جنوبی ایشیا کی (معاشی حجم کے اعتبار سے) چار سب سے بڑی ریاستیں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا، یوکرین پر روسی حملے کے خلاف اقوام متحدہ کی مذمتی قرار دار میں غیر حاضر رہیں۔ جنوبی ایشیا جیسی نوعیت کی ووٹنگ اور مستقل مزاجی دنیا کے کسی دوسرے حصے سے دیکھنے کو نہیں ملی۔
تاریخی لحاظ سے، اقوام متحدہ کی ووٹنگ تقسیم پیدا کرنے کے بجائے بین الاقوامی برادری میں پائی جانے والی تقسیم کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم اس ماہ روسی جارحیت اور یوکرین پر حملے پر کی گئی ووٹنگ مغرب اور جنوبی ایشیائی ریاستوں کے درمیان وجہ تنازعہ بن گئی۔ صدر بائیڈن نے ووٹنگ سے قبل خبردار کیا تھا کہ روس کی ”حمایت“ کرنے والے ممالک توقع کر سکتے ہیں کہ وہ تنظیم کی جانب سے بین الاقوامی منظرنامے پر بدنامی کا شکار ہو جائیں گے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کو یوکرین میں جنگ کے جواب میں معاشی، سفارتی اور جغرافیائی سیاسی ردعمل تیار کرنے میں بڑی آزمائشوں کا سامنا ہوا ہے؛ بڑھتی ہوئی مہنگائی، شہریوں کی واپسی، نیز دو طرفہ و سہہ طرفہ تعلقات سے نمٹنے کا عمل جنوبی ایشیا کے دارالحکومتوں کی کمر توڑ چکا ہے۔ بہرصورت، زیادہ تر جنوبی ایشیائی افراد کے لیے ایک ایسی جنگ پر خارجہ پالیسی مباحثہ جس کے شعلے ہزاروں میل دور یوکرین میں بھڑک رہے ہیں، ایک ایسی جنگ کی حیثیت رکھتی ہے جس کے وہ فریق نہیں ہیں اور جس پر ردعمل تاریخ سے سیکھے گئے اسباق کی بنیاد پر ہونا چاہیئے۔
جنوبی ایشیا نے عظیم طاقتوں کے مقابلے میں گھسیٹے جانے کے سنگین نوعیت کے نتائج بھگتے ہیں۔ دو عالمی جنگیں ہندوستان پر برطانوی راج کے دور عروج (۱۸۵۷-۱۹۴۷) کے دوران لڑی گئیں۔ تقریباً ۱۵۰۰۰۰ ہندوستانی سپاہی ملکہ کی سلطنت کے لیے لڑتے ہوئے یورپی اور مشرقی ایشیائی میدان جنگ میں مارے گئے۔ جنہوں نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا، افسوس ناک طور پر وہ بھی بچ نہ پائے۔ ۱۹۴۳ میں برطانیہ کی جنگی پالیسیوں نے لندن حکومت کو موقع دیا کہ وہ مغربی محاذوں کو فراہمی میں سہارا دینے کے لیے بنگال سے غلے کو ذخیرہ کریں، جس کا نتیجہ برطانیہ کے تخلیق کردہ قحط کی صورت میں آیا جس نے بیس لاکھ سے زائد بنگال کے عوام کی جان لے لی۔ ۱۹۴۷ میں نوآبادیاتی راج کے خاتمے پر ۹۸ فیصد برطانوی ہندوستانی ناخواندہ تھے، جس کے سبب ہندوستانیوں کی اکثریت یہ نہیں جان سکتی تھی کہ وہ بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعے کے نتیجے میں مر رہے تھے۔
نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر بین الاقوامی تعلقات نے عالمی قوانین کے تابع اصولوں جو ایک ریاست کے دوسری ریاست سے روابط میں رہنمائی کریں، ان کی بنیاد پر ایک ادارہ جاتی نظام کے ذریعے سے ماضی سے مکمل کنارہ کشی چاہی۔ نوآبادیاتی نظام کے برعکس، علاقائی اور حقیقی اقتداراعلیٰ کے اصول سب سے مقدم ٹھہرے، نوآبادیات سے علیحدہ ہونے والی اور نئی نئی آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں کے پاس تاثراتی حد تک فائدہ اٹھانے کے لیے بے پناہ مواقع تھے کیونکہ وہ آزادانہ داخلی و خارجی پالیسیوں پر عمل کر سکتی تھیں۔
تاہم سرد جنگ میں بڑی طاقتوں کے مقابلے کے آغاز اور ۲۱ ویں صدی نے نئی نئی آزادی حاصل کرنے والی جنوبی ایشیائی ریاستوں کے لیے ان کے خارجہ تعلقات کے ضمن میں بڑے چیلنجز پیدا کر دیے۔ بڑی قوتیں جو دھونس کے ذریعے دیگر ریاستی مفادات کو تبدیل یا بعض اوقات مسترد کرنا چاہتی تھیں، (ان کی جانب سے جنوبی ایشیاء کے فوجی آمروں اور اکثریتی آمروں کے ہمراہ کام کرنے کی بدولت) پالیسی خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ کے دعوے دھرے دھرے کے رہ گئے۔
عصر حاضر میں بھارت اور پاکستان کی بالترتیب امریکہ اور چین کے ہمراہ وابستگی نے واشنٹگن میں اس تاثر کو تقویت بخشی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی یوکرین کی جنگ میں تازہ ترین غیرحاضری عملی طور پر جانب داری یا مصنوعی غیرجانب داری ظاہر کرتی ہے۔ تاہم یہ امر بھی اسی قدر اہم ہے کہ جنوبی ایشیائی ریاستوں کی جائز جانب داری کو قبول کرنے میں واشنگٹن کی ہچکچاہٹ کا منبع بحران کے وقت میں خود اس کی اپنی خارجہ پالیسی حرکیات کی تاریخ ہے۔
