جولائی ۲۰۱۹ میں پاکستان نے اپنے دوہرے (کرنٹ اکائونٹ اور مالیاتی) خسارے کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے مائیکرو اکنامک ایڈجسمنٹس کا آغاز کیا تھا۔ یہ فیصلہ آئی ایم ایف کے تین برس کی مدت کے حامل ۶ بلین ڈالر مالیتی بیل آؤٹ پیکج کے تحت کیا گیا تھا۔ گزشتہ برس کے دوران، آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج سے جڑی کڑی شرائط نے پیداواری شعبے کے سکڑاؤ، بیروزگاری میں اضافے اور مہنگائی کی شرح کے دوہرے اعداد تک جا پہنچنے میں کردار ادا کیا ہے۔ ادھر کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے کمزور معیشت کی بحالی کے امکانات کو مزید موخر کردیا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں شعبہ صحت میں موجود سقم بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ آزمائش کی اس گھڑی میں بجائے صحت کے شعبے کو ترجیح دینے اور معاشی امداد مہیا کرنے کے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے حالیہ جاری کردہ بجٹ میں محصولات کے حوالے سے غیر معمولی حد تک بلند اہداف طے کئے گئے ہیں اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو پورا کرنے کیلئے حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی گئی ہے جس سے پاکستانیوں کی اکثریت پر موجود معاشی دباؤ میں بہتری کا بہت کم امکان ہے۔
آئی ایم ایف بیل آؤٹ کے معاشی اثرات
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اٹھائے گئے سخت معاشی اقدامات جیسا کہ بھاری ٹیکسوں کا نفاذ، روپے کی قدر میں گراوٹ، اور حکومتی اخراجات میں کمی سے پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ خسارے اورمالی خسارے میں اگرچہ کمی واقع ہوئی ہے تاہم اسکی بھاری قیمت معاشی پیداوار میں کمی کی صورت میں چکانا پڑی ہے۔ جولائی ۲۰۱۹ سے مارچ ۲۰۲۰ کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارا ۷۳ فیصد کمی کے ساتھ ۲.۸ بلین ڈالر پر آگیا تھا تاہم اس کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں شدید گراوٹ تھی جس کی وجہ سے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ اس کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں ۳۱ فیصد کمی واقع ہوئی۔ تاہم جیسا کہ توقع کی جارہی تھی، کووڈ ۱۹ کا نشانہ بننے سے قبل ہی سال ۲۰۲۰ کے لئے مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) ۲.۴ فیصد رہنے کا اندازہ لگایا گیا۔ فروری ۲۰۲۰ کے دوران پاکستان کی برآمدات میں اگرچہ پچھلے سال کے مقابلے میں ۳.۶ فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا تاہم کووڈ ۱۹ کے بعد اس میں تیزی سے کمی آگئی۔ جولائی ۲۰۱۹ سے مارچ ۲۰۲۰ کے دوران اگرچہ مجموعی داخلی پیداوار کے مقابلے میں مالیاتی خسارا ۵ فیصد سے گر کے ۳.۸ فیصد رہ گیا تاہم حکومت سال ۲۰۲۰ کے لئے وصولیوں کے ہدف کو پانے میں ناکام رہی ہے اور سرکاری قرضے مجموعی داخلی پیدوار کا ۸۸ فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف بیل آؤٹ منصوبے کے تحت اپنائی گئی پالیسیاں جیسا کہ شرح سود میں اضافہ، ٹیکسوں میں اضافہ، اور روپے کی قدر میں کمی کے کاروباری حلقوں اور عوام پر بھی نمایاں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق مالیاتی خسارے میں کمی کیلئے وصولیوں کیلئے حکومت نے ٹیکسوں کی تعداد اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس کا نتیجہ افراط زر میں اضافے کی صورت میں ہوا۔ جنوری میں، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے افراط زر میں کمی کی امید کرتے ہوئے شرح سود کو ۱۳.۲۵ فیصد تک بڑھا دیا تاہم اس کے باعث سرمایہ کاروں کیلئے قرضے کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ بڑی سطح کے صنعتی سیکٹر خاص کر ٹیکسٹائل، پٹرولیم اور آٹوموبائل مینوفیکچرنگ پیداواری لاگت میں اضافے، شرح سود اور ٹیکسوں سے شدید متاثر ہوئے اور یوں جولائی ۲۰۱۹ سے مارچ ۲۰۲۰ کے دوران ان صنعتی شعبوں میں ۵.۴ فیصد تک کمی آئی۔ جنوری ۲۰۲۰ تک افراط زر کی شرح ۱۴.۶ فیصد تک جاچکی تھی جس کی بنیادی وجہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے جس سے غریب اور مزدور طبقے پر معاشی دباؤ بڑھ گیا۔ جس وقت پاکستان ایک نئے برس میں داخل ہورہا تھا، تب کووڈ ۱۹ نے ان معاشی آزمائشوں کو مزید ابتربنا دیا جن سے یہ پہلے ہی نبرد آزما تھا۔
