Screen-Shot-2019-02-15-at-8.50.13-PM-1600×900


امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عسکری اور خفیہ اداروں کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی میں پاکستان کیلئے قیمتی سبق موجود ہے۔ حال ہی میں امریکہ کو لاحق خطرات کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں کے اندازوں پر امریکی صدر نے کھلے عام اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے ان کو دوبارہ سکول جانے کا کہا ہے۔ عمومی  طور پر دیکھا جائے تو امریکی سلامتی کونسل میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جہاں یکے بعد دیگرے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن، وزیر دفاع جیمز مٹیس، مشیر برائے قومی سلامتی جنرل ایچ آر مک ماسٹر، وائٹ ہاوس کے دوچیف آف سٹاف جان کیلی اور رئینس پرئیبس، اٹارنی جنرل جیف سیشنز اور مشیر برائے ہوم لینڈ سیکورٹی ٹام بوسرٹ فارغ کر دئیے گئے ہیں۔ یہ حالات میوزیکل چئیرز کھیل کی طرح قومی سلامتی کونسل میں اختلاف رائے پر عدم برداشت اورنظریات کی غیر ہم آہنگی کا نظارہ پیش کر رہے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ سلامتی امور پرعوام میں مقبول صدر کی رائے کو ایک ماہر کی رائے پر ترجیح دی جارہی ہے، حالانکہ سیاسی کامیابی عسکری اور سلامتی تجربے کا متبادل نہیں ہو سکتی ہے۔

پاکستان بھی قومی سلامتی کونسل کے ساتھ جڑے مسائل سے دو چار رہا ہے۔ گیلانی دور حکومت میں کونسل کو کابینہ کمیٹی کے حق میں ختم کیا گیا تھا۔ ۲۰۱۳ میں  نواز شریف حکومت نے سول عسکری تعلقات کو بہتر  بنانے کیلئے کونسل کی تشکیل نو کی لیکن وہ اس مقصد میں ناکام رہی کیونکہ آرمی کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ نے اپنے آپ کو تبدیل کر کے ”سول طاقت“ کو ”ملٹری طاقت“ سے محفوظ رکھنے والی جماعت کا روپ اپنا لیا۔ کسی حد تک پاکستان نے امریکہ سے کافی پہلے ہی قومی سلامتی کو ”سیاسی” بنا دیا تھا اور یہ بات قابل فہم ہے کہ تاریخی لحاظ سے پاکستانی فوج امریکی فوج کی نسبت سیاست میں زیادہ ملوث رہی ہے۔جب فوج سیاست میں دلچسپی لینا شروع کرتی ہے تو پھر سیاست بھی فوج میں دلچسپی لینا شروع کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے قومی سلامتی معاملات میں مفاد پرست سیاسی سرگرمیاں پاکستان کے وجود کیلئے خطرہ بھی ظاہر کرتی ہیں کیونکہ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی سلامتی  کے مسائل امریکہ کو درپیش مسائل سے کہیں زیادہ ہیں۔ پاکستان کے دشمن اتنے زیادہ، اتنے طاقتور، اور اتنے پر عزم ہیں کہ یہ ملک اپنے دفاع میں سیاست کا کھیل شامل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

پی ٹی آئی حکومت کیلئے ایک موقع ہے کہ وہ سول اور ملٹری کے درمیان پائے جانے والا دقیانوسی نوک جھونک کا سلسلہ اب ختم کرے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے برعکس پی ٹی آئی کے فوج کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں اور یہ پارٹی سیاستدانوں اور افسروں کے درمیان حقیقی پارٹنرشپ قائم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

امریکہ میں قومی سلامتی کونسل کی صدارت امریکہ کا صدر کرتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کی ہم پلہ کونسل کی صدارت وزیراعظم کرتا ہے۔ اور یہ بنیادی فرق امریکہ میں صدارتی نظام حکومت جبکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام کی وجہ سے ہے۔ چونکہ پاکستان میں انتظامیہ اور مقننہ ایک دوسرے سے اتنی الگ نہیں جتنی کہ امریکہ میں ہیں اس لئے ایک عوامی نمائندہ وزیراعظم، امریکہ میں صدر کی نسبت، مقننہ اور ملٹری کے درمیان اعتماد کی فضاء زیادہ آسانی سے قائم کرسکتا ہے۔

