پاکستان کی قومی شناخت آزادی کے وقت سے ہی اسرار کے پردوں میں چھپی ہوئی ہے حالانکہ مذہبی نظریہ، ریاست کے وجود کے لیے بنیادی توجیح فراہم کرتا ہے۔ تقسیم کے موقع پر مذہبی تفریق کے لیے پائی جانے والی غیر ضروری وارفتگی جو اس نکتے پر لے آئی کہ جہاں زیادہ توجہ “ہم کون ہیں” سے زیادہ اس پر ہے کہ ” ہم کون نہیں ہیں”، اسی وارفتگی کا جائزہ اس پراسراریت کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ تقسیم کے بعد بھی جب قوم کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی گئی تو بھی اسے پاکستانی شناخت ہی بطور واحد شناخت پر مبنی تنقید سے عاری عقیدے سے نتھی کر دیا گیا، جس کے نتیجے مں صوبائی شناختیں پاکستانی قوم پر مبنی ریاستی منصوبے کے لیے مضر کے طور پر رد کردی گئیں۔ مثال کے طور پر جناح کو لے لیجیے کہ جن کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کو آئین ساز اسمبلی سے کی گئی تقریر پاکستانی سماج کو لبرل سیکولر قرار دینے کے طور پر سراہی جاتی ہے۔ تاہم جب لسانی اقلیتوں اور صوبائی شناختوں کی بات آئی تو یہ لبرل سوچ ماند پڑ گئی، جناح نے انہیں ”برائی“ قرار دیا۔ جناح نے کسی اگرمگر کے بغیر ببانگ دہل کہا کہ “ہم بلوچی، پٹھان، سندھی، بنگالی وغیرہ نہیں بلکہ ہم سب اب پاکستانی ہیں اور ہمیں بطور پاکستانی ہی محسوس کرنا، برتاؤ اور عمل کرنا ہوگا اور ہمیں کسی دوسری نہیں بلکہ محض بطور پاکستان ہی اپنی شناخت پر فخر ہونا چاہیئے“
پاکستان کی مذہبی شناخت، بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات میں سب سے زیادہ اظہار پاتی ہے۔ جہاں تک اس کے مغربی پڑوس افغانستان کا تعلق ہے تو پاکستانی ریاست کے لسانی و بغاوت کے خدشات دونوں کے بیچ مذہبی یگانگت کی بنیاد پر موجود برادرانہ تعلق پر غالب آگئے ہیں۔ پاکستان کے دوسرے مسلم پڑوسی ملک ایران کے معاملے میں شناختی ضمن میں مسلکی پہلو زیادہ نمایاں ہو گیا خاص کر انقلاب ایران کے بعد۔ آخر میں جب چینی کمیونسٹ ریاست کے ہمراہ سیاسی و تزویراتی ضروریات کی بنیاد پر دیرپا تعلقات قائم کرنے کی باری آئی تو پاکستان کی مذہبی شناخت غیر متعلقہ قرار دے دی گئی۔
شناخت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم تنبیہہ یہ ہے کہ یہ طے شدہ، قدرتی اور جبریت پر مبنی نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ یہ موثر اور اثر قبول کرنے والی ہوتی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے وقت مذہب ایک ضروری عنصر رہا لیکن بعد از تقسیم کے دور میں ریاستی امور کو چلانے کے لیے منتخب سرکاری معاملات میں اس کا نفاذ ہوا۔ مذید براں جہاں مذہب اور وحدانیت پاکستان کی تخلیق کے مرکزی نکتے تھے وہیں یہ سمجھنا کہ کب اس کا استعمال کیا گیا (بھارت سے تعلقات میں)، کب یہ حدود کا تعین کار بنا (افغانستان اور ایران کے ساتھ) اور کب اسے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا (چین) یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی قومی شناخت کا کثیر السطحی ہونا کیسے خطے میں اس کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوا ہے۔
بھارت کے حوالے سے اسلام اور پاکستان کی خارجہ پالیسی
تقسیم کے وقت پاکستان کی قومی شناخت کی بنیاد دو قومی نظریے میں رکھی گئی تھی۔ اس پر سب واضح الفاظ میں جناح نے مارچ ۱۹۴۰ میں زور دیا جب انہوں نے یہ خیال پیش کیا کہ اسلام اور ہندومت محض دو الگ الگ مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف نظام زندگی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دوہرایا کہ ”یہ محض ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قومیت تشکیل دیں۔۔۔ وہ نہ تو آپس میں شادیاں کرتے ہیں اور نا ہی مل بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں اور وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ بنیادی طور پر متصادم خیالات اور تصورات پر مبنی ہیں۔“
پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے بنیادی نظریاتی نکتہ نگاہ نے پاکستان کو ایک زیادہ بڑے، زیادہ طاقتور ہندو بھارت سے ممتاز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی یہ رائے محض ایک نامعقول عقیدہ نہیں تھی بلکہ اس نے بھارتی رہنماؤں کے بیانات کے نتیجے میں جنم لیا تھا۔ ۱۹۶۳ تک وزیراعظم نہرو نے یہ دلیل دی تھی کہ ”بھارت پاکستان پر مشتمل وفاق ہمارا حتمی انجام ہے۔“ حالیہ برسوں میں بی جے پی کی قیادت میں بھارت میں اکثریت پرستی کی بدولت اس نظریاتی عدم تحفظ کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نا صرف کشمیر بلکہ بھارت کے دیگر حصوں میں بھی نفرت کی بھڑکتی آگ پر مبنی سیاست نے جس میں ہجومی قتل، مساجد کی مسماری اور مسلمانوں کی اپنی جائیداد سے بے دخلی شامل ہیں، جناح کی اس دور اندیشی کے بارے میں مباحثے کو جنم دیا ہے کہ جس کے مطابق ہندو اکثریتی ریاست میں مسلمان غیر محفوظ ہوں گے۔
بھارت کے مقابلے میں کمزور ریاست ہونے کے احساس کے سبب نفسیاتی دباؤ اب بھی پاکستان کو پریشان کرتا ہے۔ عسکری و سول رہنماؤں کی اکثریت کی جانب سے بارہا دوہرایا گیا یہ بیان کہ “ہم خطے میں امن چاہتے ہیں لیکن امن کی ہماری خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے” اسی کا مظہر ہے۔ شناخت کے ضمن میں امن کی خواہش کو کمزوری سے جوڑنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ایک مستحکم، اور پراعتماد پاکستان کی شناخت وہ ہے جو بنیادی طور سے عسکری طاقت کے عزم و اظہار سے آتی ہے۔ اس میں یہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ امن مادی سلامتی اور انسانی سماج کے نظریاتی شعور کے لیے اسی قدر اہم ہے جس قدر کہ بذریعہ طاقت بقا کے حصول پر آمادگی۔ دوئم یہ کہ پاکستان کا بھارت کے ہمراہ امن قائم کرنے کی خواہش کا اظہار یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے سے دوریاں مٹانے کے لیے قدم بڑھانا چاہیں تو مذہبی تفریق کا اصول کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
لسانی دعوے اور افغانستان سے لاحق بغاوت کے خطرات
مذہبی یکسانیت کے باوجود لسانی بغاوت کے خطرات بالخصوص پاکستانی پشتونوں کے افغانستان میں واپس انضمام کے دعوے، افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تزویراتی جوڑ توڑ میں حاوی رہتے ہیں۔ یہ خوف تقسیم کی میراث ہے کیونکہ اس موقع پر ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان وجہ تنازعہ بنی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بغاوت کا خوف پاکستان کے افغانستان کے ہمراہ خارجہ تعلقات کو طے کرتا ہے۔ پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کو افغان سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مبینہ فنڈنگ وصول کرنے پر ریاستی حلقوں کی جانب شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ خطرات اب اتنے شدید نہیں دکھائی دیتے۔ تاہم یہ حقیقت کہ پاک افغان سرحدی باڑ کے معاملے پر طالبان کی پاکستانی فورسز کے ہمراہ جھڑپ ہو چکی ہے نیز طالبان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن تقسلیم کرنے کی کوئی یقین دہانی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ طالبان اور پاکستان کے مابین تعلقات ویسے نہیں ہیں جیسا کہ دکھائی دیتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو افغانستان میں پاکستانی ریاست کے ہمراہ مذاکرات میں مصروف ہیں، ان کی جانب سے بھی مختلف چیلنجز ابھرتے رہتے ہیں۔ ان جاری مذاکرات میں ستم ظریفی پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان کسی بھی قدر مشترک کی عدم موجودگی ہے کہ جس کی بنیاد پر مذاکرات و تصفیہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر ٹی ٹی پی نے سابق فاٹا خطے کے خیبرپختونخواہ میں انضمام کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے آئین اور اقتداراعلیٰ کو مسترد کرنے کے مہلک ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ناحق خون بہانے کی ٹی ٹی پی کی تاریخ کہ جس کا سب سے بڑا ثبوت ۲۰۱۴ کا سانحہ اے پی ایس تھا، اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے تصفیئے کا عمل آگے بڑھانے کے لیے اس معاملے پر بھی گروہ نے اعلانیہ اظہار افسوس یا پاکستانی ریاست، سماج، یا ورثاء سے معافی نہیں مانگی ہے۔ اس کے برعکس ٹی ٹی پی پاکستانی ریاستی قوانین اور اس کے آئین کی مخالفت میں شریعہ قوانین پر عمل درآمد کے لیے بھرپور طور سے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان پائے جانے والے متعدد ناقابل مذاکرات امور کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے ہمراہ مذاکرات کامیاب ہونا مشکل ہے۔
