کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے رہنماؤں نے “جزیرہ نما کوریا کو مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے اپنے عزم کو بارہا دوہرایا ہے،” اس ضمن میں پہلی مرتبہ ہیروشیما سے بیان جاری کیا گیا تھا، پھر ۲۰۲۳ میں شنگریلا ڈائیلاگ میں یہ عزم دوہرایا گیا جہاں علاقائی سلامتی مفکرین نے بڑھتے ہوئے جوہری خطرات کے خلاف “حفاظتی باڑ” باندھنے کی ضرورت پر گفتگو کی۔ کواڈ کے وزرائے خارجہ کی بنیادی وجۂ تشویش فی الوقت جاری روس یوکرین تنازعے میں جوہری استعمال پر ہے جسے وہ “ناقابلِ قبول” قرار دیتے ہیں نیز شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی اشتعال انگیز ذخیرہ اندوزی اور بیلسٹک میزائل کے لانچز کی ضمن میں ہے۔
آزاد، رکاوٹوں سے پاک اور ہمہ گیریت کے حامل انڈوپیسیفک پر مبنی اپنی بصیرت کے حصول کے لیے، کواڈ کو جوہری خطرات میں تخفیف کے لیے زیادہ شدت کے ساتھ، جامع اور منظم کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ کام متعدد وجوہات کی بناء پر فوری نوعیت کا ہے۔ اولاً یہ کہ خطے میں آٹھ جوہری طور پر مسلح ممالک اپنے قومی مفادات کے لیے نہ تھمنے والی مقابلہ آرائی میں مصروف ہیں۔ دوئم، ابھرتی ہوئی پیچیدہ جوہری اور میزائل ٹیکنالوجیز روایتی اور جوہری میدانوں کے درمیان تفریق کو دھندلا رہی ہیں۔ سوئم، قدرتی آفات اور جوہری توانائی کے پلانٹس و دیگر تجرباتی تنصیبات پر سائبر حملے بڑھتے ہوئے جوہری خطرات رکھتے ہیں۔ انڈوپیسفک میں شدت پکڑتی ہتھیاروں کی دوڑ کے سبب منڈلاتے جوہری خطرات پر گفتگو کے لیے موزوں فورمز کی تشویشناک غیرموجودگی میں، کواڈ کو جوہری خطرات میں تخفیف کے لیے کام کرنے اور معاونت کے لیے آگے آنا ہو گا۔
ایک جوہری دہانہ
انڈوپیسیفک ایک ایسا شدید خطرے کا حامل جوہری زون ہے کہ جہاں جوہری صلاحیتوں کی حامل ریاستوں کے مابین جھڑپوں یا جوہری قوت پر توجہ مرکوز رکھنے والوں کے مابین اتحاد کی تقریباً ہر ہفتے رپورٹس سامنے آتی ہیں۔ ۲۰۲۳ میں اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں موجود ۱۲,۵۰۰ جوہری ہتھیاروں میں سے، تقریباً ۱۲,۴۰۰ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا کے قبضے میں ہیں۔ یہ تمام ممالک انڈوپیسیفک خطے میں اپنا کردار پر زور دیتے ہیں۔
خطے کے آٹھ جوہری طور پر مسلح ریاستوں کے مابین تعلقات زیادہ تر مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ ممالک یا تو جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے اعتماد سازی کے سابقہ اقدامات (این سی بی ایمز) کو ترک کر رہے ہیں یا پھر انہوں نے کبھی بھی انہیں نافذ ہی نہیں کیا تھا۔ مثال کے طور پر، امریکہ اور روس جو تقریباً عالمی سطح پر جوہری ذخیرے کے ۸۹ فیصد کے مالک ہیں، یوکرین بحران کی وجہ سے فی الوقت ہائی آپریشنل الرٹ کی حالت میں ہیں۔ جوہری طاقت کو جدید بنانے میں چین کی مدد کرنے اور اپنے پلوٹونیئم کے جوہری ذخیرے میں اضافے کے ذریعے، روس انتہائی ضروری عدم پھیلاؤ کی روایت کو پامال کرتا رہا ہے۔ روس اپنے جنگجویانہ جوہری بیانیے کے ساتھ جاپان پر بھی جوہری دباؤ بڑھا رہا ہے۔ جبکہ جہاں تک چین اور بھارت اور اس کے ساتھ ہی ساتھ بھارت اور پاکستان کا تعلق ہے تو ان کے درمیان بھی بمشکل ہی کوئی این سی بی ایمز موجود ہیں۔