اعتماد کی بحالی کیلئے قومی سلامتی کونسل میں عسکری اور سلامتی کی حقیقی ساکھ کے حامل سیاستدانوں کو شامل کرنا ہوگا۔ امریکہ عسکری تجربے کے حامل قانون سازوں اور صدور کی ایک طویل فہرست پر فخر محسوس کرتا ہے۔ نمایاں عسکری تجربے  کے حامل صدور میں مشہورِ زمانہ شخصیات جیسے جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن، ابراہم لنکن، ڈوائٹ آیزن ھاور، تھیوڈور روزولٹ، جان ایف کینیڈی، رونالڈ ریگن اور جارج ایچ ڈبلیو بش شامل ہیں۔ اسی طرح ”سینیٹ“ اور ”ہاوس“ میں بھی عسکری تجربہ رکھنے والی بہت سی شخصیات شامل رہی ہیں جن میں حالیہ مثال سینٹر جان مکین اور جان کیری کی ہے۔

لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں باہر سے کسی شخص کو خواہ وہ ملٹری، بیوروکریسی یا کاروباری شخص ہو، اعلیٰ عہدے پرپہنچنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ کسی سیاسی پارٹی میں ایک ورکر کی حیثیت سے شامل ہونا تو ممکن ہے لیکن اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے کے لئے درکار سیاسی قوت ورثہ میں ملتی ہے، نہ کہ محنت کرنے سے۔ نتیجتاً جب بیک وقت عوامی مقبولیت کے ساتھ  ساتھ قومی سلامتی کا تجربہ رکھنے والے سیاست دانوں کی تلاش کی جاتی ہے تو بہت کم سامنے آتے ہیں۔

ان حالات میں جبکہ وزیراعظم بریگیڈئر(ریٹائرڈ) اعجاز شاہ کو بطور مشیر برائے قومی  سلامتی بنانے کا سوچ رہے ہیں، خوش آٰئند ہے۔ بریگیڈئر اعجاز شاہ قومی اسمبلی کی منتحب ممبر ہیں، سابقہ ملیٹری آفیسر ہیں اور سابقہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بھی۔  اس لئے ان کا چناؤ نہ صرف سیاسی طور پر درست ہو گا بلکہ وہ اپنے ساتھ ملٹری اور انٹیلیجنس معاملات میں مہارت بھی وزیراعظم آفس اور قومی سلامتی کونسل میں لے کر آئیں گے۔ پاکستان میں جمہوریت ابھی کمزور ہے اور اسے بے شمار داخلی اور خارجی سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے۔ یہ خطرات پاکستان کے طویل المیعاد سماجی اور معاشی معاملات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اگر حکومت متفقہ طور پر فیصلہ کن انداز میں اقدامات نہیں اٹھاتی۔ تاریخ میں یہ ایک نامور موقع ہے جب سول-ملٹری تعلقات میں کوئی کشیدگی موجود نہیں۔ یہ اب وقت کی اہم ضرورت  ہے کہ پاکستان قومی سلامتی پر حقیقی سول۔ملٹری پارٹنرشپ بنائے، اور ایسا کرنے کے لئے ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر بااختیار بنائے جو نہ صرف عوام میں مقبول ہوں بلکہ ایسا عملی تجربہ بھی رکھتے ہوں جو ملک کی سیکورٹی پالیسی تیار کرنے اور اس پر عمل کروانے کے لئے ضروری ہو۔

اس وقت جبکہ پاکستان شدید مالی اور معاشی دباؤ سے نمٹنے کی کوششیں کر رہا ہے، مشرق میں بھارت کے جنگی جنون، شمال میں افغانستان میں سیاسی ہلچل اور مغرب میں امریکی پشت پناہی اور بھارت کی مالی معاونت سے قائم چاہ بہار بندرگاہ جیسے خطرات پاکستان پر منڈلا رہے ہیں۔ داخلی طور پر علیحدگی پسند تحریکیں ہمارے شہری مراکز میں حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان تمام حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو کڑی بین الاقوامی نگرانی کی موجودگی میں کام کرنا پڑتا ہے: پاکستان کے معاہدوں پر عمل درآمد اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے بارے میں خفیہ رپورٹس باقاعدگی سے جاری ہوتی رہتی ہیں۔ بین الاقوامی کمیٹیاں ہمارے کسی غلط قدم اٹھانے پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں، بلخصوص ”ایف اے ٹی ایف“ نے دہشت گردی کی مالی معاونت نہ روکنے پر پاکستان کو ”گرے لسٹ“ میں ڈال دیا ہے۔ ان پیچیدہ چیلنجز اور رکاوٹوں سے نمٹنے لے لئے سول اور عسکری، دونوں میدانوں میں مہارت اور تجربہ کی ضرورت ہے۔

مخالف قوتیں بہت طاقت ور ہیں اس لئے چھوٹے بڑے تمام جھگڑوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اگر پاکستان نے ترقی کی راہ پر چلنا ہے تو اس کو لازماً مضبوط ارادے کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ 

***

Click here to read this article in English.

Image 1: PTI via Twitter

Image 2: Aamir Qureshi via Getty

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]