GfJwuPhawAAlU6h

جنوبی ایشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش– (دو) قومیں جو کبھی  پرتشدد علیحدگی اور دہائیوں کی مخالفت کے باعث (ایک دوسرے سے) دُور تھیں، کے تزویراتی اتحاد کی جانب سفر کا آغاز کر نے سے  ایک انقلابی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔بنگلہ دیش میں  ہونے والی بڑی سیاسی تبدیلیوں اور تغیر پذیرعلاقائی جغرافیائی سیاست کے باعث  یہ بدلتے ہوئے روابط ممکنہ طور پر نہ صرف ان کے دوطرفہ تعلقات کو نئی صورت دے سکتے ہیں بلکہ وسیع تر جنوبی ایشیائی خطے کے محرکات پر بھی اثر کر سکتے ہیں۔ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ تعامُل، 15 سال کے وقفے کے بعد ان کے دفتر خارجہ کی مشاورت اور اس ماہ کے آخر میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بنگلہ دیش کا دورہ ،معاشی اور دفاعی معاملات میں بات چیت اور تعاون پر مرکوز ایک نئے باب کے سامنے آنےکی نشاندہی کرتا ہے۔

پاک بنگلہ تعلقات کا سیاق و سباق

جوہری ہتھیاروں سے لیس روایتی حریف بھارت اور پاکستان کی دشمنی کے درمیان،غیر جانبدارانہ اور غیر وابستہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنا بنگلہ دیش کے لیے ایک اہم آزمائش رہی ہے۔اگرچہ بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارت کے کردار نے نئی دہلی کو ایک فطری شراکت دار بنا دیا ہے اور بنگلہ دیش کے معاشی اور دفاعی سے متعلقہ مفادات اس کے جغرافیہ کی بدولت بھارت سے جڑے ہوئے ہیں ، لیکن ان کے تعلقات الجھاؤ کے بغیر نہیں رہے ۔دریاؤں کے تنازعات، سرحد پار عسکریت پسندی اور غیر قانونی نقل مکانی  (امیگریشن )تعلقات میں مستقل مسائل رہے ہیں۔تاہم حالیہ برسوں میں، خصوصاً طویل عرصے تک  وزیر اعظم  رہنے والی شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں، ڈھاکہ اور نئی دہلی مضبوط تجارتی اور دفاعی سے متعلقہ تعاون سے مستفید ہوئے ہیں۔

تاہم جیسے جیسے بحر ہند میں بحری مسابقت میں اضافہ ہوا ہے، بنگلہ دیش کی جغرافیائی تزویراتی اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جس سے ڈھاکہ کے لیے خطے میں دیگر شراکت داروں کے ساتھ روابط استوار کرنے کے مواقع  سامنے آئےہیں۔اگست 2024 میں حسینہ واجد کی عہدے سے برطرفی کے بعد محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت نے نئی دہلی سے دوری  اور اسلام آباد  وبیجنگ کے ساتھ قریبی اتحاد قائم کرکے بنگلہ دیش کی دیرینہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کر دیاکر دیا ہے۔

حسینہ واجد کے 16 سالہ دوِر حکومت میں پاکستان مخالف بیان بازی غالب رہی۔اس دوران اسلام آباد اور اس کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس پر اکثر بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا رہا۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات اس وقت اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے بھارت کے ساتھ تعاون برائے انسداد دہشت گردی استوار کیا اور 1971 کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات کا آغاز کیا۔پاکستان نے بے بنیاد اور سیاسی محرکات کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے ان مقدمات کی مذمت کی،  جس کے باعث ایک بڑا سفارتی تنازعہ پیدا ہوا ۔حالیہ عرصے میں حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے خلاف بغاوت کو اسلامی بنیاد پرستی نہ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ پاکستان ملک میں اسلامی عسکریت پسندوں کی حمایت کر رہاہے۔ اس طرح عوامی لیگ کی پاکستان مخالف بیان بازی نے طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے روکا۔لیکن حکومت کے خاتمے نے ایک نئی سفارتی حقیقت کے ابھرنے کی راہ ہموار کی۔

پاکستان اور  بعد از حسینہ واجد  بنگلہ دیش 

بنگلہ دیش کی حالیہ سیاسی تبدیلی کے تناظر میں ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی اور اقتصادی تعلقات میں سرد مہری میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔جب سے محمد یونس نے عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کا عہدہ سنبھالا ہے، انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کی ہیں۔ بنگلہ دیش کی قیادت میں تبدیلی کے بعد ڈھاکہ میں پاکستانی سفارت کاروں نے مقامی رابطہ کاروں کے ساتھ میل ملاپ زیادہ کر لیا ہے۔