عالمی طاقت کی مساوات میں تبدیلی کی جستجو میں مبتلا چین کی جانب سے پیونگ یانگ اور اسلام آباد کی جوہری صلاحیتوں کوفعال کرنے اور ان کی مدد کرنے کے سبب اس سے خائف کواڈ کے لیے اس کے جوہری ہتھیاروں میں یکلخت تیزی ایک کلیدی وجہ تشویش ہے۔ یہ ابھرتی ہوئی ماسکو-بیجنگ- پیونگ یانگ-اسلام آباد شراکت داریاں خطے کے لیے ایک ایسا جوہری خطرہ رکھتی ہیں کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، نیز یہ خطرات میں تخفیف کے لیے ایک مشترکہ کوششوں کی متقاضی ہے۔ دریں اثناء جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر امریکی اتحادیوں کے خلاف چین اور شمالی کوریا کے جارحانہ پوسچر، جوہری ڈٹرنس کے حوالے سے واشنگٹن کے وسیع تر عزائم کو پیچیدہ کر دیتے ہیں۔ تاہم باہم مربوط اقدامات کی کمی رہی ہے۔ آکس سلامتی شراکت داری اگرچہ چین کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے، تاہم فرانس خطے میں اپنی جوہری طاقت کے ذریعے زیادہ شدت کے ساتھ دباؤ ڈال سکتا ہے۔
مزید براں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا پھیلاؤ، خطرے کو دوچند کرنے والا عنصر ہے۔ دوہرے استعمال کے قابل ٹیکنالوجیز میں نمایاں بڑھوتری سے آبنائے تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، جزیرہ نما کوریا اور بحر ہند جیسے حساس مقامات میں جوہری خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ۲۰۳۰ کی دہائی کے دوران انڈوپیسیفک کا خطہ بڑے پیمانے پر میزائل کو بھی اکٹھا ہوتے دیکھے گا۔ امریکہ کے ایک قریبی اتحادی بھارت کی جانب سے براہموس میزائل کی فلپائن کو برآمد آسیان کے اکھاڑے میں جوہری دوڑ میں تیزی لا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں مسلح تنازعوں کی ابتدائی سطح پر ہی میزائل ایک بنیادی کردار ادا کریں گے۔ مزید برآں زیر سمندر جوہری ڈٹرنس حاصل کرنے کی جستجو بھی جوہری اشتعال انگیزی کو ہوا دیتی ہے جو کہ حادثات کے امکانات تک لے جاتی ہے۔
اس جوہری اضافے کے ساتھ ہی ساتھ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جیسا کہ فلپائنز، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ویتنام کسی باقاعدہ تجارتی روک تھام کی حکمت عملی (ایس ٹی سیز) کے لائحہ عمل کی غیرموجودگی میں ہی چھوٹے حجم کے جوہری ری ایکٹرز، (ایس ایم آرز)، فلوٹنگ جوہری توانائی کے پلانٹس (ایف این پی پیز) اور دوہرے استعمال کی عسکری ٹیکنالوجیز کے متقاضی ہیں۔ ایک مطالعہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ سلامتی کی موزوں روایات اور خطرات میں تخفیف کے اقدامات کا تصور و نفاذ کیے بغیر یہ رجحانات عدم پھیلاؤ کے لیے غیرمعمولی آزمائشوں اور جوہری خطرات کا باعث ہو سکتے ہیں۔ جوہری خطرے میں تخفیف کے ایک نئے ایجنڈے کو ترجیح دیے بغیر روایتی- جوہری میدانوں کے درمیان دھندلاتی تفریق سے نہیں نمٹا جا سکتا۔
زوال پذیر سوچ بچار
کواڈ ابھرتے ہوئے جوہری خطرات کا تجزیہ کرنے اور ان سے گریز کے لیے میکنزم سے عاری ہے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں، سیاسی مقابلے بازیوں کی وجہ سے کثیرالفریقی ادارہ جات جوہری خطرات میں تخفیف کی فضا پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے مسلح ریاستیں، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) اور جوہری ہتھیاروں پر ممانعت (ٹی پی این ڈبلیو) معاہدے کے حوالے سے فیصلہ کن نقطہ نگاہ سے محرومی خطے میں عدم پھیلاؤ اور ترک اسلحہ کی روایات کو کمزور کر رہے ہیں۔کثیرالفریقی لائحہ عمل میں تقسیم اور متعلقہ جوہری ایجنڈوں کی غیرموجودگی میں، بین الاقوامی اور علاقائی فورمز ان آزمائشوں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملیوں سے محروم ہیں۔