کووڈ ۱۹ کے بعد پاکستانی معیشت
دنیا بھر کے ممالک میں لاک ڈاؤن کے نفاذ اور عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں کے رک جانے سے پاکستان کی مجموعی داخلی پیداوار میں بھی ۱۸ بلین ڈالر کی کمی آئی اور مالی سال ۲۰۱۹-۲۰۲۰ کیلئے فی کس آمدنی میں ۱۰۰ ڈالر تک کمی آئی۔ وہ شعبہ جات جہاں ۲۰۱۹ کے دوران کچھ مثبت رجحانات دیکھنے کو مل رہے تھے جیسا کہ ترسیلات زر اور برآمدات میں معمولی اضافہ، وہاں بھی کووڈ ۱۹ کے ساتھ ہی واضح زوال آگیا۔ ترسیلات زر یعنی بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں جولائی ۲۰۱۹ سے مئی ۲۰۲۰ کے دوران ۲.۷ فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔ اس کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فاٹف) کے تحت قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کیلئے کوششوں میں اضافہ تھا۔ تاہم مئی ۲۰۲۰ میں ترسیلات زر کے مد میں وصول ہوئی رقم گزشتہ برس مئی میں وصول شدہ رقوم کے مقابلے میں تقریباً ۲۰ فیصد کم تھی۔ دریں اثناء اپریل ۲۰۱۹ کے موازنے میں اپریل ۲۰۲۰ میں پاکستانی برآمدات میں ۵۴.۲ فیصد کمی آئی۔ کووڈ ۱۹ کی بدولت رسدی شعبے میں بھی رکاوٹیں دیکھنے کو ملیں خاص کر ان صنعتوں کو جو بڑے پیمانے پر درآمدی مصنوعات پر انحصار کرتی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پہنچنے والے معاشی دھچکے سے نمٹنے کیلئے شرح سود جسے آئی ایم ایف شرائط کے تحت بڑھایا گیا تھا، اس میں ۵.۲۵ فیصد کمی کی گئی تاہم اس کا نتیجہ ”ہاٹ منی“ یعنی منڈیوں کے مابین ہونے والی وہ چھوٹے پیمانے کی سرمایہ کاری جس کا مقصد سود یا شرح زرمبادلہ کے ذریعے نفع کمانا ہوتا ہے، اس کے اڑان بھر لینے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ محض مارچ میں سرمایہ کاروں نے ۱.۲۸ بلین ڈالر سے زائد کا سرمایہ واپس نکال لیا۔
عوام جو کہ پہلے ہی بیروزگاری کی شرح میں اضافے سے دوچار تھے، کووڈ ۱۹ نے انہیں غربت کی سطح سے نیچے دھکیل دیا جبکہ لاکھوں نوکریاں کھو دینے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ صنعتی شعبہ، جو کہ آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکج کے بعد زیادہ پیداواری لاگت اور ٹیکسز کی وجہ سے بمشکل کھڑا تھا، کووڈ ۱۹ کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے سبب نئی آزمائشوں سے دوچار ہے۔ اگرچہ تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی سے افراط زر کے دباؤ میں کچھ کمی واقع ہوسکتی ہے تاہم پی ٹی آئی حکومت نے بجائے عوام کو کچھ سہولت دینے کے محصولات بڑھانے کیلئے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جو کہ ماضی میں بھی مہنگائی میں اضافے کا موجب بنا تھا۔ تاحال، پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کی آبادی میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے جواب میں ۷.۵ بلین ڈالر کے معاشی سہولتی منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ رواں برس مارچ میں شروع کئے گئے اس منصوبے کے تحت حکومت نے پہلے سے جاری فلاحی منصوبے ”احساس“ کو وسعت دیتے ہوئے کووڈ ۱۹ کے معاشی و معاشرتی اثرات سے نمٹنے کیلئے احساس ایمرجنسی کیش منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس کے تحت نادار گھرانوں کو مالی مدد فراہم کی گئی ہے۔
البتہ پاکستان کے حالیہ بجٹ میں صحت کے شعبے کے لئے محض ۱۵۱ ملین ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں کووڈ ۱۹ کے مریضوں کی تعداد ۲۴۰،۰۰۰ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ۵۰۰۰ سے زائد اموات ہوچکی ہیں؛ پاکستان کے کمزور اور ضرورت سے زیادہ بوجھ تلے دبے صحت کے شعبے کو شدید دباؤ کا سامنا ہے جبکہ ہسپتال پہلے ہی مریضوں سے بھرچکے ہیں اور طبی عملہ ناکافی طبی سہولیات، مثلاً وینٹی لیٹرز اور حفاظتی لباس پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹ (پی پی ای) کے ساتھ صورتحال سے نمٹ رہا ہے۔ کووڈ ۱۹ نے گزشتہ دہائی کے دوران ہونے والی ترقیاتی سرگرمیوں کو بھی واپس پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں حکومت کو محض مختصر مدت کیلئے فوری نقد فراہمی کے منصوبوں کیلئے رقوم مختص کرنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ شعبہ صحت کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور نوکریاں پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ کووڈ ۱۹ کے معاشی و معاشرتی دور رس اثرات سے نمٹا جاسکے۔