ایران کے ہمراہ مسلکی اختلافات
افغانستان کی طرح، پاکستان ایران کے مابین تعلقات میں بھی قربت پیدا کرنے کے لیے مسلم یکجہتی ناکافی ثابت ہوئی ہے۔ یہ اس وقت مزید تباہی سے دوچار ہوئی جب ۱۹۷۰ کی دہائی میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا جس نے پاکستان کو مسلکی تفریق پر انحصار اور سعودی عرب سے زیادہ قریبی تعلقات پر مجبور کیا۔ ملک میں متشدد مسلکی جنگجو جہادی گروہوں کے پھیل جانے کے سبب مسلکی تفریق پاکستان کے داخلی دائرہ کار میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ایران نے پاکستان پر سنی جنداللہ کے جنگجوؤں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جو پاسداران انقلاب کے کمانڈرز اور اہم افراد کے قتل سمیت ایران میں عسکری کاروائیوں میں ملوث ہے۔ حال ہی میں پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اللہ نظر بلوچ سمیت بلوچ قوم پرست علیحدگی پسندوں کو اپنے ملک میں جگہ دینے پر ایران کی جانب انگلیاں اٹھائی ہیں۔ اس بارے میں اگرچہ کوئی سرکاری بیان نہیں دیا گیا تاہم ایران سے ابھرنے والی بلوچ علیحدگی پسند تحریک پاک ایران تعلقات میں ایک رکاوٹ ہے۔
چین کے ہمراہ نظریاتی جہات اور کردار کی شناخت
چین کے ہمراہ پاکستان کے تعلقات کو اکثر موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ایک اتحاد سمجھا جاتا ہے جس کے پس پشت محرک مشترکہ تزویراتی حریف بھارت ہے۔ تاہم پاک چین تعلقات کو سمجھنے کے لیے یہ غیرضروری حد تک سادہ سا نکتہ نظر ہے جبکہ یہ تعلقات خطرات کے بارے میں رائے سے کہیں زیادہ یقین دہانیوں کی بنیاد پر قائم ہیں۔ ۱۹۵۰ کی دہائی میں جب پاکستان نے سفارتی تعلقات کے لیے چین تک رسائی حاصل کی تب بھارت کا عنصر کم اہم تھا۔ درحقیقت یہ پاکستان کی سفارتی میدان میں مہارت تھی کہ وہ سیٹو اور سینٹو جیسے امریکی سرپرستی میں بننے والے سیکیورٹی اتحادوں میں شامل ہونے کے باوجود چین سے روابط میں کامیاب رہا۔ بنڈونگ کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم بوگرہ چینی وزیراعظم چو این لائی کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے تھے کہ اگرچہ پاکستان نے سیٹو میں شمولیت اختیار کی ہے تاہم وہ جارحیت کی نیت نہیں رکھتا ہے اور نا ہی چین کو ایک جارحانہ طاقت سمجھتا ہے۔
اس عمل کے دوران پاکستان کے مذہبی عقائد پس پشت ڈال دیے گئے تھے کیونکہ چین کو اہم پڑوسی کے طور پر زیادہ دیکھا جا رہا تھا۔
مزید براں اویغور کی مسلم آبادی کے ساتھ چین کے سلوک کے سبب اس پر بڑھتی تنقید کے باوجود پاکستان نے مسلسل چین کے موقف کی تائید کی ہے۔
تاہم پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تشکیل پانے کے بعد سے پاک چین تعلقات نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ سی پیک پر انحصار کے حوالے سے پاکستانی آبادی کے ایک حصے میں پائے جانے والے خطرات اگر سچ ثابت ہوتے ہیں تو یہ غالباً دو طرفہ تعلقات کا سب سے بڑا امتحان ہو گا۔ ایسی دہلا دینے والی صورتحال کہ جہاں پاکستان کا اقتدار اعلیٰ راہداری منصوبوں کی وجہ سے کمزور ہو، بھائی چارے اور یکجہتی کی بنیاد پر چین کے ہمراہ قائم پاکستان کی نظریاتی قربت کا اصل امتحان ہو گا۔
ماحاصل
تقسیم کے وقت موجود مذہب اور مذہبی تقسیم اگرچہ مخصوص حالات میں ہی سہی لیکن آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی شناخت کا کئی پرتوں پر مشتمل ہونا تنوع کو ریاستی شناخت کے تشکیلی منصوبے میں مستثنیات کا درجہ دینے سے بچاتا ہے اور اسے بطور اصول متعارف کروانے کے لیے ماحول فراہم کرتا ہے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی شناخت کی قابل بھروسہ تشریح ان تفرقات سے اس انداز میں نمٹنے کا مطالبہ کرتی ہے کہ جہاں خطے اور بین الاقوامی برداری کے ہمراہ تعاون پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Michal Svec via Flickr
Image 2: India Pakistan Wagah Border via Wikimedia Commons