اس سیاسی سرد مہری میں کمی کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تجارت ایک بنیادی مرکوزکے طور پر اُبھری ہے۔نومبر اور دسمبر میں دو پاکستانی تجارتی بحری جہاز چٹاگانگ بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئے، جس سے سمندری تجارتی بہاؤ (ٹریڈ فلو)  بحال ہوا جو 1971 کی جنگ کے بعد سے معطل تھا۔اگست اور دسمبر 2024 کے درمیان باہمی تجارت میں 27 فیصد اضافہ ہوا۔

تاہم جیسے جیسے بحر ہند میں بحری مسابقت میں اضافہ ہوا ہے، بنگلہ دیش کی جغرافیائی تزویراتی اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جس سے ڈھاکہ کے لیے خطے میں دیگر شراکت داروں کے ساتھ روابط استوار کرنے کے مواقع سامنے آئےہیں۔

دونوں ممالک اب اپنی تجارت کو  خصوصاً تعمیراتی سامان، کھانے پینے کی اشیاء، دوا سازی اور ڈیٹا ٹیکنالوجی جیسے شعبہ جات میں،بہتر تعاون کی تلاش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی انتظامیہ اور کاروباری گروپ سال کے دوران باہمی تجارت کو 3 بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے پر زور دے رہے ہیں۔اس کوشش کے ایک جُزکے طور پر ، دونوں ممالک کے ایوانِ ہائے تجارت  (چیمبرزآف کامرس) نے 13 جنوری کو ایک مشترکہ کاروباری کونسل کے قیام کے لئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔تاہم بڑھتے ہوئےکے باوجود تجارتی توازن پاکستان کے حق میں جھکا ہوا ہے۔مالی سال23-2022 میں مجموعی تجارتی حجم تقریبا 782ملین امریکی  ڈالر رہا جبکہ پاکستان کی برآمدات بنگلہ دیش کی درآمدات پر 630ملین امریکی ڈالر سے زائد (مالیت سے) غالب رہیں۔

دوطرفہ تعلقات میں ایک اور اہم تبدیلی سفری پابندیوں میں نرمی ہے۔فی الحال بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان کوئی براہ راست پروازیں نہیں ہیں ، اور سالوں  پاکستانیوں کو سیکیورٹی کلیئرنس (حفاظتی اجازت نامہ) کی سخت  جانچ پڑتال کے باعث بنگلہ دیشی ویزا حاصل کرنے میں نمایاں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔تاہم ڈھاکہ کی عبوری حکومت نے اب ان پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے براہ راست فضائی خدمات کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان نے جواباً بنگلہ دیشی مسافروں کے لیے ویزا فیس اور سیکیورٹی کلیئرنس کی شرائط ختم کردی ہیں۔

تجارت اور سفر کے علاوہ بنگلہ دیش اور پاکستان دفاعی تعلقات کو بھی مضبوط بنا رہے ہیں۔رواں سال جنوری میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے اعلیٰ دفاعی حکام نے راولپنڈی میں ملاقات کی  جس میں علاقائی سلامتی کو مرکوز رکھتے ہوئے باہمی دلچسپی کے سیکیورٹی  (سلامتی سے متعلقہ) امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔پاکستان کی عسکری قیادت نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو پائیدار شراکت داری قرار دیا جس کا مشترکہ مفاد علاقائی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کا ایک اہم عنصر پاکستان اور چین کے مشترکہ طور پر تیار کردہ جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کے حصول میں بنگلہ دیش کی مبینہ دلچسپی ہے۔یہ مقامی (ڈومیسٹک) جیٹ لڑاکا طیارہ مغربی متبادل کی قیمت کے  مقابلے میں محض ایک معمولی قیمت پر بنگلہ دیش کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کونمایاں طور پر بڑھا سکتا ہے، جو ڈھاکہ کے مروّج  دفاعی جدید کاری کے اقدام “فورسز گول 2030” کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔اس ممکنہ خریداری سے آنے والے برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوے دفاعی تعلقات مضبوط تر ہوسکتے ہیں۔کچھ غیر مصدقہ زیرِ گردش اطلاعات میں یہ دعوٰی بھی کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کے حصول کی کوشش کر رہا ہےکر رہا ہے۔

