24411200582_57fde0829d_b-1024×616-1

 

 گزشتہ برس کے تباہ کن سیلابوں، عسکریت پسندوں کے ہمراہ کمزور معاہدے کے خاتمے، ماضی کے کرکٹر سے وزیراعظم عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی، بڑھتی ہوئی قیمتوں پر عوامی غم و غصہ اور مسلسل برقرار رہنے والی معاشی آزمائشوں کے باعث، ۲۰۲۳ نے پاکستان کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب پاکستان ان آپس میں الجھے المیوں سے باہر آنے کے لیے راہوں کا متلاشی ہے، معاشی بے چینی، سیاسی عدم استحکام اور سلامتی سے جڑی آزمائشیں بے یقینی کی ایک ایسی فضا بناتے ہیں کہ جس کی شدت میں ۲۰۲۴ میں عنقریب ہونے والے عام انتخابات مزید اضافہ کرتے ہیں۔

 

 معاشی بے چینی: مالی طوفان جھیلنے کا سلسلہ

 

 پاکستان ایک معاشی بحران سے نبردآزما ہے، دیوالیہ پن سے بچ نکلنے کے لیے اپنی بیرونی مالی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ترین سطح پر موجود زرمبادلہ کے ذخائر نے اس کی معاشی ابتری میں حصہ ڈالا ہے۔ ملک میں سرمائے کے مسلسل بہاؤ کے باجود، اعلیٰ ترین سطح پر بدانتظامی اور ادارہ جاتی بدعنوانی نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مسلسل نقصان پہنچایا ہے اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے انبار میں اضافہ کیا ہے۔ سابقہ حکمران جماعت اور موجودہ اتحادی حکومت دونوں کی جانب سے مناسب مالیاتی اور مالی اصلاحات کرنے میں ہچکچاہٹ کے سبب، پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جاری مذاکرات بارہا جمود کا شکار ہوئے ہیں۔ پاکستان کے متعدد شراکت دار جیسا کہ چین اور سعودی عرب قرضوں کی تجدید اور مالی معاونت کی فراہمی کے ذریعے سے نمایاں کھلاڑیوں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

 

 اقتصادی بحران نے ایندھن کی رسد میں کمی اور توانائی کے حوالے سے سخت اقدامات سمیت بنیادی سلامتی خدشات کو مزید ابتر کیا ہے، جس نے بڑے پیمانے پر عوامی بے چینی کو بڑھاوا دیا ہے۔ جدوجہد میں مصروف معیشت کی ایک نمایاں علامت موسم خزاں میں قومی پرواز پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی جانب سے ۴۰۰ سے زائد فلائٹ آپریشنز کو گراؤنڈ کرنا ہے۔ متعدد باوثوق ذرائع یہ اشارہ دیتے ہیں کہ چین کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے قرضوں نے ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ کیا ہے جس کا کہ قبل ازین اندازہ لگایا گیا تھا۔ پاکستان چینی قرضوں کے تین سب سے بڑے وصول کنندگان میں سے ایک ہے، جو بالخصوص چوٹی کے ماہرین کے لیے بے حد باعث تشویش ہے۔

 

عام انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ سیاسی بے چینی میں اضافہ

 

پاکستان کی داخلی سیاست ۲۰۲۳ میں متعدد مواقع پر اتھل پتھل رہی۔ پاکستان میں سب سے طویل وقت کے لیے وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کے بھائی شہباز شریف، ناقص حکمرانی اور پالیسی بدانتظامیوں کے الزامات کے سبب عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپریل ۲۰۲۲ میں وزیراعظم کے طور پر مقرر ہوئے تھے؛ خان کا دعویٰ ہے کہ ملٹری اشرافیہ سے جھگڑا ان کی بے دخلی کا باعث بنا، اور انہوں نے اپنے دفاع میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے۔ اپریل سے اگست کے درمیان ملکی رہنما کے طور پر شہباز شریف کا دور سیاسی جمود کا باعث بنا ہے۔ شہباز شریف کی مدت کے دوران ایک فیصلہ کن موڑ ۹ مئی کو خان کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا۔ لاہور، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں اچانک ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کنندگان نے ٹریفک کی راہ میں رکاوٹیں حائل کیں اور پر تندوتیز عسکری مخالف جذبات کا اظہار کیا۔

 

