے تجارتی معاہدوں کے ذریعے مغربی منڈیوں تک ترجیحی رسائی فراہم کر کے سخت مقابلہ پیش کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان لیڈ ٹائم (تکمیلی مدت)، کسٹمز ڈیجیٹلائزیشن اور انرجی ریلائبیلیٹی (توانائی کی بھروسے مندی) جیسے مخصوص معیارات (میٹرکس) پر مشکلات کا سامنا بھی کرتا ہے، جو عموماً جنوبی ایشیا میں اتنی زیادہ تشویش کا باعث نہیں۔ اگر اسلام آباد ان معیارات کے مطابق پورا نہیں اُترتا تو قلیل المدت فوائد جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔
توانائی کا تعاون: مستعدی کا امتحان
پاکستان کا امریکہ کے خام تیل ، جو اس سال کے اواخر میں ہوسٹن کے ذریعے پہنچنے والا ہے، کی درآمد کا معاہدہ واشنگٹن کے ساتھ ایک توانائی شراکت داری کے آغاز کو عیاں کرتا ہے جو مزید سرمایہ کاری کو ترغیب دےسکتا ہے اور دوطرفہ معاملت کو بڑھا سکتا ہے۔یہ بحری کھیپ (شپمنٹ) بہت اہم ہے کیونکہ اس سے واضح ہوگا کہ آیا مقامی ریفائینریاں خام تیل کے خفیف امتزاج (لائٹر کروڈ بلینڈز) کو مؤثر طریقے سے تیارکر سکتی ہیں، جوایک ایسی صلاحیت ہے جو مستقبل ( میں درکار) مقدار کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔خلیج سے حاصل کیے گئے عمومی ثقیل خام تیل (ہیویئر گریڈز )کے برعکس، امریکی خام تیل اکثر خفیف حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے لیے مختلف ریفائننگ کنفیگریشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان آمیزشوں کی کامیاب تیاری کے لیے تکنیکی ہم آہنگی اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری کی ضرورت ہے، جن کی پاکستان کی بعض ریفائینریوں میں اس وقت کمی ہے۔اگر اسے بہتر طریقے سے منظم کیا جائےتو یہ پاکستان کی توانائی کی متنوعیّت کو مضبوط کر سکتا ہے اور خلیج کے فراہم کنندگان پر اس کی طویل المدتی انحصار کو کم کر سکتا ہے، جو اس وقت ملک کےایندھن( فیول) کے معاہدوں میں غالب ہیں۔
داخلی تلاش: ایک علیحدہ شعبہ
امریکہ سے خام تیل کی درآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد نے اندرونِ ملک، خصوصاً سندھ اور بلوچستان جیسے کم توجہ پانے والے صوبوں میں توانائی کی کھوج از سرِ نو شروع کی ہے۔حالیہ امریکی-پاکستان معاہدہ خاص طور پر پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی میں تعاون کوشامل کرتا ہے؛ اگرچہ مخصوص مقامات کی تفصیلات نہیں دی گئیں، تاہم عہدیداروں نے بلوچستان، سندھ، پنجاب، اور خیبر پختونخوا میں ذخائر کا ذکر کیا۔اس سے مشترکہ منصوبوں یا خام مال کی درآمد کے معاہدے سے ہٹ کر امریکی تکنیکی شمولیت کے امکانات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
تاہم پاکستان کےوسائل کی تاریخ پیچیدہ ہے۔ مصدقہ ذخائر (پروون ریزروز) معمولی ہیں اور (ذخائر کی) تلاش میں کامیابی محدود رہی ہے- گو کہ تکنیکی تخمینے امید افزا ہیں، (پروون آؤٹ پُٹ) مصدقہ ماحصل کم ہے۔ ملک میں ہائیڈروکاربن کی افادیت سے فیض یاب ہونے کی پچھلی کوششیں لائسنسنگ کےغیر واضح طریقِ کار، بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات اور کمزور کمیونٹی بائی ان (ترقی کے منصوبوں میں گروہی شمولیت) کے باعث ناکام ہو گئی ہیں۔اب اس صلاحیت کا فائدہ اٹھانے کے لیے ایک حکومتی نظام العمل کی ضرورت ہے جو شفافیت، شمولیت اور سرمایہ کاروں کی معاملت داری کے لیے مستقل قواعد پر زور دے۔