اگرچہ اس طرح کی پیش رفت  (ابھی محض) قیاس آرائیاں ہیں ، لیکن یہ وسیع تر  تزویراتی مکرّر جائزے (اسٹریٹیجک ری کیلیبریشن)  کی نشاندہی کرتی ہیں۔قابلِ ذکر امریہ ہے کہ بنگلہ دیش کے تزویراتی حلقہ (اسٹریٹیجک کمیونٹی) میں کچھ صدائیں پاکستان کے ساتھ دوطرفہ جوہری معاہدے کی وکالت بھی کر رہی ہیں، جو علاقائی طاقتوں کے عدم توازن کے مقابلے میں دفاعی تعلقات کو مضبوط ترکرنے کی خواہش کا عندیہ ہے۔

مزید برآں 7 تا11 فروری بنگلہ دیش نے کراچی کے قریب شمالی بحیرہ عرب میں پاک بحریہ کے زیر اہتمام امن -25 کثیر القومی بحری مشقوں میں ایک اہم بحری جنگی جہاز بی این ایس سمندرہ جوئے بھیجا۔ یہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں سمندری مشقوں میں بنگلہ دیش کی پہلی شرکت ہے، جو بحر ہند میں برتر علاقائی روابط اور سفارتی  طور پر فعال دفاعی حکمت عملی کی طرف اس کے جھکاؤ کو اجاگر کرتی ہے۔چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں سمیت 50 سے زائد ممالک کی شرکت کے ساتھ ، امن -25 میں بنگلہ دیش کی شرکت ایک آزاد خارجہ پالیسی اور اجتماعی بحری سلامتی میں شمولیت میں نئی دلچسپی کی عکاس ہے۔

وسیع تر علاقائی مضمرات

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات جنوبی ایشیا کی طاقت کے توازن (پاور ڈائنیمکس) کو کافی حد تک تبدیل کر رہے ہیں، جس کا فوری اثر علاقائی شراکت داریوں کا مکرّر جائزہ ہے۔عبوری حکومت محض بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائےزیادہ متنوع نقطہ نظر کی طرف بڑھ رہی ہے جو خطے میں نئی دہلی کے تزویراتی مفادات کو دعوتِ مبارزت (چیلنج) دیتی ہے۔چین، جو پہلے ہی پاکستان پر نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور بنگلہ دیش کے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر چکا ہے، خلیج بنگال میں اپنے تزویراتی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لئے بھی اس نئے اتحاد  کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے بیجنگ نے بنگلہ دیش میں رابطے اور توانائی کے اہم منصوبوں کی مالی اعانت کی ہے اور خود کو ڈھاکہ کے لیے طویل المدتی اقتصادی شراکت دار کے طور پر پیش کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور چین کے تعلقات کو مستحکم کرنے کی جانب ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے یونس نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا اور  تزویراتی تعلقات آگے بڑھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئےصدر شی جن پنگ کے ساتھ مثبت (انداز میں)  تبادلۂ خیال کیا ۔اس کے برعکس یونس اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بمسٹیک سربراہ اجلاس کے موقع پر ہونے والی ثانوی ملاقات متنازعہ امور سے نمٹنے پر مرکوز تھی۔

اگر بنگلہ دیش کے چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات خصوصاً دفاع کے شعبے میں، مزید گہرے ہوتے ہیں تو بھارت اسے تزویراتی محاصرے کے طور پر قیاس کرسکتا ہے، جس کے باعث نئی دہلی کواپنے علاقائی طرزِ عمل پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ممکنہ بھارتی ردعمل میں شمال مشرقی خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانا، بنگلہ دیش پر سفارتی دباؤ بڑھانا یا خلیج بنگال کی دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا شامل ہوسکتا ہے۔اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی اور دفاعی روابط خطے میں اسلحے کی دوڑ اور عسکریت پسندی میں اضافے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی تقطیب (پولرائزڈ) کے تناظر میں ، بنگلہ دیش نادانستگی میں ایک جغرافیائی سیاسی نقطۂ اشتعال   (فلیش پوائنٹ) بن سکتا ہے،جو مسابقتی تزویراتی اتحادوں کے درمیان اُلجھ سکتا ہے، جس سے اس کامستقبل میں بھارت اور پاک چین اتحاد کے درمیان (کسی)  تنازعے میں مرکزِ توجہ بننے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اپنے (بنگلہ دیش) مضبوط تعلقات کے تاثر کے باعث بھارتی تجزیہ کار بنگلہ دیش میں انتہا پسندی کے ممکنہ احیاء اور بھارت مخالف اسلامی عسکریت پسندی کی بحالی کے بارے میں نئی دہلی کے خدشات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

