گزشتہ برس فروری میں جموں سری نگر ہائی وے پر بھارتی سیکیورٹی قافلے پر ایک خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ۴۴ جوان مارے گئے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ میں بدترین تصور کئے گئے اس حملے کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے مابین ایک بحران نے جنم لیا۔ بحران میں اضافے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے مرکزی ذرائع ابلاغ کو واقعات کی کوریج اور بیانیئے کو تشکیل دینے کیلئے معمول سے بڑھ کے کام کرنا پڑا۔ ابتداً دونوں ممالک میں روایتی نیوز میڈیا قوم پرستی پر مشتمل بیان بازی کو دوہرانے میں حکومت کی پشت پر کھڑا رہا، اور اسطرح اس نے اشتعال انگیزی کو فروغ دینے والے محرک کا کردار کیا۔ تاہم بعد ازاں سرکاری بیانیئے کو رٹنے کا یہی عمل کشیدگی کے خاتمے میں بھی اہم عنصر بنا- اسی میڈیا نے ساکھ بچانے کیلئے یہ ثابت کرنے میں مدد کی کہ کشیدگی کی ضرورت ختم ہوچکی ہے اور اس کے لئے حکومتوں کو عوام کے سامنے اپنی کامیابی کی تشہیر کا موقع فراہم کیا گیا۔
میڈیا کی نگاہ سے بحران کا تجزیہ
۱۴ فروری کو پلوامہ دہشت گرد حملے کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں جگہ میڈیا نے حکومت اور قوم پرستی کے حق میں بیانیئے کو فروغ دیا۔
چونکہ اس حملے کی ذمہ داری پاکستان سے تعلق رکھنے والی دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے قبول کی اور یہ ایسے وقت میں ہوا کہ جب بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ تھے نیز عام انتخابات عنقریب ہونا تھے جن میں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں دوبارہ آنے کیلئے کوشاں تھی، لہذا بھارت کی جانب سے پاکستان کو جوابی مزہ چکھانے کا مطالبہ فوری تھا۔ ستمبر ۲۰۱۶ میں اڑی حملے کے بعد سرجیکل سٹرائیکس کی مثال موجود تھی، لہذا مودی حکومت پر ردعمل دینے کیلئے دباؤ بھی تھا۔
۱۴ فروری کوبھارت میں پرائم ٹائم کا آغاز ہونے تک دفاعی اور سیاسی تجزیہ کاروں سے بھرے ہوئے سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن سٹوڈیوز انتقام کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ میڈیا، انٹیلی جنس ناکامی کی وجہ سے حملے کے امکانات پر آزادانہ رپورٹنگ کرتا یا پھر جوابی ردعمل کے سوال پر مختلف آراء پر مشتمل مباحثے منعقد کئے جاتے؛ زیادہ تر میڈیا جوابی فوجی کاروائی کی ضرورت پر ملک گیر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کردار ادا کرتا رہا۔ بی جے پی اسٹیبلشمنٹ سے قریب سمجھے جانے والے میڈیا ہاؤسز کی جانب سے جارحانہ ردعمل کا مطالبہ یہ اشارہ دیتا ہے کہ حکومتی ارادوں اور میڈیا میں خاص حد تک اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ مجموعی طور پر بھارتی نیوز کوریج نے اشتعال انگیزی میں معاون کا کردار کیا اور ٹیلی ویژن صحافی آنے والے وقت میں بحران کی شدت میں اضافے کیلئے قوم کو تیار کرتے رہے۔
