pakistan-1-1

اگست ۲۰۲۱ میں کابل پر قبضہ کرنے کے فورا بعد، افغان طالبان نے افغانستان کی جیلوں سے تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے متعدد قید جنگجوؤں اور سینئر قیادت کو رہا کر دیا۔نتیجتاََتحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں نےپاکستان، بالخصوص گروپ کے سابقہ مضبوط گڑھ سوات اور دیر،  کی جانب ہجرت کی۔ اگرچہ اس گروپ نے ماضی میں رہائشیوں کی رضامندی اور کچھ بدخواہ افراد کی حمایت سے  سوات اور دیر میں مضبوط گڑھ بنائے تھے، تاہم واپس آنے والے ٹی ٹی پی جنگجو سوات اور دیر کے رہائشیوں کی تشویش اور روک ٹوک سے مایوس ہوئے۔ اسی طرح خطے میں ٹی ٹی پی کے حملوں کے دوبارہ ابھرنے نے ریاست کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

سوات اور دیر میں طالبان کی واپسی کے بعد کے مہینوں میں  پاکستان کا ردعمل کمزور اور سست تھا۔ریاست کی جانب سے عدم تسلیم  کی کیفیت پر  پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جیسی غیر ریاستی تنظیمیں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے سامنے آئیں۔ پی ٹی ایم نے خیبر پختونخواہ کے بڑے شہروں میں بڑے  پیمانے پر احتجاج کیے، جس سے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں پر نمایاں اثر پڑا اور اس کے جنگجوؤں کو سوات اور دیر سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔فرار ہونے والے جنگجوؤں نے سابقہ فاٹا کے علاقے میں پناہ ڈھونڈی اور وہاں سے پاکستان کے خلاف تباہ کُن مہم شروع کر دی۔اس سے قطع نظر، پی ٹی ایم نے سابقہ فاٹا کے علاقے میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کا تعاقب کیا اور خطے میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی۔

پی ٹی ایم اور پاکستانی ریاست کے درمیان تعلقات  تلخ ہیں۔ پی ٹی ایم نے فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ریاست پر پشتونوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ، جبکہ  فوج نے دعوی کیا کہ یہ گروپ، غیر ملکی مالی اعانت سے پاکستان میں شکر رنجی پھیلانے کا ذریعہ  بن رہاہے۔ اگرچہ پاکستانی ریاست اور پی ٹی ایم  شاذ و نادر ہی ایک دوسرے کو شراکت دار کے طور پر دیکھ پائے ہیں، لیکن ٹی ٹی پی دہشت گردی کا خطرہ تعاون کے لئے ایک امکان  پیش کرسکتا ہے۔پاکستانی ریاست اور پی ٹی ایم کو دوبارہ اُبھرتی ہوئی ٹی ٹی پی کے خلاف مضبوط انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے لئے ایک اتحاد تشکیل دینا چاہئے۔ مزید برآں، پی ٹی ایم اور پاکستانی ریاست کے درمیان مضبوط تعلقات پشتون علیحدگی پسندی کے مبینہ خطرے سے نمٹ سکتے ہیں۔

افغان طالبان کی فتح اور ٹی ٹی پی  کا اِحیا

افغانستان پر طالبان کے قبضے نے ٹی ٹی پی کے احیا میں براہ راست تیزی لائی۔ افغانستان کی سابقہ حکومت کے دور میں صدر اشرف غنی نے امریکہ کی مدد سے ٹی ٹی پی کے متعدد جنگجوؤں اور اس کی اعلیٰ قیادت کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مہم کے جُزو کے طور پر قید کیا تھا۔ تاہم، افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں افغانستان بھر میں متعدد جیلیں توڑی گئیں، جس سے ٹی ٹی پی کے ارکان کو فرار ہونے کا موقع ملا۔ چونکہ  وہ امریکہ کے خلاف افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑ چُکے تھے، اس لیے افغان طالبان نے اپنے نظریاتی شراکت داروں کو قید نہیں رکھا۔

پاکستانی ریاست کے دشمنوں کی حیثیت سے آزاد کردہ ٹی ٹی پی کے جنگجو دوبارہ منظم ہوئے اور انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے سابقہ مضبوط ٹھکانوں میں واپسی کا منصوبہ بنایا۔ ریاستِ پاکستان کی اس پیش رفت سے بے خبری میں ابتدا میں جنگجو سوات اور دیر واپس پلٹے۔ تاہم  رہائشیوں کی بے چینی اور علاقے میں دہشت گرد حملوں کی بحالی نے ریاست کو صورتحال کی سنگینی سے ہوشیار کیا۔

اس دبنگ اور سرِ عام واپسی سے پہلے، ٹی ٹی پی کے کچھ جنگجو دہشت گردی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کے لئےخفیہ طور پر واپس آ چُکےتھے۔ صرف ۲۰۲۱ میں، اس گروپ نے  ۲۸۲ دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی جن میں ۵۰۰ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہلاک ہوئے۔ ٹی ٹی پی نے نومبر ۲۰۲۲ میں یکطرفہ طور پر پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ختم کی اور پھر ملک بھر میں تباہ کُن دہشت گردی کی مہم شروع کر دی۔۲۰۲۲  میں اس نے ۸۹ حملوں کی ذمہ داری قبول کی اور اس کے بعد اس نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں  مزید اضافہ کیا ، جس میں جنوری ۲۰۲۳ میں پشاور کی ایک مسجد پر حملہ بھی شامل ہے ، جہاں ۸۴ افراد ہلاک اور ۱۰۰ سے زائد افراد  زخمی ہوئے تھے۔