امریکہ نے اہم موقعوں جیسا کہ جنگ کے آغاز پر ”ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف“ جیسی سیاہ و سفید میں منقسم سوچ کے ہمراہ عالمی سطح پر رابطے کیے جو ممالک کے لیے اپنے مسابقتی مفادات کو متوازن کرنے کے لیے بہت معمولی گنجائش باقی رہنے دیتے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران عالمی روابط کو غیر تعمیری تقسیم جیسا کہ ”آزادی“ اور ”کمیونزم“ سے موسوم کرنے سے لے کر دہشت گردی کی جنگ میں ریاستوں اور افراد کی شناخت کو ”اعتدال پسند“ اور ”دہشت گرد“ کے طور پیش کرنے تک، ایسا لگتا ہے کہ امریکہ چین کے ہمراہ ۲۱ صدی میں جاری مقابلے کو بھی عالمی ”کیمپ پالیٹکس“ کی نگاہ سے دیکھنا جاری رکھے گا۔ اگرچہ سیاہ و سفید کی یہ تقسیم داخلی تماش بینوں کے لیے خارجہ پالیسی کی وضاحت کے لیے ضروری ہو سکتی ہے تاہم یہ جنوبی ایشیائی ریاستوں کو درپیش ان پیچیدگیوں کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا دیتی ہے جو انہیں بین الاقوامی تعلقات میں مسابقتی قومی مفادات کو متوازن بنانے میں درپیش ہوتی ہیں۔
غالباً یہی وہ وسیع تر پس منظر تھا کہ جس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے ۲۰ مارچ کو بھارت کی تاریخی لحاظ سے ”آزاد خارجہ پالیسی“ کی مدح سرائی سے دنیا کو حیران کیا تھا کیونکہ یہ ”ان کے اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔“ بیانیے میں یہ وہ تبدیلی ہے جو برسوں سے سننے کو نہیں ملی تھی لیکن جو عصر حاضر میں بڑی طاقتوں کے تنازعے کے دوران عالمی محاذ پر مورچہ سنبھالنے کی ضرورت کی علامت تھی۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے کہ جس کی وجہ سے بھارت جو کہ امریکی مفادات کے ساتھ سب سے زیادہ براہ راست وابستگی رکھنے والا جنوبی ایشیائی ملک ہے، اس نے ایک ایسے وقت میں امریکی سفارت، عسکری اور معاشی درخواستوں کے ساتھ مکمل وابستگی سے گریز کیا ہے کہ جب امریکہ کو اس کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
جنوبی ایشیائی ریاستیں خود کو بڑی طاقتوں کی لڑائی میں گھیسٹے جانے کے ناگزیر عمل کا فہم رکھتی ہیں۔ اس برس جہاں یوکرین نے امریکہ روس مقابلے کو ایک بار پھر بھڑکا دیا ہے، وہیں دنیا بھر کے پالیسی ساز حلقے اس صدی کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان زیادہ شدید مقابلے کے لیے تیاری پکڑ رہے ہیں۔ ایسے میں جنوبی ایشیائی ممالک، امریکہ اور چین کے زیر غلبہ شدت پکڑتی تقسیم کی حامل دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کے لیے اپنے لیے راہ عمل چنتے ہوئے اپنی نوآبادیاتی تاریخ، آزادی کے بعد کی تاریخ اور موجودہ یوکرین کی جنگ سے حاصل ہونے والے اسباق کو ذہن نشین رکھنے کی کوشش کریں گے۔
جنوبی ایشیائی ریاستوں کے غیر حاضر رہنے کا سلسلہ اس صدی کے دوران اسی سنجیدگی سے جاری رہے گا کیونکہ جنوبی اشیاء کسی بھی عالمی قوت کو تنہا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف تو عالمی قوتیں بلا کسی روک ٹوک اور جوابی کارروائی کے خوف سے آزاد ہو کے کمزور جنوبی ایشیائی ریاستوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب، اس خطے کی جغرافیائی اعتبار سے چین سے قربت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے جنوبی ایشیائی ریاستیں چھٹکارہ نہیں پا سکتیں اور جسے واشنگٹن اور دیگر دارالحکومت نظرانداز یا رد نہیں کر سکتے ہیں۔
بڑی قوتوں کے مابین تنازعے میں بین الاقوامی تعلقات میں جنوبی ایشیا کی کامیابی کا دارومدار اس امر پر ہو گا کہ وہ سفارت کاری کے ذریعے کیسے سیاہ و سفید جیسے اس محدود پیرائے کا حصہ بننے کو نظر انداز کرتا ہے کہ جس کے ذریعے سے بعض بڑی قوتیں بین الاقوامی تعلقات میں اتحاد، غیر جانب داری یا حمایت جیسے عوامل کو پیش کرتی ہیں۔ بعض اوقات، مخصوص پس منظر جیسا کہ یوکرین کی صورتحال میں جنوبی ایشیا کی غیر حاضری کی اصل وجوہات کو سمجھنا زیادہ کارآمد ہو سکتا ہے: ذاتی مفاد میں غیر حاضری، جو مسابقتی قومی مفادات کو متوازن بنانے کے لیے ضروری ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image: National Archives Catalog