اسی دوران پاکستان میں پلوامہ حملے کے بعد ابتدائی ردعمل، حملے سے پاکستان کے تعلق کو مسترد کرنے پر مبنی نیز توجہ کا رخ کشمیر کی بگڑتی صورتحال کی جانب موڑنے پر تھا۔ آن لائن پلیٹ فارمز پر خودکش حملہ آور کو ”حریت پسند“ کے طور پر سراہا گیا اور خبروں میں سرکاری حکام کی جانب سے یہ بیان شامل کیا گیا کہ پاکستان جیش محمد کیخلاف ”کارروائی کررہا ہے۔“ پاکستانی حکام کی جانب سے جیش محمد کے ملوث ہونے کی تردید کے بعد جلد ہی یہ بیانیہ تبدیل ہوگیا۔ بحران کے ابتدائی دور میں پاکستان میں اگرچہ اس قدرجارحانہ رپورٹنگ نہیں ہوئی جس قدر کہ بھارت میں کی گئی، تاہم پاکستانی نیوز چینلز اور پرنٹ میڈیا کا بیانیہ کم و بیش حکومتی سوچ کے مطابق تھا۔ اکثریت نے پاکستان کو حملے سے لاتعلق رکھنے کی کوشش کی اور حتیٰ کہ بھارت پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ خودکش حملے کو استعمال میں لاتے ہوئے پاکستان پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا رہا ہے۔
پلوامہ حملے کے دو ہفتے بعد، بھارت نے لائن آف کنٹرول کے پار بالاکوٹ، پاکستان میں جیش محمد کے کیمپس پر فضائی حملے کے ذریعے ردعمل دیا۔ اس وقت جہاں سرکاری موقف یہ تھا کہ حملے ”غیر فوجی اور پیشگی حفاظتی نقطہ نگاہ سے“ کیئے گئے تاکہ دہشت گردوں کو مزید حملوں سے باز رکھا جاسکے، وہیں بھارتی میڈیا اپنی فتح اور سزا دینے پر کھلے عام جشن منا رہا تھا۔ حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے حوالے سے حکومتی دعووں کے موضوع پر معمولی بحث کی گئی جس میں نامعلوم حکومتی ذرائع سے ملنے والی معلومات کو بطور حقائق بیان کیا گیا۔
بھارت میں موجود اپنے ہم پیشہ ساتھیوں، جنہوں نے فضائی حملوں کو کامیابی کے طور پر پیش کیا، ان کے برعکس پاکستانی صحافیوں نے ہلاکت کے بھارتی دعوؤں کی تردید کی اور اسے ایسے ناکام حملے کے طور پر پیش کیا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ حتیٰ کہ بعض نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ جیش محمد اس علاقے میں موجود نہیں ہے جہاں فضائی حملے کئے گئے۔ بھارت کی طرح یہاں بھی تنقیدی تجزیوں اور حقائق کی بنیاد پر رپورٹنگ کا فقدان تھا۔ اس کے بجائے پاکستانی میڈیا نے اس حکومتی موقفف کو بارہا نمایاں کیا جس کے مطابق ”وہ اپنی مرضی کے وقت اور جگہ“ پر ردعمل دے گی، اور یوں اشتعال انگیزی کے امکانات میں معاونت کی۔
بھارتی فضائی حملے کے ایک دن بعد پاکستان ایئر فورس نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے بھارت میں فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کیلئے طیارے روانہ کئے۔ لڑاکا طیاروں کے مابین شدید لڑائی کے دوران پاکستان کی جانب سے ایک بھارتی طیارہ مار گرایا گیا اور اس کا پائلٹ ونگ کمانڈر ابھیندن ورتھامن گرفتار کیا گیا۔ یہ بحران کیلئے اہم موڑ ثابت ہوا۔
پاکستان کی جانب سے گرفتارشدہ بھارتی پائلٹ کی رہائی کے بعد بھارتی میڈیا کوریج کا لہجہ تبدیل ہوگیا۔ ابتدائی حملوں کے بعد سے جاری بدلہ لینے کے مطالبے کی جگہ اب فتح اور دشمن کی جانب سے اکسائے جانے تک استحکام قائم رکھنے جیسے بیانات نے لے لی۔ پائلٹ کی رہائی کے بعد میڈیا کوریج کا مرکز بھارتی فوجی حکام کے وہ بیانات ہوگئے جن میں ”خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے“ نیز ”پاکستان کی جانب سے اشتعال انگیزی کرنے تک مزید کوئی مسلح کاروائی نہ کرنے“ کا اشارہ تھا۔ بھارت میں میڈیا نے بالاکوٹ فضائی حملے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ذریعے خوب تعریفیں بٹوریں۔ مزید براں، دشمن کے علاقے میں جارحانہ فضائی طاقت کے مظاہرے کو حکومت کے پختہ عزم کے اظہار کے طور پر سراہا گیا۔ مودی کے تشخص کو پذیرائی ملی جسے حکمران جماعت نے انتخابی مہم کے دوران بہت عمدگی سے استعمال کیا۔