پاکستان کا بجٹ اور معاشی مستقبل کا منظرنامہ
آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق مالی سال ۲۰۲۰ کے دوران پاکستان کی معیشت کو ۱.۵ فیصد کے منفی جی ڈی پی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس مالی سال کے دوران ۶.۶۵ ملین افراد کے بیروزگار ہونے جبکہ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے تقریباً ۲۷.۳ ملین افراد میں سے زیادہ تر کے اپنا ذریعہ معاش کھو دینے کے خطرے کے باعث ملک میں بیروزگاری کی شرح بھی تیزی سے بڑھنے کا امکان ہے۔ پاکستانی تارکین وطن بھی بیرون ملک اپنی نوکریاں کھو دینے کی وجہ سے پاکستان واپس لوٹ رہے ہیں جس سے بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہونے اوردستیاب نوکریوں کیلئے مقابلہ مزید سخت ہونے کا امکان ہے۔ وزیراعظم عمران خان اگرچہ قرضوں کی ادائیگی کے مد میں ۲ بلین ڈالر کا ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں تاہم اس امر کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ قرضوں کی ادائیگی میں چھوٹ نہیں ملی ہے بلکہ بعد کی تاریخوں میں ادائیگی کیلئے انہیں موخر کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے حالیہ اعلان کئے گئے بجٹ میں بھی عوام الناس کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے وبا کے دوران بشمول ۲.۱ فیصد جی ڈی پی پیداوار اور محصولات کے مد میں ۳۰.۲۲ بلین ڈالر جیسے ضرورت سے زیادہ خوش کن اہداف طے کئے ہیں۔ محصولات کے لئے طے کیا گیا یہ ہدف گزشتہ برس کی وصولیوں سے ۲۵ فیصد زیادہ ہے۔ یہ ہدف غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ایک طرف تو وبا کی وجہ سے طلب اور معاشی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے تو حکومت بھی دیہاڑی دار طبقے کیلئے ذرائع روزگار پیدا کرنے کیلئے ریئل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے کو ٹیکس چھوٹ دے چکی ہے۔ بجٹ کا ایک نمایاں حصہ (۴۱ فیصد) قرضوں کی ادائیگی کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ معاشی بحران اور وبا کے باوجود دفاعی اخراجات میں ۱۱.۸ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ البتہ وفاقی بجٹ میں کٹوتی کرتے ہوئے اسے ۴.۲ بلین ڈالر سے ۳.۹۴ بلین ڈالر پر لایا گیا ہے جو کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری سے نمٹنے کیلئے کافی نہیں۔ پی ٹی آئی کو اگرچہ غیر ملکی قرضوں اور موجودہ معاشی بحران سمیت متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے تاہم پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی اس وبا کے اثرات سے دوچار پاکستان میں یقیناً ترقیاتی بجٹ میں کمی کے اثرات بھی محسوس کئے جاسکیں گے۔
آنے والے مہینوں میں مالیاتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے کا امکان موجود ہے کیونکہ سست تر معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے برآمدات اور مالیاتی ترسیل میں کمی ہوئی ہے اور کم محصولات اکھٹا ہو رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے گھریلو آمدن میں کمی، افراط زر کی بلند شرح اور مالیاتی ترسیل میں گراوٹ، اوسط طلب میں مزید کمی کا باعث ہوں گے جو کہ معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے ذریعے سے کسادبازاری کے چنگل میں پھنسی معیشت کو باہر نکالنے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب ملک کووڈ ۱۹ کی معاشی قیمت بھگت رہا ہے جبکہ حکومت بھی ورثے میں ملنے والے بیلنس آف پے منٹ بحران کی وجہ سے پہلے سے ہی نمایاں طور پر بے بسی کا شکار ہے، نیا بجٹ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات کو از سرنو ترتیب دینے اور صحت و ترقی کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع گنوا چکی ہے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Shahzeb Younas via Flickr
Image 2: Aamir Qureshi/AFP via Getty Images