انسدادِ دہشت گردی کے  متحرک طریقۂ کار  (کائنیٹک کاؤنٹر ٹیررزم اپروچ)  کے علاوہ  پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ وقتاً فوقتاً  مذاکرات  کیے ہیں۔اس کے باوجود یہ مذاکرات خطے میں دیرپا امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔علاوہ  ازیں، ہر امن مذاکرہ کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ طاقتور اورمتشدد بن کر اُبھری ۔ ہر امن مذاکرہ کے بعد پاکستان نے رعایتیں دیں جبکہ ٹی ٹی پی نے اپنے معاہدوں پر عملدرآمد  کرنے میں کوتاہی کی۔ ماضی میں پاکستان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ کی جانے والی گفت و شنید میں دیگر اسٹیک ہولڈرز جیسے پی ٹی ایم،  جِسے مقامی حالات کا گہرا اِدراک ہے اور عوامی حمایت بھی حاصل ہے، شامل نہ تھے۔زیادہ مشتملہ مذاکرات سے زیادہ پائیدار معاہدہ طے  پایا جاسکتا تھا۔

پی ٹی ایم ،بطور ایک طاقتور انسدادِ  دہشت گردی گروپ 

اپنے قیام کے بعد سے ہی پشتون تحفظ موومنٹ،  ٹی ٹی پی کے خلاف ایک زبردست مزاحمتی طاقت رہی ہے۔ یہ گروپ واپس لوٹنےوالے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے خلاف صوبہ خیبر پختونخوا ہ میں حالیہ امن ریلیوں کا حقیقی منتظم تھا۔ رہائشیوں کی پی ٹی ایم کے  پیغامِ امن کی قبولیت کی بدولت ان مظاہروں نے سوات اور دیر سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو مؤثر طریقے سے نکال باہر کیا۔ ماضی میں خیبر پختونخواہ  کی شورش کی ہولناکیوں کا سامنا کرنے کے بعد، سوات اور دیر کے لوگ اپنے حاصل کردہ امن کو برقرار رکھنے کے خواہاں تھے۔

مزید برآں، پی ٹی ایم  نےانسدادِ دہشت گردی کے بہت سے کارنامے سرانجام دیئے۔ یہ گروپ امن  کمیٹی کے ساتھ کئی بار جھڑپ کر چُکا ہے، جس پر اس نے الزام لگایا ہے کہ وہ قبائلی علاقوں میں طالبان کی حمایت کرکے انہیں ریاستی حمایت یافتہ ملیشیا میں تبدیل کر رہا ہے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔

پی ٹی ایم پہلے ہی خطے میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے اپنے محرکات اور ارادے کی وضاحت کر چکی ہے۔ پی ٹی ایم عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان کی جنگ میں ایک قابل ذکر شراکت دار ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کا  پی ٹی ایم کی انسدادِ  دہشت گردی کی صلاحیت کو نظر انداز کرنا

گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ تاہم، ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ گروہوں کے خلاف ایک درجن فوجی کارروائیوں کے ساتھ، جس میں سابقہ فاٹا کے علاقوں میں امن کا ایک مختصر دور بھی شامل ہے، عسکریت پسند گروپ گزشتہ سال لَوٹ آیا۔ مزید برآں، اس گروپ نےسیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا اور بھاری جانی نقصان پہنچایا۔

ان چیلنجز کے باوجود پی ٹی ایم امن کے لیے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مزاحمت اور  خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ تحریکیں عسکریت پسند گروہوں کے خلاف انسدادِ  دہشت گردی کی مؤثر کاوشیں ہیں، جو ریاستی کوششوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ ریاست اور پی ٹی ایم کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مؤثر عملی تعلق داری  (ورکنگ ریلیشن شپ) قائم کرنی چاہیے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی ایم کو ریاستی اداروں کے خلاف اپنی جارحانہ بیان بازی کو کم کرنا ہوگا، جیسا کہ  فوج پر طالبان کے دوبارہ اُبھرنے کا الزام عائد کرنا۔ دوسری جانب پاکستان کو اس گروپ پر دہشت گرد تنظیم کا ٹھپّہ ثبت نہیں کرناچاہیے۔

انسدادِ  دہشت گردی پاکستانی ریاست اور  مخالف پی ٹی ایم کے لئے میلان بہ مرکزِ واحد کے طور پر اُبھری ہے۔دونوں فریقوں کو انسدادِ دہشت گردی کے مؤثر طریقہ کار کو بہتر بنانے اور قائم کرنے کے لئے اس مشترکہ مفاد کو بروئے کار لانا چاہئے۔ پاکستانی ریاست اور پی ٹی ایم کے درمیان عملی تعلق داری (ورکنگ ریلیشن شپ) غلط فہمیوں کو دور کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں پی ٹی ایم کو مرکزی دھارے میں شامل کیا جاسکتا ہے اور اس کے ارکان پر ریاستی آزار رسانی کا سلسلہ بند ہوسکتا ہے۔

ٹی ٹی پی کا مقصد پاکستانی حکومت کو صوبے سے باہر دھکیل کر خیبر پختونخواہ میں مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے جبکہ پاکستان دوبارہ اُبھرنے والی ٹی ٹی پی کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ اس ماحول میں پی ٹی ایم خود کو ٹی ٹی پی کے خلاف ایک قوی انسدادِ دہشت گردی فورس ثابت کر رہی ہے۔ حکومتِ پاکستان اور پی ٹی ایم مل کر کام کرتے ہوئے ملک میں دہشت گردی کا مؤثر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں اور ایسے باغی گروہوں کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Banaras Khan/AFP via Getty Images

Image 2: Rizwan Tabassum/AFP via Getty Images

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]