اسی طرح، پاکستان میں میڈیا گفتگو کا محور یہ رہا کہ کس طرح پاکستان نے بھارت کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی کا فوری ردعمل دیا اور حساب چکتا کیا۔ پاکستان کی جانب سے فضائی نگرانی میں ناکامی کا تذکرہ سرسری سا رہا اور توجہ کا مرکز پاکستان کے ہاتھوں بھارتی طیارے کا گرایا جانا رہا۔ پی اے ایف کو پاکستان کے نجات دہندہ قرار دیا گیا۔ پاکستانی میڈیا کے تجزیہ کاروں نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے روایتی و جوہری ڈیٹرنس کی قلعی کھول دینے کے دعووں کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ فضائی حملے کا جواب دیا جاچکا تھا۔ پاکستانی میڈیا اور حکومت کی گفتگو کا مجموعی موضوع بھارتی ”جارحیت“ کے سامنے پاکستان کی ردعمل میں مہارت تھی۔ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان ایک ”سنجیدہ رہنما“ کے طور پر پیش کئے گئے اور ان کا تشخص انتہائی تیزی سے بہتر ہوا۔
یوں، آزاد تجزیئے اور تحقیق کے بجائے دونوں ممالک کے مرکزی میڈیا بڑی حد تک حکومتی اشاروں پر انحصار کرتے رہے۔
میڈیا کے رویئے کی وضاحت: قوم پرست حکومتوں کے زیر نگرانی کام میں درپیش خطرات
پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں ماضی میں ہوئے تجربات کے سبب کوئی بھی بحران بالعموم قوم پرست جذبات کو ابھارنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ بعدازاں میڈیا بھی بحران کے بارے میں خبر دینے کیلئے اسی زاویئے کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ تاہم پاکستانی و بھارتی میڈیا کا یہ قوم پرست لہجہ مودی اور خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے زیادہ تند و نمایاں ہوچکا ہے۔ اس کی کسی حد تک یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ مودی اور خان کی حکومتوں نے ایک ایسا ماحول تخلیق کیا ہے جو میڈیا کے استحصال کو ممکن بناتا ہے۔ دونوں حکومتوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف لہجہ اختیار کرنے والے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان اگرچہ میڈیا سینسرشپ اور بالخصوص ملٹری، مذہب اور عدلیہ سے متعلقہ امور پر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی تاریخ رکھتا ہے، تاہم خان کی حکومت میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اسی طرح سویلین حکومت کی جانب سے نئے میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اس سلسلے کے سفاکانہ ترین واقعات میں ملک کے متعدد حصوں میں ڈان اخبار کی عارضی معطلی اور جیو ٹی وی کی نشریات پر پابندی ہے۔ اسی طرح بھارت میں ۲۰۱۴ میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صحافیوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات، ایڈیٹرز کو ڈرانے دھمکانے نیز حکومتی اشاروں پر چلنے والے نیوز چینلز کو سہارا دینے کے باعث آزادی ء صحافت گھٹن کا شکار ہے۔
اپنے انجام سے خوفزدہ اور پابندیوں کا نشانہ بننے کے خطرے کے پیش نظر صحافی اپنے خیالات خود ہی سنسر کرنے یا پھر حکومتی اقدامات پر تنقید کو نرم رکھنے مجبور ہیں۔ یہ حالات یہ سمجھنے کیلئے کافی ہیں کہ کیونکر مرکزی میڈیا اور بالخصوص ٹیلی ویژن چینلز کی (ماسوائے کچھ کے) اکثریت نے پلوامہ/ بالاکوٹ بحران کے دوران اپنی حکومت کے اقدامات پر خوشی کا اظہار کیا، سیاسی رہنماؤں کی حمایت کیوں کی اور فریق مخالف کی ساکھ کو کیوں کچلا۔