اعلانات سے آگے بڑھ کر
پالیسی ہم آہنگی اور تجارتی معاہدے سرخیوں کو تو جنم دے سکتے ہیں لیکن یہ اقتصادی نتائج کی ضمانت نہیں دیتے۔بھارتی اشیاء پرجلد ہی نافذ العمل ہونے والے نئے امریکی محصولات کے پیش نظر ماخذ کو چُننے (سورسنگ)کے فیصلے پہلے ہی شروع ہو چُکے ہیں۔ پاکستان کو اپنے برآمد کنندگان کو فراہمی کے قابل بنانے کے لیے فوری طور پر اقدام کرنا چاہیئے۔
اس عمل کا آغاز طویل عرصے سے اعتبار کو کمزور کرنے والی عملیاتی رکاوٹوں کو حل کرنے سے شروع کرنا چاہیئے۔ بالخصوص کراچی اور لاہور سےباہر کے بہت سے برآمد کنندگان مالی امداد، برآمدی تصدیق ناموں اور مؤثر پروانۂ راہداری (پورٹ کلیئرنس) تک رسائی سے محروم ہیں۔ یہ خامیاں مختلف ادارتی احکامات کے باوجود برقرار ہیں، جس میں برآمد کنندگان کو ایک ہی شپمنٹ کے لیے 40 سے زیادہ ایجنسیوں کے ذریعے گزرنا پڑتا ہے۔ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) ، پاکستان سنگل ونڈو (پی ایس ڈبلیو) جیسی ایجنسیوں اور اسٹیٹ بینک کو مالی آلۂ کار جیسے کہ کریڈٹ گارنٹیز، کسٹمز کی سہولیات اور کمپلائنس سپورٹ کے ذریعے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیئے۔
پی ایس ڈبلیو جوایک ڈیجیٹل تجارتی سہولیات فراہم کرنے والا پلیٹ فارم ہے، 70 سے زائد انظباطی اداروں کو ایک پورٹل کے ذریعے مربوط کرتا ہے (اور) اہم تبدیلی لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسے منتخب ٹیکسٹائل گروہوں( کلسٹرز) کے لیے ڈیجیٹل پری کلیئرنس اور سرٹیفیکیشن کی نگرانی کے لیے بااختیار بنایا جانا چاہیئے، تاکہ کاغذی کار روائی کو کم کیا جا سکے اور میعادِ معینہ والی شپمنٹس کی ترسیل کو تیز کیا جا سکے۔
بیرونِ ملک اشارے دینا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ پاکستان كمرشل اتاشیز کو ہوسٹن اور نیو یارک جیسی اہم امریکی منڈیوں میں امریکی کمپنیوں کے سورسنگ منیجرز کے ساتھ فعال طور پر معاملت داری کرنی چاہیئے تاکہ ایک متفقہ پیغام پیش کیا جا سکے: پاکستان نہ صرف قیمتوں کے لحاظ سے مسابقتی ہے، بلکہ منتقل کی گئی مانگ کولاجسٹک اور تجارتی لحاظ سے پوراکرنے کے لئے تیار ہے۔ بالخصوص اس کی زیادہ حجم والی اقسام کے لیے فوری ضرورت ہے جہاں امریکی ریٹیلرز قلیل المدتی متبادل تلاش کر رہے ہیں۔
تاہم محض عملیاتی اصلاحات کافی نہیں ہیں۔اس موقع پرزیادہ بڑھا چڑھا کے وعدے کرنے یا عہد شکنی کے بغیر مانگ کو پورا کرنا امریکی خریداروں، کثیرالجہتی قرض دہندگان اور شکی سرمایہ کاروں کو ایک مضبوط اشارہ دے گا۔ملک کےتوانائی کے نگران کاروں (ریگولیٹرز ) کو اس امر کوبھی یقینی بنانا چاہیے کہ امریکی خام تیل کی درآمد کا معاہدہ ایک قابل اعتماد اور قابل عمل تجارتی راستہ بن جائے جو پاکستان کی تکنیکی اور عملیاتی مستعدی کی عکاسی کرے۔