انڈوپیسفک میں قابلِ قیادت ہونے کے باوجود بھی کواڈ رہنما جوہری سلامتی پر اس خوف کے سبب کھل کر بات کرنے سے گریزاں ہیں کہ یہ چین کو ، جو کواڈ پر ایک چین مخالف بلاک ہونے کا الزام عائد کر چکا ہے، براہ راست برہم کرنے کے ذریعے کواڈ اور ماسکو-بیجنگ-پیونگ یانگ-اسلام آباد شراکت داری کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھائے گا۔ تاہم کواڈ کی یہ خوشامدی پالیسی چین کو محض اپنی جوہری قابلیتوں اور اتحادوں کو مزید ٹھوس بنانے کے لیے محرک دیتی ہے اور اس تعلق سے پھوٹنے والے جوہری خطرات کو روکنے میں ناکام رہتی ہے۔ جوہری خطرات میں تخفیف پر سوچ بچار اگرچہ مشکل میں ڈالنے والا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن یہ کواڈ کی موجودہ غیر فعالیت کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج کا باعث ہو گا۔
کواڈ سے توقعات
جوہری خطرات پھیل رہے ہیں، ان میں تنوع ہے اور یہ غیر متوقع ہیں – اس کے باوجود بھی ان کا نظم کیا جا سکتا ہے اور ایسے مذاکرات کے ذریعے ان میں تخفیف ممکن ہے جو ایک ہمہ گیر بصیرت اور نظام کے تحت منصوبہ پیش کرتے ہوں۔ اس سلسلے میں ایک قدم ایک انڈو پیسیفک جوہری تنازعے کے نگرانوں پر مشتمل ایک کنسورشیئم کی تخلیق ہو سکتا ہے تاکہ باارادہ اور اتفاقیہ جھڑپوں یا حادثات سے ابھرنے والے بلاارادہ جوہری خطرات کو ریکارڈ کیا جا سکے۔ رپورٹ کیے جانے والے واقعات کے تجزیے اور خطے میں جوہری حملوں کے ممکنہ نشانوں کا پتہ چلانے کے لیے کواڈ سینٹر برائے جوہری خطرے کا تجزیہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔
یہ مرکز مصنوعی خطرے اور جوہری حملے کے سر پر منڈلانے سے وابستہ خطرات کا بھی تجزیہ کر سکتا ہے۔ یہ حکومتوں کو موزوں جوہری تحفظ اور سلامتی کے پروٹوکولز نافذ کرنے اور پالیسی سازوں کو ایسے سوچے سمجھے فیصلے کرنے کے لیے بااختیار کرے گا کہ جو کمزور جوہری کمانڈ کنٹرول و کمیونیکیشن (این سی ۳) سسٹمز اور فرسودہ ڈاکٹرائنز میں ترمیم کر سکیں گے۔
کواڈ جوہری خطرات پر اہم تجزیے اور ان خطرات کے انتظام کے لیے وسائل کی فراہمی کے ذریعے سے آسیان علاقائی فورم اور مشرقی ایشیائی اجلاس کو بااختیار بنا سکتا ہے تاکہ جوہری خطرات میں تخفیف کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔ کواڈ تجارت پر تزویراتی قابو رکھنے کے لائحہ عمل کی تشکیل میں بھی آسیان ممالک کی مدد کر سکتا ہے تاکہ جوہری توانائی کے پلانٹس کا تحفظ ہو سکے اور میزائل کی دوڑ کو روکا جا سکے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ کواڈ شراکت دار جوہری خطے میں تخفیف کی ایک ممکنہ حکمت عملی کو تیار کرنے کے ذریعے سے، حال ہی میں پیش کیے گئے جی ۲۰ کے دہلی اعلامیے میں “جوہری سلامتی کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو تقویت” دینے کے عزم کو سہارا دے سکتے ہیں۔
یہ کوششیں آنے والے وقتوں میں کواڈ اور اس کے اتحادیوں کو چینی قیادت میں قائم شراکت داریوں کی جوہری قابلیتوں، جوہری حادثات کے امکانات اور این سی بی ایمز کے ممکنہ مواقع کا اندازہ لگانے میں کارآمد ثابت ہوں گی۔ آخر میں یہ کہ ایک ایسی ہمہ گیر بصیرت دیگر ریاستوں کو بھی جوہری خطرات میں تخفیف کے لیے ملتے جلتے اقدامات کی پیروی کے لیے ترغیب دلا سکتی ہے تاکہ اعتماد اور جوہری ذمہ داری پر مبنی روایات قائم کی جا سکیں جو ایک مفت، رکاوٹوں سے پاک، ہمہ گیریت کے حامل اور قانون کے پابند انڈوپیسفک کا باعث ہوں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Quad Meeting in 2022 via Wikimedia Commons.
Image 2: Agni-II missile at India’s Republic Day Parade in 2004 via Wikimedia Commons.