مئی ۹ کے احتجاجی مظاہرے نہ صرف مظاہرین کی تعداد کی وجہ سے اہمیت رکھتے تھے بلکہ اس دعوے کے سبب بھی جو کہ وہ رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر مردان میں مظاہرین نے فوج پر کرپشن کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک عسکری سہولت گاہ کے سامنے “پاکستانی آرمی مردہ باد” کے نعرہے لگائے تھے۔ مظاہروں کے نتیجے میں سنگین کریک ڈاؤن دیکھنے کو ملا جن میں دس سے زائد مظاہرین مارے گئے اور پی ٹی آئی کے ۵۰۰۰ مظاہرین گرفتار کیے گئے۔ خان عسکری تنصیبات پر حملوں سے خود کو علیحدہ کرنے کے باوجود بھی، داخلی سطح پر بغاوت سے دوچار ہوئے کیونکہ ان کی جماعت کے بعض رہنماؤں اور مددگاروں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تشدد کی مذمت کرتے ہوئے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ مظاہروں کے خلاف عسکری ردعمل ایسا تھا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی تھی، اور اس کا نتیجہ تین ایسے کمانڈرز کی عہدوں سے برطرفی اور چوٹی کے ۱۵ افسران کے خلاف تادیبی کارروائیووں کی صورت میں ہوا جنہوں نے خان کے لیے حمایت کا کھلے عام اظہار کیا تھا۔ یہ، عسکری ادارے کی جانب سے اپنی ہی قیادت کے خلاف دہائیوں کے دوران کی گئی مضبوط ترین کارروائی تھی، جس نے فوج اور سویلین حکومت کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا دی۔

 

اگست۹، ۲۰۲۳ کو وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ کی تحلیل کا مشورہ دیا تاکہ عام انتخابات منعقد کروائے جائیں؛ اس تحلیل نے کم از کم ظاہری سطح پر جمہوری طور پر تجدید نو کے لیے عزم کا اشارہ تھا۔ اس ابتری نے عسکری حمایت یافتہ اشرافیہ کے ہاتھوں الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے ممکنہ طور پر سیاست زدہ ہونے کے حوالے سے خدشات بلند کیے ہیں۔ صوبائی اور دیگر انتخابات منعقد کروانے میں تاخیر نے ای سی پی کی غیرجانبداری اور منصفانہ اور بروقت انتخابات منعقد کروانے کی اس کی قابلیت کے بارے میں خدشات پیدا کیے ہیں۔

 

اکتوبر میں نواز شریف، برطانیہ میں اختیار شدہ خودساختہ جلاوطنی ختم کرتے ہوئے وطن واپس لوٹے، جس موقع پر لاہور میں تاریخی ریلی کی شکل میں ان کا استقبال کیا گیا۔ ان کی واپسی کا وقت اور پانامہ پیپر لیکس کے نتیجے میں ان پر عائد ہونے والے کرپشن کے الزامات نے اس بارے میں باوثوق قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ انہیں فوج کی جانب سے حمایت حاصل ہو رہی ہے – بالخصوص اگر ۹ مئی کے مظاہروں میں فوج کی مداخلت کو مدنظر رکھا جائے۔ نومبر میں، ایک عدالت نے ایک کرپشن کیس میں نواز شریف کی سزا کو ختم کر دیا ، جس کے بعد انہیں آنے والے انتخابات میں شرکت کے لیے محض پانامہ پیپرز کرپشن کیس سے برطرفی درکار رہ گئی۔

 

انوارالحق کاکڑ ان دنوں نگران وزیراعظم مقرر ہیں اور عسکری اداروں کے ہمراہ ان کے مضبوط تعلقات کا کھلے بندوں اعتراف کیا جاتا ہے۔ کسی مینڈیٹ سے عاری شخص کی بطور نگران وزیراعظم تقرری اور خاص کر نواز شریف کی واپسی اور دیگر حالیہ پیش رفتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تقرری جائز طریقے سے نظام چلانے کے بارے میں خدشات کو جنم دیتی

ہے۔

 

 

 

نواز کا بری ہونا اور ممکنہ سیاسی واپسی جو پاکستانی عسکری اداروں کی حمایت یافتہ دکھائی دیتی ہے، بین الاقوامی سطح پر چھان پھٹک کا باعث ہو سکتی ہے۔اب جبکہ پاکستان ۲۰۲۴ میں داخل ہو رہا ہے، جمہوری اقوام کرپشن کے خلاف کوششوں کا ممکنہ طور پر مطالبہ کریں گے تاکہ نواز کے خلاف کرپشن کیسز میں سزاؤں کے خاتمے کے عدالتی فیصلوں کے خلاف سفارتی سطح پر تنقید میں تخفیف کی جا سکے۔ یہ غیر مستحکم سیاسی تبدیلیاں بڑے دو طرفہ اور کثیرالطرفی قرض دہندگان میں نمایاں بے یقینی پیدا کرتی ہیں۔