اس موقع کو طویل المدت منڈی کے بھروسے (مارکیٹ کریڈیبیلیٹی) میں ڈھالنے کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کو منصوبہ بندی کمیشن کے تحت ایک عارضی انٹر ایجنسی ٹاسک فورس قائم کرنا چاہیئے۔ یہ تنظیم ٹی ڈی اے پی، پی ایس ڈبلیو، وزارت تجارت، وزارت توانائی اور بیرون ملک موجود سفارتخانوں کے تجارتی شعبوں کے نمائندوں کو اکٹھا کرسکے گی۔اس کےمینڈیٹ کا وقت معین ہوگا، 90 دن کا ایک منظم منشور (چارٹر) ہو گا جس میں کارکردگی کے واضح معیار (بینچ مارکس) شامل ہوں: ہفتہ وار کسٹمز کلیئرنس رپورٹنگ، ترجیحی شعبوں میں برآمد کنندگان کے انضمام (ایکسپورٹر آن بورڈنگ) کے لئے قابلِ حصول اہداف اور پاکستانی مشنز کی مدد سے امریکی خریداروں کی معاملت داری کا ایک دستاویزی ریکارڈ ہونا چاہیۓ۔
اس موقع کو طویل المدت منڈی کے بھروسے (مارکیٹ کریڈیبیلیٹی) میں ڈھالنے کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کو منصوبہ بندی کمیشن کے تحت ایک عارضی انٹر ایجنسی ٹاسک فورس قائم کرنا چاہیئے۔
ٹاسک فورس کو ایک غیر متحرک ہم آہنگی کی تنظیم بننے کے بجائے فعال طور پر عملیاتی خلاؤں کو پُرکرنا اور اداروں میں جوابدہی کو فروغ دینا ہوگا۔پی ایس ڈبلیو پائلٹ (رہنما منصوبہ) کو ایک ابتدائی ترجیح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس دستاویزی بوجھ کو کم کرنے کے لیے جو عموماً میعادِ معینہ کےآرڈرز میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان کی تجارتی رسائی کو بھی بتدریج ترقی دینا ہوگی۔ہوم ٹیکسٹائل، نِٹ ویئر، چمڑے کی اشیاء— محصولات کی بچت، کمپلائنس بینچ مارکس اور لیڈ ٹائم (تکمیلی مدت) کی ضمانتوں کے ساتھ ،وسیع الاقسام تجارت کو ترقی دینےکے بجائے پاکستان کو اپنی کوششیں خریداروں کی معاملت داری پر درجہ بدرجہ تقسیم کرنی چاہئیں۔ درستگی (پریسیژن) کی یہ سطح نہ صرف نئے معاہدے طے کرنےکے لئے امرِ لازم ہے بلکہ یہ امریکی خریداروں کو یہ اشارہ بھی دیتی ہے کہ پاکستان نہ صرف کم قیمت پر بلکہ بھروسے کے ساتھ بھی مانگ پوری کر سکتا ہے۔
موقع کا فائدہ اُٹھانا
پاکستان کو ایک ہجومی اور مسابقتی علاقائی برآمداتی منظرنامے میں ایک منفرد ساختی فائدہ (اسٹرکچرل ایڈوانٹیج) پیش کیا گیا ہے۔تاہم تجارتی مواقع محض اپنے طور پر تبدیلی کا باعث نہیں بن جاتے۔اس کے بعد کے اُٹھائے جانے والے اقدام اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ (خریداروں کی) مانگ پوری کرکے اس موقع کو روشن مثال کو درجہ دیا جائے گا یا اسے ضائع کرکے ایک بھولی بسری یاد کا درجہ ملے گا۔اگر پاکستان اس امتحان کو نظم و ضبط، ہم آہنگی اور مستعدی کے ساتھ پورا کر لے تو یہ نہ صرف منڈی کے حصص (مارکیٹ شئیر) حاصل کر سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی اپنی اہلیت کے بارے میں دیرینہ شکوک کو بھی رفع کر سکتا ہے۔
This article is a translation. Click here to read the article in English.
Views expressed are the author’s own and do not necessarily reflect the positions of South Asian Voices, the Stimson Center, or our supporters.
***
Image 1: Jawadqada via Wikimedia Commons
Image 2: katorisi via Wikimedia Commons