وری حکومت محض بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائےزیادہ متنوع نقطہ نظر کی طرف بڑھ رہی ہے جو خطے میں نئی دہلی کے تزویراتی مفادات کو دعوتِ مبارزت (چیلنج) دیتی ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش اور پاکستان کے ارتقا پذیر تعلقات کا مثبت نتیجہ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (سارک) جیسے علاقائی جماعتوں (پلیٹ فارمز ) کو از سر نو متحرک کرنے کا موقع ہے، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشیدگی کی وجہ سے کافی حد تک غیر مؤثر رہی ہے۔اگر اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے پر حقیقی آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو زیادہ متوازن اور سفارتی طور پر چست ڈھاکہ سہولت کار کے طور پر ابھر سکتا ہے جس سے سارک کے رکن ممالک کے مابین قریبی اقتصادی اور سفارتی تعلقات کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔

تاہم تزویراتی طور پر خود مختار ڈھاکہ کا تصور بھارت، پاکستان اور چین کے زیر تسلط بڑھتے ہوئے  تقطیبی  (پولرائزڈ)  ماحول میں غیر جانبداری کی حدود کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔اپنے جغرافیائی محل وقوع اور معاشی انحصار کے پیش نظر ڈھاکہ کو کسی  بھی ایک طاقت کی قربت، خواہ وہ انفرااسٹرکچر کے لیے چین ہو، تجارت کے لیے بھارت ہو یا نظریاتی استحکام کے لیے پاکستان ہو، تو اس سے دیگر (طاقتوں)سے دُوری اور مزید داخلی عدم استحکام کو دعوت دینے کا اندیشہ ہے۔ایک جانب چین کے مدار میں شامل ہونے سے ترقیاتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں تاہم  اس (جھکاؤ) سے دہلی اور واشنگٹن میں بےچینی بھی  پیدا ہوسکتی ہے۔دوسری جانب کسی بھی بھارتی تشویش کو باآسانی حل کرلینے سے اندرونِ ملک قوم پرست یا اسلام پرست جذبات بھڑک سکتے ہیں۔

لہٰذا اس  سہ قطبی حرکیات (ٹرائی پولر ڈائنامک) کی رہنمائی ( نیویگیٹنگ) کے لیے محتاط توازن کی ضرورت ہے، جسے “فلیکسیبل ہیجنگ” کی حکمت عملی بھی  کہا جا سکتا ہے۔بنگلہ دیش کو اپنی شراکت داریوں کو متنوع بنانا جاری رکھنا چاہیئے، نظریاتی  اتحاد (بلاکس) کے بجائے مسائل پر مبنی اتحاد پر زور دینا چاہیئے اور جہاں طاقت کی عدم مساوات شدّت میں کم ہو، وہاں کثیر الجہتی نظام العمل (پلیٹ فارمز )سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اس غیر جامد جغرافیائی خطّے میں ڈھاکہ کے لیے آزمائش (چیلنج)  یہ ہے کہ وہ مناسب حد تک چوکس رہتے ہوئے کسی بھی  (فریق) کی اسیری کےبغیر تمام بڑے فریقین کے ساتھ ربط ضبط میں رہے۔اس کے مستقبل کے استحکام اور تزویراتی خودمختاری کا دارومدار  اس تنے رسّے پر  بِلا کم و کاست چلنے میں ہی ہے۔

***

Views expressed are the author’s own and do not necessarily reflect the positions of South Asian Voices, the Stimson Center, or our supporters.

This article is a translation. Click here to read the original in English.

Image 1: @ChiefAdviserGoB/X via X

Image 2: Bangladeshi Navy Ship in Aman-25 Exercise via Getty Images

Share this:  

Related articles

भारत का तालिबान 2.0 के प्रति रूख: सतर्क एवं सतत Hindi & Urdu

भारत का तालिबान 2.0 के प्रति रूख: सतर्क एवं सतत

हाल की भारतीय पहल, जैसे कि जनवरी 2025 में विदेश…

پاکستان کے میزائل پروگرام کے خلاف پابندیاں: جنوبی ایشیا میں تغیر پذیر امریکی ترجیحات  Hindi & Urdu
بدلتےاتحاد :طالبان کے بھارت اور پاکستان کےساتھ ارتقائی تعلقات Hindi & Urdu

بدلتےاتحاد :طالبان کے بھارت اور پاکستان کےساتھ ارتقائی تعلقات

طالبان کی جانب سے 15 اگست2021 کو اشرف غنی کی…