 

ایسے وقت میں کہ جب پاکستان معاشی بے چینی اور سیاسی انتشار کے کثیرالرخی آزمائشوں سے نبردآزما ہے، دہشت گردی کی بڑھتی شرح ملکی استحکام کے لیے بڑا خطرہ رکھتی ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی اور سلامتی مطالعے کے ادارے کی جانب سے حالیہ رپورٹ عسکری حملوں کی شدت میں اضافے پر روشنی ڈالتی ہے، جس میں ۲۰۲۳ کے پہلے نو ماہ کے دوران ۷۰۰ سے زائد اموات واقع ہوئیں۔ ان میں سے ۹۲ فیصد اموات افغانستان کے ساتھ سرحدی طور پر منسلک صوبے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ہوئیں، جن میں سے زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کے افراد شامل تھے۔ ٹی ٹی پی، اسلامی ریاست خراسان (آئی ایس-کے) کے طور پر معروف، اور متعدد بلوچ علیحدگی پسند گروہ عام طور پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اگرچہ پرتشدد واقعات کا دائرہ فی الوقت شمال مغربی صوبوں تک محدود ہے، تاہم اس کے دیگر خطوں جیسا کہ پنجاب اور سندھ تک پھیل جانے کی نحس علامات موجود ہیں۔ تشدد میں اس معمولی اضافے کے انتخابات پر اثرات، پاکستان پر نگاہ رکھنے والے مشاہدہ کاروں کے لیے باعث تشویش ہے۔

 

داخلی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے دوران بین الاقوامی سفر کے خدوخال ترتیب دینا

 

 پاک چین ہم نوائی: سیاسی بہاؤ کے بیچ ہم آہنگی

 

 داخلی آزمائشوں کا یہ جال پاکستان کے خارجہ تعلقات کے لیے مضمرات رکھتا ہے، کیونکہ یہ علاقائی کھلاڑیوں کے ہمراہ پاکستان کے روابط کو تبدیل کرنے کا امکان رکھتا ہے۔ چین کے ہمراہ پاکستان کے ارتقاءپذیر تعلقات جو غالبا اس کا اہم ترین تزویراتی شراکت دار بھی ہے، بالخصوص قابل غور ہیں کیونکہ پاکستان ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ایک گروہ برکس میں رکنیت کا خواہشمند ہے، جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اسلام آباد، بیجنگ کے ہمراہ اپنے تعلقات کو گہرا بنانے کا خواہشمند ہے، اور نومبر میں اعلیٰ سطحی سلامتی اجلاس بی آر آئی منصوبوں میں چینی عملے کے تحفظ کے پاکستانی عزم کی تصدیق کرتا ہے۔ اسی مہینے میں، پاکستان نے ایک بحری مشق سی گارڈیئنز کے دوران ایک جدید ترین چینی تباہ کن بحری جہاز کی میزبانی کی جو دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ دفاعی تعاون میں آنے والی گہرائی کو نمایاں کرتا ہے۔

 

 سرحدوں پر رابطے قائم کرنا: پاکستان کے قریبی ہمسایوں سے تعلقات 

 

اسلام آباد کے اپنے دیگر متصلہ ہمسایوں میں سے دو کابل اور نئی دہلی کے ہمراہ تعلقات بوجھل رہے۔ پاکستان کے مطابق افغانستان کے ہمراہ اس کے تعلقات میں تین بنیادی مسائل ہیں جو برقرار رہتے ہیں۔ اولاً، افغانستان اور پاکستان کی غیرمستحکم سرحد پر پاکستانی اور طالبان فورسز کے درمیان واقتاً فواقتاً جھڑپیں جاری رہتی ہیں جو سرحد پار کرنے پر بندشوں کا باعث بنتی ہیں، دونوں فریق متنوع مسائل پر فائرنگ کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۳ میں اہم سرحدی بندش کا نتیجہ ایک ہفتے کے دوران اندازاً ایک ملین ڈالر کے نقصان کا باعث بنی۔