بحران کے نتائج میں میڈیا کا کردار اور مستقبل میں اس کے مضمرات
مندرجہ بالا تجزیہ یہ تجویز کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت، دونوں جگہ وجود میں آنے والا بیانیہ دوران بحران اپنی اپنی ریاستوں کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ترتیب پایا۔ ابتداء میں جب بھارتی قیادت پلوامہ حملے کے بعد جوابی کارروائی کیلئے تیاری کررہی تھی تو بھارتی میڈیا نے رائے عامہ کو ڈھالنے کے ذریعے اشتعال انگیزی کیلئے بنیاد رکھنے کا کام کیا۔ پاکستان میں میڈیا نے حکومتی بیانیئے کی تائید کرتے ہوئے اس رائے کو مسترد کیا کہ حملے میں پاکستان کا کوئی کردار تھا اور یوں اپنے دفاع میں اشتعال انگیزی کی توجیح پیش کی۔
بالاکوٹ میں فضائی حملے کے ذریعے ڈیٹرنس بحالی کے بھارتی دعوے اور پاکستان کی جانب سے اسی سے مماثل ردعمل پر اصرار کے بعد، ایسے اشارے ملے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ دونوں فریق جنگ کے دہانے سے واپس پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں اور لڑائی کو پھر کبھی کیلئے اٹھا رکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا، دونوں ممالک کے میڈیا نے اس صورتحال کو فتح کے طور پر پیش کرنے اور لڑائی کو مزید بڑھاوا نہ دینے کے خیال کی تشہیر میں اپنے اپنے لیڈران کی مدد کی۔اس موقع پر میڈیا نہ تو مزید اشتعال انگیزی کیلئے متحد ہوا اور نہ ہی اس نے تنازعے کو آخری حد تک لے جانے کیلئے دباؤ ڈالا۔ اس کے برعکس میڈیا نے بھارتی گرفتار شدہ پائلٹ کی واپسی کے ذریعے سے بحران کے حل کی حمایت کی اور اسطرح اشتعال انگیزی میں کمی میں اپنا کردار ادا کیا۔
مستقبل میں کسی بحران کی صورت میں اس کے یہ مضمرات ہوسکتے ہیں کہ یہ اولاً جنوبی ایشیائی رہنماؤں کو اشتعال انگیزی کیلئے راہ کے چناؤ کیلئے اضافی دباؤ ڈالے تاکہ اس قسم کی اشتعال انگیزی کی عادی قوم کے جذبات کو مطمئن کیا جاسکے، جو کہ عدم اشتعال انگیزی پر مبنی اقدام کو اپنے ملک کی ناکامی بھی تصور کرسکتی ہے۔ مزید براں پاکستان اور بھارت دونوں جگہ میڈیا سے خبروں کی ترسیل پر مسلسل بڑھتے ہوئے حکومتی کنٹرول کو مدنظر رکھتے ہوئے امکان یہ ہے کہ میڈیا اشتعال انگیزی کو فروغ دینے یا ختم کرنے والی قوت کا کردار ادا کرنے میں حکومتی اشاروں پر چلے گا۔ بحران کے دوران میڈیا نے رائے عامہ کی تشکیل، قوم پرستی پر مبنی جذبات کو ابھارنے اور عوام کو ان کی فتح کا یقین دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چونکہ یہ نظریات شہریوں کے ذہن میں راسخ ہوچکے ہیں، ایسے میں انکی جانب سے مستقبل کے بحران کی صورت میں بدلہ لینے اور حساب چکتا کرنے کیلئے اشتعال انگیزی کا مطالبہ کرنے کا امکان موجود ہے۔ اسی طرح سے چونکہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے بحران کی وجہ سے سیاسی فوائد بٹورے ہیں، لہذا مستقبل کے بحران کی صورت میں وہ اشتعال انگیزی بڑھانے کو ترجیح دے سکتے ہیں خاص کرایسے وقت میں کہ جب یہ انتخابی عمل کے قریب تر واقع ہو۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: DiplomatTesterMan via Wikimedia Commons
Image 2: Prakash Singh/AFP via Getty Images