 

عسکری گروہوں بالخصوص ٹی ٹی پی کی جانب سے سرحد پار حملوں سے روکنے کی خاطر طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے سفارتی کوششیں ان علاقائی تعلقات کی ارتقائی کیفیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ سوئم، ۲۰۲۳ کے اواخر میں، پاکستان کی جانب سے غیرقانونی تارکین وطن کو نکالنے کی کوششوں نے بڑے پیمانے پر عوام میں بے چینی پیدا کی۔ اس اعلامیے نے بنیادی طور پر ۲ ملین کے قریب ان دستاویزات سے عاری افغان پناہ گزینوں کو متاثر کیا جو پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ عوامی سطح پر مخالفت بھی سامنے آئی اور اس کے ساتھ ساتھ ایکٹویسٹس نے سرحد پار تجارت اور سفر کے حوالے سے پالیسی کے اثرات کے بارے میں خدشات ظاہر کیے، جو کہ چمن اسپن بولدک سرحد کے ساتھ احتجاجی مہم کا باعث بن چکا ہے۔

 

پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات بدستور غیر اہم رہے جبکہ کرکٹ پر ہونے والی جھڑپیں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی رقابت کی غیر ہموار نوعیت کو بیان کرتی ہیں۔ دونوں ریاستوں کے درمیان معدوم پڑتے معاشی تعلقات اور ثقافتی تبادلے بھارت کی جانب سے دیگر علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دینے کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ دونوں جانب قوم پرستی اور عوامی سطح پر جارحیت سفارتی آزمائشوں کو مزید ابتر بناتی ہے، اور مستقبل میں تعاون کے امکانات پر خدشات بلند کرتی ہے۔ جیسا کہ متعدد ماہرین اور سرکاری حکام زور دیتے ہیں کہ پاکستان نے بھارت جسے وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اس کے خلاف اپنے اہداف کے حصول کے لیے دہشت گردی کو حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا ہے، اور اس کے اثرات وسط مدت میں وسیع تر علاقائی مضمرات میں تبدیل ہوئے ہں۔ یہ پہلے سے موجود دو طرفہ تعلقات کو متاثر کرتے ہیں اور شدید بے اعتباری اور آپس میں متعدد جنگوں کی تاریخ رکھنے والے دونوں جوہری مسلح پڑوسیوں کے درمیان عدم استحکام کو فروغ دیتے ہیں۔

 

 شکستہ بنیادیں: امریکہ کے ساتھ پاکستان کے بکھرتے تعلقات 

 

افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد کی صورتحال نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کی حرکیات کو تبدیل کر دیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی حیات نو کے حوالے سے امریکی خدشات پاکستان کے بعض سلامتی مفادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک نے آفات کے انتظامات، سلامتی اور تجارت سمیت دیگر متعدد شعبوں میں تعاون کو جاری رکھا ہے۔ تاہم امریکہ اور چین کے درمیان وسیع تر جغرافیائی سیاستی رقابت پاکستان کے سر پر منڈلاتی آزمائش ہے کیونکہ امریکہ چینی اثر متوازن کرنے کے لیے علاقائی اتحادیوں کا خواہاں ہے۔ پاکستان کی جانب سے باریک بینی کے ساتھ جاری اس سیاسی شعبدہ بازی کا جائزہ لیتی نگاہوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فلسطین کی آزادی کی حمایت میں پاکستان کے ٹھوس موقف کی روشنی میں، ۷ اکتوبر کو حماس کی جانب سے حملوں کے بعد امریکہ کی اسرائیل کے لیے سفارتی اور عسکری حمایت دو طرفہ تعلقات کے لیے ایک اور آزمائش ہے۔

 

اس مرحلے پر پاکستان، عسکریت پسندوں کی جانبب سے بڑھتے خطرات کے بین بین، معاشی بے یقینیوں، سیاسی انتقالات اور سلامتی سے جڑی آزمائشوں سے دوچار ہے۔ پاکستان میں فی الوقت جاری افراتفری کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فروری ۲۰۲۴ کے عام انتخابات کے بعد بھی عدم استحکام کی کیفیت چھائی رہے گی اور امریکہ، چین اور اس کے علاقائی پڑوسیوں کے ہمراہ اس کے تعلقات پر اثراانداز ہوتی رہے گی۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Nawaz Sharif via Flickr.

Image 2: Protests in Pakistan via Wikimedia Commons.

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…